۲۰۱۰ فروری

فہرست مضامین

بھارت میں بلاسود بنکاری

امجد عباسی | ۲۰۱۰ فروری | اسلامی معیشت

Responsive image Responsive image

بلاسود بنکاری کا رجحان اب اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ غیرمسلم ممالک میں بھی    بڑھ رہا ہے۔ اس کا ایک سبب اسلامی بنکاری کا حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی محفوظ سرمایہ کاری ہونا ہے،   جب کہ دوسرا سبب عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے پیش نظر مسلمانوں کے سرمایے کو بھی استعمال میں لانا اور بحران کی شدت میں کمی کرنا ہے۔ مسلمان چونکہ سود کی حُرمت کی بناپر سودی بنکاری سے اجتناب کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے سودی بنکوں میں بھی سود سے پاک بنکاری کے لیے کھڑکیاں یا کائونٹر کھولے جارہے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں بھارت میں بھی کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں ریزرو بنک آف انڈیا کو حکومت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ  وہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے۔ ایچ عبدالرقیب جنرل سیکرٹری انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) اور کنوینر نیشنل کمیٹی اسلامک بنکنگ نے حکومت کے اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ (ٹیلی گراف، ۶دسمبر ۲۰۰۹ء، بحوالہ: icif.trust@gmail.com)

بھارت اگرچہ جمہوریت کا دعوے دار اور ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا علَم بردار ہے مگر عملاً ہندو انتہا پسندی کے ہاتھوں جس طرح غیرہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر مظالم توڑے جاتے ہیں، ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے، احمدآباد اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اس کا کھلا ثبوت اور بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہیں۔ اس فضا میں بظاہر ’بلاسود بنکاری‘ کے لیے اقدام کرنا درحقیقت عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی سے بچنے اور مسلمانوں کے سرمایے کو استعمال میں لانے کی کوشش ہے۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کے آغاز کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے اور اس میں مسلم دانش وروں، اراکینِ پارلیمان اور بینکرز کا فورم انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) پیش پیش رہا ہے۔ اب یہ مطالبہ باقاعدہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سچرکمیٹی رپورٹ میں جس میں مسلمانوں کے معاشرتی و اقتصادی احوال کا جائزہ لیا گیا ہے، اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بھارت میں مسلمان کُل آبادی کا ۱۵ فی صد ہیں لیکن ملک کے ۲۷ فی صد پبلک سیکٹر کے موجودہ بنکوں میں ان کے کھاتوںیا اکائونٹس کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ دیگر اقلیتیں جن کی آبادی فقط ۶ فی صد ہے، کا تناسب ۸ فی صد ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بنکوں میں بھی مسلمانوں کے صرف ۲۰ فی صد کھاتے ہیں، جب کہ دیگر اقلیتوں کے ۵۱ فی صد کھاتے ہیں۔ اسی طرح رگھورام راجن کمیٹی رپورٹ میں اس بات کوتسلیم کیا گیا کہ کچھ مذاہب اور عقائد ایسے فنانشل اداروں کو ناجائزقرار دیتے ہیں جو سود کا کاروبار کرتے ہیں۔ چنانچہ بلاسود بنکاری کی غیرموجودگی میں کچھ ہندستانیوں کو جو اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایسے بنکوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے جسے وہ عقیدے کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس رپورٹ میں بھی بلاسود بنکاری کی سفارش کی گئی ہے۔

اسلامی بنکاری کے بلاسود ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دروازے غیرمسلموں کے لیے بھی بلااستثنا کھلے ہوئے ہیں۔ اس کو اپنانے کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر پس ماندہ طبقہ اس سے مستفید ہوگا بلکہ سود کے بوجھ سے بھی لوگ چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ اس نظام کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ریزرو بنک آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ لیگل نیوز اینڈ ویوز (۲۰۰۵ء) میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بلاسود بنکاری ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ اس لیے وقت آگیاہے کہ اسے بھارت میں بھی اختیار کیا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ سودی نظام کے مخالفین کی بڑی رقم ہندستان میں بے مصرف اور منجمد پڑی ہوئی ہے۔ اگر اسے معقول طریقے سے کاروبار میں لگایا جائے تو یہ ہندستان کی اقتصادی ترقی میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کے اثاثے ۱۵ کھرب کے قریب ہیں جو ۱۵ فی صد کی مقدار سے ہرسال بڑھ رہے ہیں۔ بلاسودبنکاری نظام ہندستانی بنکوں میں صرف ایک  ونڈو کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ (’’بلاسود بنکاری کا روشن مستقبل‘‘، پورینما ایس ترپاٹھی، ماہنامہ ملّی اتحاد، دہلی، دسمبر ۲۰۰۹ء)

وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا کے رحمن خان نے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس نے یہ راے دی ہے کہ بلاسود بنکاری کو ہندستان میں کسی دستوری ترمیم کے بغیر روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔ اس گروپ نے وزیراعظم کے سامنے ایک متبادل ماڈل بھی تجویز کیاہے جو ملایشیا کے تابنگ حاجی (Tabung Haji) کے طرز پر چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہوگا جہاں مسلمان اپنی بچت جمع کرا سکیں گے اور یہ مسلمانوں کو ادایگیِ حج میں سہولت مہیا کرے گا، اور ان کی بچت کی رقوم کو ایسے منصوبے میں لگائے گا جو شریعت کے ضوابط کے مطابق ہوں۔ اگر یہ ادارہ مسلم آبادی کے صرف ۱۵ فی صد کو بھی متوجہ کرسکے تو ۳ ہزار کروڑ روپے  کی رقم تین سے پانچ سال کے اندر جمع ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ اسدالدین اویسی کی سربراہی میں بلاسود بنکاری کے لیے ایک بل بھی پیش کرچکا ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں کمیونسٹ پارٹی، مارکسٹ سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور ڈی ایم کے بھی بلاسود بنکاری کی حمایت کرچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد خلیجی ممالک سرمایہ کاری کے لیے چین اور بھارت میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ خود بھارت کو اپنی ملکی ضروریات کے لیے  اگلے پانچ سال کے لیے ۵۰۰ بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی جس کا اظہار من موہن سنگھ قطر میں    اپنے دورے کے موقع پر کرچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ کھرب کی رقوم خلیجی ممالک میں اس انتظار میں پڑی ہیں کہ ہندستان میں بلاسود بنکاری کا آغاز ہو۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کا مستقبل روشن ہے، تاہم کچھ عملی دشواریاں ہیں۔ بھارت میں تمام بنک ۱۹۴۹ء کے ایکٹ کے تحت چلائے جا رہے ہیں جس میں بلاسود بنکاری کے آغاز کے لیے کم از کم چھے جگہ ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ ترمیم صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ جب تک پارلیمنٹ اس کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی، بھارت میں بلاسود بنکاری شروع نہیں ہوسکتی۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور دوسرے بہت سے حلقے اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہندوئوں کی ناراضی کا خطرہ مول لینے کے لیے کوئی تیار نہیں اور کوئی بھی اسلام پرست یا مسلم نواز ہونے کا الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پارلیمنٹ میں اس پر بحث نہیں ہوسکی۔ تاہم، اس مسئلے کا ایک درمیانی حل ملک میں موجود بنکوں میں بلاسود بنکاری کی ونڈو یا کائونٹر کھول کر نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ سے ایکٹ میں ترمیم یا قانونی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے موجودہ بنکنگ ایکٹ میں بنک کو کسی کمپنی کے لیے بطور ٹرسٹی کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس اجازت کی وجہ سے بنک کمپنیوں کے لیے غیرسودی سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو ادارے نیم بنکاری (پیرا بنکنگ) کا کام کرتے ہیں اور بلاسود بنکاری زیادہ تر نیم بنکاری کا کام کرتی ہے، سودی بنک بلاسود بنکاری ونڈو کے ذریعے ان کے ساتھ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ خیال رہے گذشتہ برس بھارت میں اُونچی شرح سود کی وجہ سے سودی بنکوں کی آمدنی میں اضافے کی شرح ۲۵ فی صد سے کم تھی، جب کہ غیرسودی آمدنی میں اضافے کی شرح ۴۰ فی صد سے زیادہ تھی۔ اس لیے بھی سودی بنک بلاسود بنکاری کرنا چاہتے ہیں۔ (’’ہندستان میں اسلامک بنکنگ: مسائل اور امکانات‘‘، سید زاہد احمد علیگ، سہ روزہ دعوت، دہلی، ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)

حال ہی میں بھارتی حکومت نے بنک قوانین میں تبدیلی کر کے ریزرو بنک آف انڈیا کو جو ہدایت کی ہے کہ وہ بلاسود بنکاری کو ممکن بنائے، بالآخر اس سے وہ راہ کھل گئی ہے جس سے بھارت میں بلاسود بنکاری کا خواب ایک حقیقت بنتا نظرآرہا ہے۔ یوں یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی جا رہی ہے کہ انسانیت کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بالآخر اسلام کی راہِ نجات ہی کو اپنانا ہوگا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اسلامی بنکاری وہ ہے جو شریعت کے تمام مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرے اور مقاصد ِ شریعت کے تابع ہو۔ جو تجربہ بھارت یا چند اور ممالک میں کیا جارہا ہے وہ بلاسود بنکاری تو ہوسکتا ہے اسلامی بنکاری نہیں۔ اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ بنک کے تمام معاملات اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں، اور بنک کے نظامِ کار یا فنڈ میں سود یا دوسرے حرام ذرائع سے آنے والی آمدنی گڈمڈ نہ ہو۔ بلاسود کائونٹر میں اس کا خدشہ ہوتا ہے جس کا سدباب ضروری ہے۔ اس بنا پر بھارت میں بنکاری کو بلاسود بنکاری قرار دیا جائے گا نہ کہ اسلامی بنکاری۔