ڈاکٹر سلیمان صالح


۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد سے امریکی مراکز تحقیق نے مسلم ممالک میں رائے عامہ کے رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لینا شروع کر دیا تھا اور امریکی پالیسی سازوں کو مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے عوامی رجحانات پر کڑی نظر رکھنے کے لیے زور دینا شروع کیا تھا۔ مسلم ممالک میں رائے عامہ کا سروے اور جائزہ لینے والے اہم ترین اداروں میں سے ایک ادارہ ’گیلپ انٹرنیشنل‘ہے۔ اس سروے کمپنی کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن میں ہے۔ دوسرا ادارہ مرکز ’پیو‘ (PEW سینٹر) بھی ہے۔  ان اداروں نے متعدد ممالک میں رائے عامہ جاننے کا کام کیا ہے۔

ان مراکز کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک کے بعد ایک سروے رپورٹیں یہ واضح کرتی ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام کے ذہنوں میں امریکا کی تصویر منفی ہے۔ ’’پیو‘‘ سینٹر کی ۲۰۰۲ء کی سروے رپورٹ میں ۶۹ فی صد مصریوں ، ۷۵ فی صد اردنی، ۵۹ فی صد لبنانی، ۶۹فی صد پاکستانی اور ۵۵ فی صد ترکوں نے واضح انداز میں امریکی پالیسیوں سے اپنی مخالفت ظاہر کی ہے۔ اسی طرح رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت امریکی افکارو عادات کے بارے میں یہ خیال کرتی ہے کہ وہ ان کے معاشروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔

  • امریکا اور دیگر ممالک کے حقیقی مفادات: امریکی مراکز تحقیق نے عوامی رجحانات پر امریکی خارجہ پالیسی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے امریکا بے زاری کے عام رویے کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ان عوامل کو، جو اسلامی ممالک میں امریکی پالیسی سے عوامی مخالفت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، اس طرح مرتب کیا ہے:اسرائیل کے لیے امریکا کی مسلسل تائید و حمایت، فلسطینی عوام کے حقوق سے دانستہ غفلت، فلسطین میں غاصب افواج کو اسلحے کی فراہمی تاکہ یہ افواج فلسطینیوں کے خلاف قتل عام کا ارتکاب کر سکیں، امریکا کی طرف سے مسلم ممالک کے حقیقی مفادات سے لاپروائی، یہ احساس کہ امریکا اہل ثروت اور غریبوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا کام کرتا ہے، اور عالمی مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتا۔
  • عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے اثرات: پہلے ۱۹۹۱ء میں اور پھر ۲۰۰۳ء میں عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے بعد سے مسلم دُنیا میں امریکا دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لہر مشرق وسطیٰ سے نکل کر خاص طور سے انڈونیشیا تک پہنچ گئی ہے، جہاں کے متعلق سروے رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ محض ۱۵ فی صد انڈونیشیائی عوام امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔
  • گیلپ سروے: گیلپ انٹرنیشنل نے جو سروے کیا ہے وہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام میں امریکا کی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے والوں کا تناسب ۳۳ اور ۷۰ فی صد کے درمیان ہے۔ مجموعی طور پر ۸۵ فی صد مسلمانوں نے امریکی پالیسی کو مسترد کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ امریکی حکومت اسلامی عقائد و اقدار کا احترام ملحوظ نہیں رکھتی اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مبنی برانصاف معاملہ کرتی ہے۔

ادارہ ’زغبی‘ کے سروے نتائج بھی ’پیو‘ اور ’گیلپ‘ کے سروے نتائج ہی کی طرح کے ہیں۔ اس ادارے کے ذریعے کیے جانے والے سروے سے یہ واضح ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے والوں کا تناسب ۴۸ اور ۸۷ فی صد کے درمیان ہے۔

  • پبلک ڈپلومیسی میں سرمایہ کاری: ان نتائج نے امریکی انتظامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس رقم میں اضافہ کرے جو اس نے این جی اوز کی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کی ہے۔ اسی طرح اس نے اہل علم اور پالیسی سازوں کے درمیان اس موضوع پر مباحثے کرائے ہیں کہ عالم اسلام کی رائے عامہ پر ٹی وی خبروں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ان مباحثوں میں امریکی محققین نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکی اقدار کو پھیلاکر اور امریکی خارجہ پالیسی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرکے مسلم دُنیا کے عوام کو کیسے متاثر کیا جاسکتا ہے؟

اس صورت حال کی روشنی میں امریکا نے پبلک ڈپلومیسی کے لیے اپنا اسٹرے ٹیجک منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے متنوع قسم کی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی، ابلاغی اور ثقافتی سرگرمیوں کا سہارا لیا ہے۔ عوامی رجحانات پر اثرانداز ہونے کے ہدف کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے اندر بہت سا جھوٹا سچا مواد پھیلایا ہے اور ان کے ذہنوں میں امریکا کی مثبت تصویر کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے ان سرگرمیوں کو منظم کیا ہے۔ پبلک ڈپلومیسی ایجنسی اور امریکی انفارمیشن ایجنسی پر اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ پھر ایک کا م یہ کیا ہے کہ پبلک ڈپلومیسی سے متعلق انڈر سکریٹری کے درجے کا عہدے دار متعین کیا ہے اور مسلم دُنیا کی فکر و رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

  • ذرائع ابلاغ اور امریکی صورت گری: اہم بنیادی کام جو امریکی حکمت عملی نے انجام دیے ہیں ، ان میں سے ایک عالم اسلام کے عوام تک براہ راست اور بالواسطہ پہنچنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال ہے۔اس کے تحت اس نے ریڈیو اسٹیشن قائم کیے ہیں، ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنائی ہیں۔ ایسی بہت سی فلمیں بنائی ہیں اور کثیر تعداد میں کتابیں اور مجلّوں کا اجرا کیا ہے۔ نوجوانوں، خاص طور سے کم عمر نوجوانوں کو ہدف بنا کر ثقافتی اور میڈیائی مواد تیار کیا ہے۔

اس منصوبے میں وہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں، جن کا ہدف مسلم ممالک کے صحافیوں پر اثرانداز ہوکر انھیں امریکی نقطۂ نظر اختیار کرنے اور امریکی پالیسی کا دفاع کرنے کے ساتھ اس بات پر مجبورکرنا بھی ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے لیے امریکی مآخذ و مصادر پرانحصار کریں۔

مسلم ممالک کے عوام پر اثرانداز ہونے کی امریکی حکمت عملی کا ایک حصہ جدید وسائل ابلاغ، مثلاً ریڈیو ’سوا‘ اور ’الحرۃ‘ چینل کا قیام بھی ہے۔ البتہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی غرض سے مسلم عوام کو ہدف بنانے والے ذرائع ابلاغ میں امریکی سرمایہ کاری کے باوجود ایسے کئی سوالات موجود ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گہرے مطالعے اور جائزے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ مسلم دُنیا میں اپنی تصویر کو بہتر بنانے کے سلسلے میں امریکا کو کہاں تک کامیابی مل سکی ہے اور مسلم عوام سے اپنی خارجہ پالیسی کو قبول کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہے؟

  • میڈیائی ڈپلومیسی:خارجہ پالیسی کی مارکیٹنگ اور عالم اسلام کے ذہن میں اپنی مثبت تصویر بنانے کے لیے امریکا نے میڈیائی ڈپلومیسی کا سہارا لیا ہے۔ اس نے نوجوانوں اور خاص طور سے کم عمر بچوں کو ہدف بنایا ہے۔ اسی طرح عام ڈپلومیٹک سرگرمیوں اور میڈیائی ڈپلومیسی کے درمیان ربط قائم کرنے کا راستہ کھولا ہے۔

ایسے پہلو بڑے واضح طور پر سامنے ہیں، جن کے مطابق مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی نے وہاں کے ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حالات و واقعات کی رپورٹنگ امریکی نقطۂ نظر کے مطابق کرنے کے سلسلے میں وہاں کے صحافیوں کو بھی اپنے زیر اثر لے لیا ہے۔

  •  نئے مطالعے و جائزے کی ضرورت:سوال یہ ہے کہ کیا امریکی حکمت عملی واقعی مسلم عوام کو متاثر کرنے اور ان کے ذہنوں اور دلوں کو اپنی مٹھی میں کر لینے میں کامیاب ہوئی ہے؟ اس جائزے کے لیے غیر امریکی محققین کی ضرورت ہے، جو بڑی حد تک آزادی اور مستقل مزاجی سے ہم آہنگ ہوں تاکہ مسلم ممالک کی رائے عامہ کے سلسلے میں تحقیقات کر سکیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس نوعیت کے رائے عامہ کے جائزے کےلیے کیے جانے والے سروے اور امریکی پراپیگنڈے کا تجزیہ کیا جائے۔
  • اسلامی اقدار سے دشمنی:گیلپ سروے کی جانب پلٹ کر دیکھیں تو یہ اہم نتائج سامنے آتے ہیں کہ ۸۵ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اسلامی عقائد و اقدار کا احترام نہیں کرتا ہے اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مبنی برانصاف معاملہ کرتا ہے۔ یہ نتائج ممکن ہے کہ امریکا کو اپنی پالیسی اور عالم اسلام کے سلسلے میں اپنے موقف کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیں، اس لیے کہ اسلام کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا ہی وہ واحد راستہ ہے جو اسے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا اپنے غرور اور جانب دارانہ رویے کو ترک کرے۔

لیکن اگر ہم امریکی ٹیلی ویژن چینلوں کے توسط سے پیش کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کریں تو نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ یہ چینل، بالخصوص ’الحرۃ‘ ، ہنوز اسلامی عقیدے اور اسلامی اقدار کے خلاف نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان چینلوں کے کچھ براڈکاسٹرز مستقل طور پر اسلام کے خلاف مسلسل حملہ آور رہتے ہیں۔اس طرح وہ امریکا کی تصویر یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے، اور یہ چیز مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف دشمنی کو ہی ہوا دے گی۔

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا ان چینلوں پر دل کھول کر خرچ کرتا اور تکنیکی صلاحیتیں فراہم کرتا ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سنت نبویؐ کی صحت پر شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اسلامی عقائد و اقدار کا مذاق اڑانے والے پروگراموں کو دیکھ کر امریکا کے خلاف دشمنی میں اضافہ ہی ہوگا۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا اوصاف ہیں جن کی بنیاد پر امریکا، مسلم دُنیا میں اپنی صورت گری کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ مسلم عوام کے سامنے خود کو اس حیثیت سے پیش کرے کہ وہ اسلام دشمن ہے؟اور کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنے نبیؐ کی سنت سے پلہ چھڑا لیں؟

  • میڈیائی ڈپلومیسی کا مستقبل: اسی طرح رائے عامہ کا جائزہ لینے والے مراکز کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ عوام پرپڑنے والے ثقافتی اور میڈیائی مواد اور پروگراموں کے اثرات کے سلسلے میں حقائق کا پتہ لگانے کے لیے اپنے مطالعہ و جائزے اور اسلوب کو بہتر بنائیں۔ مثبت تصویر کی تشکیل محض ذرائع ابلاغ کی فراہمی پر ہی منحصر نہیں ہوا کرتی، نہ صرف مواد و مضمون کی تیاری میں جدید ترین ٹکنالوجی کے استعمال پر منحصر ہوا کرتی ہے، بلکہ اس کے لیے عوامی ضرورتوں اور رجحانات کا علمی جائزہ لینے اور عوام کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

اور کیا معلوم کسی وقت امریکا پر یہ منکشف ہو جائے کہ ’الحرۃ‘ جیسے چینلوں نے براڈکاسٹر کو سنت نبویؐ پرحملہ آور ہونے ، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور اسلام کو حقارت کے ساتھ پیش کرنے کی اجازت دے کر امریکا کی تصویر کو بگاڑنے اور اس کے خلاف عوام دشمنی میں اضافہ کرنے میں حصہ لیا ہے۔

مغرب میں اسلام کی جو تصویر ہے، اس کا مطالعہ کیا جائے تو شاید بیش تر واقعات و حوادث کی حقیقت کو واضح کرنے کی بنیاد مل جائے اور ہمیں اس بات کا مزید ادراک بھی حاصل ہو جائے کہ رائے عامہ پر کس طرح اثر انداز ہوا جاتا ہے اور عوام کے جذبات سے کس طرح کھیلا جاتا ہے؟  دنیا میں تصویر یا تشخص کی جنگ جاری ہے، جس میں ہر ملک اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ [دنیا کے سامنے]اپنی تصویر بنانے اور اپنے دشمنوں کی گھسی پٹی تصویر قائم کرنے کا ملکہ حاصل کر لے۔

تصویر کی اس جنگ میں امریکی سنیما انڈسٹری نے اہم کردار ادا کیا ہے، اور اس نے ایسی بہت ساری فلمیں بنائی ہیں، جن کا مقصد دوسروں یا دشمن [ممالک]کے بالمقابل امریکا کے تشخص کو مثبت تصویر کےچوکھٹے میں پیش کرنا ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکی تحقیقاتی مراکز نے صرف ہدف کو چُنا ہے کہ اسلام کو امریکا اور یورپ کے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان مراکز کی ملی بھگت نے مسلمانوں کی مطلوبہ منفی تصویر کُشی کے لیے بہت سی فلمیں منظر عام پر لانے کی بنیاد فراہم کی ہے۔

  • اسلام کی تصویر کشی کے سیاسی اہداف: ایک سروے، جسے چار پاکستانی محمد یوسف، نعمان سیل، عدنان مناور اور محمد شہزاد نے انجام دیا ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام کی تصویر کو بگاڑنے کی صورت میں امریکی سنیما بعض سیاسی اہداف کی تکمیل کر رہا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سنیما نے بعض اصطلاحات اور تصورات مثلاً ’ریڈیکل اسلام‘، ’انتہاپسند اسلام‘، ’ملیشیائی اسلام‘، ’بنیاد پرست اسلام‘، ’اسلامائزیشن اور انقلاب پسند‘ اسلام کا استعمال کیا ہے۔ ان اصطلاحات کے استعمال نے اسلام اور مسلمانوں کی گھسی پٹی تصویر سازی کے لیے فلسفیانہ اور پروپیگنڈا بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ اصطلاحات عوام کو اس بات پر مجبور کر رہی ہیں کہ وہ ان الفاظ و تصورات سے وہی تصویر قبول کریں، جو ہالی وُڈ کے نظریات پر مبنی ہے، یعنی سنیما پروپیگنڈے ،عوام کے جذبات و رجحانات سے کھیلنے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔
  • سنیما اور اسلاموفوبیا : اسی طرح سنیما نے اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کرنے یا اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کو جنم دینے میں بھی خوب مدد کی ہے۔ اہل مغرب کے دلوں میں اسلام مخالف جذبات پیدا کیے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کو ہوا دی ہے۔ اس تحقیق کا ایک اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ اسلام کو اسی نظریۂ تہذیبی تصادم سے ہم آہنگ کر کےپیش کررہے ہیں، جسے سیموئیل ہن ٹنگٹن نے پیش کیا تھا۔

تہذیبی تصادم کے نظریے نے دنیا کو تقسیم کرکے مغرب اور اسلام کے درمیان گہری کش مکش پیدا کی ہے۔اس نظریئے کو دنیا کے اوپر تھوپنے کے لیے ذرائع ابلاغ ، خاص طور سے سنیما کو استعمال کیا گیا ہے، جس نے اہلِ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز و اختلاف کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔اسی لیے امریکی سنیما نے اسلام کو ایک مذہب (دین) کی حیثیت سے لیا ہی نہیں، اور تعصب و جانب داری سے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو چوٹ پہنچائی ہے۔

  • فلم موثر ترین ذریعہ:سروے اور تحقیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی لگی بندھی تصویر پیش کرنے میں سنیمائی فلمیں دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ سے بھی زیادہ موثر رہی ہیں۔دنیا اس وقت تصویری تہذیب کے دور میں جی رہی ہے۔ فلم تواتر اور تسلسل کے ساتھ تصویروں کے جس مجموعے کو پیش کرتی ہے ، انھیں پردے پر ایسے متاثر کن انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان ڈرامائی اور تخیلاتی تصویروں کو اصل حقیقت کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔اسی وجہ سے ہالی وڈ اپنے اندر بڑی اثرپذیری کی قوت رکھتا ہے۔

اسی لیے چاروں محققین نےاپنے سروے میں اس انڈسٹری کو آکٹوپس سے تشبیہ دی ہے جس نے دنیا کو اپنے بازؤں کی گرفت میں لے رکھا ہے۔دنیا کے بازارِ تفریح (Entertainment Market ) پر ہالی وُڈ کی حاکمیت ہے۔ کروڑوں لوگ اس کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ ان فلموں کی وجہ سے ہالی وُڈ نوجوانوں کا سب سے طاقت ور استاد بن چکا ہے، کیوں کہ سب سے زیادہ فلموں سے جڑنے والا طبقہ نوجوانوں کا ہی ہے۔

دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہالی وُڈ میں کام کرنے والے پرڈیوسرز، ڈائرکٹرز، قلم کار اور اداکار سب کے سب امریکا کے اشرافیہ (Elite) طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا کا وہی تصور پیش کرتے ہیں جو یہ طبقہ رکھتا ہے۔

  • سنیما کا سیاسی و تشہیری کردار:امریکا سرد جنگ سے فاتح کی حیثیت سے باہر نکلا تو ہالی وُڈ نے اپنی فلموں میں اس اصطلاح پر توجہ مرکوز کر دی، جسے امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا نام دیا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے ااستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کو بھی استعمال کیا۔ چنانچہ ایسی بہت سی فلمیں تیار کیں، جن کا مقصد امریکی عوام کی ذہن سازی کرکے انھیں امریکی قیادت کی حمایت و تائید پر مجبور کرنا، اور افغانستان و عراق کے خلاف امریکی جنگ کے فیصلے کو جائز ٹھیرانا تھا۔

اسلام کی روایتی منفی تصویر جو ہالی وُڈ نے گھڑی ہے، اس کا استعمال امریکا نے فلم بیں حضرات کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمان ’انتہاپسند‘، ’دہشت گرد‘ اور ’متعصب‘ ہوتے ہیں۔

سنیما کے اس سیاسی و تشہیری کردار سے واضح ہوتا ہے کہ ہالی وُڈ صرف تفریح کا ایک وسیلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ذہنوں میں ایک مخصوص تصویر قائم کرنے کی فیکٹری بھی ہے۔ یہ سنیما ہی تصویری و اصطلاحاتی جنگ اور تہذیبوں کے مابین کش مکش کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ سنیما ہی امریکی اشرافیہ کے نقطۂ نظر کو عام کرکے اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے لوگ دنیا کو ہالی وُڈ کے اسی کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، جو حقائق کو پیش نہیں کرتا، بلکہ تصویروں، اور خواص کی مدد سے من پسند اور مذموم واقعات کو جنم دیتا ہے اور پھر عوام کے جذبات کو ان کے خلاف اُبھارتا ہے جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

  • جعلی اور گمراہ کن روایتی تصویر: عوام کے سامنے ہالی وُڈ جو معلومات پیش کرتا ہے، ان کا انداز عمومی نوعیت کا ہوتا ہے اور ان کے توسط سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اس قسم کے احکامات صادر کرتا ہے، جو عوام کو گمراہ کرنے والے اور ان کے جذبات واحساسات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ہوتے ہیں۔چنانچہ ان چار محققین نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء کےدرمیان ریلیز ہونے والی چار ہالی وُڈ فلموں کے ۲۸۷ مناظر کا جائزہ لیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’امریکی سنیما نے اسلام کو منفی شکل میں پیش کیا ہے‘‘۔ اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’اس تصویر میں بلاکسی امتیاز کے تمام اسلامی ممالک کو شامل کیا گیا ہے ، اور مغرب نے مسلم ممالک کی اس منفی تصویر کو تہذیبوں کے مابین تصادم کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں ان باتوں کو فروغ دیا گیا ہے جو اہل مغرب کے جذبات کو مشتعل کرنے والی اور انھیں اسلام سے متنفر اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرتی ہیں‘‘۔

اسی طرح ہالی وُڈ نے اسلام کی ایسی تصویرکو دنیا میں عام کرنے کا کام بھی کیا ہے کہ مسلمانوں کو دُنیا کے لیے خطرہ بتا کر ان سے لوگوں کو خوف زدہ کیا جا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ دینِ اسلام کے خلاف دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔مثال کے طور پر امریکا، کینیڈا، یورپ اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں مساجد کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

  • وطن پرستی اور اسلاموفوبیا کے درمیان تعلق:مسلمانوں کی روایتی انداز کی منفی تصویر کا تعلق امریکا اور یورپ میں وطن پرستانہ جذبات کو ابھارنے سے بھی ہے۔ اس سے ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور محقق ابوسادات بھی اس سے پہلے اپنی تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہالی وُڈ اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر بنانے پر کام کررہا ہے۔
  • استعمار ابھی  بھی زندہ ہـے:عبید منشاوی فوال نے کونکورڈیا یونی ورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے مقالہ پیش کیا ہے۔ اس مقالےمیں انھوں نے اپنی تحقیق کا یہی نتیجہ پیش کیا ہے کہ ہالی وُڈ کے فلم ساز استعماری دور کے یورپی مستشرقین کے پیش کردہ افکار پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔  اور مستشرقین کے یہ افکار مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر کے سہارے استعمار کی برتری کے جواز کو  بیان کرتے ہیں۔دوسری طرف یورپی استعمار کی صورت گری سفید فام اہلِ مغرب کے اندر احساس برتری اور تکبّر اور حتمی غلبے کے جذبات کو غذا فراہم کررہی ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد سے امریکی سنیما کا استعمال اسلام کی اقدار، تہذیب اور روایات کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے لیے بھی کیا جانے لگا۔ اس کوشش کے تحت اسلام کو ’دہشت گردی’، ’تشدد‘، ’انتہاپسندی‘، ’بنیاد پرستی‘ اور ’جمہوریت دشمنی‘ سے جوڑا جانے لگا۔

امریکی فلم سازوں نے تہذیبی تصادم کے نظریے، سبز خطرے (Green Danger)، نظریاتی کش مکش، اور قدیم صلیبی جنگوں کے نظریات کو فلموں میں استعمال کیا ہے، اور یہ وہ نظریات ہیں، جو بین الاقوامی کش مکش کے لیے فکری اساس کی حیثیت سے وضع کیے گئے ہیں۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ سنیما، عالمی کش مکش کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے سنیما کا استعمال اس فکر کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا کہ ’’امریکی جمہوریت خطرے میں ہے اور امریکا دہشت گردی کی زد میں ہے‘‘ ، اس لیے ضروری ہے کہ مسلم دُنیا کے خلاف عسکری جنگ کا سلسلہ جاری رکھا جائے‘‘۔

اس حقیقت کی روشنی میں فوال یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ ’’اسلام کی جو روایتی انداز کی تصویر امریکی سنیما نے گھڑی ہے، وہ نہایت تباہ کن اور سخت خطرناک ہے۔ یہ تصویر مستقل طور پر اسلام دشمنی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔یہ تصویری جنگ حقیقی جنگ کے لیے راہ ہموار کرنے والی ہے، جس کا مقصد ملکوں پر قبضہ جمانا اور انسانیت کو برباد کرنا ہے۔ مغربی فوجیوں کو اپنے دشمن پر میزائل چلانے سے پہلے ایک ذہنی تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، جو امریکی فوج کی سرگرمیوں کو احترام دینے والی ہو اور امریکی فوجیوں کو ہیرو کا رُوپ دے سکتی ہو۔ اسی طرح انھیں ایک ایسی روایتی تصویر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے دشمن کی صورت کو بگاڑ کر پیش کرتی ہو اور انھیں بدمعاش، دہشت گرد اور جمہوریت وترقی کے دشمن کے طور پر پیش کرتی ہو‘‘۔

امریکی سنیما اپنے طویل تاریخی تجربات کو بروئے کار لا رہا ہے اور تصویری جنگ میں اپنے کردار کو انجام دینے کے لیے ٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو کام میں لا رہا ہے۔ اس کی نظر میں یہ تصویری جنگ ہی دنیا کے مستقبل کی تشکیل اور استعماری غلبے کے نئے دور کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس تصویری جنگ کا مقابلہ کیسے کریں اور کیسے ایک ایسی میڈیا انڈسٹری کی تشکیل کریں، جو مسلمانوں کو [درست]معلومات فراہم کر سکے، ان کے فہم و شعور کی تشکیل کر سکےاور اکیسویں صدی کے چیلنجوں کے مقابلے کی قوت امت کے اندر پیدا کر سکے؟

مستقبل کی تعمیر وتشکیل ایسے اصحابِ علم اور محققین کی ضرورت مند ہے، جو اپنے ممالک کو ذہنی تصویر سازی کے قابل بنا سکیں اور اس قابل بنا سکیں کہ وہ ان روایتی اورگھسی پٹی، آلودہ اور بیہودہ تصویروں کا مقابلہ کر یں، جو امت کے خلاف دشمنی کی بنیاد بن رہی ہیں اور امریکا جو کہ سنیما کو اسلام کی منفی تصویر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، وہ ان بنی بنائی تصویروں کازیادہ دن تک سہارا نہ لے سکے۔

ذہنی و روایتی تصویر اس بنیاد کی تشکیل کرتی ہے جس پر مغرب کے پالیسی ساز اپنی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں، جب کہ استعماری سوچ آج بھی ہالی وُڈ کے پروڈیوسرز کے لیے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔