۲۰۱۲ فروری

فہرست مضامین

مصر میں تحریک کا سیاسی محاذ: حکمت ِعملی کے چند پہلو

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | ۲۰۱۲ فروری | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

مصر میں انتخابات کے پہلے دور کے نتائج نے مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں، مسلم دنیا کے لادین عناصر، اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ ممالک کو ان زمینی حقائق سے روشناس کردیا ہے جن کو دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ تقریباً ۶۰برس سے مصر پر مسلط لادین عناصر اپنی تمام تر سیاسی حکمت ِعملی، عارضی فوجی کونسل کی حمایت اور مغربی ممالک کی ’نیک خواہشات‘ کے باوجود ہرمحاذ پر ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں ۶۰برس سے جبروتشدد اور ظلم واستحصال کا نشانہ بننے والی تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے، ان مقامات پر بھی جو قدرے اباحیت پسند شمار کیے جاتے ہیں اور جہاں پر شہری آبادیاں بظاہر دینی معاملات میں کچھ زیادہ روشن خیال شمار کی جاتی ہیں، کامیابی سے ہم کنار کیا۔ نہ صرف تحریکِ اسلامی کو بلکہ غلو کی طرف مائل سلفی اُمیدواروں کو بھی قابلِ ذکر نمایندگی حاصل ہوئی۔

انتخاب کے تینوں مراحل کے نتائج اب آگئے ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق حزب الحریہ والعدالہ (Freedom & Justice Party) کو جو اخوان المسلمون کا سیاسی محاذ ہے، کُل ووٹوں کا ۴۶ فی صد حاصل ہوا ہے، اور اس طرح ۴۹۸ کے ایوان میں ان کو الحمدللہ ۲۳۰ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں اور ۹ کی مزید توقع ہے (یہ ان ۱۸ نشستوں کے سلسلے میں ہیں جن کا انتخاب دوبارہ ہو رہا ہے)۔ سلفی تحریک کے سیاسی محاذ حزب اللہ کو ۲۳ فی صد ووٹ اور ۱۱۳ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام پسند قوتوں کو دو تہائی ووٹ (۶۹ فی صد) کی تائید حاصل ہے۔

یہ تناسب نہ صرف مصر کے لادین عناصر بلکہ خود یورپ اور امریکا کے دانش وروں کے لیے ناقابلِ یقین تصور کیا جارہا تھا۔ اسرائیل جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے مصر کو عملاً اپنا حلیف سمجھتا رہا ہے، اسلامی عناصر کے اُوپر آنے سے سخت مضطرب ہے کیونکہ تحریکِ اسلامی کا فلسطین کی آزادی پر موقف ۱۹۴۸ء سے آج تک اسرائیل کی آنکھ کا سب سے بڑا کانٹا رہا ہے۔ مصر میں تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کا وجود میں آنا اور ایک مناسب سیاسی حکمت ِعملی کا وضع کیا جانا دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مشن اور مقصد حاکمیت ِالٰہی کے قیام کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے ایک ہمہ جہتی نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام دلوں کی تائید اور انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی کے تمام اداروں کی کارکردگی کے ساتھ خود سیاسی قوت کے تعمیری استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ دعوت و اصلاح کا عمل جہاں فرد اور ْخاندان کی اصلاح کرتا ہے وہیں معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عملی طور پر شریعت کے کُلی نظام کے نفاذ کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ سیاسی حکمت ِعملی اس کُلی عمل کا ایک لازمی عنصر ہے۔

۸۳برس تک مسلسل جدوجہد کرنے، سخت آزمایشوں اور ابتلا سے گزرنے اور تقریباً ۵۸برس تک جابرانہ حکومتوں کے کالے قانون کے زیراثر غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود مصر میں تحریکِ اسلامی کا اُبھرنا، جہاں دعوت کی صداقت کی دلیل ہے وہاں قرآن کریم کی اُس پیش گوئی کی عملی تعبیر بھی ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم انھیں اعلیٰ انعامات سے نوازیں گے۔ یہ جہاد فکری، اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی بھی اور ضرورت پڑنے پر عسکری بھی۔ البتہ تحریکاتِ اسلامی کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں جہاد کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے۔

مصر کے حوالے سے جو تجربہ کیا گیا اسے اختصار کے ساتھ چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

  • جدید تشخص کی تعمیر: ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کے جہاد فلسطین میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے اور بعد میں جمال عبدالناصر کے جابرانہ دور میں ’تخریبی‘ اور ’جہادی‘ تحریک کا نام دیے جانے کے نتیجے میں نہ صرف عرب دنیا، بلکہ مغرب میں اخوان المسلمون کو ایک ’انتہاپسند‘ اور’ بنیاد پرست‘ تحریک کا نام دے دیا گیا، اور ہر قابلِ ذکر علمی تجزیے میں سید قطب شہید اور سید مودودی کے ناموں کو ’بنیاد پرست‘ اور ’مائل بہ عسکریت‘ مفکرین کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔  یہ کام اتنے تواتر سے کیا گیا کہ ایک عام قاری کے ذہن میں اخوان کی تصویر بڑی حد تک وہی بنی جس کی تصویرکشی مغربی میڈیا، سیاست دان اور دانش ور کر رہے ہیں۔ اس کی قریبی مثال پاکستان کے تناظر میں جہادکشمیر پر جماعت اسلامی پاکستان کے موقف سے دی جاسکتی ہے۔ ایک خفیہ ایجنسی کے نمایندے کے ایک نظری سوال کے جواب میں جو اصولی بات مولانا مودودیؒ نے بیان کی اسے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک فتنہ کھڑا کردیا گیا، اور اسے اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس شاطرانہ پروپیگنڈے کے زیراثر آگئے۔ ایسے ہی قیامِ پاکستان کے حوالے سے ایک احراری رہنما کے قائداعظم محمدعلی جناح پر تبصرے کو مولانا مودودی سے منسوب کر کے     سفید جھوٹ کو ایک شبہے کی شکل دے دینا بھی ابلاغِ عامہ کے کمالات میں سے ایک ہے۔

بالکل اسی طرح اخوان کی تصویر (image) کو مشرق و مغرب میں عسکریت پسند، تشددپسند ، انتہا پسند مشہور کر کے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اخوان المسلمون کے سوچنے سمجھنے والے افراد نے اس تاثر کی اصلاح کے لیے نہ تو مداہنت اختیار کی،نہ جہاد پر کسی معذرت کا اظہار کیا اور نہ اپنی سرگرمیوں کو صرف عقائد و عبادات تک محدود کرنے پر غور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عصرِحاضر کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اصل مشن ’’اللہ ہماری غایت ہے، رسولؐ ہمارے قائد و رہنما ہیں، اور جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ سے انحراف کیے بغیر اپنی تربیتی اور تنظیمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک آزاد سیاسی محاذ کو قائم کیا، جو مقامی اور ملکی مسائل پر عوام کے تعاون سے حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس حکمت ِعملی سے ایک جانب اخوان کے حلقۂ اثر میں وسعت پیدا ہوئی، تو دوسری جانب نیا خون اور نئے چہرے ملک میں اصلاح کے عمل کی خواہش کے ساتھ سامنے آئے، اور نوجوان آبادی کو خصوصاً اپنے آپ کو منظم کر کے قیادت کا فرض ادا کرنے کی تربیت ملی۔

ملکی مسائل میں غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی ترقی کا حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد وہ مسائل تھے جن پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے مقابلے میں وہ مسائل جو کہ بنیادی ہیں لیکن جن سے عوام کی سوچ پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، مرکزِ توجہ نہیں بنائے گئے۔ اخوان کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ  وہ امریکااور اسرائیل کو شدت سے ناپسند کرتے ہیں لیکن سیاسی حکمت ِعملی میں ان کا زیادہ زور جمہوری روایت کا احیا، خواتین کے حقوق کی فراہمی اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر رہا۔

حصولِ مقصد کے لیے حکمتِ عملی بنانے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ جو ترجیحات ۵۰،۶۰برس پہلے طے کی گئی تھیں، ان سے سرموانحراف نہ کیا جائے، بلکہ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے حکمت ِعملی وضع کرنا خود شریعت کا مطالبہ ہے۔ بلاشبہہ مقاصد اور اخلاقی اور روحانی اقدار کے فریم ورک میں نئے حالات کی روشنی میں مسائل کے نئے حل کی تلاش شریعت کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم میں تبدیلی شرعی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس لیے اخوان المسلمون کا اپنے دعوتی اور تربیتی نظام کے ساتھ بطور تحریک اسلامی قائم رہنا اور ایک سیاسی محاذ کا بنانا شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

  • متوازن اور روشن خیال گروہ: سیاسی محاذ نے اپنے بیانات اور طرزِ عمل سے ایک متوازن اور روشن خیال (moderate) گروہ ہونے کا اظہار کیا۔ یہ آسان کام نہ تھا اور نہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے دینی معاملات میں کوئی مفاہمت یا مداہنت کی روش اختیار کی۔ ہمارے سامنے ترکی کی مثال ہے کہ منتخب صدر اور وزیراعظم کی بیویوں کو صرف اس بنا پر کہ وہ اسکارف استعمال کرتی ہیں، عسکری اداروں نے سرکاری تقریبات میں شرکت سے روک دیا لیکن انھوں نے نہ مفاہمت کی، نہ شدت پسندی کا رویہ اختیار کیا۔ نتیجتاً انھیں ترکی میں ماڈریٹ کا نام دیا گیا۔ اخوان نے بھی مصر میں اپنے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے ایمان دار اور دیانت دار افراد پر مشتمل ایک سیاسی محاذ قائم کیا جس نے اپنے آپ کو ایک متبادل اور معتدل قیادت کے طور پر پیش کیا اور جذباتی نعرے بازی اور دھمکیوں کی جگہ ٹھوس فلاحی کاموں پر توجہ دی۔

ترکی میں بھی تحریکِ اسلامی نے اپنا تاثر ایک معاشی اصلاح، اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند رفاہِ عامہ کے کاموں کو اہمیت دینے والی جماعت کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں بہت سے ذہنوں سے وہ خدشات جو مغرب کے منفی پروپیگنڈے سے پیدا کیے گئے تھے، آہستہ آہستہ دُور ہوئے۔ ترکی پر اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر صرف اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بعض اوقات تحریکاتِ اسلامی کو اپنے مقصد، منزل، طریق کار پر پورے اعتماد کے ساتھ ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنی پڑتی ہے جو حصولِ مقصد کے لیے مباح اور ترجیحات میں تبدیلی کی متقاضی ہو۔

  • تشخص کا تحفظ:سیاسی محاذ نے ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کے بجاے    اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے طویل جدوجہد کو فوقیت دی، اور آخرکار ۸۳سال کے بعد اس کوشش اور جدوجہد کے پھل سامنے آئے۔ تحریکاتِ اسلامی کا ایک خاصّہ یہ بھی ہے کہ مؤسسین کے بعد جو افراد جماعت میں شامل ہوتے ہیں، وہ بار بار یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ ہم کب تک بے لوث جدوجہد کرتے رہیں گے، جب کہ مفاد پرست جماعتوں کے قائد ہوں یا کارکن، وہ غیرشفاف ذرائع سے نہ صرف اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے دورِ اقتدار میں ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے صالح اور دیانت دار قیادت کے اُوپر آنے کے امکانات دھندلے نظر آنے لگتے ہیں؟ہمارے خیال میں ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ حضرت عیسٰی ؑکے حواریوں نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا اور حضرت موسٰی ؑکو جب معرکہ درپیش تھا تو ان کی اُمت نے بھی یہی کہا تھا کہ تم اور تمھارا رب جاکر مقابلہ کریں ہم تو یہاں بیٹھے نتائج کا انتظار کریں گے۔ ان سوالات کا اُبھرنا کوئی حیرت کی بات نہیں، جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کی قیادت کا مقصد اور ہدف کا نظروں سے اوجھل ہوئے بغیر حصولِ مقصد کے لیے صحیح حکمت ِعملی کا اختیار کرنا۔

مصر میں تحریکِ اسلامی نے اپنے نظم اور نظامِ تربیت کو برقرار رکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اختیار کی ہے وہ دیگر تحریکات کے لیے غوروفکر کا ایک اہم پہلو نمایاں کرتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو حکمت ِعملی کسی ایک مقام پر کامیاب ہو، بعینہٖ وہی حکمت ِعملی کہیں اور بھی اختیار کی جائے۔ ہاں، اگر زمینی حقائق کا تجزیہ یہ بتائے کہ اس حکمت ِعملی سے حصولِ مقصد میں آسانی ہوگی تو محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ حکمت ِعملی کسی اور مقام پر کارگررہی،لہٰذا اس کے اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے، مناسب نہیں۔نیز ضروری نہیں کہ ایک مقام کے تجربات کو من و عن دوسری جگہوں پر اختیار کیا جائے۔ مختلف اجزا اور پہلوئوں میں انتخاب اور ترمیم و تصحیح (modification) کا عمل بھی جذب و انجذاب کے اس وسیع ترعمل کا حصہ ہے۔

مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہوں سے جب یہ کہا گیا کہ وہ مصر میں ترکی ماڈل کیوں نہ اختیار کریں، تو ان کا جواب یہی تھا کہ ہم اپنا ماڈل خود تعمیر کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تحریکی ضرورت ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت ایسے معاملات میں کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر کرے اور ایک دوسرے کے تجربات و مسائل سے آگاہی اور استفادہ کرے۔

  • خدشات: مصر میں انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے ساتھ ہی جو خدشات اُبھر رہے ہیں ان پر بھی معروضی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ فوج کی نگران کونسل نے جب انتخابات کا وعدہ کیا تو اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ پارلیمنٹ کو دستور میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہ ہوگا اور دستور کی تدوین کے لیے ۱۰۰؍افراد کی ایک مجلس کام کرے گی، جس میں فوج کو بہت سے حالات میں آخری فیصلے کا حق ہوگا۔ گویا پارلیمان دستورسازی کے معاملات میں بااختیارہوگی بھی اور نہیں بھی۔ اس مسئلے پر تحریکِ اسلامی نے جو موقف اختیار کیا، وہ جمہوریت کی روح کے مطابق ہے، یعنی پارلیمان کو کُلی اختیارات کا دیا جانا اور فوج کو پارلیمان کے ماتحت کام کرنا ہوگا۔ فوجی کونسل اور اس کے سربراہ جو ۳۰ برس سے حسنی مبارک کی زیرسرپرستی کام کرتے رہے ہیں، اپنے اختیارات کو یوں ہاتھ سے جاتا دیکھ کر کیسے خوش ہوسکتے تھے۔ چنانچہ آزادی کے چوراہے (تحریر اسکوائر) میں اس حوالے سے انتہائی کامیاب مظاہرے کیے گئے جن کو فوج نے تشدد کے ذریعے ختم کرنا چاہا اور مظاہروں میں شریک خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔ انھیں زدوکوب کیا گیا اور بعض کے کپڑے چاک کرکے بے پردہ کیا گیا۔ اس واقعے پر مشہور ایٹمی سائنس دان محمد البرادی نے سخت احتجاج کیا۔  گو، البرادی کا تعلق روشن خیال مغرب زدہ افراد میں کیا جاتا ہے لیکن ایسے افراد بھی فوج کے جبروتشدد پر احتجاج کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ فوج کا یہ اقدام اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ فوج انتخابی نتائج سے خائف ہے اور کسی بہانے اپنے اختیارات کو مزید توسیع دینا چاہتی ہے۔ یہی اندرونی کش مکش امریکی قیادت کو درپیش ہے۔ ایک جانب وہ حسنی مبارک کی جگہ ایک نیا چہرہ اقتدار پر فائز دیکھنا چاہتی ہے، ساتھ ہی ملک گیر تحریک جمہوریت کی مخالفت بھی نہیں کرسکتی اور اس جمہوری تحریک کے زیراثر جو اسلامی عناصر سیاسی محاذ پر اُبھر کر آرہے ہیں، ان کا آنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
  • حکمتِ عملی کی بنیادیں: اخوان المسلمون کی طویل حکمت ِعملی کو تین نکات میں اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:

اوّلاً، گذشتہ ۸۳برس کے عرصے میں اقامت ِدین کی جدوجہد میں نظامِ تربیت کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو اپنے مقصدحیات کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن کا تعلق زندگی کے ہرشعبے سے ہو۔ چنانچہ ڈاکٹر، انجینیر، اساتذہ، تاجر، قانونی ماہرین اور کسان، ہرہرطبقے میں دعوت کے نفوذ کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے کے لیے متبادل قیادت اور ایک ایسی افرادی قوت کی تیاری جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہو،اخوان کی حکمت ِعملی کا حصہ رہی۔

ثانیاً، نوجوان نسل میں اسلامی فکر کا احیا اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی حکمت ِعملی۔ اس غرض کے لیے دعوت کے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے ساتھ عوام تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اس جماعت کے افراد ایمان داری، حق پرستی اور مستقل مزاجی اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ملک میں امن، عدل، تعلیم اور معاشی خوش حالی چاہتے ہیں۔ اخوان کے دفاعی اور تعلیمی ادارے اور اجتماعی زندگی میں، syndicates میں ان کی مؤثر کارکردگی نے قوم میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ ان کے ذریعے دیانت دار اور اہلیت کی حامل قیادت برسرکار آسکتی ہے۔یہی وہ عنصر ہے جو اخوان کے سیاسی محاذ کے طور پر حالیہ واقعات میں اُبھر کر سامنے آیا اور جس پر مصری عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔

ثالثاً، تحریک اور اس کے سیاسی محاذ میں قریبی ربط کے باوجود ایک فاصلہ رکھنا تاکہ    عملی معاملات میں اصولوں سے انحراف نہ ہو، اور سیاسی مہم میں پیش آنے والے بعض معاملات میں سیاسی محاذ کو رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ یہ احتیاط اور توازن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تحریک کے مرکز قوت پر اس کے دیگر اعضا میں عدم تعاون کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔

اس پورے عرصے میں اخوان المسلمون نے اپنی امریکا مخالف پالیسی میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی، لیکن اپنے دروازے امریکا کے اہلِ فکر کے لیے بند بھی نہیں کیے۔ یہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر اخوان کے بارے میں جو تاثر پہلے ہی سے قائم کرلیا گیا تھا، اس میں ان کا غیرجمہوری اور تشدد پسند ہونا مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اور تحریک کے نئے تشخص میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جمہوری ذرائع سے اسلام کی عظمت چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اخوان کی مذاکراتی (dialogue)پالیسی کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔

  • تحریکِ اسلامی پاکستان کے لیے غور طلب پھلو: پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کا دستور اور اس کی گذشتہ ۷۰سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ اسلامی انقلاب کے لیے دستوری ذرائع ہی کو درست سمجھتی ہے۔ گو، اپنی پوری سیاسی تاریخ میں صرف ایک موقع پر دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے تحفظ اور جمہوری نظام کے قیام کی غرض سے بمشکل چند ماہ ایک ایسی حکومت میں شامل ہوئی جس کا سربراہ فوجی تھا، اور جیسے ہی اندازہ ہوا کہ اس مقصد کے حصول میں رکاوٹیں ہیں، وہ قومی اتحاد کی حکومت سے الگ ہوگئی، جب کہ بقیہ سیاسی جماعتیں جو اپنی پاک دامنی کا دعویٰ کرتی ہیں ایسی اخلاقی جرأت کے اظہار میں ناکام رہیں۔

بظاہر تین مسائل غور طلب ہیں: کیا اپنے اصولی موقف کے ساتھ تحریکِ اسلامی نے  داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو عوام میں اُمید اور ان کے مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرسکے؟ امریکا کی مخالفت اور ملک کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ملک میں اس کے عمل دخل کو ختم کرنے کی جدوجہد، وقت کی ایک اہم ضرورت ہے،    لیکن ضروری ہے کہ ان اُمور کے ساتھ قوم کو پوری قوت سے ان اُمور پر مرکوز کیا جائے جن کا تعلق ایک عام آدمی کی زندگی سے ہے۔ ایک مزدور اور کسان اور تاجر جن مسائل کا سامنا روزانہ کرتا ہے،   ان کا تعلق اس کی معاشی بدحالی، انرجی کی قلت، قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، غربت، عدمِ مساوات، تعلیم اور صحت سے محرومی، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ سیاسی معاملات میں ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال ہے۔ پاکستان ہویا کوئی اور ملک، آج سیاسی جنگ دراصل ابلاغی جنگ ہے۔ جب تک ایک سیاسی جماعت کو ابلاغِ عامہ میں مرکزی مقام حاصل نہ ہو، اپنی تمام تر تنظیمی، افرادی اور اخلاقی قوت کے باوجود وہ عوام کی نگاہ میں ایک سیاسی جماعت تو رہتی ہے لیکن جیتنے والی جماعت کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ ابلاغی جہاد کو جب تک مرکزیت حاصل نہیں ہوگی علمی و فکری اور سیاسی و رفاہی کام کے اثرات معاشرے میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ نیز ابلاغ کے میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں گذشتہ تین چار عشروں میں ہوئی ہیں اور   جن میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، ان سب کا مؤثر استعمال ہماری جدوجہد کی کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے۔

تیسرا اہم مسئلہ عوامی سطح پر متعین طور پر ایسے مقامات کا انتخاب جہاں پر تحریک سے وابستہ افراد نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو، اور ان مقامات سے ایسے بااثر افراد کا منتخب کرنا جن کی ساکھ ایک ایمان دار شخص کی ہو، اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہوں، کو سیاسی محاذ پر متعارف کرانا اور ان سے مسلسل رابطے کے ذریعے ان کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ راے عامہ کے آزادانہ جائزے ( polls) کے ذریعے عوامی رجحانات کا اندازہ کرنے کے بعد حکمت ِعملی وضع کی جائے۔ گو، تحریکی ذرائع سے ملنے والا فیڈبیک بھی اہمیت رکھتا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے آنے والی معلومات بعض اوقات غیرمتوقع طور پر اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی اور اس کے نفاذ کے مدارج کو واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ تمام عناصر یک جا ہوں اور متوقع اہداف کے حصول میں آسانی پیدا ہوسکے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کے راستے پر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ بلاشبہہ اس کی نصرت کے بغیر کوئی حکمت ِعملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنo (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنّا کرو گے وہ تمھاری ہوگی،  یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔