راشد الغنوشی


تیونس میں جمہوریت کی طرف کامیابی سے منتقلی نہ صرف تیونس کے لیے بلکہ تمام خطے کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ خطے میں پہلا ملک ہوگا جو جمہوری بھی ہوگا اور مسلم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ     ہم تیونس میں اس ذمہ داری کے بوجھ کو محسوس کرتے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ ہمارا انقلاب برآمد کرنے کے لیے نہیں ہے لیکن ہمیں اُمید ہے کہ ایک کامیاب مثال (ماڈل) پورے خطے پر اثرانداز ہوگی۔

انتخابات سے قبل کے زمانے میں، ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے حکومت کرنا پسند کریں گے۔ ہم آزاد ارکان اسمبلی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرسکتے تھے لیکن ہم نے ایک ایسی اتحادی حکومت بنانے کو ترجیح دی جسے سیاسی تناظر میں وسیع پیمانے پر تائید حاصل ہو۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبوری دور میں سادہ اکثریت کی حامل حکومت ناکافی ہے، بلکہ ہمیں وسیع تر اتحادی حکومت کی ضرورت ہے جو یہ پیغام دے سکے کہ ملک سب کے لیے ہے نہ کہ محض اکثریت کے لیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معتدل اسلام پسند اور معتدل لادین عناصر مل کر  کام کرسکتے ہیں، اور کرنا چاہیے، اور انھیں سیاسی تناظر میں مفاہمت کے لیے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہم نے اپنی حد تک بہت کوشش کی ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر تقسیم سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ انتشار اور ناکامی کا نسخہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہ صرف حکومت کی تشکیل بلکہ آئین سازی میں بھی بہت سی رعایتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ہم اسلام پسندوں اور لادین عناصر کے بقاے باہمی کی ضرورت پر Troika (سہ رکنی کونسل) اور کانگرس براے ری پبلک اینڈ ڈیموکریٹک فورم براے ورک اینڈ لبرٹیز (Attakatol) کے فریم ورک میں یقین رکھتے ہیں۔ ان میں درج ذیل وجوہات شامل ہیں:

اوّل: اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت بالخصوص لادین عناصر کی ہو، جب کہ اسلام پسندوں کو ریاست کا دشمن تصور کیا جائے جنھیں نظربند کردیا جائے یا جلاوطن۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ لادین عناصر کو اقتدار سے محروم اور آئین سازی میں ان کے اختیار کو محدود کردیا جائے کیونکہ انھوں نے انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کی۔

دوم: اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حکومت، معاشرے اور انقلاب میں غالب ہوں گے کیونکہ وہ سب سے زیادہ مقبول پارٹی ہیں جیساکہ ماضی کے  دورِاستبداد میں روا رکھا جاتا تھا۔ ریاست کا کردار عوام پر ایک مخصوص طرزِ زندگی مسلط کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا کردار عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہے اور پھر ان کو اپنی پسند کے مطابق طرزِزندگی اختیار کرنے کی آزادی دی جائے۔

سوم: لادین عناصر اور اسلام پسندوں کے درمیان تصادم، جوکہ عشروں سے جاری ہے، بہت سی توانائیوں کے ضیاع کا باعث اور آمروں کے ہمارے ملکوں پر مسلط ہونے میں مددگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان اتحاد ایک آزاد جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے جو اپنے اختلافات کو سنجیدہ اور مخلصانہ مکالمے کے ذریعے حل کرسکے۔

دستور کا مسئلہ

آئین ایک اہم دستاویز ہے جو حکومت اور انتظامیہ کی حدود کا تعین کرتی ہے اور انھیں پابند کرتی ہے کہ قانون کی پابندی کریں۔ ہمارے پاس اسلامی تاریخ میں الصحیفہ [میثاقِ مدینہ] کے عنوان سے ایک مثال ہے جو رسولِؐ خدا کے ہاتھوں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کے وقت سامنے آئی۔ اس آئین نے ایک ہمہ جہتی ریاست کو تشکیل دیا جو مختلف قومیتوں اور مذاہب کو قریب لانے کا باعث بنا اور شہریت کی بنیاد حقوق اور فرائض پر رکھی۔

یہ بات ہمارے لیے باعث ِ مسرت ہے کہ گذشتہ دنوں تیونس میں آئینی اسمبلی کی کمیٹیوں نے دستور کے حتمی مسودے پر کام مکمل کرلیا ہے۔ امید ہے کہ یہ اگلے چند ہفتوں میں اسمبلی کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس دستور میں ہمارے لیے بنیادی رہنما اصول یہ ہے کہ یہ صرف سادہ اکثریت کا دستور نہ ہوبلکہ یہ پوری تیونس قوم کا دستور ہو۔ پوری قوم اس دستور میں اپنے آپ کو  دیکھ سکتی ہے اور یہ محسوس کرسکتی ہے کہ یہ سب کا ترجمان ہے خواہ اکثریت ہو یا اقلیت۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہم نے بڑے پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مشاورت کی۔ اس عمل کے ذریعے ہم نے بڑے پیمانے پر دستور پر اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، جب ہمیں مختلف مسائل، مثلاً شریعت، سیاسی نظام خواہ صدارتی ہو یا پارلیمانی، آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کی آفاقیت میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، تو ہم نے قومی سطح پر اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ملک کی اہم جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے جو کہ تقریباً پانچ ہفتوں تک جاری رہے اور ان کا اختتام ان اہم مسائل میں مفاہمت پر ہوا۔ چنانچہ ہم نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا کہ دستور میں شریعت کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ تیونس کے عوام کے لیے سیاسی نظام کے حوالے سے یہ تصور واضح نہ تھا۔ گو، ہم نے ابتدائی طور پر پارلیمانی نظام کو اختیار کیا ہے لیکن ہم اس معاہدے پر بھی پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں ملاجلا نظام ہوگا جس کے مطابق اختیارات صدر اور وزیراعظم کے درمیان تقسیم ہوں گے۔ ہم نے انسانی حقوق کی آفاقیت اور آزادیِ اظہار کو بھی ایک معاہدے کے تحت تسلیم کیا ہے۔ ہماری جماعت کے اندر کچھ لوگوں نے قیادت پر یہ الزام بھی لگایا کہ ہم ایک مفاہمتی جماعت بن کر رہ گئے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت ہونے کے ناتے یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ناگزیر اُمور میں مفاہمت اختیار کریں۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا مسودۂ دستور ہے جو اسلام کی اقدار، جدید روایات اور جمہوری روایات کو یک جا کردیتا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے عظیم مفکرین و مصلحین کا خواب تھا اور ہمیں امید ہے کہ اس دستور کی توثیق سے ہم اس خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے۔  نیادستور مساوات، مختلف آزادیوںاور حقوق اور اختیارات کی تقسیم جیسی تمام اقدار پر مشتمل ہے۔

ہمیں اُمید ہے کہ جب دستورمنظور ہوجائے گا تو پورے ملک میں دوسرے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی۔ یہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوںگے اور دنیابھر میں ہمارے بہت سے احباب ان انتخابات کو دیکھنے اور نگرانی کے لیے تشریف لائیں گے تاکہ ان کی دیانت و صداقت کی ضمانت دے سکیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ تمام جماعتیں اس میں حصہ لیں گی۔ صرف ایک پھول سے بہار کا سماں نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ انتخابات اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں کہ جمہوری عمل کو واپس لوٹایا نہیں جاسکتا۔

درپیش چیلنج

پہلا چیلنج اقتصادی اور سماجی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انقلاب کے اہم عناصر میں سے یہ ایک اہم عنصر ہے۔

ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور ان کا صبر بہت کم۔ اقتصادی صورت حال بھی اہم مسئلہ ہے۔ یورپ میں ہمارے اہم تجارتی پارٹنر کے متاثر ہونے سے ہماری برآمدات اور سیاحت بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ان تمام مسائل کے علی الرغم حکومت بے روزگاری کو ۲فی صد تک، یعنی ۱۸فی صد سے ۱۶فی صد تک کم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ پیداوار میں بھی ۲۰۱۲ء کے ۵ء۳ فی صد کے مقابلے میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا ۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں بھی اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال ۶۰لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی تھی۔ تاہم، وہ نوجوان جنھوں نے سعیدی بوزید اور کسرین میں انقلاب برپا کیا تھا، انھیں اپنی زندگیوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ یہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔

دوسرا چیلنج سیکورٹی کا ہے۔ انقلاب نے ریاست اور اس کے اختیارات کو کمزور کردیا ہے۔ اس لیے مختلف گروپوں کو موقع مل گیا ہے کہ اپنی حدود سے آگے بڑھیں اور قانون کی خلاف ورزی کریں۔ دونوں طرف کے انتہاپسندوں، یعنی دائیں طرف کے مذہب پسند اور بائیں طرف کے انتہاپسند، نے کوشش کی ہے کہ قانون کو بالاے طاق رکھتے ہوئے بزور اپنے تصورات کو لوگوں پر مسلط کریں۔ ہم نے ان گروپوں سے کہاہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سمجھیں کہ جمہوریت کمزور پڑگئی ہے۔ ہم بتدریج ریاست کے اختیار کو مؤثر بنارہے ہیں لیکن آمریت کی طرح خوف کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قانون کی بالادستی کے تصور کی بنا پر۔

سلفی مسئلے کے ضمن میں، مَیں اس بات پر زور دوں گا کہ یہ عنصر بن علی کے دورِحکومت کا پھل ہے نہ کہ جمہوریت کا۔دوسرے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے لہٰذا اس کا حل بھی پیچیدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ مسئلہ غریب آبادیوں میں پایا جاتا ہے، لہٰذا ترقیاتی کام اس مسئلے کے حل کا حصہ ہونے چاہییں۔

ہمیں اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک کثیرجہتی مسئلہ ہے، اور یہ پُرتشدد نہیں ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سلفیوں کو پُرتشدد عناصر سے الگ کرکے تشدد سے دُور رکھنے کی کوشش کریں اور پُرتشدد عناصر کو اقلیت میں تبدیل کردیں۔ اس مقصد کا حصول مکالمے اور انھیں اس بات پر قائل کرنے سے کہ ان کا اسلام کا تصور غلط ہے، ممکن ہے۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر انھیں ایک شہری کی حیثیت سے مکمل حقوق حاصل کرنا ہیں تو پھر انھیں قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔

اس مسئلے کے حل کا تیسرا پہلو سیکورٹی ہے۔ وہ لوگ جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں یا پُرتشدد انداز میں دوسروں پر اپنے تصورات مسلط کرتے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومت نے گذشتہ برس میں سیکڑوں ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے کیا ہے جنھوں نے قانون شکنی کی کوشش کی۔ بعض ایسے افسوس ناک پُرتشدد واقعات میں ملوث لوگوں کو گرفتار بھی کیا جنھوں نے کچھ لوگوں کو قتل کردیا۔ سیکورٹی کا یہ حل انسانی حقوق کے احترام اور قانون کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے کیا جانا چاہیے نہ کہ آمریت کے زمانے کی طرح، جب کہ حقوق کا کسی بھی طرح احترام نہ کیا جاتا تھا۔

تیونس میں آمریت کا زوال وہ شعلہ ہے جس نے عرب بہار کو برپا کیا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ تیونس کے تجربے کی کامیابی اس پُرامن اور جمہوری راستے کو آگے بڑھائے گی۔ تیونس نے ثابت کیا ہے کہ عرب بہار بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہورہی۔ آج ہم آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ یہ ’مذہبی‘ اور ’سیکولر‘ بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہوگی بلکہ ایک جمہوری بہار میں تبدیل ہوگی جہاں سب کے لیے جگہ ہوگی (ترجمہ: امجد عباسی)۔ (بہ شکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی ، دہلی، ۲۹ جون ۲۰۱۳ء)


راشد غنوشی النہضہ پارٹی، تیونس کے صدر ہیں

ترجمہ: محمدظہیرالدین بھٹی

شمال مغربی افریقہ میں واقع عرب ممالک تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیا، لیبیا کو ایک ہی معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اِن ممالک کی سرحدیں ان کا استحصال کرنے والی بڑی مغربی اقوام سے گھری ہوئی ہیں۔ یہ استعماری طاقتیں ماضی میں ایک سے زیادہ بار انھیں ہڑپ کرکے اپنے اپنے ملک میں شامل کرنے کی مذموم کوششیں کرچکی ہیں۔

اس خطے میں اسلامی تحریک گذشتہ صدی کی ۷۰ کی دہائی میں اس وقت برپا ہوئی جب اسے ’سیکولر‘ یا ’مغربی بنانے‘ ، اس کی تہذیب کو کھوکھلا کرنے اور اسے دنیاے قدیم میں محصور کر دینے کی کوششیں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھیں۔ ان ممالک کے مسلم معاشرے، بالخصوص اسکولوں،   یونی ورسٹیوں، کلبوں، انتظامی اور مالی امور کے شعبوں پر فرانسیسی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مراکش اور تیونس دونوں ایک مدت سے فرانسیسی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ صدی کے ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں یونی ورسٹیوں میں تدریس کی زبان فرانسیسی تھی۔ تاہم، طاقت ور اسلامی رجحان کی بدولت ۷۰ کے عشرے کے اختتام میں عربی کو تدریسی زبان بنوانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ تحریکِ اسلامی اللہ کے فضل و کرم سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اسلام کو نوجوان نسل کے قلب و دماغ میں ازسرِنو راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نتیجتاً نوجوان نسل انتہائی تیزی اور قوت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہوگئی۔

اسلامی تحریک کو مختلف سطحوں پر مسلسل ایسی سازشوں کا ہدف بنایا گیا جو اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں نے ان ممالک کے اسلامی تشخص کا معرکہ جیت لیا، حتیٰ کہ تیونس پر مسلط سنگ دل و بدمزاج سیکولر نظام___ جو دینی شعائر اور اسلامی تعلیمات کا سخت مخالف تھا___ بھی اس بات پر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اسلامی شناخت رکھنے والے اطلاعاتی و نشریاتی چینلوں کو کھولنے کی اجازت دے، اور سیاسی اسلام کے حقیقی نمایندوں، مثلاً شیخ القرضاوی اور الشیخ سلمان العودۃ کو تیونس کے تبلیغی ودعوتی دورے کرنے میں مزاحم نہ ہو۔

لیبیا کے ماسوا عالمِ عرب کے اس پورے مغربی خطے کے ممالک میں عربیت اور فرانسیسیت کے حامیوں کے مابین ثقافتی معرکہ آرائی اب تک جاری ہے۔ کسی فریق کو اگر ایک قدم کامیابی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے قدم پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی فرانسیسی زبان انتظامیہ، مالی امور، یونی ورسٹی کی تعلیم، میٹرک کی سطح کی تعلیم، بلکہ پرائمری تعلیم تک چھائی ہوئی ہے۔ الجزائر میں تعریب (Arabization) کا جو پروگرام شروع ہوا تھا، ۱۹۹۲ء میں اسلامی محاذ (الجبھۃ الاسلامیۃ) کو کچلنے کے بعد اسے مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔

آیئے ان ممالک کی موجودہ صورت حال کا مختصر جائزہ لیں:

  • تیونس: تیونس میں اسلامی بیداری کی لہر کو مسلسل بیخ کنی کی پالیسی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ اور موجودہ دورِ حکومت میں وہاں پر اسلام کے سرچشمے خشک کرنے کی پالیسی پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اسلام سے متعلق ہر چیز کو ہدف بنایا گیا، حتیٰ کہ ایک لمبے عرصے تک نماز کی ادایگی کو بھی سیاسی صف آرائی کی علامت قرار دیا جاتا رہا۔ حجاب ممنوع تھا اور اب تک ممنوع ہے۔ اسلام سے متعلق لٹریچر___ حتیٰ کہ قدیم اسلامی کتب کی اشاعت اور تہذیب و تالیف پر پابندی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے سیاسی امور سے متعلق شعبے کے کمیونسٹ افسروں کی اجازت کے بغیر پورے ملک میں کوئی کتاب قابلِ مطالعہ نہیں ہوتی۔ یہ اقدامات ۱۹۸۹ء کے ان انتخابات کے بعد شدید تر ہوگئے جس میں حرکۃ النہضۃ الاسلامیۃ (اسلامی تحریک نہضت)نے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ جمہوریت کے دعوے دار مغربی ممالک کی آشیرباد سے انتخابی نتائج مسخ کر دیے گئے اور کامیاب امیدواروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

تیونس اب تک یہ انتخابی نتائج تبدیل کر دینے اورعوام کی راے سلب کرلینے کے بداثرات سے چھٹکارا نہیںپا سکا۔ برسرِاقتدار ٹولہ ملک پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہر جتن کررہا ہے۔ وہ اب تک اسلامی تحریک کی اس پیش رفت کو ہضم نہیں کرپایا۔ اس کی ہرممکن کوشش ہے کہ قوم کے دل و دماغ سے تحریکِ نہضت کی قربانیوں اور انتخابی کامیابی کو نام نہاد ترقی کے نعروں کے ذریعے  محو کردے۔ حکمرانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کریں گے۔ حکمران ٹولے کی تمام پالیسیوں میں یہی سوچ اور یہی خوف غالب ہے۔ اس پالیسی کو اپنانے اور جاری رکھنے میں حکمران ٹولے کو بیرونی سانحات و واقعات سے بھی خوب تقویت ملی ہے۔چنانچہ الجزائر کے اسلامی محاذ کے خلاف حکومتِ الجزائر کے اقدام سے شہ پاکر تیونسی حکومت نے بھی اسلامی تحریک کو مزید کچلنا شروع کر دیا اور ۱۱ستمبر کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر شروع ہونے والی عالمی امریکی یلغار کو بھی اپنے انھی مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کیا۔

  • الجزائر: اب تک ۱۹۹۲ء کے ان انتخابات کے نتائج کے خوف میں مبتلا ہے جنھیں مسترد کرکے فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تحریکِ اسلامی کو کچلنے کے لیے فوج کی برپا کردہ شورش کو ۱۵ برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں الجزائر کو ’اسلامی خطرات‘ سے ’محفوظ‘ کرنے کے کئی اقدامات کیے جاچکے ہیں، مگر ابھی تک الجبھہ الاسلامیۃ للانقاذ (اسلامک سالویشن فرنٹ) کا ہوّا اور خوف، فوج کے ذہن و قلب پر چھایا ہوا ہے۔ فوج نے قوم کے حق راے دہی اور اس کے شہری اداروں کی خودمختاری کو سلب کررکھا ہے۔ فوج کو ہر وقت یہی اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اُسے پھر اسلامک فرنٹ جیسی کسی قوت کی کامیابی کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑ جائے۔

اس ہدف کے حصول کے لیے حکمران ٹولہ ہر حربہ آزما چکا ہے، کئی صدر تبدیل کیے جاچکے ہیں، کئی بار انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا ہے۔ انھوں نے تمام سیاسی حتیٰ کہ مسلح گروہوں سے بھی مصالحت کے متعدد دَور کیے ہیں، لیکن وہ کسی بھی صورت میں اسلامی محاذ اور اس کی اہم شخصیات کو میدانِ سیاست میں واپسی کا راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورت حال کو اسلامی فرنٹ کی قیادت کو ہمیشہ کے لیے سیاست بدر کرنا قرار دیا جاسکتا ہے، نیز اس سے ملک پر مسلط ایجنسیوں کی طاقت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے، جو عوام کے حقیقی عوامی نمایندوں کو ہر حالت میں اقتدار سے دُور رکھنے پر مُصر ہیں۔

۹۰ کے عشرے سے لے کر اب تک الجزائر میں پانچ صدر برسرِاقتدار آچکے ہیں، بیسیوں وزرا آئے اور چلے گئے مگر ایک شخصیت ایسی ہے جو اب تک اپنے منصب پر قائم ہے اور وہ ہے عسکری انٹیلی جنس کے محکمے کا سربراہ۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اقتدار کے سرچشمے کا اصل مالک کون ہے؟

سیاسی ڈرامے میں شریک سبھی لوگوں نے اسلامی فرنٹ سے عوام کی وابستگی کھرچنے کے لیے باہم تعاون کیا ہے، مگر اس سال کے آغاز میں فلسطین میں غزہ کے واقعات نے گھڑی کی سوئیوں کو واپس ۷۰ کی دہائی میں پہنچا دیا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے اسلامی فرنٹ کے   اہم رہنما علی بلحاج اور ان کے ساتھیوں نے ۱۰ لاکھ افراد پر مشتمل جلوس کی قیادت کی، جس میں ۷۰کی دہائی میں لگنے والے نعرے پھر دہرائے گئے۔ قومیں زود فراموش نہیں ہوا کرتیں بالخصوص الجزائری قوم جیسی مضبوط اعصاب کی مالک قوم کا حافظہ کمزور نہیں ہوا کرتا۔ لیکن اس قوم کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ الجزائر کے موجودہ سیاسی نظام کا ڈھانچا اور مزاج بالکل اپنے برادر ملک تیونس جیسا ہے۔

  • موریتانیا: تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں کو کچلنے کے اقدامات نے موریتانیا کی سیاسی صورت حال پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں، جہاں اسلامی تحریک کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں موریتانیا کے حکمران ولدالطائع کی حکومت جاتی رہی۔ اس سے قبل اسلامی تحریک کوتسلیم کرلیا گیا تھا، اسے پارلیمنٹ میں جانے کا موقع بھی ملا اور ملک کی انتظامیہ میں بھی۔ یہ اس وقت ہوا جب ابھی فوج نے قومی حق خود ارادیت پر ایک بار پھر شب خون نہیں مارا تھا۔ فوج کے اس اقدام نے وقتی طور پر اسلامی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ تحریکِ اسلامی، موریتانیا میں جمہوریت کی جانب واپسی کا نعرہ بلند کرنے والوں میں سرفہرست تھی۔ فوجی ٹولے نے اصولی موقف اور ترقی پذیر سوچ کے حامل افراد کو مسترد کر کے، فرینڈلی حزبِ اختلاف کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ اگرچہ موریتانیا کے کچھ بالائی طبقے فرانسیسی زبان و تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، تاہم مجموعی طور پر موریتانیا اب بھی شرعی علوم اور عربی علوم و آداب کا مضبوط قلعہ ہے۔ تحریک اسلامی کے دینی تعلیمی ادارے اور تحریکی علماے کرام معاشرے میں انتہائی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
  • مراکش: مقامِ شکر ہے کہ تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں اور جمہوریت کے خلاف کیے گئے اقدامات نے مراکش پر زیادہ منفی اثرات نہیں ڈالے۔ وہ اب تک اپنی مستحکم تاریخی و دینی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہاں پر بادشاہ اور عوام کے مابین تعلق، بڑی حد تک باہمی احترام اور خیرسگالی پر مبنی ہے اور ایک ایسا سیاسی نظام قائم ہے جس میں کسی قدر جمہوریت سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی رجحانات رکھنے والے گروہوں ___ جن میں اسلام پسند طبقے بھی شامل ہیں___ کے مابین ایک طرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان میں بائیں بازو کے کچھ ریڈیکل گروپ ہیں اور کچھ سلفی جہادی گروپ، تاہم ان میں جماعۃ العدل والاحسان شامل نہیں ہے۔ ان اسلامی گروپوں میں سے جو غیرتشدد پسند ہیںجیسے جماعۃ العدل والاحسان ___ ان کے ساتھ سرکار کے تعلقات قدرے کشیدہ اور محتاط نوعیت کے ہیں اور ان تعلقات کی وہی نوعیت ہے جو مصر میں اربابِ اقتدار کی اخوان سے ہے۔ البتہ مراکش میں تشدد پسند مسلح جماعتوں کے خلاف مملکت کی تلوار ہر وقت بے نیام رہتی ہے۔

مراکش میں اسلامی تحریک کی سیاسی جماعت العدالۃ والتنمیۃ (انصاف و ترقی پارٹی) کو ایک ایسی پوزیشن حاصل ہے جس نے اُسے حکومت مخالف پارٹیوں کی صف اوّل میں شامل کر دیا ہے۔ اس پارٹی نے یہ مقام ریڈیکل سے اعتدال پسند ہونے کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔

مراکش میں بھی سماجی اور معاشی مسائل دیگر مسلمان ممالک کی طرح سنگین ہیں۔ اقتدار اور سرمایے سے وابستہ حکمران طبقے اور عوام الناس کے مابین بہت زیادہ فرق ہے۔ا س وجہ سے فساد، غربت، بے روزگاری اور قومی غیظ و غضب میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مراکش کے حکمرانوں اور سیاسی عمل میں شریک پارٹیوں کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہی چیلنج ___ لیبیا کے استثنا کے ساتھ___ خطے کے باقی ممالک کے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے۔ تغیر اور تبدیلی کی تحریکوں کے لیے یہی چیلنج ایندھن کا کام دیا کرتا ہے۔

تعلیمی و ثقافتی منظر پر سیکولر طاقتوں اور اسلام چاہنے والوں، فرانسیسی بولنے والے اور عربی بولنے والوں کے مابین ایک تصادم اور کش مکش برپا ہے، جس میں اسلام اور عربیت کا پلّہ بھاری ہے۔

  • لیبیا: لیبیا کی صورت حال کے مطالعے سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مغربی ثقافتی یلغار نسبتاً کمزور ہے، عربی اسلامی ثقافت کو برتری حاصل ہے، اور عربی زبان کو کسی لسانی مخالفت کا سامنا نہیں ہے، البتہ یونی ورسٹیوں کے کچھ شعبوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم ہے۔ دوسری یہ کہ اسلام پسند گروہوں کے ساتھ حکومت کے تعلقات نسبتاً بہتر ہیں، جن میں سے کچھ اخوان ہیں اور کچھ جہادی تنظیموں سے متعلق لوگ ہیں۔ القذافی فائونڈیشن نے اسلام پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ اس کی ابتدا، جیل میں قید اور جیل سے باہر اخوانیوں سے ہوئی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں انھیں رہا کرکے ملازمتوں پر بحال کر دیا گیا اور مدتِ اسیری کی تنخواہیں بھی ادا کر دی گئیں۔ ان کی سرگرمیوں کے لیے مناسب دائروں کے تعین کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مذاکرات کا دائرہ اب ’مسلح اسلامی جماعت کے قیدیوں‘ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اب مذاکرات اس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں کہ یہ لوگ تشدد کی کارروائیاں بند کردیں گے اور حکومت باقی ماندہ قیدیوں کو رہا کر دے گی تاکہ یہ بھی ملک کے باقی شہریوں کی مانند اس اصلاحی منصوبے میں شرکت کے اہل ہوسکیں جس کی قیادت القذافی فائونڈیشن کر رہی ہے اور جس کا مقصد دستور کی بالادستی بحال کرنا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دستوری پوزیشن کی بحالی کے لیے قومی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ ان کانفرنسوں کے شرکا کا ایک گروپ لیبیا کے لیے ایک نئی دستوری دستاویز تیار کرے گا۔ تحریکِ اسلامی کے کچھ افراد جیسے الشیخ علی الصلابی بھی ان ماہرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔یہ منصوبہ ابھی حکام اور اپوزیشن کے مابین زیربحث ہے۔

تحریک اسلامی کا مستقبل

ان ممالک میں تحریک اسلامی کا مستقبل کیا ہے؟ اس حوالے سے یہ نکات قابلِ غور ہیں:

  • جبر کے باوجود بیداری کی لھر: ثقافتی و تعلیمی لحاظ سے اس خطے کے ممالک میں دو طرح کے حالات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ممالک ہیں جن میں اسلام اور عربی زبان و ثقافت کے بارے میں اعتدال کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اگرچہ وہاں کاحکمران طبقہ اس اعتدال کا پابند نظر نہیں آتا،بالخصوص الجزائر اور مراکش میں، جہاں فرانسیسی زبان بولنے والوں کا طبقہ تعلیم و تدریس، ذرائع ابلاغ اور سیاست کے میدانوں میں گہرے اثرورسوخ کا مالک ہے، لیکن یہ لوگ راے عامہ کے نمایندے نہیں، اس لیے تحریکِ اسلامی کے ساتھ ان کا ٹکرائو رہتاہے۔ یہاں اسلام اور سیکولرازم کے مابین تصادم بھی جاری ہے۔ اس تصادم کا اصل اور نمایاں سبب تو سیاسی کش مکش ہے، تاہم تعلیمی و ثقافتی وجہ بھی موجود ہے۔ یہ صورتِ حال موریتانیا سے لیبیا تک کے اکثر ممالک میں پائی جاتی ہے۔

دوسری صورتِ حال کا نمونہ تیونس ہے۔ تیونس پر اپنے بانی صدر بورقیبہ کی گہری چھاپ ہے۔ جس نے کچھ اپنی کوشش اور کچھ بیرونی استعماری طاقتوں کی مدد سے ’قومی تحریک‘ کی قیادت پر قبضہ کر لیا۔ صدر بورقیبہ کچھ زیادہ ہی مغرب زدہ تھے۔ اتاترک اس کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ ان دونوں باتوں نے اس کی شخصیت و ذہنیت کو ایک خاص نہج پر ڈھال دیا۔

الجزائر، مراکش اور موریتانیا میں بھی کم و بیش تیونس جیسے گروہ کو اقتدار سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ہے، مگر یہ لوگ اقتدار کی بنا پر وہ کچھ نہیں کرسکے جو تیونس میں ہوا۔ ان تینوں ممالک میں حکمران ٹولے کو تیونس کی طرح کا مغرب زدہ معاشرہ ورثے میں نہیں ملا۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ نے ملک کا سربراہ مقرر ہوتے ہی اسلام کے عقائد، شریعت اور شعائر پر حملوں کا آغاز کر دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں ایک انتہاپسند سیکولر اور مخالفِ اسلام ٹولہ وجود میںآگیا۔ اس گروہ نے اسلام کو ختم کر دینے یا پھر اسے مغربی نمونے کے مطابق ڈھالنے کا مشن سنبھال لیا۔ اس طرح تیونس میں عوام الناس سے الگ اتھلگ ایک اعلیٰ طبقہ قائم ہوگیا جو عوام کو حقیروکمتر سمجھتا تھا۔ رنگ و نسل پر مبنی ایک سخت متعصبانہ نظام میں جو تعلق گوروں کا سیاہ فاموں سے ہوتا ہے وہی اس طبقے کا عوام سے تھا۔ عصرِحاضر کے مشہور مؤرخ پروفیسر محمدالطالبی نے اپنی کتاب الانسلاخیّوں میں اس طبقے کے حالات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس قسم کے طبقۂ اشرافیہ کے ساتھ معاملہ کرنا بہت مشکل تھا۔

تیونس کے موجودہ صدر زین العابدین بن علی کے دورِ حکومت میں اس سیکولر انتہاپسندی میں کسی قدر کمی ہوئی ہے، کیونکہ عوام نے اس انتہاپسندی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔   بن علی کا تعلق بھی اِس مخصوص سیکولرلابی سے تھا، اقتدار پر ذاتی تسلط رکھنے کی اس کی حرص، نیز سیکورٹی کے بارے میں اس کے مخصوص مزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اقتدار پر اپنے شخصی تسلّط کے لیے تحریکِ اسلامی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور اسے کچلنے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں تحریکِ نہضت کی کامیابی نے اس کے ارادوں کو مزید پختہ کیا۔ یہ نتائج خود تحریک کے لیے بھی حیران کن تھے، چنانچہ صدر بن علی نے نہضت کو مکمل طور پر میدان سے باہر دھکیلنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے تمام سیاسی اور نظریاتی مخالفین سے بھی مدد لی۔ ان سب لوگوں نے اسلام عربیت اور اسلامی ثقافت پر یلغار کی خاطر صدر بن علی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ تاہم ، گذشتہ برسوں میں سیکولر اتحاد میںقدرے کمی آئی ہے، اسلامی تحریک کو کچلنے کے جامع سیاسی منصوبے پر اب بھی اسی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ جیلوں سے نہضت کے تقریباً ۳۰ ہزار قیدی رہا ہوچکے ہیں۔ اب صرف اسلامی تحریک کے سابق سربراہ ڈاکٹر صادق شورو اور ان کا بھائی جیل میں رہ گئے ہیں۔ جیلوں سے رہا ہونے والے یہ ہزاروں شیدائیانِ اسلام اپنے دین پر استقامت سے قائم رہے ہیں۔ انھوں نے اذیت رسانی کا ہر مرحلہ بڑی پامردی سے طے کیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے شہادت کے منصب پر فائز ہوکر یا بتدریج موت کے منہ میں جاکر اپنے پیچھے عظیم یادیں چھوڑی ہیں۔ ہزاروں نوجوان تنگ و تاریک جیلوں سے باہر آکر اب ملک کی کھلی اور متحرک جیل میں آچکے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں ہیں، ملک سے باہر جاسکتے ہیں، نہ ملک کے اندر سفروحرکت میں آزاد ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ علاج معالجے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ سیاسی اور سماجی تنہائی کا شکار ہیں۔ گویا وہ غزہ میں محصور ہیں۔ ان کی اس حالت کو بجا طور پر قسط وار موت کہا جاسکتا ہے۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ ملک کی جیلیں اب خالی پڑی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جیلوں کو ملک کی آزادی کے بعد کبھی ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں رکھا گیا۔ ایک گروپ رہا ہوتا ہے تو دوسرا   اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ پہلے بائیں بازو والوں کی جگہ اسلام پسند بند رہے۔ آج کل نہضت کے کارکنوں کی جگہ الصحوۃ ’بیداری‘ کے نوجوانوں کا اسلامی گروپ بند ہے۔

تیونس کے ماضی قریب کے حالات کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کا سرکاری منصوبہ بیداری کی نئی لہر کے سامنے بالکل ناکام ہوگیا ہے، اسی طرح برسرِاقتدار طبقے کا تحریکِ نہضت کو کچلنے اوراسے الگ تھلگ کرنے کے منصوبے کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ چنانچہ نہضت حزبِ مخالف کی مختلف الجہات جمہوری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے دوبارہ میدانِ سیاست میں آچکی ہے۔ نہضت نے اپنی کارکردگی پر نظرثانی کی ہے اور حالات و مواقع کا اندازہ لگانے میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کا برملا اعتراف کیا ہے۔

بیداری کی اس تازہ لہر کی وجہ سے حکومت نے بھی، اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کے اپنے منصوبے سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ چنانچہ حکومت نے ریڈیو الزیتونۃ کو  قرآن کریم کی تلاوت و تشریح اور دینی مواعظ کی اجازت دے دی ہے۔ اس ریڈیو اسٹیشن نے بہت تھوڑی مدت میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مخالفوں کو کچلنے کی سیاست سے یہ تدریجی پسپائی کمیونسٹوں اور بورقیبوںکے لیے باعثِ تشویش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور آمریت کے سہارے پھر سے تحریک نہضت کو اپنا سیاسی ہدف بنائیں۔

فی الوقت کوئی ایسی علامات سامنے نہیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ برسرِاقتدار طبقہ تحریکِ نہضت ___ یا کسی بھی سخت جان حزبِ مخالف کو مٹانے کے اپنے پروگرام سے دست بردار ہوجائے گا۔ تیونس کے ماضی کے ورثے میں استبداد اور شخصی حکمرانی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔    یہ خیال کہ تیونسی حکمران اپنی روش بدل لیں گے محض ایک دل فریب آرزو ہے، تاہم پیش رفت  ضرور ہے جو خوش آیند بات ہے۔

  • سیاسی تشخص: ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے مختلف سطحوں پر جس طرح اپنے تشخص کا معرکہ جیت لیا ہے، اسی طرح اُس نے کبھی حکومت میں شریک ہوکر اور کبھی حزبِ اختلاف کی صورت میں اپنا سیاسی وجود بھی منوا لیا ہے۔ اس نے نوجوان نسل کے دلوں تک رسائی حاصل کرلی ہے اور یوں مراجعت الی الاسلام (اسلام کی طرف واپسی) کی منزل قریب آگئی ہے۔ اگر کوئی محقق اس بات کا تدریجی جائزہ لے کہ تیونس میں حقوقِ انسانی کے مسئلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے تو وہ یقینا اس نتیجے تک پہنچے گا کہ تحفظ حقوقِ انسانی کی جدوجہد میں تحریکِ اسلامی کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔

جب حقوقِ انسانی کے تحفظ کی خاطر تیونسین لیگ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا تو مارکسی طاقتوں نے اس تنظیم سے حامیانِ اسلام کو دُور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر اب  حقوقِ انسانی کی ان تنظیموں کی کامیابی سب کو دکھائی دے رہی ہے جو اسلام پسندوں کے قریب تر ہیں۔ پہلے یہ تنظیمیں بائیں بازو کے کسی شخص کا پاسپورٹ ضبط کروانے کی تو مذمت کرتی تھیں مگر اسے ان ہزاروں سیاسی قیدیوں کے بارے میں لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی تھی جن کی کھالیںادھیڑی جارہی تھیں۔ وہ ان مظلوموں کے بارے میں چپ سادھے رکھتی تھیں، جو صرف حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کے باعث جیلوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ یہ تنظیمیں حقوقِ انسانی کے یورپی اداروں کے توسط سے تیونس کے حکمرانوں کے لیے حسنِ کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ آج حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی اکثریت اسلام پسندوں کے قریب ہے۔

غرضیکہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کی طرف سفر کا ایک مرحلہ بحسن و خوبی طے کر لیا ہے۔ مسلمان معاشرے تمام تر سختیوں، رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اسلام ہی سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ اپنے درخشندہ مستقبل کے لیے ان کی واحد اُمید اسلام ہی ہے۔

  • ھمہ جھت جدوجھد: آج تحریکِ اسلامی کی جدوجہد محض ملکی تشخص کے دفاع تک محدود نہیں بلکہ اسے ایک عظیم تر مہم درپیش ہے۔ آج بھی توسیع پسندانہ عزائم کی حامل بڑی قوتوں کی طرف سے ان ممالک کو نشانہ بناکر ہرطرح کے حملے کیے جارہے ہیں۔ تحریکِ اسلامی  وسیع تر اصلاح کی علَم بردار سماجی تحریک ہے۔ سیاست تواس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اگر مملکتیں استبداد پر مبنی نہ ہوتیں اور ان میں حد سے بڑھی ہوئی مرکزیت نہ ہوتی تو تحریکِ اسلامی اُن سے ہرگز متصادم نہ ہوتی اور اس کی سب سے بڑی سرگرمی دعوت دین کے ساتھ ساتھ عوام کی صحت، تعلیم اور ترقی میں ان کی خدمت ہوتی۔

تحریک اسلامی کا ایک اور شان دار کارنامہ نوجوان نسل کو منشیات، جرائم اور بے کاری کے مشاغل سے بچانا ہے۔ وہ احیاے اسلام کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے، نیز اپنے اپنے ملکوں کی خودمختاری، تحفظ اور استحکام کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اُسے عالمِ اسلام کے مسائل، جیسے فلسطین، عراق اور افغانستان سے بھی گہری دل چسپی ہے۔

تحریکِ اسلامی کو جب بھی آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ غریبوں، یتیموں،بے سہارا افراد کی نگہداشت اور مستحق جوڑوں کی شادی کرانے جیسے سماجی کاموں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ تحریکِ اسلامی بالعموم حزبِ اختلاف میں رہی ہے___ خواہ اسے حزبِ مخالف تسلیم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ان کی حکومتوں کا رویہ یا تو احتیاط کا ہے، یا پھر سرکاری مشینری کھلم کھلا اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے خطے میں طاقت ور ترین حزبِ اختلاف تحریکِ اسلامی ہی ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا معرکہ سر کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غیرجانب دارانہ شفاف انتخابات میں اس کا  پلڑا بھاری رہتا ہے، خواہ یہ ملک کے عام سیاسی انتخابات ہوں یا طلبہ یا کسی مزدور یونین وغیرہ کے۔ لہٰذا اب ان تحریکوں کا حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا محض وقت کا مسئلہ رہ گیا ہے۔

تفصیلی تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک میں تحریکِ اسلامی کا تنہا اقتدار سنبھالنا نہ صرف اس کے لیے، بلکہ متعلقہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں، خواہ ووٹوں کی اکثریت کی بنا پر تنہا حکومت کرنا اس کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ تحریکِ اسلامی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مختلف معاہدوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوکر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائے اور دیگر حکومتی امور سرانجام دے۔ بتدریج تبدیلی ہی زیادہ مؤثر اور دیرپا انقلاب کا باعث ہوتی ہے۔ بتدریج عمل کائناتی اور عمرانی حقیقت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح ۷۱:۱۳-۱۴) تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے، حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔

(یعنی وہ تمھیں تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا موجودہ حالت پر لایا ہے۔)

(بہ شکریہ الجزیرہ نیٹ، ۷؍اپریل ۲۰۰۹ئ)

(راشد الغنوشی تحریک نہضت اسلامی تیونس کے سربراہ اور معروف دانش ور ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔)