۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

عورتوں کی باجماعت نماز

ڈاکٹر عبد الحی ابڑو | ۲۰۱۲ فروری | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

وحی متلو.ّ اور غیر متلو.ّ ، یعنی قرآن و سنت، فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ ان کے بعد اجتہاد کا درجہ ہے جس پر اگر باہمی اتفاق ہوجائے تو اجماع قرار پاتا ہے اور مصادر نقلیہ (قرآن و سنت و اجماع) میں وحی کے بعد اس کی حجیت اور اہمیت مسلّمہ ہے۔ اجتہاد اگر اجماع کا درجہ نہ پاسکے تو وہ انفرادی راے کے درجے میںہوگا اور عامی کے لیے عمل کے سلسلے میں اس کے حجت ہونے پر اکثر اہل علم متفق ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاے مجتہدین کی اجتہادی آرا ایک وقیع سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے ہر دور میں اُمت نے استفادہ کیا ہے اور دینی مسائل میں بجاطور پر رہنمائی حاصل کی ہے۔ علماے محققین ابتدا ہی سے اس بارے میں اعتدال و توازن کی راہ اپنانے پر زور دیتے آئے ہیں کہ اگر فقہی مذاہب کی کوئی راے ایسی ہو جو نصِ صریح سے ٹکراتی   نظر آتی ہو تو ترجیح بہرحال نص ہی کو دی جائے گی۔ بحث و تحقیق کی یہ ایک وسیع جولان گاہ ہے  جس میں اہلِ نظر کی عمدہ کاوشیں ہم دست ہیں۔ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ان سطور میں عورتوں کی باجماعت نماز کا ایک سرسری جائزہ لینا مقصود ہے۔

حنفی فقہ کی کتب میں عورتوں کی جماعت کو بالعموم مکروہ بتایا گیا ہے۔ چنانچہ ہدایہ کی ایک عربی عبارت کا ترجمہ یوں ہے: ’’صرف عورتوں کی الگ جماعت مکروہ ہے، اس لیے کہ وہ ایک حرام و ممنوع امر کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوسکتی اور وہ ہے : ان کی امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا، جیسے اس صورت میں ہوتا ہے جب لباس سے محروم لوگ باجماعت نماز ادا کریں، لیکن اگر عورتیں نماز باجماعت ہی ادا کرنا چاہیں تو (عورت) امام کو ان کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے، اس لیے کہ حضرت عائشہؓ نے ایسا ہی کیا تھا، مگر ان کا یہ فعل ابتداے اسلام پر محمول کیا گیا ہے (لہٰذا اس سے عورتوں کی جماعت کے جواز کے حق میں استدلال نہیں کیا جاسکتا)‘‘۔

در مختار میں اس سے ذرا آگے بڑھ کر عورتوں کی جماعت کے مکروہ تحریمی ہونے کی صراحت کی گئی ہے، اگرچہ وہ تراویح کی جماعت ہی ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک عورت کی امامت مکروہ ہے، البتہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر ہی لیں تو وہ ادا ہو جائے گی۔

برعظیم پاک و ہند کے حنفی مفتی حضرات کا رجحان بھی اسی طرف ہے، اور وہ احناف کے روایتی نقطۂ نظر کی پیروی میں عورتوں کی امامت کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بچیوں کی تحفیظ القرآن کی درس گاہوں کے باوجود نماز تراویح وغیرہ میں حافظات کی امامت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں (برعظیم کے نام وَر حنفی محقق مولانا عبدالحی لکھنوی کوالبتہ ایک استثنا قرار دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اس بارے میں الگ رسالہ تحریر کیاہے جس میں احناف کے دلائل کاردّ کرکے عورتوں کی جماعت کے جواز کو ثابت کیا ہے)۔

احناف کی راے سے بھی زیادہ متشدّد انہ راے مالکی فقہاکی ہے جو عورت کی امامت کو فرائض یا نوافل، دونوں طرح کی نمازوں میں سرے سے درست نہیں سمجھتے۔ البتہ شافعی فقہاکے نزدیک اور حنابلہ کے ایک قول کے مطابق عورت کا عورتوں کی امامت کرانا، نہ صرف درست، بلکہ مستحب ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ  اور حضرت ام سلمہؓ کے بارے میں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرائض و نوافل میں عورتوں کی امامت کی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابیہ ام ورقہؓ بنت نوفل سے فرمایا تھا کہ وہ اپنے محلّے کی عورتوں کی امامت کرلیاکریں۔ آپ ؐنے اس کے لیے ایک بوڑھے مؤذن کا تقرر بھی فرمایا تھا۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ام ورقہؓ کی امامت کی احادیث و آثار سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، بیہقی،دارقطنی، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، امام محمد کی کتاب الآثار اور دیگر کتب حدیث میں روایت ہوئے ہیں۔ دیگر ناقدین احادیث کے علاوہ ابن حزم، نووی، زیلعی اور ابن حجر وغیرہ جیسے محققین نے ان کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ان صحابیات کا امامت کرانا کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔سعودی عرب اور مصر کی فتویٰ کونسلوں کے علاوہ   موجودہ دور کے نام وَر عرب علمانے بھی عورتوں کی امامت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ان میں     شیخ ابن باز ، شیخ صالح المنجد، شیخ یوسف القرضاوی اور دیگر حضرات شامل ہیں۔

اب رہا یہ سوال کہ علماے احناف نے جو راے اختیار کی ہے اور اس کے لیے جو استدلال کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟ خوش قسمتی سے اس کا شافی اور مسکت جواب خود ایک حنفی عالم شارح ہدایہ ، علامہ بدر الدین عینی (م:۸۵۵ھ) کی البنایہ شرح الہدایہ میں ملتا ہے۔ علامہ عینی کی شخصیت اور ان کی تالیفات خاص طور پر بخاری اور ہدایہ کی شروح کا جو مقام ہے، اس سے تمام حنفی اہلِ علم بخوبی واقف ہیں، لہٰذا آپ کی راے کو سطحی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علامہ عینی نے عورت کی امامت کے جواز پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔

  • بدعت کا پھلو: ایک حنفی عالم علامہ اترازی کی اس بات پر کہ ’’عورت کی امامت ہمارے نزدیک مکروہ مگر شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے‘‘، کہتے ہیںکہ اگر یہ مستحب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بیان فرماتے، لہٰذا عورت کی امامت بدعت اور مکروہ ہے‘‘ ، علامہ عینی اس کے جواب میں کہتے ہیں : ’’امام شافعیؒ کے علاوہ اوزاعیؒ، ثوریؒ اور امام احمدؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن منذر نے اسے حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ سے بھی نقل کیا ہے۔ اگر امرِ واقع یہی ہے تو عورتوں کی امامت بدعت کیسے قرار پائے گی؟ بدعت تو ایسی نئی بات ایجاد کرنے کا نام ہے جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تھی، جب کہ ابودائود نے سنن ابی داؤد، باب امامۃ النساء میں اُم ورقہؓ کی روایت بیان کی ہے (یہ روایت اوپر آچکی ہے) ۔ نیز مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے اور وہ ان کے درمیان میں کھڑی ہو۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ کے بارے میں روایات آئی ہیں کہ انھوں نے صف کے درمیان کھڑے ہوکر عورتوں کی امامت کی‘‘۔
  • حرام کاارتکاب: صاحب ِہدایہ کے اس قول کہ ’’عورتوں کی امامت ایک ناجائز فعل کے ارتکاب سے خالی نہیں ہے اور وہ ہے ان کی امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا‘‘، علامہ عینی   اس پر کہتے ہیں : ’’امام کا ان کے درمیان کھڑا ہونا حرام کیسے ٹھیرا؟ جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ سے اس کا فعل اور حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تصریح موجود ہے۔ مزید برآں اس حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حرمت صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں‘‘۔
  • کراھت کا پھلو: صاحبِ ہدایہ کہتے ہیں:’’اس لیے عورتوں کی امامت مکروہ ہے ‘‘۔ علامہ بدر الدین عینی اس پر کہتے ہیں: ’’کیسے مکروہ ہے؟ جب کہ محلّٰی میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نماز مغرب میں عورتوں کی امامت کی اور بلند آواز سے قراء ت کی، اور حضرت ام سلمہؓ نے عصر کی امامت کی۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں ابراہیم نخعی کی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی اور ان کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ اس سے اترازی کی ’’بدعت‘‘ اور صاحب ِہدایہ کی ’’ارتکاب محرم‘‘ والی بات کی تردید ہوتی ہے‘‘۔
  • جواز امامت کا ابتداے اسلام پر محمول کرنا: علامہ عینی، علامہ اترازی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ کی امامت کرانے کی بات آغاز اسلام کی ہے، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا جب ازواجِ مطہراتؓ کو گھروں میں ٹکی رہنے کا حکم دیا گیا‘‘۔ علامہ عینی اس کے رد میں فرماتے ہیں: ـ’’یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے سیر و سوانح کی کتب کو دیکھا تک نہیں! اصل صورت حال یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ سے آپؐ کا نکاح مدینہ منورہ میں ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انھوں نے نو سال گزارے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے امامت سنِ بلوغ کو پہنچنے کے بعد ہی کی ہے، تو یہ اس کو ابتداے اسلام پر محمول کرنے والی بات کیسے درست ہوگی!‘‘
  • بعض دیگر شبھات : ایک اور شبہہ یہ کیا جاتاہے کہ اگر عورتوں کی جماعت مشروع ہوتی تو اس کا ترک کرنا مکروہ ہوتا اور وہ اسی طرح رواج پاتی جس طرح مردوں کی جماعت مروج ہوئی! یہ اور اس طرح کے دیگر شبہات کا ذکر کر کے علامہ عینی فرماتے ہیں: یہ تمام اعتراضات درست نہیں۔ اس لیے کہ کسی چیز کے مشروع ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا چھوڑ دینا مکروہ ہے۔ یہ کوئی کلیہ نہیں، اس لیے کہ مشروع چیز اگر فرض ہو تو اس کا چھوڑنا حرام ہے، سنت ہو تو چھوڑ دینا مکروہ ہے، اور اگر مندوب و مستحب ہو تو اس کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑ دینا مکروہ نہیں‘‘۔

درج بالا دلائل جواز اور امام عینی کے استدلال اور مانعین کے دلائل کے رد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا نہ صرف جائز بلکہ استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔

 

  • مضمون نگار بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں استاد ہیں