’سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) کے ذریعے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی ملی بھگت کو بے نقاب کیا گیا۔ رشوت و بدعنوانی پر قائداعظم کے فرمان برمحل تھے، مگر قوم سمجھے بھی۔ ’فہم قرآن‘ میں مولانا مودودی کے مزید دروس کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ ایک مفید سلسلہ ہے۔ قرآن فہمی کے ساتھ ساتھ درسِ قرآن دینے والوں کی عمدہ رہنمائی بھی ہے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ میں موجودہ حکمران طبقے کے لیے سبق ہے کہ جنگ اپنی زمین پر گھسیٹ لانا غلط ہے اور کارکنان تحریک کے لیے تزکیہ و تربیت کا بہت سا سامان بھی۔
سید مودودیؒ کی حکمت سے بھرپور تحریر ’نفاق سے پاک اور غیرمشتبہ اخلاص‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) پڑھ کر دلی سکون نصیب ہوتا ہے۔ انھوں نے جس طرح بنی اسرائیل کی منافقتوں کا پردہ چاک کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاص کو پیش کیا، یہ بار بار پڑھنے کی چیز ہے۔ داعی الی اللہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں نے ہمیشہ جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا مگر جھوٹ کے مقابلے میں ابدی فتح ہمیشہ اخلاص کو حاصل ہوتی ہے۔ داعی کا کام بھی یہی ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ دعوتِ دین کے کام کو جاری رکھے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) تحریکی کارکنوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔
مولانا مودودیؒ کا سورئہ صف کا درس (جنوری ۲۰۱۰ء) شائع کر کے بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ میں جو نکات بیان کیے گئے ہیں وہ ہم سب، یعنی ایک ادنیٰ کارکن سے لے کر امیرجماعت تک کے لیے بہت ہی معنی خیز ہیں۔
’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) بھی معرکے کا مضمون ہے جس کے مطالعے سے بہت سی معلومات اور پہلو سامنے آئے۔ فقہی مسائل اور ان کے متعلق صحابہ کا طرزِعمل معلوم ہوا۔ آنحضوؐر کا طریق تربیت، مختلف حالات میں فیصلوں کی منطقی بنیادیں، اور صحابہ کرامؓ کے جذبۂ سمع و طاعت سے آگاہی ہوئی، نیز ذمہ داریوں اور مناصب کی تقسیم کا معیار سامنے آیا۔
خوب صورت اور دیدہ زیب نیا سرورق دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ’رسائل و مسائل‘ میں ’انقلابی تبدیلی کے لیے فرد کا کردار‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے تبدیلی کے لیے جس انداز میں فرد اور تحریک کے مطلوبہ کردار پر روشنی ڈالی ہے، اگر صرف تحریک سے وابستہ افراد ہی اس پر پوری طرح عمل پیرا ہوجائیں تو تبدیلی زیادہ دُور نہیں دکھائی دیتی۔ سری لنکا کے مسلمانوں کے حالات پڑھ کر تشویش ہوئی۔
امام حسن البنا کی تحریر ’نیا سال: ماضی کا جائزہ، مستقبل پر نظر‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) تذکیر اور دعوت کا حسین اسلوب ہے۔اس مختصر مگر جامع تحریر سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ داعیِ انقلاب کی نظر ہمیشہ اپنی دعوت پر مرتکز رہتی ہے اور وہ اپنی دعوت اور فکر کو پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔
’سیکولرزم، لبرلزم اور اسلام‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) وقت کی ایک بڑی ضروت کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا داعی ایک حلقہ موجود ہے جو اس کا مقدمہ پیش کرتا رہتا ہے۔ اس مضمون کو ان تک پہنچنا چاہیے۔
’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت نعیم صدیقی صاحب نے ’راہِ حق کی آزمایشیں‘ کے حوالے سے جنوری ۱۹۵۰ء میں جو تحریر فرمایا بالکل آج بھی وہی صورت حال ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ میں فرد کے کردار کے حوالے سے ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے بجا توجہ دلائی کہ عام شہری تبدیلیِ اقتدار میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
حافظ محمد ادریس صاحب کا مضمون ’اخوان المسلمون اور شام‘ (دسمبر ۲۰۰۹ء) مفید تحریر تھی۔ اگر اُمت مسلمہ کے اہم ممالک کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تومفید سلسلہ ہوگا، مثلاً عالمی معاشی بحران کے عرب امارات پر اثرات، عراق کی موجودہ صورتِ حال، صومالیہ کا مستقبل وغیرہ۔
’ذاتُ السلاسل‘ کا معرکہ‘ تاریخ کا یہ مطالعہ فکری و ذہنی تربیت کا ہمہ جہت رُخ واضح کرتا ہے۔
’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) مضمون میں ص ۴۹ پر غزوئہ موتہ کے حوالے سے تین جلیل القدر صحابہ کی فہرست میں پہلا نام حضرت زید بن ثابتؓ لکھا ہوا ہے جو دراصل حضرت زید بن حارثہؓ ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کی تاریخ وفات ۴۵ ہجری ہے۔
٭ حضرت زید بن حارثہؓ کا نام سہواً غلط لکھا گیا۔ قارئین تصحیح فرما لیں۔