میرا خاندانی نام بھولا ناتھ ہے۔ میرے والد کا نام کیدار ناتھ تھا۔ میں ۱۹۵۰ء میں پلہری گاؤں ضلع باندہ (یوپی) میں پیدا ہوا اور گریجویشن ببیرو ضلع باندہ سے کی۔ دوران تعلیم جن دنوں میںہاسٹل میں رہتا تھا، میرا ایک کمرے کا ساتھی تبارک حسین ایک مسلمان طالب علم تھا۔ تبارک حسین سے ملنے ہردولی گاؤں کے جماعت اسلامی کے ایک رکن اشرف حسین صاحب آتے جاتے تھے۔ مجھے بھی انھی کے ذریعے اسلامی عقائد خصوصاً توحید، رسالت و آخرت کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی۔ شرک کو تو میں پہلے ہی سے ناپسند کرتا تھا اور بت پرستی سے مجھے کوئی دل چسپی نہ تھی، اس لیے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات سے کافی متاثر ہوا۔
اسی دوران میں علاقے میں ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا، جس سے مجھے اسلام کی طرف پیش قدمی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ علاقے کا بڑھئی برادری کا ایک ہندو نوجوان ممبئی سے ایک مسلمان لڑکی کو اپنے گاؤں لے آیا۔ وہ گاؤں اصلاً ٹھاکروں کا تھا۔ ہر قسم کے دباؤ کے باوجود گاؤں والے لڑکی کو واپس کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ کافی تناؤ والے ماحول میں اشرف حسین صاحب نے کسی طرح لڑکی او رپھر لڑکے سے ربط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے لڑکے کو سمجھایا کہ تمھارے گاؤں کے ٹھاکر تمھیں جان سے مارنے کے بعد تمھاری بیوی کو ہتھیا لیں گے، اس لیے دنیا و آخرت میں مسئلے کا حل یہ ہے کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہ بات اس نوجوان کی سمجھ میں آگئی۔ بہرحال وہ اس کو اس گاؤں سے نکال کر فتح پور، یوپی لے گئے۔ وہاں لڑکے نے اسلام قبول کیا اور پھر اسے ککرالہ ضلع بدایوں بھیج دیا، جہاں کی اسلامی درس گاہ میں دونوں میاں بیوی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ بعد میں لڑکے نے ممبئی میں اپنی سسرال سے بھی تعلقات بہتر کرلیے اور پھر وہ دونوں ممبئی منتقل ہو گئے۔
فرقہ وارانہ، جذباتی اور بظاہر لاینحل حساس مسئلے کو جس خوب صورتی سے اشرف حسین صاحب نے حل کیا، اس سے میں کافی متاثر ہوا۔ اسی دوران میں نے اسلام کے بارے میں مطالعہ اور تبادلۂ خیال جاری رکھا۔ گریجویشن کا امتحان دینے کے بعد اشرف صاحب نے مجھے لکھنؤ لے جانے کا پروگرام بنایا ، چنانچہ ۱۹۷۱ء میں تبارک حسین اور اسلام سے متاثر چند دوسرے ہندو ساتھیوں کے ساتھ میں لکھنؤ جماعت اسلامی کے دفتر پہنچا۔ وہاں امیر حلقہ جناب سید حامد حسین مرحوم، عبد الغفار ندویؒ اور حبیب اللہ ندویؒ سے میری ملاقات ہوئی۔ جماعت کے دفتر میں ہونے والے درسِ قرآن میں ہم لوگ شریک ہوتے رہے۔ میں نے نماز بھی وہیں سیکھی۔ اشرف صاحب کی معیت میں ہم نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سے ملاقا ت کی۔ انھوں نے ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور پھر کچھ کتابیں مطالعے کے لیے دیں۔ مئی ۱۹۷۱ء میں اتر پردیش حلقہ لکھنؤ کے دفتر میں مولوی حبیب اللہ ندویؒ کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور میرا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔
لکھنؤ چند روز رہنے کے بعد میں وطن آ گیا۔ گھر پر سب سے پہلے مسئلہ یہ پیش آیا کہ نماز کیسے اداکی جائے؟ ایک دو وقت کی نمازیں توگاؤں سے باہر تالاب کے کنارے پڑھیں، لیکن پھر ذہن میں آیا کہ ہندی میں نماز کی کتاب والدہ کو سنائی جائے۔ کتاب سنانے کے ساتھ میں نے والدہ کا ذہن اس طرح بنایا کہ ایشور (خدا) کی عبادت اس طرح کی جائے تو کیا حرج ہے؟ والدہ نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح گھر پر میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ ایک دن مجھے نماز پڑھتے والد صاحب نے دیکھ لیا۔ چونکہ ان کا اکلوتا چہیتا بیٹا تھا۔ اس لیے گھر کا ماحول مکدر نہ ہوا۔
اسی دوران اشرف صاحب نے مجھے جماعت اسلامی بریلی کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ وہیں میری ملاقات سید حامد علی علیہ الرحمہ سے ہوئی۔ انھوں نے اسی دوران مجھے سید حامد علی کے ہمراہ تعلیم و تربیت کے لیے ان کے وطن میران پور کٹرہ، ضلع شاہجہان پور (یوپی) بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ سید حامد علی کے زیرتربیت رہنے کے علاوہ میں وہاں کی درس گاہ اسلامی میں ہندی، حساب اور انگریزی پڑھانے لگا۔ سید حامد علی کی ہدایت پر میں نے اُردو لکھی۔ الحمدللہ ۱۸ دنوں کے اندر اردو پڑھنے کی اتنی استعداد ہو گئی کہ میں نے ماہ نامہ نور اور الحسنات پڑھنا شروع کر دیا۔
کچھ عرصے کے بعد میں وطن گیا، اور والدین کو اپنے قبول اسلام کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ والدین نے مجھے برا بھلا تو نہ کہا، البتہ انھیں میرے قبولیت اسلام سے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ تدریس میں گریجویشن کے بعد مجھے ٹیچر کی سرکاری نوکری ملنے کے وسیع امکانات تھے، لیکن میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ میں سرکاری نوکری نہیں کروں گا۔ والدین نے کافی کوشش کی کہ میں اپنے دونوں فیصلے بدل دوں۔ لیکن میں نے سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ گھر سے جب رخصت ہونے لگا تو والدہ زار و قطار رو رہی تھیں لیکن الحمد للہ، اللہ نے مجھے استقامت دی، اور میں وطن سے کٹرہ واپس آ گیا۔ کچھ روز بعد والدہ کا خط آیا: ’’ٹیچر کی حیثیت سے تمھار انتخاب ہوچکا ہے اور تقررنامہ بھی موصول ہو چکا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں پھر اس فیصلے کو دہرایا کہ مجھے سرکاری ملازمت نہیں کرنی۔
بچپن ہی میں میری شادی ہو گئی تھی، لیکن چونکہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی، اس لیے باضابطہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ میرے سسرال والوں نے قبولِ اسلام پر نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ میں نے ان پر یہ بات واضح کر دی کہ اگر لڑکی اسلام قبول کر لیتی ہے، تبھی میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا، ورنہ نہیں۔ سسرال اور بیوی اس معاملے میں آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح میری شادی کا معاملہ ختم ہوگیا۔
میں مولانا سید حامد علی کے گھر رہتا رہا۔ مولانا صاحب ، ان کی اہلیہ اور ان کے بچے سب مجھے اپنے گھر ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ الحمد للہ، گھر میں مجھے اپنائیت کا ماحول ملا اور غیریت کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ میں نے سید حامد علی سے کہا کہ میں آپ کو ابو اور امی کو امی کہتا ہوں، اس لیے نام بھی اپنے بچوں (خالد حامدی، راشد حامدی) کی طرح رکھ دیجیے، اس طرح اس وقت سے عبد الرحمن سے بدل کر میرا نام عابد حامدی قرار پایا۔
۱۹۷۲ء میں مَیں نے مولانا سید حامد علی سے اصرار کر کے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ضلع اعظم گڑھ (یوپی) جا کر پڑھنے کے لیے کہا، جہاں انھوں نے اپنے بڑے صاحب زادے خالد حامدی اور اپنے زیر تربیت دوسرے نو مسلم بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجا ہوا تھا۔ چنانچہ میں جامعۃ الفلاح پہنچا اور تقریباً پانچ سال وہاں رہا۔ صرف عالمیت کا امتحان بعض وجوہ سے نہیں دے پایا۔ ۱۹۷۸ء میں وہاں سے دہلی کے قریب غازی آباد (یوپی) منتقل ہو گیا۔ سید حامد علی بھی دہلی منتقل ہوچکے تھے۔ آٹھ نو مہینے مولوی نسیم غازی صاحب کے یہاں رہا، جو جامعۃ الفلاح سے عالمیت کرکے اپنے وطن غازی آباد (یوپی) آ چکے تھے۔ پھر مراد نگر ضلع غازی آباد میں درس گاہ کھولنے کا پروگرام بنایا، تو وہاں میں نے تدریس کا کام شروع کیا۔ اسی دوران پانجی ضلع باغپت (یوپی) میں درس گاہ شروع ہوئی تو وہاں منتقل ہوکر تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔
میری شادی کی بات چیت متعدد مقامات پر چلی، لیکن مسلمانوں میں ذات پات کے رجحان کی موجودگی کی وجہ سے کامیابی نہ ہو پائی۔ بٹراڑہ ضلع مظفر نگر (یوپی) سے ایک دوشیزہ ریکھا اسلام قبول کر کے فاطمہ ہو چکی تھیں۔ یہ دہلی میں مولانا سید حامد علی کے یہاں بھی کچھ دن رہیں۔ انھی سے میرا نکاح مارچ ۱۹۸۲ء میں ہوا۔ الحمد للہ، میرے ان سے دولڑکے اور لڑکی ہے۔ یہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بعض مصالح کے تحت ککرالہ ضلع بدایوں (یوپی) منتقل ہو گیا۔ پھر مراد نگر پھر غازی آباد آ گیا، جہاں میں ایک عرصے سے بنارس گلاسز پرائیویٹ لمیٹڈ میں ملازمت کر رہا ہوں۔ والدین سے میرا گہرا ربط رہا اور ان کے پاس آتا جاتا رہا۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل والدصاحب میرے پاس آگئے تھے اور انھوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام محمد حامد رکھا گیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد والدہ بھی میرے پاس آ گئیں۔ الحمد للہ انتقال سے قبل انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام رضیہ بیگم رکھا گیا تھا۔
اسلام میں وحدانیت کے بعد میرے لیے سب سے متاثر کن نماز میں مساوات اور کھانے پینے میں مسلمانوں کا اجتماعی طور طریقہ ہے، جو مجھے بے حد پسند آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نمازیں سب ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور کھانا بھی سب ایک ساتھ کھاتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ عام مسلمانوں میں اسلام سے کافی دوری پائی جاتی ہے۔ ان کا رویہ، ان کا سلوک اور ان کے معاملا ت میں غیر اسلامی عناصر کی اچھی خاصی آمیزش ہے، جس کی وجہ سے ایک غیر مسلم کے اسلام کی طرف بڑھتے قدم رک جاتے ہیں، بلکہ بسااوقات نو مسلم کے مرتد ہو جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے میری مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں تاکہ اسلام کا پیغام تیزی سے عام ہو اور اسلام قبول کرنے والے اسلام کوبے دھڑک قبول کریں۔