حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ دوسری طرف قریش کی ایک جماعت مجلس جمائے بیٹھی تھی کہ اس دوران میں ایک کہنے والے نے کہا کہ دیکھتے نہیں ہو اس کو جو ہمیںکھا کر نماز پڑھ رہا ہے۔ تم میں سے کون اُٹھے گا اور فلاں آدمی کی اُونٹنی کا اوجھ لے آئے جس میں گوبر، خون اور دیگر چیزیں بھری ہوئی ہیں، اور انتظار کرے کہ یہ سجدہ میں جائے اور پھر اس اوجھ کو اس کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دے تاکہ یہ اُٹھ نہ سکے۔ چنانچہ ان کا سب سے بڑا بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اُٹھا اور اُونٹ کا اوجھ لے کر آگیا اور جب آپؐ سجدے میں گئے تو آپؐ کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کے نتیجے میں آپؐ سجدے سے نہ اُٹھ سکے۔ اس حالت کو دیکھ کر کفارِ قریش ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، اور آپؐ کے ساتھ تمسخر کرکے مزے لیتے رہے۔ تب ایک شخص حضرت فاطمہؓ کی طرف دوڑا جو اس وقت نابالغ بچی تھیں (وہ شخص عبداللہ بن مسعود ہی تھے) انھیں جاکر صورت حال بیان کی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور اس اوجھ کو آپؐ کے کندھوں سے گرا یا۔ پھر کفارِ قریش کی طرف متوجہ ہوئیں اور انھیں سخت سُست کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے کفارِ قریش کے خلاف بددُعا فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ عَلَیْک بِقُریشٍ، ’’اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے، اے اللہ! قریش کو پکڑ‘‘۔ اس کے بعد ایک ایک کا نام لے کر ان کے خلاف بددُعا فرمائی۔ فرمایا: اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) ،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیںکہ میں نے ان سب کو بدر میں ہلاک ہوتے دیکھا۔ انھیں کھینچ کر ایک کنوئیں کی طرف لے جایا گیا اور ان سب کو اس میں ڈال دیا گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا: اس کنوئیں والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت مسلط ہوگئی۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جو آزمایشیں آئیں، اس کا ایک نمونہ اس حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں منظر آپ کے سامنے ہیں۔ ایک یہ منظر کہ کفارِ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاکر خوشی منارہے ہیں اور آپ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، اور دوسرا منظر یہ کہ ان کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پڑی ہیں اور ان پر لعنت مسلط ہے۔یہ دونوں مناظر اہلِ ایمان کو درس دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایشیں آتی ہیں لیکن انجامِ کار اہلِ حق کی کامیابی ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور خوشی ایک طرف اور آخرت کا ثواب جنت کی شکل میں دوسری طرف، تب جدوجہد اور بندگیِ رب میں سُستی کا کیا جواز ہے؟
o
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہؓ اپنے والد حضرت ابی قتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات جنگ سے واپس ہوئے۔ رات کے آخری حصے میں پہنچے تو بعض صحابہ کرامؓنے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپ رات کے اس آخری حصے میں پڑائو کردیں تو بہت اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: ایسی صورت میں مجھے ڈر ہے کہ تم نماز کے وقت سو جائو گے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں آپ لوگوں کو بیدار کردوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑائو کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ لوگوں نے پڑائو کرلیا اور حضرت بلالؓ مشرقی اُفق کی طرف رُخ کر کے اپنی اُونٹنی کے کجاوے کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ تمام لوگ سو گئے اور حضرت بلالؓ پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ بھی سو گئے۔ لوگ سوئے رہے حتیٰ کہ سورج نکل آیا تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ آپؐ کے بعد حضرت بلالؓ اور دوسرے صحابہؓ بھی بیدار ہوگئے۔ آپؐ نے حضرت بلالؓسے پوچھا: بلالؓ! کہاں گئی تمھاری بات؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج جس قدر نیند کا غلبہ ہوا، اتنا غلبہ مجھ پر کبھی نہ ہوا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو تسلی دی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھاری روحوں کو جب چاہا قبض کرلیا اور جب چاہا تمھاری طرف لوٹا دیا (یعنی جب چاہا سلا دیا اور جب چاہا بیدار کر دیا)، یعنی ایسی صورت میں جب نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر نماز کے قضا ہوجانے کا گناہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: بلالؓ! کھڑے ہوجائو اور اذان دو۔ پھر آپؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے وضو کیا اور سورج بلند ہوگیا اور چمکنے لگا تو آپؐ نے نماز باجماعت ادا فرمائی۔ (بخاری)
غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز کا قضا ہو جانا تقویٰ اور نیکی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام ؓسے بھی غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز فوت ہوگئی، اور رات کو پڑائو کی وجہ سے دو تین مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا تذکرہ احادیث میں آتا ہے۔ تقویٰ اور طہارت و تزکیہ کے انتہائی بلندمقام پر فائز ہو نے کے باوجود نبی بھی انسانی عوارض سے متصف ہوتا ہے۔ وہ سوتا ہے، اسے بھوک پیاس بھی لگتی ہے اور بیماری بھی لاحق ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اور دیگر مواقع پر سونے سے منع فرمایا کہ کہیں سونے کی وجہ سے نماز قضا نہ ہوجائے لیکن آپ کو حضرت بلالؓ نے اطمینان دلا دیا کہ میں جگانے کا انتظام کردوں گا۔ تب آپؐ نے سونے کی اجازت دے دی۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پھر نیند سے احتراز کرنا چاہیے مگر ایسی صورت میں نیند کی جاسکتی ہے جب نماز کے وقت اُٹھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس سے نماز کے بروقت اور باجماعت پڑھنے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صبح کی نماز قضا ہوجائے تو اس وقت ادا کی جائے جب سورج بلند ہوجائے اور چمکنے لگے۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ طلوع ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے، اور سورج کا کنارہ غائب ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ غروب ہوجائے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دنیا و آخرت، دونوں جہانوں میں، ہرمومن کے ساتھ زیادہ شفقت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْط (احزاب ۳۳:۶) ’’بلاشبہہ نبیؐ تو ایمان والوں کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبیؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: جو فوت ہوگیا اور اس نے مال چھوڑا تو اس کے وارث اس کے قرابت دار ہوں گے جو بھی ہوں۔ اور جو شخص قرض اور چھوٹے بچے چھوڑ کر فوت ہوجائے تو وہ میرے پاس آئے، مَیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (بخاری)
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی ایک مثال ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس کا کوئی وارث اور کفیل نہیں ہے، اس کا مَیں کفیل ہوں۔ اسی بنا پر اسلامی حکومت ایسے تمام ضعیف لوگوں کی کفیل ہوتی ہے جن کا کوئی کفیل نہ ہو۔ ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا تصور اسلام نے دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوئہ حسنہ کا عکس ہے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اس حال میں کہ گُوز مارتا ہے۔ جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ جب اقامت ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے اور آدمی اور اس کے نفس کے درمیان حائل ہوجاتا ہے (وسوسہ اندازی شروع کر دیتا ہے)، اور انسان کو وہ چیزیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ انسان بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری، باب فضل التاذین)
اذان میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ، دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی توحید ، دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتا ہے، نیز نماز کے لیے بلاوا اور پھر پورے دین کی طرف بلاوا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دو مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اور توحید باری تعالیٰ کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور توحید و رسالت کا اعلان اور نماز اور پوری دنیا کی طرف بلاوا شیطان کو خوف زدہ کردیتا ہے، وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت واپس آتا ہے جب اذان ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے اذان کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ محدثین نے اس حدیث کو باب فضل التاذین میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے اہلِ ایمان کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے پاس وہ کلمات اور دعوت ہے جو شیطان کو خوف زدہ کردینے والی ہے، شیطان کو بھگا دینے والی ہے، اس لیے انھیں مطمئن ہونا چاہیے کہ شیطان ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ خود خوف زدہ ہوکر بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر۱۵:۴۲) ’’یقینا میرے بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہوگا‘‘۔ البتہ وہ وسوسہ اندازی کا کام کرے گا اور نماز کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اپنی عبادات اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح رجوع کریں اور وسوسوں کا شکار نہ ہوں۔