۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

پاکستان کے مسائل اور ان کا حل

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۱۲ فروری | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان آج جس خوف ناک صورت حال سے گزر رہا ہے، اس کا تعلق سیاسی، معاشی، عسکری اور ہردائرے میں بحران سے ہے جو انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ملک کو بچانے، اس کی آزادی، عزت اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ ملک کی بقا ، استحکام اور نظریاتی بازیافت کے لیے عوامی جدوجہد کریں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اور حالات کا تجزیہ کرکے، اس دلدل سے نکلنے کی راہ ، ایک جامع قرار داد کی شکل میں پیش کی ہے جو اس کے    ۱۹ تا ۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ قوم کی رہنمائی اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو دعوت فکروعمل دینے کے لیے یہ قرارداد ہم بطور ’اشارات‘ پیش کررہے ہیں۔(مدیر)

مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کے تحت مملکت خدادادپاکستان کی بدترین سیاسی صورت حال پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے ۔ملکی زندگی زرداری ،گیلانی حکومت کی بدعنوانیوں،انتہائی ناقص کارکردگی، قومی مفادات سے مسلسل رُوگردانی،مشرف دور کی غلامانہ پالیسیوں کے تسلسل اور غربت ،مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بحرانوں سے بدحال تھی اور تبدیلی کے لیے عوامی دبائو روز افزوں تھا،کہ حکومت نے اداروں کے تصادم کا فتنہ ایک گمبھیر شکل میں ملک اور قوم پر مسلط کردینے کا ناپاک کھیل شروع کردیاہے۔

مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر ناٹو حملے اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے افسروں سمیت ۲۴ جوانوں کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے گذشتہ ۱۰برسوں سے اُمت مسلمہ کے خلاف امریکی دہشت گردی کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست تھا اور پرویز مشرف اور اس کے بعد زرداری اور گیلانی کی پالیسیاں بالکل غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے فوجیوں کا خون بھی نہایت عزیز ہے۔ لیکن ڈرون حملوں میں قبائل کے جو ہزاروں افراد شہید ہوئے ہیںجن میں ہمارے معصوم بچے ،بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں، ان کا غم بھی ہم نہیں بھلا سکتے، اور امریکا کی خاطر ہماری فوج کا اپنی سرزمین پر آپریشن بھی قابل مذمت ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں سے شمسی ائیربیس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ملک اور قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ صرف اس کا خالی کرناکافی نہیں ۔ پسنی و دالبندین ،خالد بیس، شہبازائیربیس ،غازی کمپائونڈ سے بھی امریکا کو فی الفور بے دخل کیا جائے اور ناٹو سپلائی لائن کی مستقل طور پر بندش کے فیصلے پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے، اور امریکا کی اس جنگ سے نکل آنے اور باعزت اور قومی مفادات کے مطابق سفارتی اور تجارتی تعلقات کی تشکیلِ جدید کا اہتمام کیاجائے۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر اپنی اور پاکستانی عوام کی شدید بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے، اور اس امر کا برملا اعلان کرتاہے کہ عوام نے ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے جو موقع اس قیادت کو دیاتھا اس نے اسے بڑی بے دردی اور ناقابل فہم بے تدبیری سے ضائع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک تیزی سے بگاڑ، حکمرانی کے مکمل فقدان ،سیاسی افراتفری، معاشی تباہی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار،نظریاتی ژولیدہ فکری ،اداروں کے تصادم اور بیرونی قوتوں کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی بھیانک تصویر پیش کررہا ہے ۔ ملک و قوم کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و غیرت معرض خطر میں ہیں اور عوام میں ہر سطح پر مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر پورے نظام کو تہہ و بالا کرسکتی ہے ۔ زرداری، گیلانی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ     یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔

مجلس شوریٰ کی نگاہ میں برسراقتدارحکومت کی فرد جرم میں مندرجہ ذیل امور اہم اور نمایاں ہیں:

آمرانہ دور کی پالیسیوں کا تسلسل

پاکستانی عوام نے مشرف کی آمریت اور ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں مشرف دور کی پوری قیادت کو رد کرکے متبادل سیاسی پارٹیوں کو یہ مینڈیٹ دیاتھاکہ مل جل کر آمرانہ دور کی داخلی، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو تبدیل کریں اورر ملک کو اس دلدل سے نکالیں جس میں اسے جھونک دیا گیا تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تبدیلی کے بجاے انھی تباہ کن پالیسیوں کے تسلسل بلکہ ان میں مزید بگاڑ کا راستہ اختیار کیاہے جس کے نتیجے میں وہ ملک اور قوم کو تباہی اور خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ اب اس میں بھی کوئی شک نہیں رہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت مشرف سے این آر او کا کالا قانون جاری کروا کر امریکا اور برطانیہ سے ضمانت حاصل کرکے برسراقتدار آئی تھی اوران کی اصل دل چسپی خود اپنے ماضی کے کرپشن کے جرائم پر گرفت سے بچنا اورامریکا کے دیے ہوئے ایجنڈے کو آگے بڑھاناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا احتساب کرکے اسے سزا دلانے کے بجاے اسے سلامی دے کر ایوان صدر سے رخصت اور ملک سے فرار کا موقع دیا گیا، اور عوام کے مطالبے اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کے علی الرغم اسے مکمل تحفظ فراہم کیاگیاہے اوراس کی جاری کردہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

’دھشت گردی‘ کے خلاف جنگ جاری رکہنا

۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا مرکزی موضوع امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے تباہ کن نتائج تھا ۔ عوام نے پہلے دن سے مشرف کی غلامانہ اور بزدلانہ پالیسی کو ردکردیاتھا اور ۱۰سال کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ ہر اعتبار سے یہ پالیسی یکسر ناکام رہی ہے۔ ملک کا امن وامان تباہ ہوگیا ہے ، جو علاقے پُرامن تھے وہ دہشت گردی کی زد میں ہیں ، فوج اور عوام میں دُوری بڑھی ہے، اور دشمنوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ملک میں تباہی مچانے کے مواقع ملے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ملک امریکا کی کالونی بن گیاہے اور معاشی اعتبار سے اس غریب قوم کو محض امریکا اور عالمی ساہوکاری اداروں کی اس خوشنودی کے لیے، جو حاصل بھی نہیں ہوئی اور نہیں ہوسکتی ہے، کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔ موجودہ حکومت امریکا کے ڈومور (Do More)کے مطالبات کی اس دلدل میں مزید دھنستی جا رہی ہے، اور جب امریکا اور ناٹو اقوام افغانستان سے نکلنے اورر طالبان سے مذاکرات اور شراکت اقتدار کے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں، حکومت ہمیں اس لڑائی اوراس کے نتیجے میںاندرون ملک رونما ہونے والی تباہی کے طوفان میں مزید جھونکنے کے راستے پر گامزن ہے ۔ہمارے لیے معقول راستہ اب ایک ہی ہے اور وہ امریکا کی اس جنگ سے نکلنا، اور ناٹو اور امریکی افواج کی راہداری کی سہولت کا مکمل اور مستقل خاتمہ ہے۔

عدلیہ کی تضحیک اور محاذ آرائی

انتخابات کے موقع پر تیسرا بڑا مسئلہ پرویزمشرف کی غیر آئینی طور پر معزول کی گئی عدلیہ کی بحالی اوراس کی مکمل آزادی تھا۔ لیکن حکومت نے اپنے سارے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورا ایک سال نہ صرف یہ کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے اہم ترین فیصلوں اوراحکامات کی کھلی خلاف ورزی ، عدلیہ کی تحقیر و تضحیک اور عدالت اور انتظامیہ میں تصادم کا نقشۂ جنگ تیار کیا جا رہاہے۔ این آر او کے فیصلے پر کھلی حکم عدولی کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دینا پڑگیاہے۔فاضل عدالتوں نے انسانی حقوق کے تحفظ ، کرپشن کے خاتمے، قانون اور ضوابط کی خلاف ورزیوں پر گرفت ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں اور تبادلوں کو لگام دینے کے لیے جو بھی اقدام کیے تھے، حکومت اور اس کے کارندوں اور خصوصیت سے ایوان صدر سے متعلق افراد نے اسے ناکام کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ جس قابل پولیس افسر کو عدالت نے تفتیش کے لیے مقرر کیا ، اسے اس کام کے لیے فراہم نہیں کیاگیا، اور جس نااہل افسر کو عدالت نے سزا دی   اس کو چشم زدن میں صدر صاحب نے معاف کردیا، اور ایک سے ایک بدنام شخص کواہم ترین مناصب پر فائز کرکے دستور اور عدلیہ کے احکام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف یہ یک طرفہ جنگ جاری ہے اور وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ اس محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں۔ یہ سب انتہائی افسوس ناک ہے۔

بلوچستان کی تشویش ناک صورت حال

بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کوقریباً تین سال ہوگئے ہیں مگر اس کاآغاز ہی نہیں ہوسکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ۳،۴ لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستاہے‘۔

امریکا کی بڑہتی ھوئی گرفت

امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کرچکی تھی، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہاہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یاان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کرلی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنادیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میںگذشتہ تین برسوںمیں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کردیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کررہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کررہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جا رہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔ ڈرون حملے کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد اب پھر شروع ہوگئے ہیں۔

 ملک و قوم کی آزادی اور عزت کی حفاظت میں حکومت کی اس ناکامی سے عوام میں بددلی ، غصہ اور امریکا اور حکومت دونوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔     اس صورت حال کامزید جاری رہنا ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہے ۔

بہارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا

بھارت کے معاملے میں بھی حکومت کا رویہ قومی وقار اورملکی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ۔ تجارت کے لیے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا مسئلہ کشمیر سے عملاً انحراف ، مظلوم کشمیریوں کے لہو پر نمک پاشی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ تجارت اور اعتمادسازی کے نام پر اصل اور بنیادی مسائل سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے ۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہمارے کور ایشوز ہیں اور ان کے مستقل اور منصفانہ حل کے بغیر بھارت سے تعلقات درست   نہیںہوسکتے۔ حال ہی میں سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیرخارجہ کا کشمیر کے بارے میں بیان روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا آئینہ دار ہے، نیز بلوچستان اورفاٹا میں بھارت کی کارروائیاں اور خود افغانستان میں اس کی خلافِ پاکستان سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں۔ لیکن حکومت نے ان تمام امور کے سلسلے میں جو بزدلانہ پالیسی اختیار کی ہے      وہ پاکستان کے تزویراتی (strategic) مفادات کے خلاف اور عوام کی امنگوں کے منافی ہے ۔

جمھوری روایات سے انحراف

دستور میں اٹھارھویں اور انیسویں ترامیم کے باوجود حالات میں کوئی قابل ذکر بہتری رونما نہیں ہو رہی ۔ زرداری صاحب عملاً اسی طرح حکومت کے چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جس طرح پرویز مشرف کررہا تھا اور آج بھی ایوان صدر اقتدار کا سرچشمہ اور سازشوں کا گہوارہ بنا ہواہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی واضح اعلان کے باوجود فاٹا کے حقوق اور وہاں کے عوام کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے سامراجی قانون سے نجات ،اس علاقے میں دستور کے دیے ہوئے حقوق دینے اور نظامِ عدل کے اجرا کے بجاے حال ہی میں صدارتی ریگولیشن کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن میں ڈی سی او کو اور فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کو پھانسی کی سزا دینے کے اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔ یہ انصاف کے خون کے مترادف ہے۔

لاقانونیت اور امن و امان کی ابتر صورت حال

ملک میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ کسی جگہ بھی عام شہریوں کو جان ، مال او رآبرو کی حفاظت حاصل نہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں بالکل ناکام رہی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میںگذشتہ ایک سال میں ۲ہزار سے زیادہ افرا د کو نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار ا گیاہے۔ بالخصوص گذشتہ سال ماہ جولائی ، اگست میں کراچی میں بے گناہ افراد کا بہیمانہ اور شرم ناک قتل عام ہوا ہے، مگر ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی میں ۱۲مئی ،۱۲ربیع الاول، ۹؍اپریل اور ۱۰محرم الحرام کے مجرموں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، اور سندھ میں تقریباً چار سال تک برسراقتدار تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر انگشت نمائی اور الزام تراشیاں کرتی رہی ہیں ۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،ٹارچر سیلوں ،نوگو ایریاز اور بوری بندلاشوں کے معاملات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد عوام کو توقع تھی کہ کراچی میں امن عامہ کے مسائل پر سپریم کورٹ کوئی واضح ، دوٹوک ،پایدار ،حقیقی اور مستقل حل پیش کرے گی ۔ لیکن بد قسمتی سے   سپریم کورٹ نے مسائل کی نشان دہی کرنے کے بعد حل کی ذمہ داری انھی حکمرانوں پر ڈال دی ہے کہ جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیںاور جن کو خود سپریم کورٹ نے ناکام قرار دیاہے۔  جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے مطابق براہِ راست نگرانی کو مزید فعال و با مقصد بنائے تاکہ کراچی میں وقتی نہیں بلکہ حقیقی امن قائم ہوسکے ۔

بے نظیر بہٹو کے قاتلوں کو تحفظ

 محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاونین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انھی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی، کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے ۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب جانتے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور دو تین ہفتے میں اس رپورٹ پر کارروائی کے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکراور نتیجہ خیز کارروائی نہیں ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جا رہاہے ۔نیز اس حادثے کے موقع پر پیپلز پارٹی کے اپنے سیکورٹی کے نظام کی ناکامی کے جولوگ ذمہ دار ہیں اور جن پر کمیشن کی رپورٹ میںبھی واضح اشارے کیے گئے ہیں، وہ بھی صدر صاحب کے سایے میں محفوظ ہیں ۔

ناکام معاشی پالیسی

معاشی اعتبار سے گذشتہ چار برسوں میں ملک میںجو بگاڑ رونما ہوا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔معاشی پالیسی سازی امریکا او رعالمی اداروں کی گرفت میں رہی ہے۔ یہ حکومت چار سال میں چار وزیرخزانہ ،چاروزارت خزانہ کے سیکرٹری اور اسٹیٹ بنک کے تین گورنرلگاچکی ہے لیکن آج تک کوئی مربوط معاشی پالیسی وجودمیں نہیں آسکی۔ قرضوں کا بار ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور آج پاکستان میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم ۱۲۰کھرب روپے سے متجاوزہو گیاہے اور صرف سالانہ سود اور ادایگی قرض کے لیے ۹سو ارب روپے سے بھی زیادہ اداکرنے پڑ رہے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر ساہو کاروں کو دیاجا رہاہے اور ان قرضوں کی ادایگی کے لیے نئے قرض لینے پڑ رہے ہیں جس کی بھاری قیمت موجودہ اور آیندہ نسلوں کوادا کرنا ہوگی ۔

مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ بے روزگاری بے تحاشا بڑ ھ رہی ہے ۔ غربت میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے اور بھوک اور افلاس کی وجہ سے اموات اورگھر کے کئی افرادکی خودکشی کی نوبت آگئی ہے جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۔ خود فیڈرل بور ڈ آف ریونیو (FBR) کے سربراہ نے کچھ عرصہ پہلے واضح اعتراف کیا تھا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور مطالبہ کیاگیا کہ حکومت کے قرض لینے پر فوری پابندی لاگو کی جائے۔سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے قرضے مختلف بنکوں کی طرف سے معاف کرنے کے از خودنوٹس لینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں سٹیٹ بنک کے وکیل نے بتایاتھا کہ ۱۹۷۱ء سے لے کر دسمبر۲۰۰۹ء تک ۵۰ہزار سے زائد افراد کے ۲۵۶؍ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ۵۰؍ارب روپے کے قرضے نجی بنکوں نے معاف کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی بنک کیسے قرض معا ف کرسکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا من مانے طریقے سے تو قرضے معاف نہیں کیے گئے ہیں۔ فاضل عدالت نے غیر قانونی طور پر معاف کیے گئے قرضوں کی رقوم وصول کرنے کے عزم کا اظہاران الفاظ میں کیاہے کہ ’’قومی دولت کو واپس لانے کے لیے عدالت کسی حد تک بھی جاسکتی ہے‘‘۔ موجودہ عالمی دبائو کے تناظرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۹۷؍ارب ڈالر کی بیرون ملک جمع لوٹی ہوئی دولت اور سیاست دانوں کے سوئٹزرلینڈ، اسپین اور دوسرے بیرون ملک بنکوں میں جمع رقوم کوملک کے اندربلاتاخیر لانے کے لیے واضح قانون سازی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

کرپشن کی انتھا اور اداروں کی تباھی

 حکومت کے ہر شعبے اور زندگی کے ہر میدان میں کرپشن اور بدعنوانی میںبے تحاشا اضافہ ہو رہاہے۔ ورلڈ بنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق کرپشن میں ان چاربرسوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ احتساب کا نظام ناپیداور احتساب کے قانون کا مسودہ چار سال سے   قومی اسمبلی میں پھنسا ہوا ہے اورصرف اس لیے کہ حکومت اسے کرپشن کے تحفظ کا قانون بنانے پر تلی ہوئی ہے، کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔سروسز میں تقرریوں ، تبادلوں اور ترقیوں میں میرٹ کا خون کیا جارہاہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں اور تادیبی اقدام کی سفارش کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے ۔ ہر سطح پر سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی جارہی ہیں اور قومی ملکیت میں اہم ترین ادارے بشمول اسٹیل مل ،پی آئی اے ،واپڈا ، ریلوے ،نیشنل انشورنس کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن، خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں اور ۴۰۰؍ارب روپے عوام کے منہ سے چھین کر ان سفید ہاتھیوں کی نذر کیے گئے ہیں ۔ پبلک سیکٹر ارباب اقتدار کی سیاسی مداخلت ، اقربا پروری اور دل پسند نااہل افراد کی تقرریوں کی وجہ سے تباہ ہوچکاہے ۔

توانائی کا سنگین ترین بحران

ملک میں توانائی کابحران اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوگئے ہیں ۔اس کے باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں ۱۴ فی صداضافہ اورتیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرلیاگیاہے۔ یہ ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بدترین صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور زراعت جس پر ۶۰،۷۰ فی صد آبادی کا انحصار ہے ایک بحران کے بعد دوسرے سنگین تر بحران کا شکار ہے۔ راولپنڈی ،اسلام آباد ، لاہور اور کئی دوسرے شہروں میں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہوجانے سے جو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے وہ بھی حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے،بلکہ نام نہاد عوامی حکومت نے ملک بھر کے عوام کے مطالبے پر توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیںکیا ہے۔

موجودہ حکومت سے نجات کی ضرورت

جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ پوری دیانت سے محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حکومت    بُری طرح ناکام ہوچکی ہے، اور اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام بے پناہ  مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور ملک شدید بحران میں مبتلا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان حالات کی اصلاح، رابطہ عوام مہم کے ذریعے عوام کی بیداری اور امریکا کی غلامی سے نجات کے لیے سرگرم عمل ہے، اوررابطہ عوام مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ،اسلام آباد،پشاور ، لاہوراور کراچی کے عوامی جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پذیرائی سے ثابت ہواہے کہ عوام موجودہ حکومت سے بے زار ہیںاور ان کی نگاہ میں ایک صاف ستھری جرأت مند اور باصلاحیت اسلامی قیادت ہی مسائل کا حل ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کومخلصانہ دعوت دیتی ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت ،ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام،معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیںتاکہ یہ قوم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ پر آگے بڑھ سکے۔ وطن عزیز پاکستان ملت اسلامیہ پاک و ہند  نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کے ۱۸ کرو ڑ انسان اپنی آزادی ، عزت اور حقوق کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ پاکستان جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور ایک مقدس امانت ہے، اس کی حفاظت اور اسلامی اور جمہوری بنیادوں پر اس کی ترقی اور استحکام کے لیے میدان میں اُتریں اور مؤثر اور پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا ،قومی مقاصد کے حصول اور ملک اور اس کے عوام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔

مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحۂ ایبٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ چھے برسوں سے اُسامہ بن لادن کس کے ویزے پر یہاں تھا، اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش ہے۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم کے اٹھائے گئے اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ 

اجلاس محسوس کرتاہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی عدلیہ اور فوج سے مسلسل محاذ آرائی اور دھمکیاں اداروں میں ٹکرائوکا باعث بنیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کررہی ہے۔

اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے جو کام چار برسوں میں نہ کرسکی اب مزیدچندمہینوں میں کیا کرے گی، اس لیے ایک غیر جانب دار عبوری انتظامیہ اور ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی قیادت کا انتخاب کرسکے۔

مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس یہ بھی واضح کرتاہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بنا کر اگر کسی غیر جمہوری، غیرآئینی شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجلس شوریٰ کی نظر میں ایسا ہر اقدام ملک و قوم کے بے پناہ مصائب میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ مرکزی مجلس شوریٰ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور اور تمام قومی اداروں پر واضح کرتی ہے کہ ہرسیاسی بحران کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے ۔ اس لیے صرف آئینی راستوں کو اختیار کیا جائے ۔ موجودہ حکومت کی کرپشن اور ہرلحاظ سے ناکامی کی بنا پر اس حکومت سے جلد ازجلد نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔