۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

رسول اکرمؐ کی انقلابی حکمت عملی

نعیم صدیقی | ۲۰۱۲ فروری | اسوۂ حسنہ

Responsive image Responsive image

فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے۔ فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّوجزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا۔ مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے۔ لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔

 مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے۔ واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پروا کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکارونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے۔ کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا   ہی نہ کرتے۔ انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی    پیشِ نظر رکھی۔ ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں۔ اس قیادت کو زیرنظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا۔ تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی۔ حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی۔ ہرواقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھی دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتاہے۔ معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں۔ اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا۔ ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا۔ راے عام کے ہرمدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہرپروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا۔ شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعرا اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا۔ جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا ، آگے بڑھایا۔ آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم  روک لیا۔ دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا۔ جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا۔ مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا۔ اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خداپرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی۔ اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔

حضوؐر نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا۔ پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا۔ اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی___ اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی!

جو لوگ حضوؐر کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انھیں نہیں دی۔ وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے۔ وہ جر.ّی اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خوددار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے۔ وہ پادریوں اور سادھوئوں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔

بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پاکر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے  ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا۔ جب مکّہ میں جماعت اسلامی کی تعداد ۴۰ تھی، تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کر دیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضوؐر کی دعوتِ اسلامی تھی۔ مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی  ِ نیو ڈال دی گئی۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضوؐر کی جماعت کا طرز یہ نہیں تھا کہ پہلے سارا عربی معاشرہ اسلام قبول کرلے، یا اس کی اکثریت کی اصلاح ہوجائے تو پھر جاکر نظامِ اجتماعی کی تاسیس کی جائے۔ نہ نقطۂ نظر یہ تھا کہ بس دعوت دیتے رہو، خیالات و اعتقادات کی اصلاح کرتے رہو، بالآخر ایک صالح نظام خودبخود برپا ہوجائے گا، یا بطورِ انعام اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ دے دیں گے۔ وہاں تاریخ کی یہ حقیقت سامنے تھی، کہ عوام کی بھاری اکثریت حالت ِ جمود میں پڑی رہتی ہے، اور معاشرے کا ایک قلیل عنصر فعّال ہوتا ہے جس میں سے ایک حصہ اصلاح یا انقلاب کی دعوت کا علَم بردار بنتا ہے اور ایک حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ اصل بازی اسی فعّال عناصر کی دونوں صفوں کے درمیان ہوتی ہے، اور اس کا جب فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر عوام خودبخود حرکت میں آتے ہیں۔ یہاں یہ شعور پوری طرح کارفرما تھا کہ عوام کے راستے میں جب تک ایک فاسد قیادت حائل رہتی ہے اور ان کی زندگیوں کو بگاڑنے کی مہم جاری رکھتی ہے، یا کم از کم ان کو جمود میں ڈالے رکھتی ہے، وہ نہ کسی دعوت کو بڑے پیمانے پر قبول کرسکتے ہیں، نہ اپنی عملی زندگیوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ خود دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فاسد قیادت کے بنائے ہوئے گندے ماحول میں اپنی زندگی کو حدِّکمال تک سنوار سکیں، بلکہ اُلٹا اگر تبدیلی برپا ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہو تو بسااوقات، اُس مقام کو برقرار رکھنا بھی کٹھن ہوجاتا ہے، جس پر داعیانِ حق لمبی محنت سے پہنچتے ہیں۔ کیونکہ مخالف حالات پیچھے دھکیلنے کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس کسی اجتماعی تحریک کے لیے  راہِ عمل یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کو چھانٹ کر جتنی زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکتی ہو، اسے کش مکش میں ڈال کر مقابل کی قیادت کا محاذ توڑدے۔

تاریخ گواہ ہے کہ تمام انقلابات فعّال اقلیتوں کے ہاتھوں واقع ہوئے ہیں۔ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے تعمیرواصلاح کی دعوت چونکہ نسبتاً زیادہ سلیم الفطرت افراد کو کھینچتی ہے، ان میں ایک مثبت جذبہ بیدار کرتی ہے، اور اُن کی تربیت کرکے ان کی اخلاقی قوت کو بڑھا دیتی ہے۔ اس لیے مقابل میں رہ جانے والا طبقہ اثرواقتدار، مال و جاہ اور کسی قدر عددی کثرت رکھنے کے باوجود مقابلے میں زک اُٹھاتا ہے۔ معرکۂ بدر اس کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ پس جب حضوؐر کے گرد عرب معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کی اتنی تعداد جمع ہوگئی کہ وہ اخلاقی قوت سے سرشار ہوکر جاہلی قیادت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرسکے، تو حضوؐر نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف کوئی ضروری قدم اُٹھانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔

فتح مکہ کا اصل مفہوم یہی ہے کہ اس موقع پر جاہلی قیادت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا اور اس رکاوٹ کے ہٹتے ہی عوام صدیوں پرانے [غلامی کے] جوئے سے آزاد ہوکر دعوتِ حق کو لبیک کہنے کے لیے ازخود آگے بڑھنے لگے۔

تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ فاسد قیادت کے زیرسایہ کوئی نظامِ فلاح پنپ سکا ہو اور بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کے کام سے اجتماعی انقلاب نمودار ہوگیا ہو۔ ورنہ گذشتہ ۱۳ صدیوں میں خلافت ِ راشدہ کے بعد وعظ و ارشاد، تبلیغ و تذکیر،   تعلیم و تزکیہ کے عنوان سے عظیم الشان مساعی، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ادارات کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں، اور آج بھی علما و صوفیہ، اصحابِ درس اور اربابِ تصانیف زبان و قلم سے جتنا کام کررہے ہیں، اس کی وسعت حیران کن ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس حدِ مطلوب تک افراد کا تزکیہ ہوسکا ہے اور نہ کبھی معاشرے کی اتنی اصلاح ہوسکی ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی نظام بدل جائے اور محمد رسول اللہ کا انقلاب دوبارہ رونما ہوسکے۔ صاف ظاہر ہے کہ طرزِفکر اور نقشۂ کار اور نظریۂ انقلاب میں کوئی بڑا جھول ہے۔ وہ جھول یہی ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے لیے سیاسی کش مکش کیے بغیر افراد کو نظامِ تمدّن سے منقطع کر کے دعوت کا مخاطب بنایا جاتا رہا ہے۔

لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ دین کی اقامت اور اسلامی نظام کا برپا ہوجانا تو اصل مطلوب نہ تھا، اور یہ محض انعامِ خداوندی کے طور پر یکایک بیچ میں آنمودار ہوا، تو وہ حضوؐر کے کارنامے اور آپؐ کی جدوجہد کی سخت ناقدری کرتے ہیں اور حضوؐر کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی عظمت پر غبار ڈال دیتے ہیں۔

ذرا غور کیجیے کہ اس ہستیؐ نے کتنی تگ و دو کرکے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدے کے تحت جمع کیا۔ کس عرق ریزی سے اردگرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے۔ کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام اور طلایہ گردی کا سلسلہ قائم کیا۔ کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کرلی۔ کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجربرّاں کا مقابلہ کیا۔ کس زیرکی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی۔ کس مہارت سے حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ کس ہمت سے یہود کے مراکزِ فتنہ کی بیخ کنی کی۔ کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شرپسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی۔ اس سارے کام میں قائدانہ بصیرت، سیاسی مہارت اور مضبوط حکمت عملی کے جو حیرت ناک شواہد پھیلے ہوئے ہیں، ان سے لوگ کس طرح صرفِ نظر کرلیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ سب کچھ خدا کا انعام تھا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معنی میں کہ ہربھلائی خدا کا عطیہ و انعام ہوتی ہے۔ تاہم انسانوں کو کوئی انعام ملتا جبھی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری محنت عقل و بصیرت کے ساتھ کردکھائیں۔ اقامت ِدین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسولِؐ خدا کی جدوجہد، جاں فشانی ، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے توو ہ  بڑا ظلم کرتا ہے۔

بدقسمتی سے حضوؐر کے کارنامے کا سیاسی پہلو اتنا اوجھل رہ گیا ہے کہ آج حضوؐر کی دعوت اور نصب العین کے صحیح تصور کا اِدراک مشکل ہوگیا ہے۔ اس پہلو کو جب تک پوری سیرت میں سامنے نہ رکھا جائے، وہ فرق سمجھ میں آہی نہیں سکتا، جو محدود مذہبیت اور دین کے وسیع تصور میں ہے۔ حضوؐر پورا دین لائے تھے۔ حق کی بنیادوں پر ساری زندگی کا نظام قائم کرنے آئے تھے۔ خدا کے قوانین کو عملاً جاری کرنے آئے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ حضوؐر جامع اور وسیع معنوں میں تمدنی اصلاح اور انسانیت کی تعمیرنو کی تحریک چلانے آئے تھے، اور اس تحریک کو چلانے کے لیے بہترین قائدانہ بصیرت اور اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور سے آپؐ کی ہستی مالامال تھی۔ جس طرح کسی اور پہلو میں حضوؐر کا کوئی ہم سر نہیں ہوسکتا، اسی طرح سیاسی قیادت کی شان میں بھی آپؐ کا کوئی   ہم سر نہیں ہے۔ جس طرح آپؐ زندگی کے ہرمعاملے میں اسوہ و نمونہ ہیں، اسی طرح سیاسی جدوجہد کے لیے بھی آپؐ ہی کی ذات ہمیشہ کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔

حضوؐر کا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے نیکی کی دعوت دی، نیکی کے غلبے کے لیے جدوجہد کی، اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں سما نہیں سکتا۔ یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!(محسنِ انسانیتؐ، ص ۳۹-۴۴)