کیا انسانیت کی معراج بس یہی ہے جہاں اس تہذیب ِ الحاد نے لاکر ہم کو کھڑا کردیا ہے؟ اور کیا واقعی ہم بس اس بات پر مجبور ہیںکہ اسی تہذیب کی پیش کردہ تین تحریکوں [جمہوریت، سوشلزم، اور فاشزم] میں سے کسی ایک کو انتخاب کر کے لازماً اس کا دامن تھام لیں؟ اور کوئی نیا راستہ ہمارے لیے باقی نہیں ہے کہ ہم ان راستوں سے منہ موڑ کر اس طرف چل کھڑے ہوں؟ …
ہم اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ہم اس تہذیب کے پیدا کردہ حالات کو انسانیت کی معراج نہیں سمجھتے۔ ہم اس کی پیش کردہ تحریکوں کو حرفِ آخر نہیں مانتے۔ ہم اپنے آپ کو اس پر مجبور نہیں پاتے کہ بے چون و چرا ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔ ہم تہذیب ِالحاد کی کسی ایک تحریک کو اختیار کرنے اور کسی دوسری تحریک کو ردّ کرنے کے بجاے اس پورے دورِ تہذیب کو ردّ کرتے ہیں۔ ہم ان تحریکوں کو ایک ہی خاندان قرار دیتے ہیں___ اور ایسا خاندان کہ جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ’’ایں خانہ تمام آفتاب است!‘‘___ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو یہ سمجھے ہیں کہ انسان اپنی ارتقا کی آخری منزل پر آچکا ہے اور تاریخ اس منزل پر آکھڑی ہوئی ہے جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ اور ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو الحاد کی کسی ایک تحریک کا جھنڈا اُٹھا کر اس کی کسی دوسری تحریک کے خلاف لڑکر سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی بڑا جہاد لڑر ہے ہیں۔ ہم ان کے برخلاف یہ سمجھتے ہیں کہ تہذیب ِ الحاد انسان کو بدترین پستی کے مقام پر لے آئی ہے اور ہمار ا منصب یہ ہے کہ ہم اس پوری تہذیب، اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری تحریکوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں۔ ہم اس پورے مجموعۂ تہذیب کو ردّ کرکے اس کے خلاف نئے اصولوں پر ایک نئی تہذیب اور اس دور کے خلاف ایک نئے دور کا جھنڈا اُٹھا رہے ہیں… ہم اس لمحے پر کھڑے ہوکر آج تہذیب ِ الحاد کے مقابلے میں تحریکِ اسلامی کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں، اور یہ حقیر سی ابتدا اپنے سامنے ایک شان دار انتہا رکھتی ہے۔ (’اسلامی تحریک دوسری تحریکوں کے مقابل میں‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۵، جمادی الاول ۱۳۷۱ھ، فروری ۱۹۵۲ئ،ص ۳۳-۳۴)