مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔
وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟
عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔
وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔
خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔
’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟
دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔