انسانی خصوصیات میں دیانت داری کا درجہ سب سے بلند ہے۔ ایک پُرخلوص، سچا اور ذمہ دارانہ طرزِعمل رکھنے والے ایمان دار انسان کی نیت اور اعمال ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی خطّے کے رہنے والوں کی رائے لی جائے تو وہ اس بات پر متفق نظر آئیں گے کہ ایک اچھے لیڈر کا ایمان دار اور قابلِ اعتماد ہونا اس کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ خوبی اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبوب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے القابات میں سے ’الامین‘ کا لقب آج بھی سب سے زیادہ مرکزیت رکھتا ہے۔ اس لقب اور لیڈرشپ کا تعلق محض اتفاق نہیں بلکہ یہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ سمت کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔
بلند کرداری، نیک فطرت اور اعلیٰ اخلاقیات ایک مثالی رہنما کی شخصیت کے لازمی اجزا ہیں۔ اسی لیے مثالی قیادت کا تجزیہ کرتے وقت خیر اور شر کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ دیانت داری کا مفہوم صرف ایمان داری تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہرحال میں سچ کا ساتھ دینا، حالات و واقعات کی درستی کو یقینی بنانا اور ہرمعاملے کی بخوبی تکمیل کرنا بھی شامل ہے۔ انسانی زندگی کے تمام تر معاملات کا دارومدار اس اعتبار پر ہے۔ چنانچہ ایک دیانت دار انسان ہی معاشرے میں سب سے زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نیک سیرت لیڈر کہلانے کا حق دار وہی شخص ہوسکتا ہے، جو دیانت دار اور معتبر ہو، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا پاس دار ہو، اور اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہو کہ اسے دوسروں کے لیے ایک عملی نمونہ بن کر رہنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسا لیڈر ہے جو اپنے فرائض، قرآن اور سنت کی روشنی میں انجام دیتا ہے۔
ایمان داری، دیانت اور اخلاقیات کے بارے میں باتیں کرنا اور دوسروں میں ان خصوصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی پر تبصرے کرنا بہت آسان کام ہے، لیکن کسی انسان کے کردار کی اصل پرکھ کرنا مقصود ہو تو اسے دولت ، شہرت، اقتدار یا وسائل فراہم کرکے دیکھنا چاہیے۔ انسانی معاشروں میں شر پھیلانے میں یہ تمام عوامل مرکزی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ان کی موجودگی انسان کی نیت میں کھوٹ کو جنم دیتی ہے ، اور وہ اپنا اصل مقصد بھول جاتا ہے۔ اس بناپر اس کے کردار میں ایسی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے غیراخلاقی طرزِعمل اور بدعنوانی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ آج کی دُنیا کو درپیش بے شمار سیاسی، کاروباری، مالیاتی اور ذاتی اسیکنڈلز اس اخلاقی بحران کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
Institute of Business Ethicsکے ریکارڈ کے مطابق حالیہ برسوں میں سرکاری اور نجی، دونوں طرح کے اداروں پر لوگوں کے اعتبار میں ۱۰ فی صد کمی آئی ہے۔ عام افراد کی نسبت صاحب ِ اقتدار اور بااختیار افراد کےکردار کی خامیاں معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے نتائج آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی کردار کی اسی کمزوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہےجو بہترین اخلاق اور کردار رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح سنن ترمذی میں درج ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’لوگوں کی ایک بڑی تعداد تقویٰ اور اعلیٰ کردار کی بناپر جنّت کی حق دار ٹھیرے گی‘‘۔ تاہم، اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں کردار کی تربیت محض لفاظی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ عملی اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ صفت کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی تاریخی حقیقت کافی ہے کہ الرسولؐ کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’الامین‘ کے لقب سے معروف تھے اور لوگ ان پر اعتبار کرتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور انھیں کسی مقصد کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے بلند کردار اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کی مدد سے ایک مضبوط ساکھ قائم کرے۔ ایک معتبر اور بااثر انسان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے اور لوگ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کے حصول کے بعد انسان کا سب سے بڑا چیلنج اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا اوران پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے باز رہنا ہے۔ اگر شروع ہی سے ایک اعلیٰ مقصد کے حصول پر توجہ رکھتے ہوئے باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر توجہ رکھی جائے تو مستقبل میں لیڈرشپ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلام محض ’اوامر اور نواہی‘ کے اصولوں کا ایک مجموعہ ہے اور بعض کے خیال میں قانون کا درجہ حکمرانی کے اصولوں اور اخلاقی اقدار سے بڑھ کر ہے لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا ہراصول کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق سے منسلک ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون اور اخلاقیات کا یہ امتزاج ہرسطح پر ہونا چاہیے اور اگر کوئی قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہو، تو اس کا نئے سرے سے جائزہ لے کر اس میں ضروری تبدیلیاں کرنا لازمی ہے۔
کردار سازی کےعمل کی ابتدا نیک نیتی اور خلوصِ دل سے ہوتی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘ (صحیح بخاری)لیکن یہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی نیت پر عمل کیا جائے اور کس کو نظرانداز کردیا جائے؟ سیّد سلیمان ندوی کے مطابق نیت کی اخلاقی درجہ بندی اس طرح سے کی جاسکتی ہے:’’نیت کی اس درجہ بندی میں مالی یا دُنیاوی نفع کا مقام سب سے نیچے رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی خواہش رکھنا یا ان کے حصول کی کوشش کرنا غلط ہے۔ قرآن و سنت میں دُنیاوی خواہشات کی تکمیل نہ صرف حلال قرار دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح ذہنی اور روحانی اطمینان اور جنّت کا حصول ہرمسلمان کی دلی آرزو ہے لیکن رضائے الٰہی کی نیت سے کیے جانے والے اعمال کا درجہ اُن سب سے اُونچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دُنیا کی ہرشے سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے تو اپنے محبوب کی خوشنودی اس کی سب سے بڑی خوشی بن جاتی ہے۔ پھر چاہے کوئی لیڈر ہو یا ایک عام فرد، رضائے الٰہی کی جستجو اس کے کردار میں بہترین اوصاف پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔
اُوپر بیان کی گئی حدیث کا مکمل متن حضرت عمر بن الخطابؓ کے الفاظ میں کچھ یوں ہے: ’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور تم میں سے ہر ایک کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خاطر ہجرت کی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے اور جس نے کسی دُنیاوی فائدے یا کسی عورت کی خاطر ہجرت کی اس کی ہجرت انھی چیزوں کے لیے ہے جن کی خاطر اس نے ہجرت کی‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ حدیث مکہ سے مدینہ ہجرت کے تناظر میں بیان ہوئی۔ جب آپؐ کے علم میں لایا گیا کہ ایک صحابی نے اس لیے ہجرت کی کہ وہ مدینہ میں شادی کے خواہش مند تھے۔ انصار اور مہاجرین کے مابین قائم ہونے والی مواخات میں مہاجرین کو امن و عافیت کے ساتھ ساتھ بہت سی دُنیاوی آسائشات بھی ملیں جس کی بناپر یہ ارشادِ نبویؐ سامنے آیا کہ جس کسی کی ہجرت کا مقصد دُنیاوی فوائد کا حصول تھا، اسے صرف وہی فوائد ملیں گے۔ لیکن جس نے خالص اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور ان کی اطاعت میں ہجرت کی اُسے دُنیاوی آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی میسر ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے لیے سب سے بڑا اجر یہ ہوگا کہ روزِ حشر انھیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت نصیب ہوگی۔
اپنی نیت کو خالص رکھنا بظاہر جتنا آسان معلوم ہوتا ہے درحقیقت اتنا ہی کٹھن ہے۔ متعدد مسلمان دانش وروں نے اپنی تصانیف میں نیت کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ بن ابوکثیر کا کہنا ہے: ’’تمھاری نیت تمھارے عمل سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے پہلے اسے مکمل طور پر سمجھ لو۔ میری نیت میرے لیے سب سے مشکل چیز ثابت ہوئی کیوں کہ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے‘‘۔ اور ابن المبارک کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل اس کے پیچھے چھپی نیت کی وجہ سے عظیم قرار پائے اور ایک عظیم عمل اس کے پیچھے پوشیدہ نیت کی وجہ سے چھوٹا پڑ جائے‘‘۔
اپنے دل پر نیکی کو نقش کر لینا اور اسے ہر بُرائی سے پاک رکھنا نیک نیتی کا پہلا اور لازمی مرحلہ ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے کردار سازی میں معاون نیکیوں کی فہرست کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے:m احسان m صدق اور اخلاص m شرح صدر m عاجزی m عزّتِ نفس اور وقار mارادے کی پختگی / اولوالعزمی m شکرگزاری m عفو اور رحم دلی m صبرm عمدگی اور بلند نظری mاعتدال اور توازن m شجاعت (بہادری) m اطمینانِ قلب m شکرگزاری۔
اس فہرست میں درج نیکیاں ایسی خصوصیات رکھتی ہیں جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائدانہ کردار میں بھی نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا انتخاب ایک ہی ذریعے یعنی قرآن و سنت سے کیا گیا ہے۔ تاہم، اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ فہرست ہرانسان کے لیے ہے چاہے وہ لیڈر ہو یا نہ ہو، وہ بالخصوص لیڈرشپ کے نقطۂ نظر سے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت کی روشنی میں کردار کو کمزور کردینے والی بُرائیوں کی ایک ابتدائی فہرست کچھ اس طرح ہوگی:m تشدد m غرور، تکبر اور نمودو نمائش m تہمت لگانا m بزدلی m غصّے میں آپے سے باہر ہو جانا m فضول خرچی اور اخلاقی پستی m فساد برپا کرنا (پھیلانا) m جھوٹ اور فریب m دھوکا دہی اور غداری m لالچ m جابرانہ سلوک m بدگوئی اور بدزبانی m خود غرضی اور نرگسیت (صرف خود سے محبت کرنا)
فرد کی کردار سازی اور معاشرے کی فلاح کے زاویوں سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اخلاقیات اور شرعی احکام کی ہم آہنگی کیوں ضروری ہے۔ اخلاق فرد کے کردار کو خوب صورت بناتاہے ،جب کہ احکام معاشرتی حقوق و فرائض اور لوگوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اخلاقیات روح ہیں تو قوانین اس کا جسم۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے بغیر بےفائدہ اور بے معنی ہیں۔ ایک مثالی قائد کے لیے لازم ہے کہ وہ نیک سیرت اور باکردار ہو اور اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ اور ان کی فلاح کو یقینی بنائے۔ اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مقاصد الشریعہ یعنی اسلامی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک مختصر جائزہ لینا سودمند رہے گا۔
الجوینی اور الغزالی سے لے کر القرافی اور الشاطبی جیسے فاضل علما نے قرآن وسنت سے اسلامی شریعہ کے اعلیٰ مقاصد اخذ کیے جس کے نتیجے میں یہ پانچ ضروریات سامنے آئیں جن کا پورا ہونا انسان کی بقا کے لیے لازم ہے۔
اس لحاظ سے اسلامی شریعہ کی رُو سے انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور زندگی کی حفاظت کرے، اپنی سوچ اور شعور کو استعمال کرسکے۔ اپنے ذاتی مال یا جائیداد کو محفوظ رکھ سکے اور اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔ انسانی زندگی کی ان پانچوں بنیادی ضروریات سے اگلا درجہ حاجات کا ہے جن کی اہمیت قدرے کم ہے، جیسے تجارت، شادی، ذرائع آمدورفت وغیرہ۔ یہ وہ ضروریات ہیں جو اہم تو ہیں لیکن ان کا پورا نہ ہونا زندگی اور موت کی کش مکش کا سبب نہیں بنتا۔ سب سے کم تر درجہ ’زیبائش‘ کا ہے جن کی موجودگی میں انسان اچھا محسوس کرتاہے جیسے قیمتی لباس، مہنگی کار، یا جدید ترین سمارٹ فون۔بطورِ راہ نما کسی بھی لیڈر کو ان پانچ بنیادی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو حاجات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم، زیبائش کا معاملہ ہرانسان کی ذاتی صوابدید پر ہے۔
دورِحاضر کے کئی محققین نے محسوس کیا کہ اس فہرست میں عزّت، آزادی اور انصاف کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ تینوں چیزیں اسلامی تاریخ کا ایک واضح حصہ رہی ہیں اور شاید اسی لیے انھیں اس مستند فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا، تاہم آج جس طرح ہرسطح پر اور ہرمیدان میں عزّت، آزادی اور انصاف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، ان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں اس فہرست میں شامل کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے۔ لہٰذا ایک نیک سیرت لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اختیارات کےدائرے میں رہتے ہوئے ان آٹھوں ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کرے۔
انفرادی کردار سازی اور معاشرتی فلاح کے لیے ان تمام ضروریات سے واقفیت رکھنا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ نبویؐ طرزِ قیادت کے مطابق دیانت داری سے زندگی بسر کی جاسکے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ دیانت داری کی جیتی جاگتی عملی مثال ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی آپؐ اپنی انتہا درجے کی ایمان داری اور اعلیٰ ترین اخلاق کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ نبوتؐ سے پہلے ہی آپؐ کا لقب ’الامین‘ پڑچکا تھا اور نبوتؐ ملنے کے بعد بھی آپؐ کے بدترین دشمن تک آپؐ کے اس وصف کے معترف تھے اور اپنی قیمتی اشیاء بطور امانت آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ نوعمر ہونے کے باوجود آپؐ اس قدر قابل اور بااعتبار شخص تھے کہ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے اپنے کاروباری معاملات آپؐ کے سپرد کیے اور بعد میں آپؐ کے بہترین اخلاق اور کردار سے متاثر ہوکر آپؐ سے نکاح کیا۔ اس نمایاں ترین صفت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر ایمان داری اور دیانت کی تاکید کی گئی ہے:
قرآن کی طویل ترین آیت سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ میں لین دین کو ہرقسم کے شک سے بالاتر رکھنے کے لیے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مال و دولت انسان کے کردار کے لیے ایک بڑی آزمایش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مکمل پروفیشنلزم یعنی تمام شرائط کو تحریری شکل دینے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نبی پاکؐ نے کچھ اس طرح سے مزید واضح کیا ہے: ’’تم میں سے جس کسی کو بااختیار عہدے پر مقرر کیا جائے اور وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی معمولی کوئی شے چھپائے تو یہ (عوامی فنڈ کا) ناجائز استعمال ہوگا اور روزِ قیامت اس کی جواب دہی ہوگی۔ (صحیح مسلم)
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ منافق کی تین خصوصیات ہیں:جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، اور جب اس پر اعتبار کیا جائے تو فریب دے۔
غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔
فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنوہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً ۱۲ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔
اس غزوہ کے دوران میں آں حضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنت ِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑگیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپ ؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کران کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔
تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصاراللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گناجاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تواس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہرشے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔
دانش مند افراد میں دیانت داری اور شائستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی اَزحد ضروری ہے۔ اگر اچھائی یا نیکی انسان کی اپنی ذات تک محدود رہے تو بدی کی طاقتوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ نیکی کوعام کرنے کے لیے لازمی ہے کہ نیک لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کا فن جانتے ہوں۔ گفتگو کا فن اور دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت موجود نہ ہو تو کوئی بھی تحریک چند احتجاجی مظاہروں یا دوچار جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مصنف ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب ’’لوگوں کو متاثر کرنے اور دوست بنانے کا فن‘‘ میں کچھ منفرد طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔
کارنیگی کا نظریہ ہے کہ لوگوں کواپنی بات سننے پر آمادہ کرنے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ طریقے سے لوگوں میں گھل مل جائے، متاثر کن اعمال اور رویوں سے اپنی ساکھ قائم کرے، ان کے دُکھ سُکھ میں دل سے شریک ہو، اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔ اس طرح کچھ وقت گزرنے پر فریقین میں باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوجائے گا اور لوگ نہ صرف اس کی باتوں کو غور سے سنیں گے بلکہ ان کی اہمیت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران میں ابراہام لنکن نے عوام کو متحد کرنے کے لیے یہی طرزِعمل اپنایا تھا۔ لنکن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’ہم دشمن نہیں دوست ہیں، ہم دشمن ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے جذبات نے ہماری آپس کی محبت کو تھوڑا سرد کردیاہے، لیکن یہ اسے ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ محبت ہماری فطرت کا حسین ترین پہلو ہے۔ جب بھی یادوں کے ساز چھیڑیں گے یہ محبت پھر سے جاگ اُٹھے گی کیوں کہ اسے تو جاگنا ہی ہے۔
حقیقی معنوں میں بااثر لیڈر وہ ہے جس کے مخالفین بھی اس کی عزّت کرتے ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی احترام ان کی مخالفت کو حمایت میں بدل دیتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا گفتگو کے ذریعے معاملات حل کرنے کی بہترین صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ مذاکرات میں مصالحانہ اور لچک دار انداز اختیار کرنے کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ مذاکرات کے دوران میں آپ کو سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان کے قریبی ساتھی ابراہیم رسول نے کچھ اس طرح کی ہے: سمجھوتہ اپنے اصولوں کی قربانی کا نہیں بلکہ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ طریقے اپنانے کا نام ہے۔
خیروشر کی کش مکش انسانی زندگی کا لازمی جز ہے اور ایک لیڈر کے لیے اکثر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے، جب اسے نیکی یا بدی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں عقل مند راہ نما کس طرح کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے دوکیس اسٹڈیز کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
جواب: قانون کے مطابق کم سے کم جتنے مواقع دیئے جانے چاہییں، ان سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ آپ کی دیانت داری ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اگرآگے چل کر انھیں ملازمت سے برخاست کرنا ہی پڑجائے تو انھیں یہ احساس ہو کہ دیگر جگہوں کی نسبت یہاں پر انھیں زیادہ مواقع دیئے گئے۔
جواب :معاملات میں شفافیت برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ آپ اپنے ڈونرز کی رقم رشوت کے لیے استعمال کرنے سے پہلے انھیں تمام معاملات سے آگاہ کرکے ان سے مشورہ لینے کے پابند ہیں۔ یوں بھی اس شیطانی چکّر کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے روکنا ضروری ہے۔ مظلوم افراد تک پہنچنے کے لیے فوج کا مطالبہ مانتے رہیں گے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کے توڑ کے لیے راستے تلاش کرنا اور اس دوران میں مکمل دیانت داری اور شفافیت برقرار رکھنا ضروری ہے۔
کارنیل یونی ورسٹی میں ’کاروباری اخلاقیات‘ (Business Ethics) کے پروفیسر ڈینا ریڈکلف نے اس کش مکش کا سامنا کرنے والے لیڈروں کے لیے یہ دل چسپ سوال نامہ تیار کیا ہے:
کسی عمل کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور مختلف فریقین کے لیے اس کے کیا متبادل ہیں؟
ان ممکنہ نتائج کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ صورتِ حال فریقین کی ذمہ داریوں میں اختلاف پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، یعنی کیا یہ کش مکش کوئی منطقی وجود رکھتی ہے یا محض ایک ذہنی اختراع ہے؟
اگر یہ کش مکش حقیقی ہے تو کیا اس کے حل کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات ادارے کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں؟
جو اقدامات ان اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے کیا ان میں سے کوئی ایک قدم ایسا ہے جو آگے چل کر ادارے کے مشن کو پورا کرنے میں مفید ثابت ہوسکے؟
اگر تمام اقدامات ادارے کے اصولوں سے متصادم ہوں یا ان اصولوں کے مؤثر ہونے میں رکاوٹ ہوں تو ان میں سے کون سے اقدامات کا فریقین کے سامنے سرعام دفاع کرنا ممکن ہے؟
اصولی نوعیت کے فیصلے کرنے کے لیے یہ چیک لسٹ بہت مفید ہے، لیکن ممکن ہے کہ جن افراد میں روحانیت کا عنصر زیادہ ہو وہ اس میں عوامل کے سامنے جواب دہی کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے جواب دہی کا پہلو بھی شامل کرنا چاہیں گے۔ اس لیے ان افرادکو ذہن میں رکھتے ہوئے اخلاقی اعتبار سے درست فیصلے کا تعین صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے اس سوال کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے کہ ’ہماراربّ ہم سے کیا چاہتا ہے؟‘
دانش مندی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ: