یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس شخصیتوں اور ان کی الہامی تعلیمات پر کبھی دل آزار تنقید نہیں کی گئی۔ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی اُمہات المومنینؓ کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے، بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے درحقیقت یہ ایک طرفہ لڑائی ہے جسے حملہ آور فریق ہی ختم کرسکتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے نفسیات کے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے جاری رہتے ہوئے کسی خیرسگالی کے نشوونما پانے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک وجۂ شکایت نہیں ہے، بلکہ وہ بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ بالعموم اہلِ مغرب کا رویّہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیں،بلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہے۔ وہ علمی تنقید کی حدود سے اکثر تجاوز کرجاتے ہیں اور ہمیں black paint کرنے کی کوشش میں ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں ناروا داری کہنا معاملے کو بہت ہلکا بنانے کا ہم معنی ہوگا۔ ایسی مثالیں بہ کثرت پیش کی جاسکتی ہیں.... کہ انھوں نے ہم کو دانستہ misrepresent کیا ہے اور بالکل جھوٹ اور بے اصل باتیں تک ہماری طرف منسوب کرنے میں تامل نہیں کیا ہے۔ ان کا مستقل رویّہ یہ رہا ہے کہ ہمارے دین یا ہمارے ہیروز کی زندگی یا ہماری تاریخ میں جس بات کو بھی دو معنی پہنانے کی گنجایش ہو، اسے وہ بُرے ہی معنی پہنانے اور اس کا تاریک رُخ ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مسلسل عناد کا رویّہ ظاہر ہے کہ اپنا بُرا ردعمل پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی عناد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ....اسلام کے تجدید و احیا کی ہرکوشش کا استقبال مغرب میں ایک شدید احساسِ خطر کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور مسلمان ملکوں میں اسلام سے انحراف، بلکہ اس کے خلاف بغاوت کی ہراطلاع ان کے لیے خوش خبری کا حکم رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں میں سے وہ سب لوگ انتہائی تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو مسلمان ملکوں میں اسلام کی اصلی بنیادوں پر زندگی کی ’تعمیرجدید‘ اور ’ترقی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی اسلام سے عناد ہی کا ایک شاخسانہ ہے اور اس معاملے میں اہلِ مغرب خود اپنی اقدار (values) اور اپنے ہی اصولوں کا لحاظ بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک مسلمان ملک میں کوئی ’ایثارپسند‘ حکمران گروہ اگر کسی اسلامی تحریک کو کچلنے کے لیے رواداری، جمہوریت اور عدل و انصاف کے سارے تقاضوں کو بھی پامال کرگزرے تو صرف یہ ایک بات کہ یہ سب کچھ اسلام کے revival کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے، اس بات کے لیے کافی ہوتی ہے کہ مغرب سے اس پر تحسین و آفریں کی صدائیں بلند ہوں۔
ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دوست ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کہ یہ طرزِعمل بجاے خود کہاں تک حق بجانب ہے، اور اس سے وہ کس اچھے نتیجے کی توقع رکھتے ہیں۔ (مغرب اور اسلام از پروفیسر خورشیداحمد کا دیباچہ، بحوالہ تذکرہ سید مودودیؒ-۲، ص ۷۱۵-۷۱۶)