۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

مکالمہ بین المذاہب

سید جلال الدین عمری | ۲۰۱۲ فروری | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

آج کل ’مذاہب کے درمیان مکالمہ‘ (dialogue) کا خاص چرچا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان قربت بڑھے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ دُور ہوں اور وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں۔ اس سلسلے میں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔ مذاکرے اور سیمی نار ہورہے ہیں اور بھی مختلف سطحوں سے کوشش ہو رہی ہے۔ اس تگ و دو کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات حقیقی نہیں ہیں، سب کی اصل ایک ہے، سب روح کی تسکین اور اپنے خالق و معبود کی رضا چاہتے ہیں۔ انسانوں کی بھلائی اور خیرخواہی ان میں سے ہرایک کے پیش نظر ہے۔  ظلم و زیادتی اور جبروتشدد کو سب ہی غلط باور کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان بناے اختلاف کم ہے اور اتحاد کی بنیادیں زیادہ ہیں۔ یہ بات جب بڑھتی ہے تو وحدتِ ادیان کے تصور تک پہنچتی ہے کہ منزل سب کی ایک ہے، البتہ راہیں جدا ہیں۔ اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے یہ کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ ایک مہمل اور بے بنیاد تصور ہے۔ جو لوگ وحدتِ ادیان کی بات کرتے ہیں وہ ان کی بنیادی تعلیمات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔

مذاھب کے درمیان اختلاف

یہ ایک حقیقت ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں اور بنیادی اختلافات ہیں،  اس لیے ان کو ایک زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔

اس معاملے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ اسلام ہی ہمیشہ سے اللہ کا دین رہا ہے، اسی کی تعلیم ہر دور میں ہر پیغمبر نے دی، لیکن ان کی تعلیم اصل شکل میں باقی نہیں رہی، زمانہ گزرنے کے ساتھ ان میں تحریف ہوتی چلی گئی۔ اللہ کا یہی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری بار نازل ہوا۔    آپ سلسلۂ رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپؐ پر جوکتاب نازل ہوئی وہ قرآن مجید ہے اور وہ  پوری طرح محفوظ ہے۔ آپؐ  کی سیرت اور قول و عمل سے اس کی تشریح ہوتی ہے۔ اب دنیا و آخرت کی فوز وفلاح اسی کتاب سے وابستہ ہے، اس کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ارشاد ہے:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا (الاعراف ۷:۱۵۸) (اے پیغمبرؐ!) کہہ دو کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

ایک اور جگہ فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (السبا۳۴: ۲۸) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے ’بشیر و نذیر‘ بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری رسول اور خاتم النبیینؐ ہونے کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِـیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (احزاب ۳۳:۴۰) محمد (ـصلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور ’خاتم النبیین‘ ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

دنیا کے تمام انسانوں کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اسی میں ’خیر‘ ہے۔ کفر کا راستہ اختیار کر کے انسان اللہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، خود ہی نقصان میں رہے گا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْط وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِط  وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا o (النساء ۴:۱۷۰) اے لوگو! تمھارے پاس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ پس تم (اس پر) ایمان لے آئو، اسی میں تمھارے لیے خیر ہے لیکن اگر کفر کرو گے تو (یاد رکھو) کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

مذہب کے اساسی عقائد کا انسان کی پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اس سے پورا نظامِ عمل اور طریقۂ حیات وجود میں آتا ہے۔ ہر مذہب کی عبادات اس کے عقیدے کی تابع ہوتی ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر تہذیب ومعاشرت وجود میں آتی ہے۔اسی کے تحت شادی بیاہ، پیدایش اور موت تک کے رسوم انجام پاتے ہیں۔ کاروبار اور لین دین کے طریقے اور مختلف افراد اور طبقات کے حقوق و فرائض طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مذہب عقیدہ کے ساتھ اس سے ہم آہنگ اخلاقیات اور قانون بھی رکھتا ہے۔ اسے اس کا ’نظام شریعت‘ کہا جاسکتا ہے۔ اسی سے اس کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اور وہ پہچانا جاتا ہے۔

قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کواصولِ دین کے ساتھ حسبِ حال اور حسبِ ضرورت شریعت اور قانون بھی دیا تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر توریت اور انجیل کے بعض قوانین کا ذکر بھی کیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے تھے اور جن کی پابندی کا ان سے عہد لیا گیاتھا۔ اس نے بعض دوسرے پیغمبروں کی شریعتوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ شریعتیں اپنے وقت اور ماحول کے لیے تھیں۔ آخری رسول اور آخری شریعت کے آنے کے بعد وہ منسوخ ہوگئیں۔ مذاہب کے ماننے والوں کو وہ نجی زندگی میں اپنی شریعت پر عمل کی اجازت دیتا ہے، لیکن اپنے دائرۂ اختیار میں آخری شریعت کو نافذ کرتا ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَo (الجاثیہ۴۵:۱۸) (اے نبیؐ!) ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک شریعت دے دی۔ اب آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو جانتے نہیں ہیں۔

احسن انداز میں مباحثہ

مذاکرہ یا مباحثہ دو مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ ایک مقصد ہے حق و صداقت کی تلاش،  بحث و تمحیص کے ذریعے ’حق‘ کو جاننے کی کوشش۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ نظریات اور عقائد کی  صحت و عدم صحت سے بحث نہ کی جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سی مشترک اقدار ہیں جن پر سب کو اتفاق ہوسکتا ہے۔ اسلام اس مجادلہ کا قائل نہیں ہے۔ وہ ایک دعوت ہے اور بحث و مباحثے کے ذریعے اس کی حقانیت واضح کرنا چاہتا ہے۔

قرآن مجید کا براہِ راست خطاب مشرکینِ عرب اور اہلِ کتاب سے تھا۔ سورئہ نحل میں مشرکین عرب کے سیاق میں حکم دیا گیا:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَo (النحل۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔

اس آیت میں صاف الفاظ میں اللہ کے راستے کی طرف بلانے، یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی دعوت کا حکم ہے۔ اس کے لیے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ’ جدال احسن‘ کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔ ’ حکمت‘ یہ ہے کہ عقلی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کی دعوت دی جائے۔ موعظۂ حسنہ میں تذکیر اور وعظ و نصیحت کا پہلو ہے۔ ’ جدال بہ طریق احسن‘ یہ ہے کہ بہتر طریقے سے گفتگو ہو، شکوک و شبہات رفع کیے جائیں اور اس کے موقف کو بہتر طریقے سے سمجھا جائے۔

مشرکینِ عرب سے اسلام کا اختلاف بنیادی عقائد میں تھا۔ اسلام توحید کا علم بردار ہے۔ کائنات او رانسان کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر اسی عقیدۂ توحید سے نکلتا ہے۔ مشرکین عرب کے ہاں خدا کا تصور تھا، لیکن وہ آلودۂ شرک تھا۔ وہ اسلام کے تصور توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار    نہ تھے۔ اسلام وحی و رسالت کا قائل ہے، مشرکین کے لیے یہ تصور اجنبی سا ہو کر رہ گیاتھا، وہ  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت اور جزاے عمل کا ہے، لیکن وہ حیات بعد الموت کو کسی طرح قبول نہیں کررہے تھے اور    خدا کے قانونِ عدل کے مقابلے میں انھیں اپنے معبودان باطل کی سفارش پر تکیہ تھا۔

اس ماحول میں اسلام نے شرک کی ہر پہلو سے تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ یہ انسان کی عقل اور اس کی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج دنیا میں بھی    تباہ کن ہیں اور آخرت میں بھی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ مشرکین عرب سے اس نے جس طرح گفتگو کی اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں پیش کی جارہی ہے:

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشٰکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ط ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَــلًا ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹:۲۹) اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اُسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کاغلام ہے ۔ کیا اِن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ ___ الحمدللہ ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

قرآن مجید نے اپنے موقف پر تاریخ سے استدلال کیا۔ اس نے کہا: دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول آئے سب نے توحید کی تعلیم دی اور شرک کی تردید کی، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی، اس کے انکار کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مشرک قوموں نے ان کی سخت مخالفت کی اور ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا، لیکن انھوں نے صبر و ثبات کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ اللہ کے ان رسولوں کی اس سلسلے میں اپنی قوموں اور ان کے سرداروں سے جو گفتگوئیں ہوئیں اور جو مباحثے اور مکالمے ہوئے وہ بھی اس نے تفصیل سے پیش کیے۔ یہ مباحثے ’جدال احسن‘ کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ تلاش حقیقت کے لیے نہیں، بلکہ اثبات حق کے لیے تھے۔

مشرکین عرب کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسلی تعلق تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور خانۂ کعبہ کے محافظ ہونے کی وجہ سے سارے عرب میں ان کو عزت اوروقار حاصل تھا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ توحید کے علم بردار تھے، اسی کی دعوت لے کر وہ اُٹھے تھے۔ان کی مشرک قوم نے ان کی بدترین مخالفت کی اور دہکتی آگ میں انھیں ڈال دیا، لیکن اللہ نے انھیں صحیح سالم نکال لیا۔ انھوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور مکہ میںخانۂ کعبہ کی تعمیر کی، اسے اللہ واحد کی عبادت کا مرکز قراردیا، جسے تم نے بت خانہ بنا رکھا ہے۔ تم ان کی اولاد ہو، پھر بھی دعوتِ توحید کی مخالفت کررہے ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے وقت کے بادشاہ، اپنے باپ اور اپنی قوم سے جو گفتگو یا مباحثے کیے ، قرآن مجید نے اسے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس طرح اس ’جدال احسن‘ کی راہ دکھائی ہے جس کی اس نے اجازت دی ہے۔

قرآن مجید نے اہل کتاب سے بھی ’ مجادلہ‘ (بحث و مباحثہ)کی اجازت دی ہے۔ اس کے لیے بھی وہی شرط رکھی ہے جو مشرکین سے’مجادلہ‘ کے لیے ہے کہ یہ مجادلہ ’ بہ طریق احسن‘ ہونا چاہیے:

وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۴۶) تم اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو، مگر مہذب طریقے سے، لیکن ان میں سے جو ظلم کی راہ اختیار کریں ان سے بحث سے اجتناب کرو اور کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ان (تعلیمات) پر جو ہم پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں۔ ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہے، ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔

اہل کتاب اصولی طور پر توحید، وحی و رسالت، آخرت اور وہاں کی جزا و سزا کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں ان کے اور مسلمانوں کے عقائد میں اشتراک تھا، لیکن ایک دوسرے پہلو سے ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا۔ وہ توحید کے قائل ہونے کے باوجود گرفتارِ شرک ہوگئے تھے۔ وحی و رسالت پر ایمان کے دعویٰ کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہیں کررہے تھے۔

اس آیت میں اہل کتاب سے مجادلے کی اجازت کے ساتھ اس کی بنیادیں بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ وہ بنیادیں ہیں اللہ کے تمام رسولوں اور ان کی تعلیمات پر ایمان۔ اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپؐ کی تعلیمات بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کا یہی موقف ہے کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں،ان کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اسی طرح تمھارا اور ہمارا خدا ایک ہی ہے،   اس لیے اس کے احکام کی اطاعت ہم سب کے لیے لازم ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔اس کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس میں اس بات کی ہدایت بھی ہے کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو تم اپنے ایمان و اسلام کااعلان کرکے الگ ہوجاؤ۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر میثاق بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور بتایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ اللہ و احد کی عبادت کریں گے، ان کی زندگیوں میں نماز اورزکوٰۃ کا اہتمام ہوگا، اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں گے، والدین، رشتہ داروں اور معاشرے کے کم زور افراد ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے( اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیں گے)۔ گفتگو میں بدزبانی اور تلخ کلامی کا مظاہرہ نہ کریں گے( کسی کی دل آزاری نہ کریں گے)۔ ناحق کسی کا خون نہیں بہائیں گے، کسی کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کریں گے ، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت و حمایت کریںگے۔ (البقرہ ۲: ۸۳-۸۴، المائدہ ۵:۱۲)

قرآن مجید نے بتایاکہ بنی اسرائیل نے اس عہد و پیمان کی پابندی نہیں کی۔ قدم قدم پر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ اس عہد کا لازمی تقاضا تھا کہ وہ اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر انھوں نے ان میں سے چند ایک کو مانا اور دوسروں کوماننے سے انکار کردیا۔ ان کے ہاتھ بعض رسولوں کے قتل تک سے رنگین رہے ہیں۔ (اٰل عمران۳: ۱۸۱-۱۸۲۔ النسائ۴: ۱۵۷)

ان سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی نصرت و حمایت کا بھی عہد لیا گیا تھا، لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنے پیغمبروں کے علاوہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں مانیں گے۔ یہی نہیں، آپؐ سے عداوت ان کے سینوں میں پرورش پاتی رہی اور انھوں نے آپؐ کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (البقرہ ۲: ۹۱، اٰل عمران ۳ :۸۱)

یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ مانتے اور ان سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے تھے۔ قرآن مجید نے بہت تفصیل سے حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیم پیش کی اور بتایا کہ وہ ’مسلم حنیف ‘تھے اور ہر طرف سے کٹ کر اللہ واحد کی عبادت کرتے تھے۔ان کی زندگی ہر شائبۂ شرک سے پاک تھی۔ وہ خدا ے واحد کی عبادت و اطاعت کا پیغام لے کر اٹھے تھے اور زندگی بھر اسی کے لیے جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں دیں۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت کو لے کر اٹھے ہیں ، اس لیے وہ ان کے قریب ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ سے تمھارا تعلق روایتی او ران کا تعلق حقیقی ہے:

مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۷-۶۸)

ابراہیم ؑنہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ابراہیم ؑسے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنھوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبیؐ اور اس کے ماننے والے اِس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ صرف اُنھی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔

مذھبی رواداری کا غلط تصور

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والے ہیں انھیں ان کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایاجائے اور ان کے تقاضوں کی طرف انھیںتوجہ دلائی جائے اور دین حق ان پر واضح کیا ہے۔ یہ قرآنی طریقہ ہے۔ اس سے دعوت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی پس منظر میں حسب ذیل آیت کو بھی دیکھنا چاہیے:

قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط  فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۴) اے نبیؐ! کہو   اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔

اس آیت کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان کی دعوت دی جائے۔ بناے اختلاف سے تعرض نہ کیا جائے، ہر ایک کو اس کے طریقہ پر عمل کی اجازت ہو، اس کے درست یا نا درست ہونے سے بحث نہ کی جائے۔ اسے مذاہب کے سلسلے میں ’رواداری‘ یا عدم تعصب جو بھی کہا جائے، اسلامی نقطۂ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات او راس کے دعوتی مشن کے خلاف ہے۔ اس سے قطع نظر خود آیت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اس میں اہل کتاب کے غلط طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے اور انھیں اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔

اس میں اہل کتاب کو ’ کلمہ سوائ‘ کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ’ کلمہ سوائ‘ توحید ہے، جو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے اور جو تمام مذہبی کتابوں کی بنیاد ہے۔ لیکن توحید کے قائل ہوتے ہوئے بھی یہود نے حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دیا ۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک طبقے کا    یہ عقیدہ ہو، لیکن یہود نے اس سے اپنی برأ ت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح نصاریٰ نے تثلیث کی راہ اختیار کی، جو توحید کے سراسر خلاف ہے۔

توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خداے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے ، جب تمھیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمھاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔

اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمھارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمھارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے (التوبۃ ۹:۳۱)اپنے اس غلط رویّے کو ترک کرکے تمھیں   خداے واحدکے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم    اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔یہ در حقیقت اسلام کی دعوت ہے۔ ہرقل  (شاہ روم) کو آپ نے جو مکتوب اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے لکھا تھا اس میں اسی آیت کا حوالہ تھا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن:ج۲، جزء ۴،ص۶۸)

باھمی تعاون کا دائرہ

حقیقت یہ ہے کہ مذاہب کے اختلافات فروعی نہیں اصولی ہیں، انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، لیکن اس کے باوجود بعض سماجی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اہل مذاہب ہی نہیں، بلکہ تمام سماجی اور سیاسی گروہ مل جل کر کوشش کرسکتے ہیں۔

آج دنیا کے بیش تر ممالک میں مخلوط آبادیاں ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی عقائد، مادی افکار و نظریات، تہذیب و معاشرت کا اختلاف ہے اور کہیں مادری زبان کا فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک تکثیری سماج کا حصہ ہیں۔ اس پہلو سے ان کے مشترک مسائل بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ضرورت ہے کہ ملک میں امن وامان ہو، فکر و عمل کی آزادی ہو،ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کے مواقع حاصل ہوں، انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، غربت اور جہالت ختم ہو، طبی سہولتیں حاصل ہوں، صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ اس نوعیت کے اور بھی مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشرے میں بیداری لانے، ان کے حق میں فضا بنانے اور بسا اوقات قانونی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان مسائل کا تعلق حکومت سے بھی ہے، اس کے لیے اسے متوجہ کرنا اور اس پر اثر انداز ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے تکثیری معاشرے مشترکہ جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

موجودہ مادہ پرست تہذیب نے اباحیت کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا۔ ہر طرف بے حیائی اور عریانی کی فضا ہے، بدکاری عام ہورہی ہے اور نشہ آور چیزوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہورہے ہیں اور طرح طرح کے امراض پھیل رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب بے حیائی، زنا اور منشیات کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اس کے خاتمے کے لیے مشترک کوشش ہونی چاہیے۔

مذاہب کے درمیان ایک قدر مشترک اخلاقیات ہے۔ صداقت اور راست گوئی، عفت و عصمت، دیانت و امانت، باہم اُلفت و محبت ، رشتوں کا احترام، غریبوں، ناداروں، مریضوں اور معذروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی خبر گیری، تعصب او ر نفرت سے اجتناب، کسی کے حق پر  دست درازی اورظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویّے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے کہیں کہیں کوشش بھی ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں اخلاق کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کے لیے اس کا اپنا ایک طریقہ اور لائحۂ عمل بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو عام کرنے کی جو کوشش ہو اس میں وہ اپنے اصول کے تحت شریک ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کرسکتاہے۔