ڈاکٹر محمد ممتاز علی


عالمی سطح پر اُبھرنے والی چند شخصیات میں نیلسن منڈیلا [م:۵دسمبر ۲۰۱۳ء]کے بعد داتو سری انور ابراہیم [پ:۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء]، موجودہ وزیراعظم ، ملایشیا، ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھیں ہم تاریخ ساز اور سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے والی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ جنھوں نے ملایشیا کے نومبر۲۰۲۲ء میں منعقد ہونے والے ۱۵ویں عام انتخابات میں سب سے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے والے محاذ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ انور ابراہیم کے محاذ کی یہ انتخابی کامیابی، دراصل ناانصافی کے خلاف عوام کا ردعمل ہے۔ تقریباً ۲۵سال کے طویل عرصے کے بعد انور ابراہیم کے ساتھ انصاف کیا گیا اور اُنھیں حکومت بنانے کے لیے مدعوکیا گیا۔ درحقیقت یہ انصاف کی کامیابی ہے۔

انورابراہیم جنھیں ۲۵ سال قبل ہی ملایشیا کےوزیراعظم بن جانا چاہیے تھا، لیکن ڈاکٹر مہاتیرمحمد سابق وزیراعظم ملایشیا کی پالیسی کے نتیجے میں انھیں نائب وزیراعظم کے عہدے سے محض اس بناپر علیحدہ کردیا گیا، کہ انھوں نے ملک میں برپا ہونے والی معاشی بدعنوانیوں اور انتظامی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی تھی۔

ڈاکٹر مہاتیرمحمد نے اُنھیں نہ صرف برطرف کردیا بلکہ بے بنیاد الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ڈاکٹر موصوف کی اس ظالمانہ روش نے نہ صرف انورابراہیم کو نقصان پہنچایا، بلکہ خود ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ اگر ڈاکٹر مہاتیرمحمد اقتدار سے انور ابراہیم کو غیرفطری طریقے سے راستے سے نہ ہٹاتے تو آج ملایشیا، لاجواب ترقی کی منازل طے کرکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ حاصل کرسکتا تھا۔

انورابراہیم نے مہاتیرمحمد کی جانب سے کی جانے والی ان تمام ناانصافیوں کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک نئی سیاسی جماعت پیپلزجسٹس پارٹی (PKR) کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کی قیادت اُن کی اہلیہ ڈاکٹر وان عزیزہ [پ:۱۹۵۲ء]نے سنبھال لی اور ایک تاریخ ساز شخصیت بن کر ملایشیا کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئیں۔ انورابراہیم جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ ان کی حالیہ کامیابی اور اُن کا وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونا دراصل ان کی اَن تھک جدوجہداور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اسلام کے اجتماعی نظام کو پیش کرتے ہیں اور سیاسی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُنھیں انورابراہیم کی جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے، اور اپنے عمل کو جہد ِ مسلسل میں تبدیل کردینا چاہیے۔

انورابراہیم نے بحیثیت اسٹوڈنٹ لیڈر، ملایشیا کی سماجی زندگی میں ۱۹۷۱ء میں ABIM  (Muslim Youth Movement of Malaysia ) کے قیام کے ذریعے حصہ لیا اور پھر ۱۹۹۸ء تک مسلسل ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملایشیا کی سیاست پر چھاگئے۔ اسلام سے اُن کی وابستگی اور اسلام کے آفاقی تصورنے اُنھیں ساری دُنیا میں جاری اسلامی انقلابی تحریک سے قریب کر دیا۔ وہ ملایشیا میں اسلامی جدوجہد کے طاقت ور نمایندے کی حیثیت سے اُبھرے اور ۱۹۸۲ء میں ملایشیا کی معروف سیاسی جماعت UMNO میں شریک ہوئے۔ پھر اسلامی سیاسی جماعت PAS کے ساتھ مل کر اسلامی نظامِ تعلیم کے لیے جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۳ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔بحیثیت وزیرتعلیم انور ابراہیم نے اسلامی یونی ورسٹی کی ترقی میں زبردست کردار ادا کیا۔یہ یونی ورسٹی آج عالمِ اسلام کی ایک بہترین درس گاہ کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔

۲۴نومبر ۲۰۲۲ء، شام پانچ بجے ملایشیا کے بادشاہ کی جانب سے اُنھیں وزیراعظم کا حلف دلایا گیا۔ ملایشیا کے بادشاہ شاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے انور ابراہیم کے حق میں فیصلہ کرنے سے پہلے ملک کے بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا اور آخر میں ملایشیا کی تیرہ ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی مشورہ کیا۔ سبھی لوگوں نے انورابراہیم کووزیراعظم کی حیثیت سے قبول کرتے ہوئے اپنا تعاون پیش کیا۔

 انورابراہیم کی پارٹی اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں صرف ۸۲سیٹیں جیتی ہیں، اس لیے اُنھیں ملک کی مشہورومعروف سیاسی جماعت UMNO اور اُن کے محاذ، BN جنھوں نے ۳۰سیٹیں جیتی ہیں اور دیگرچھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ اس طرح وہ ملک کے دسویں وزیراعظم بن کر سیاست کے ایوانوں میں شاندار طریقے سے واپس آئے ہیں۔ ۷۵سالہ سیاست دان انورابراہیم ملک کے تمام طبقوں اور نسلی گروپوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے سیاسی استحکام کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ اُن کی زیرقیادت حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ’متحدہ حکومت‘ ہے، جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ سب کا مقصد ملک کی معیشت کو بہتر بنانا اور عوام کی مشکلات کو آسان کرنا ہے۔

انور ابراہیم ملک کو مالی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور اسلامی بنیادوں پر ملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اُن سے یہی اُمید کرتے ہیں کہ وہ اسلامی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کےلیے کام کریں گے۔ حالیہ انتخابات میں پارٹی کی سطح پر اسلامی جماعت نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔ اس لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اسلامی خطوط پر ملک کی تشکیلِ نو چاہتی ہے۔ انورابراہیم کے لیے بحیثیت وزیراعظم سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کیا وہ اسلامی شناخت اور سب کے ساتھ مل کر ملک کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک منفرد مقام دلانے میں کامیاب ہوں گے؟ اس کام کے لیے اُنھیں ملک کی اسلامی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ انورابراہیم بحیثیت وزیراعظم ملایشیا میں کامیاب ہوں گے اور ملک کو معاشی اور سیاسی مسائل سے نجات دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔

یوں توغوروفکر ، تدبر اور تفکرکا سفر صدیوں سے جاری ہے، لیکن عصرحاضر کی سائنس اور ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی کی بنیاد پر یہ دعوے کیے گئے تھے کہ انسان اب اس قابل ہوچکا ہے کہ اُسے کسی دوسرے سہارے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اسی بناپر مادرپدر آزاد معاشرت، ترقی اور پُرآسایش معیارِ زندگی کے نعرے بلند کیے گئے۔ لیکن کووڈ-۱۹ کی وبا نے اُن تمام دعوؤںکی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ اب انسان اس بات پر مجبور ہے کہ موجودہ دور کی چمک دمک سے بالاتر ہوکر زندگی، معاشرے اور کائنات کے بارے میں درست طرز پر غوروفکر کرے۔ کیونکہ آج نہ انسان محفوظ ہے اور نہ اُن کی بنائی ہوئی معاشی جدوجہد کی عالی شان عمارتیں ہی محفوظ ہیں۔

 کورونا وائرس نے ۲۱۰ سے زائد ممالک کو ایسی گرفت میں لے لیا کہ پورے کرئہ ارض کی معاشرتی اوراقتصادی زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی اور زندگی کی رفتار سُست پڑگئی۔ اس پس منظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خاص دشمن انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا، کسی سرحد کو نہیں مانتا، کسی طبقے میں کچھ تفریق نہیں کرتا اورسب انسان اُس کے سامنے بظاہر بے بس نظر آرہے ہیں۔

ان شاء اللہ کورونا وائرس پر جلد یا بدیر قابوپالیا جائے گا، لیکن کیا انسانوں میں پائے جانے والے غیرانسانی نقطہ ہاے نظر، اختلافات، دشمنیوں، ہوسِ اقتدار وغیرہ جیسی چیزوں پر بھی قابو پایا جاسکے گا؟کیا قومی مفاد کا تصور انسانیت کے مفاد سے بالاتر اور اُونچا ہی رہے گا؟ کیا انسانیت یوں ہی دائمی طور پر اقوام میں منقسم اور آپس میں متحارب رہے گی؟

انسان کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اندازِ فکر،فلسفہ ہاے حیات، تصورِ حیات اور نظامِ حیات کے طور طریقوں پرغوروفکر کرے۔ کھلے ذہن سے تعاون و اشتراک کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ علمی، اخلاقی اور سائنسی اعتبار سے سوچنے کے قابل ہوسکے۔ نیز بنی آدم کو بیماریوں، مہلک اسلحوں اور جنگوں سے پاک پُرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے کام کرے۔

جب اس ضمن میں سوچا تو مجھے مولانا مودودیؒ کےافکار میں ان عالمی سماجی و انسانی مسائل پر سیرحاصل بحث اور رہنمائی دکھائی دی۔ انھوں نے انسان کو انسان سمجھتے ہوئے، اُس کی زندگی کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دلائی ہے۔

مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی اُن عظیم المرتبت شخصیتوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنی منظم اور مربوط فکر کے ذریعے ساری دنیا کے بے شمار انسانوں کو متاثر کیا اور اُن کی زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی فکر کے بے شمار پہلو ہیں، لیکن یہاں پر صرف ایک پہلو پر توجہ دی جارہی ہے، جس کا تعلق انسانیت کی بنیادی ضرورت اور مسائلِ زندگی سے ہے۔

مولانا مودودیؒ محض ایک مفکر کی طرح منطق کی پیچیدگیوں کی پابندیوں میں گرفتار نہیں ہوئے بلکہ عام انسان کو متاثر کرنے والی زبان اور لب و لہجہ اختیار کیا۔انھوں نے اپنے علم کی بلندوبالا عمارت کی دھاک بٹھانے کے بجاے آسان اسلوب اختیار کیا، اور اپنے علم کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ دقیق وفلسفیانہ طرزِ استدلال اختیارکرنے کے بجاے عام فہم لیکن عقلی، علمی، تجزیاتی، تجرباتی اور تاریخی استدلال اختیار کیا۔ یہ آسان اندازِ بیان ایک عام آدمی اور عالم و فاضل ، مفکر، دانش ور، فلسفی سب کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور اُنھیں حق اور سچائی کا راستہ دکھاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ طرزِ بیان اوراسلوبِ ابلاغ میں سائنسی اندازِ کلام سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی بات کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرنے کے ساتھ تاریخی واقعات اور حقائق و مشاہدات سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ تواریخ کا مطالعہ مولانا مودودیؒ کے لیے محض واقعات کی عکاسی کا نام نہیں ہے بلکہ ان واقعات کی تہہ تک پہنچ کر نتائج اخذکرنے کا نام ہی مطالعۂ تاریخ ہے۔ اس عمل میں  ان کی تمام تر بصیرت کی بنیادوں میں قرآنِ کریم کی تعلیمات کا وسیع ادراک، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث سے قدم قدم پر روشنی حاصل کرنا، اسلام کو بطورِ نظامِ حیات سمجھنا اور حالاتِ حاضرہ کا مشاہدہ نظر آتا ہے۔

مولانا مودودی ؒ محدود معنوں میں محض ایک مذہب کے علَم بردار نہیں تھے بلکہ واحدہٗ لاشریک کے بتائے ہوئے واحد پیغام اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ اسوہ کے شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دُنیابھر کے انسانوں اور معاشروں سے متعلق گفتگو کی اور اُن کی بہتری کے لیے سوچا۔

مولانا مودودی ؒنے جب ’الجہاد فی الاسلام‘ پر لکھنے کا آغاز کیا تو قرآن کو اپنے غوروفکر اور رہنمائی کا محور بنایا۔ جس کے نتیجے میں وہ ہرچیز کو الٰہی، آفاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگے۔ وہ قرآن کے مرکزی موضوع اور مدّعا پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

اُس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی ہستی اور اپنی دنیاوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں ، اور اُن نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کر لیے ہیں، وہ سب حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجہ کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اُس کا مُدعا انسان کو اُس صحیح رویہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے، جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (تفہیم القرآن، اوّل،ص ۱۹-۲۰)۔

قرآن فہمی نے مولانا مودودی ؒ کو برطانوی ہند کے ایک غلام شہری سے اُٹھاکر ایک خدا کے بندے اور آفاقی شخصیت میں تبدیل کر دیا ،اور آپ یہ آفاقی پیغام لے کر انسانیت کی فلاح وترقی کے لیے وقف ہوکر زندگی کی آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے ۔ قرآن فہمی نے انھیں معاشرے اور کائنات کو ان کے صحیح اور حقیقت پر مبنی پس منظر میں سمجھنے کے لائق بنایا ۔

 مولانا مودودی ؒ کی ایک مرکزی خصوصیت، یہ ہے کہ آپ نہ تو مسلم معاشرے کے زوال کی وجہ سے مایوس نظر آتے ہیں اور نہ مغربی معاشرے کی نام نہاد ترقی سے مرعوب و مغلوب۔ وہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کی نفسیات سے پرے، ساری انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے تڑپتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے علّامہ محمداقبال ؒکی طرح جہاں مسلم معاشروں کی خامیوں کا جائزہ لیا، وہیں مغربی معاشرے کی کمزوریوں پر بھی محاکمہ کیا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسانیت کے بہی خواہ اور آفاقیت اور عالم گیر یت کے حامل تھے ۔

مولانا مودودیؒ کے ہاں مسلم اور مغربی تہذیب و معاشرت کے مثبت پہلوؤں کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے جس کھلے ذہن سے مسلم فکر کا مطالعہ کیا، اسی کھلے ذہن سے ہر فکر کا مطالعہ کیا، اور اس عمل میں ان کے ہاں کوئی تعصب نظر نہیں آتا۔ وہ ساری دنیا کے علمی خزانے کو اپنی میراث سمجھتے تھے، لہٰذا انھوں نے علم کے تمام ذخیروں سے استفادہ کیا اور اس مطالعے کی روشنی میں اپنی بے لاگ رائے قائم کی۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں علم، حکمت، بصیرت، گہرائی اور گیرائی کی صفات وافر مقدار میں عطا فرمائی تھیں۔ انھوں نے ان نعمتوں کا شکر ان نعمتوں کے بھرپور استعمال سے ادا کیا۔ اللہ کے عطا کیے ہوئے علم وحکمت کے خزانوں کی روشنی میں اور قرآنی بصیرت کی بنیاد پر حالات اور نظریات کا بے لاگ تجزیے سے ان عوامل کی نشان دہی فرمائی، جن کی کسی اچھے معاشرے ، ملک وملّت کی تعمیر کے لیے ضرورت ہے۔

وہ بہ تکرار یہ بات کہتے ہیں کہ مسلم اور مغربی معاشرے یکساں طور پر ایک جیسے بن کر رہ گئے ہیں ۔ دونوں معاشرے صحیح تصورِ حیات، صحیح نظام زندگی اور تہذیب وتمدن کی صحیح فکر سے غافل ہیں۔ جزوی طور پر مسلم معاشرہ کچھ چیزوں کا ادارک ضرور رکھتا ہے، لیکن معاشرتی بنیادوں پر وہ بھی بیمار مغربی معاشرے کی بھونڈی نقالی کرتا نظر آتا ہے۔ غلط نظریۂ حیات اور باطل نظام حیات کی بنیاد پر جو کردار افراد اور اقوام عالم میں پیدا ہوتا ہے، اس کی عکاسی انھوں نے اس طرح کی ہے:

قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چُنا، اور انھیں اپنا نمایندہ بنالیا۔ انھوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انھیں اپنے سربراہِ کار بنالیا۔ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اوربے اصول تھے،وہ ان کی ترجمانی کے لیے اُٹھے، اور اخبارنویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔ پھریہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کرچلے۔ (بناؤ اور بگاڑ، ۱۰مئی ۱۹۴۷ء)

مولانا مودودیؒ کا بہت واضح استدلال یہ تھا کہ باطل تصورِ حیات اور غلط نظام زندگی و اخلاق کی وجہ سے بننے والا معاشرہ اور اس کے افراد انسانیت کی سطح سے گر کر پستی کی کھائیوں میں جاگرتے ہیں، جس کا ثبوت ہمیں ہم جنسیت، صنفی کج روی اور خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں ایک عالم گیر وبا میں نظر آ رہا ہے ۔ انھوں نے تصورِ حیات اور صحیح نظام زندگی کی سچائی اورحقیقت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ صحیح تصورِ حیات اوردرست نظامِ زندگی ہی دراصل انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس بنیاد پر قائم ہونے والا معاشرہ اور نظام ہی مستحکم اور اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور انسانیت صحیح منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے۔ باطل تصورِ حیات اور نظامِ زندگی کی بنیاد پر قائم ہونے والا معاشرہ اور نظام دونوں انسانوں کو لامتناہی مسائل کے ایک ٹیڑھے راستے پر ڈال دیتے ہیں، جس پر چل کر انسان نہ ختم ہونے والے مغالطوں، مشکلات اور گمراہیوں میں اُلجھتا چلا جاتا ہے۔ اس پر بدقسمتی یہ کہ وہ پھر اسی کو زندگی کی اصل سمجھتا ہے، جیساکہ ہم آج عالمی سطح پر دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا اسی دنیا کی متاع حیات لوٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ جس کے پاس جتنی مکاری اور طاقت ہے، وہ اسی قدر دنیا کے ذرائع اور وسائل کو اپنی قدرت میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ ساری چیزیں ہم موجودہ دور میں دیکھ رہے ہیں کہ ذہین سے ذہین افراد بھی کولہو کے بیل کی طرح ان چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ مولانا مودودی ؒ نے یہ استدلال پیش کیا کہ صحیح  تصورِ حیات اور درست نظام زندگی ہی، زندگی کے اہم ترین سوالات ہیں، جن کو نظرا نداز کر کے انسانیت نے ہمیشہ گھاٹے کا سودا کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’چونکہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں، اس لیے کسی نظام تمدن و تہذیب اور کسی ہیئت اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں سکتا، جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے … زندگی کے ان بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر کوئی بھی انسان ایک قدم نہیں چل سکتا ۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ انسان ہی نہیں ساری اقوام عالم  تصورِ حیات اور نظام زندگی اور ان کی سچائی اور حقیقت کو علمی بنیادوں پر حل کیے بغیر، محض اپنے حسی مشاہدے اور قیاس وگمان کی بنیاد پر زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ جس کا نتیجہ مولانا مودودی کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’تمدن وتہذیب کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہے۔ کارل مارکس، فرائیڈ اور ڈارون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقوام عالم، لذت نفس کی ہر طلب پر، ہر اخلاقی بندش سے آزاد ہو کر شتر بے مہار کی طرح ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس دوڑ نے عالمی سطح پر ایک ایسا معاشرہ، نظام ،تہذیب وتمدن کو پروان چڑھایا ہے کہ جس میں ہرشخص لذتوں کے حصول میں مشین کی طرح لگا ہوا ہے‘‘۔

مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں:’’اس غلط تصورِ حیات کی طلب میں سارا نظامِ تعلیم وتربیت گھومتا ہے، اور جو اس سے اختلاف کرتا ہے اسے ’تنگ نظر‘ اور تہذیب وتمدن کا ’دشمن‘ قرار دیا جاتا ہے… بے شک دنیا کے فلسفیوں اور مفکرین نے تہذیب وتمدن کے قافلے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف علوم کی بنیاد رکھی اور اپنی دانست میں انسانیت کے سامنے مختلف تصورِ حیات اور نظام زندگی پیش کیے، لیکن وہ اپنے خام اور بے خدا علم کی بنا پر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ان میں کون اپنی اصل کی حیثیت سے سچا اور حقیقت پر مبنی ہے؟ ‘‘

عصرِ حاضر میں یہ فرض کر لیا گیا کہ ایک صحیح نظام زندگی کو واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے انسان اور اس کے معاشرے کو سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل عصرحاضر کی یہی بنیاد ی خامی تھی، جس کی طرف مولانا مودودی ؒ نے توجہ دلائی۔ انھوں نے یہ بتایا کہ: ’’انسان کو سمجھنے سے پہلے انسان کے وجود اورمابعد الطبیعیاتی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یعنی انسان ، معاشرے اور اس کے اندر کام کرنے والا عناصر کو سمجھنے سے پہلے تصورِ حیات کے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ چونکہ عصر حاضر کے مفکرین نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہے، اس لیے زندگی کے بارے میں ان کے بے شمار بلند وبانگ دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں‘‘۔

مولانا مودودی ؒ نے استدلال کیا کہ تصورِ حیات کا سوال ہو یا نظامِ حیات کا، اس میں سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تصورِ حیات اور صحیح علم ہے۔اس ’صحیح علم‘ کے لیے قیاس ، گمان ، ظن ،مشاہدات اور انسانی تجربات علم کے حصول میں مدد گار تو ہو سکتے ہیں، لیکن بنیاد نہیں بن سکتے۔ مولانا مودودی ؒ نے ظنی اور قیاسی بنیادوں پر تنقید کی اور ’صحیح علم ‘ کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے غیر علمی اور غیر سائنسی طریقۂ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جدید دور کو ’علمی ‘ دور کہنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے، کیونکہ یہ دور اشیا کا علم تو ضرور رکھتا ہے، لیکن وہ انسان اور کائنات کے ’صحیح علم ‘ سے یکسر محروم ہے ۔

مولانا مودودیؒ نے جدید دور کے رہنماؤں کو توجہ دلائی کہ وہ علم اشیا اور علم انسان میں فرق کریں۔ قیاس وگمان پر مبنی غلط تصورِ حیات کو انھوں نے مابعدالطبیعیاتی بے خبری (metaphysical ignorance) سے تعبیر کیا اور کہا کہ ’صحیح علم‘ کی غیر موجودگی میں تہذیب وتمدن کا قافلہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ برٹرینڈرسل نے سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پس منظر میں کہا تھا: ’’سائنسی تہذیب کو ایک اچھی تہذیب بننے کے لیے ضروری ہے کہ علم میں اضافے کے ساتھ دانش مندی میں بھی اضافہ کیا جائے۔ دانش مندی سے میرا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اختتام کا صحیح تصور‘‘۔ (مقالہ سائنٹی فک آؤٹ لک)

صحیح مقاصد ِزندگی کا تعلق یقینی طور پر صحیح تصورِ حیات سے ہے۔ سیّد حسین نصر کے بقول:  ’صحیح علم ‘ کا حصول انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ جو لوگ انسانی عقل کو ’عقلِ کُل‘ کا درجہ دیتے ہوئے تصورِ حیات کے بارے میں ’صحیح علم ‘ کو پالینے کی بات کرتے ہیں، دراصل وہ انسان کی جملہ صفات سے ناواقف ہیں۔ جہاں تک عالم بالا سے متعلق علم کا تعلق ہے وہ انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔

مولانا مودودی ؒ وہم،گمان ، قیاس اور حسی مشاہدے کی حقیقت کو سورۂ یونس کی آیت ۶۶ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔ ( تفہیم القرآن، دوم ،ص ۲۹۷)

سورۃ النحل آیت نمبر ۶۵ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒ نے فلسفیوں ، مفکرین اور سائنس دانوں کے علم مابعد الطبیعیات کی حقیقت بیان کی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرمایا کہ: ’’اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ‘‘ (النمل۲۷: ۶۵)۔ مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں: آسمان اور زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا جِنّ، فلسفیوں اور مفکرین نے تصورِ حیات کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ کسی علم کی بنا نہیں ہے بلکہ یہ سب گروہ ایک دوسرے سے مختلف راے رکھتے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کی تائید نہیں بلکہ عمومی طور پر تکذیب کرتے ہیں :’’اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن وتخمین کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے ‘‘(سیرت سرور عالمؐ، جلد اول ،ص ۴۷)۔ اور یہ کہ: ’’وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدّعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں، مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے ‘‘ (ایضاً، ص ۴۹) ۔

سورۂ یونس، آیت ۳۶ کی تشریح میں مولانا مودودی ؒ نے انسانوں کو توجہ دلائی ہے: ’’جنھوں نے مذاہب بنائے ، جنھوں نے فلسفے تصنیف کیے اور جنھوں نے قوانین حیات تجویز کیے، انھوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان وقیاس کی بنا پر کیا۔ اور جنھوں نے ان مذہبی اور دُنیوی رہنماؤں کی پیروی کی، انھوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بناپر ان کا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ‘‘ (تفہیم القرآن، دوم،ص ۲۸۵)۔

آج کی انسانیت کا المیہ یہ ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے وقت کے غالب تصورِ حیات، نظامِ حیات ، تہذیب وتمدن ، اخلاقی اصول اور سیاسی ضوابط سب کو بلا تامل قبول کرتی چلی آ رہی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کے سب قیاس اور گمان کا نتیجہ ہیں۔ اگرچہ ان سے کئی ایک سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں، مگر اس کے باوجود نہ تو کوئی سبق سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ان سے بچنا چاہتا ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا کے غالب تصورات ، نظام حیات ، اخلاق وقوانین ، رسم ورواج سب کے سب انسانوں کی جسمانی لذتوں کی تسکین کا باعث ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انسانیت صحیح تصورِ حیات سے غافل اور اس کے ’صحیح علم‘ سے یکسر محروم ان مقاصد کے لیے دن رات کام کر رہی ہے، جو خود انسانوں سے انسانیت کو ختم کر رہے ہیں۔ مگر وہ تمام لوگ جو قرآن سے واقفیت رکھتے ہیں، قرآن کے دیے ہوئے ’صحیح علم ‘ سے استفادہ کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ پوری ذہنی اور علمی طاقت کے ذریعے سے قرآن کے پیش کردہ تصورِ حیات اور نظام حیات کو مولانا مودودی ؒ کی طرح علم، حکمت اور دلیل کے ساتھ دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے پیش کریں ۔ آج یہ انسانیت کی ضرورت ہے اور یہی اس کی صحیح خدمت ہے۔ مولانا مودودی ؒ نے نہ صرف انسانیت کی بنیادی ضرورت سے اسے آگاہ کیا بلکہ اسے کھول کھول کر آسان طریقے سے بیان بھی کیا۔