۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ۲۰۱۲ فروری | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مسجد میں بچوں کی نماز: چند غور طلب پہلو

سوال: مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی کے لیے بڑوں کے علاوہ بچے بھی آتے ہیں۔ یہ بچے ہرعمر کے ہوتے ہیں۔ کچھ بچے تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ دورانِ نماز بعض بچے شرارت کرتے ہیں، ان کے درمیان دھکم پیل، دوڑ بھاگ اور گفتگو ہوتی رہتی ہے، جس کی بناپر مسجد کے پُرسکون ماحول میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف سے بچوں پر ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے اور بسااوقات ان کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے۔ اس رویّے سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان بچوں کے دلوں میں نماز اور مسجد سے دُوری نہ پیدا ہوجائے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ نماز شروع ہونے کے بعد جو لوگ آتے ہیں وہ انھیں کھینچ کر اور پیچھے کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو بڑوں کی صفوں میں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں۔ براہ کرم واضح فرمائیں کہ مساجد میں بچوں کی حاضری کے سلسلے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ بچوں کو مساجد میں لانا بہتر ہے یا نہ لانا؟ کیا مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ مناسب ہے؟ نیز مسجد میں انھیں کہاں کھڑا کرنا چاہیے؟

جواب: مسجد اسلامی معاشرے کا نشانِ امتیاز ہیں۔ اسلام نے زندگی کے مختلف امور و معاملات کو اجتماعی طور سے انجام دینے کا جو حکم دیا ہے ، مساجد میں نماز باجماعت کی صورت میں اس کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مخصوص مقامات ہیں، اس لیے وہاں کے ماحول کو پُرسکون اور روح پرور بنائے رکھنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر وہاں ایسے کام کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جن سے سکون میں خلل آئے، شوروشغب ہو، لوگ اکٹھا ہوکر اِدھر اُدھر کی باتیں کریں اور نماز پڑھنے والے ڈسٹرب ہوں۔ اسی مصلحت سے مسجد میں خریدوفروخت کے کام ممنوع ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں کسی شخص کو خریدو فروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمھارے کاروبار میں نفع نہ کرے‘‘۔(جامع ترمذی، کتاب البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، ۱۳۲۱)

اسی طرح مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کسی گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا ہے، وہ کہے: ’’اللہ کرے    وہ چیز تمھیں واپس نہ ملے، کیوں کہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیںبنائی گئی ہیں‘‘۔(مسلم،  کتاب المساجد، باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجد، ۵۶۸،  اسے ابودائود،   ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابوعوانہ نے بھی روایت کیا ہے)

ایک مرتبہ ایک شخص کا اُونٹ کھو گیا۔ اس نے مسجد میں ا س کا اعلان کردیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ’’مسجدیں تو مخصوص کام (عبادتِ الٰہی) کے لیے بنائی گئی ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب النھی، عن انشاد السوال فی المسجد، ۷۶۵)

اس بنا پر ہر ایسے کام سے بچنا چاہیے جس سے نمازیوں کے سکون و انہماک میں خلل آئے، ان کا ذہن بٹے اور مسجد کا ماحول متاثر ہو۔دوسری جانب احادیث میں بچوں کی ابتداے عمر ہی سے دینی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ نماز کی فرضیت اگرچہ بلوغ کے بعد ہے، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس سے قبل ہی ان میں نماز کا شوق پیدا کیا جائے اور ان سے نماز پڑھوائی جائے۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہوجائیں (اور نماز نہ پڑھیں) تو انھیں مارو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ،۴۹۵، سنن ترمذی:۴۰۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے مختلف مواقع پر نماز پڑھی تو اپنے ساتھ بچوں کو شریک کیا۔ حضرت انسؓ،جن کی عمر ہجرتِ نبویؐ کے وقت دس سال تھی، بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ میرے گھر پر نماز پڑھی تو میں اور ایک دوسرا لڑکا آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وضوء الصبیان: ۸۶۰۔ یہ حدیث مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)

بچوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کرائی جائیں، نماز کے اوراد و کلمات حفظ کرائے جائیں، نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ گھر پر نماز پڑھی جائے تو انھیں شریکِ نماز کیا جائے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد بھی لے جایا جائے، تاکہ وہ ابتداے عمر ہی سے مسجد کے آداب سے واقف ہوں اور انھیں باجماعت نماز ادا کرنے کی رغبت ہو۔ عہدِنبویؐ میں ہرعمر کے بچے مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی عمریں آپؐ کی وفات کے وقت سات آٹھ سال تھیں۔ متعدد روایات میں صراحت ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے اور بسااوقات ان کی وجہ سے بہ ظاہر آپؐ کی نماز میں خلل واقع ہوتا تھا، لیکن کبھی آپؐ نے ان کی سرزنش نہیں فرمائی اور انھیں مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔

حضرت ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے‘‘۔

اُوپر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے ماحول کو پُرسکون بنائے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگرچہ بچوں کے مسجد میں آنے کی وجہ سے کچھ خلل واقع ہوتا ہے اور نمازیوں کا انہماک متاثر ہوتا ہے ، لیکن زیادہ بڑی مصلحت کی بنا پر اس خلل کو گوارا کرنا چاہیے۔ وہ مصلحت یہ ہے کہ ان کے اندر نماز کی ترغیب پیدا کی جائے اور انھیں اس کا عادی بنایا جائے۔

بعض حضرات بچوں کو مسجد میں لانے سے روکنے کے لیے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں کو دُور رکھو‘‘(سنن ابن ماجہ باب یکرہ فی المساجد،۷۵۰)۔ لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ زوائد میں ہے کہ  ’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی حارث بن نبہان ہے، جس کے ضعف پر ناقدینِ حدیث کا اتفاق ہے‘‘۔ عصرِحاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی  ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں نمازِ باجماعت میں پہلے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں، پھر بچوں کی۔ حضرت ابومالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو آگے کھڑا کرتے تھے اور ان کے پیچھے بچوں کو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب مقام الصبیان من الصف،۶۷۷۔اس روایت کو اس کے ایک راوی شہر بن خوشب کی وجہ سے ضعیف قراردیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے ضعیف سنن ابی داؤد، للالبانی، روایت ۵۵۳)

بعض مواقع پر آپؐ نے نماز پڑھی اور وہاں صرف بچے ہوتے تو اگر ایک بچہ تھا تو آپؐ نے اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور اگر دو بچے ہوئے تو انھیں اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ اس سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی صفیں مردوں کے پیچھے بنائی جانی چاہییں، البتہ وقت ِ ضرورت انھیں بڑوں کے ساتھ بھی، درمیان یا کنارے کھڑا کیاجاسکتا ہے۔ علامہ البانی  ؒ سنن ابی داؤد کی درج بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی کوئی دلیل اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی، اور یہ حدیث ناقابلِ حجت ہے۔ اس لیے میں اس میں کوئی  حرج نہیں سمجھتاکہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جب کہ صف میں وسعت بھی ہو‘‘۔    (فقہ الحدیث، طبع دہلی، ۲۰۰۴ئ،  ج۱، ص ۴۸۸، بہ حوالہ تَمَامُ المِنَّۃ ،ص ۲۸۴)

بچوں کے، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں سنجیدگی آئے گی اور وہ شرارتیں کم کریں گے۔ مناسب یہ ہے کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت بڑوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی جائے۔ پھر نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ جماعت میں شامل ہوں، وہ بچوں کو کھینچ کر پیچھے نہ کریں، بلکہ ان ہی کی صف میں شامل ہوجائیں۔

مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار کرنے، یا ان کی پٹائی کرنے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ آج کے دور میں دین سے دُوری عام ہے۔ بچے خاصے بڑے ہوجاتے ہیں، پھر بھی نہ ان میں نماز پڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، نہ ان کو نماز پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ جوبچے مسجد میں آتے ہیں،اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ اختیار کیا جانے والا درشت رویّہ کہیں انھیں مسجد اور نماز سے دُور نہ کردے۔ عموماً شرارت کرنے والے بچے دو چار ہی ہوتے ہیں، لیکن صف میں موجود تمام بچوں کو ڈانٹ سہنی پڑتی ہے۔ اس کے بجاے انھیں سمجھانے بجھانے کا رویّہ اپنانا چاہیے۔

آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ دین کی بنیادی قدریں ابتدا ہی سے ان کے ذہن نشین کریں۔ مسجد کی کیا اہمیت ہے؟ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس کی ادائی میں کتنی سنجیدگی اور سکون ملحوظ رکھنا چاہیے، یہ باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں۔ اس سے اُمید ہے کہ مسجدوں میں بچوں کی موجودگی سے وہ شوروہنگامہ اور اودھم نہیں ہوگا ، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


انبیاے کرام ؑ پر مبنی فلمیں

س: آج کل مختلف انبیاے کرام ؑحضرت عیسٰی ؑ، حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑاور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اداکار انبیاے کرام کے کردار پر مبنی فلم میں اداکاری کرتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایسی فلمیں دیکھنا چاہییں، یا نہیں؟

ج:  انبیاے علیہم السلام کی فلمیں بنانا اور ان میں اداکار کا کردار ادا کرنا ناجائز اور      حرام ہے۔ اس سے انبیاے علیہم السلام کی توہین ہوتی ہے۔ان کی اپنے پاس سے شبیہہ بنانا،     یہ انبیاے علیہم السلام پر جھوٹ کے مترادف ہے اور ان کی توہین ہے۔ مسلمان اس قسم کی حرکت کو قبول اور برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے جہاں کہیں یہ کام ہو رہا ہو، اس کی مزاحمت کرنا چاہیے اور اسے روکنا چاہیے۔(مولانا عبدالمالک)


خلع کے بعد نکاح

س: کچھ عرصہ قبل میرے بیٹے کی شادی ہوئی تھی مگر کچھ تنازعات پیدا ہوگئے جو تمام تر کوشش کے باوجود حل نہ ہوسکے۔ میرے بیٹے کی بیوی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اس نے اپنا مہر چھوڑ دیا اور عدالت نے اس کو خلع دے دی۔ اب یہ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلع کے بعد نکاحِ ثانی ہوسکتا ہے؟

ج:  آپ کے بیٹے سے اس کی بیوی نے خلع بذریعہ عدالت لی۔ عدالت کی طرف سے جاری کردہ خلع کی ڈگری تنسیخِ نکاح کی ڈگری ہوتی ہے جو ایک طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں لیکن دوبارہ نکاح میں نیا مہر مقرر کرنا ہوگا۔ اس لیے یہ دونوں اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم!(ع - م )


صدقات وعطیات سے سرمایہ کاری

س:  مختلف دینی و سماجی تنظیمیں سال بھر عطیات، خیرات، زکوٰۃ، صدقات و چرم قربانی کی شکل میں رقوم وصول کرتی ہیں اور پورے سال پر تقسیم کر کے اپنی رفاہی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ اس طرح یہ تمام رقوم ایک طویل عرصے تک سودی بنکوں کے کھاتوں میں رکھی رہتی ہیں۔ اگر ان رقوم کو اسلامی بنک یا مضاربہ کے نفع بخش کھاتوں میں رکھوادیا جائے توایک طرف ہم سودی بنکوں کے کاروبار کو بڑھانے میں مددگار نہیں ہوں گے اور دوسری طرف ان دینی و سماجی تنظیمات کو اپنے رفاہی مقاصد کے لیے نفع کی صورت میں کچھ مزید رقم مل جائے گی جس سے مخلوقِ خدا کی بہترانداز میں خدمت ہوسکے گی۔ کچھ لوگ اس کو خلافِ شرع تصور کرتے ہیں۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

ج:  رقوم حفاظت کے لیے غیرسودی بنکوں میں رکھی جاسکتی ہیں تاکہ وہ محفوظ رہیں اور  جن مقاصد کے لیے جمع کی گئی ہیں اُن میں حسبِ ضرورت نکال کر خرچ کی جاسکیں۔ دفتر یاگھر میں رکھنے سے رقم کے ضائع ہونے کاخطرہ ہوتا ہے۔ کسی اسلامی بنک میں اس طرح کی رقوم کو بڑھانے کے لیے مضاربہ یا مشارکہ میں لگانا بھی جائز ہے، تاکہ اصل رقم سے بھی فقراا ور مساکین کی مدد کی جائے اور مزید منافع حاصل کرکے بھی ان کی مدد کی جائے۔ لیکن رقم کے ڈوب جانے کی صورت میں اس فرد، یا ادارے کو اپنے پاس سے تاوان دینا پڑے گا، جس نے بنک میں کاروبار میں رقم لگائی ہوگی۔ واللّٰہ اعلم! (ع- م)