جنرل محمدضیاء الحق کے دورِ اقتدار (۱۹۷۷ئ-۱۹۸۸ئ)میں نجی شعبۂ تعلیم کو پوری قوت سے قدم جمانے کے لیے راستہ دیا گیا۔ اگلے قدم کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے زمانۂ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ)میں ذرائع ابلاغ اور بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کو ایک طوفان کی سی تیزی کے ساتھ معاشرے کے قلب و دماغ اور فکروثقافت کو مسخر کرنے کے مواقع عطا کیے گئے۔ یہ دونوں کام کسی مناسب نظم وضبط کی ضرورت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کیے گئے۔ ان کے لیے نہ کوئی ضابطۂ کار مرتب ہوا اور نہ کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا۔ پھر جس نے اس آزادی سے جو حیثیت اختیار کرلی، وہ اسے چھوڑنے اور دوسری کوئی بات سننے کے لیے روادار نہ ٹھیرا۔ نجی شعبۂ تعلیم نے قوم کی کس انداز سے خدمت کی اور کس پہلو سے تخریبِ فکروتہذیب کا زہر پھیلایا ہے؟ سرکاری شعبے نے کیا خدمت کی اور کس حوالے سے بربادی کے کھیل میں آگے بڑھ کر معاونت کی؟ ذرائع ابلاغ نے کردار، ایمان، تاریخ، طرزِحیات اور تہذیب و ثقافت کو کیا چرکے لگائے اور کس حد تک ان سب کو مسخ کیا؟بلکہ ان کا مُثلہ کیا؟___ یہ سوالات اس تحریر میں زیربحث نہیں ہیں۔ زیربحث یہ امر ہے کہ آج ہمارے نجی تعلیمی ادارے کس کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ہمیں کس موڑ پہ لے آئے ہیں؟
جیساکہ عرض کیا ہے ضیاء الحق کے دورِحکومت میں جب نجی تعلیمی اداروں کو کام کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی، تو پہلے ہی ایک دو سال کے دوران ان میں سے اکثر بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں نے بطورِ فخر ہماری تہذیبی روایات و اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ٹیلی ویژن یا فلمی اداکاروں یا اداکارائوں کو اپنی تقریبات میں بلاکر مہمانِ خصوصی کا اعزاز بخشا۔ گویا بچوں کو بتایا گیا کہ یہ ہیں آپ کے رول ماڈل۔ مزیدبرآں بعض اداروں نے موسیقی کی تربیت دینے کے لیے پرائمری کے بچوں کو ہدف بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچا کہ مخلوط تعلیم کے اداروں نے اپنا دائرہ اسکول سے اعلیٰ تعلیم تک پھیلا دیا اور ذرائع ابلاغ کے تعاون سے بعض نجی تعلیمی اداروں نے بلاانقطاع موسیقی کے سالانہ پروگرام ترتیب دینے شروع کیے۔ والدین نے اس بات پر غور کیے بغیر کہ یہ عمل اندر ہی اندر کیا طوفان مچارہا ہے؟ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ شاید اس لیے کہ اس سوال کی جانب توجہ دینے کا مطلب ’دقیانوسیت‘ اور ’ملائیت‘ کی پھبتی کا نشانہ بننا ہے، اس لیے چاروں طرف خاموشی کی سی فضا نظر آتی تھی مگر اس صورتِ حال کا نتیجہ، ۹ اور ۱۰ جنوری ۲۰۱۲ء کی درمیانی شب قذافی اسٹیڈیم لاہور سے متصل الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نہایت الم ناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس دردناک حادثے کی رپورٹنگ مختلف اخبارات نے مختلف زاویوں سے کی تھی، اس لیے یہ تفصیل اخبارات ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:
الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نجی کالج کے زیراہتمام میوزیکل کنسرٹ کے اختتام پر کالج انتظامیہ کی غلط حکمت عملی اور سیکورٹی گارڈز کی طرف سے لاٹھی چارج کے باعث طالبات میں شدید بھگدڑ مچ جانے سے تین طالبات جاں بحق ہوگئیں، سات شدید زخمی، جب کہ درجنوں بے ہوش ہوگئیں۔ بھگدڑ کے باعث الحمرا کلچرل کمپلیکس کے باہر بچیوں کو لینے کے لیے آنے والے ورثا دیوانہ وار بچیوں کو تلاش کرتے رہے، اور نہ ملنے پر روتے پیٹتے ہوئے ہسپتال پہنچ گئے، جہاں پر ایک بچی کی شناخت ہوگئی اور اس کا والد ٹیلی ویژن کا سینیر اداکار ہے، وہ بچی کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہوگیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد پولیس اور انتظامیہ کے افسران موقع پر پہنچے۔ کنسرٹ صرف طالبات کے لیے تھا، اور طالبات کی تعداد ۱۰ہزار کے قریب تھی۔ (روزنامہ نئی بات، لاہور،۱۰ جنوری ۲۰۱۲ئ)
واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن لاہور غلام محمود ڈوگر نے بتایا کہ نجی کالج نے سیکورٹی کے لیے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، کمپلیکس کے اندر سیکورٹی کی ذمہ داری نجی کالج کی تھی۔(ایکسپریس،۱۰جنوری ۲۰۱۲ئ)
ڈی آئی جی کے مطابق ۴ہزار کی گنجایش کے ہال میں ۷ہزار طالبات جمع تھیں۔ جب اختتام پر عاطف سے آٹوگراف لینے کے لیے طالبات اُمڈیں تو یہ حادثہ ہوا۔ (ڈان، ۱۰جنوری۲۰۱۲ئ)
اس حادثے کے دوران جب بچیاں خوف زدہ ہوکر گیٹ سے باہر بھاگ رہی تھیں، تو وہاں پہلے سے کھڑے لڑکوں نے ان لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس کھینچاتانی میں بعض طالبات کے کپڑے بھی پھٹ گئے۔ عینی شاہدوں کے مطابق اوباش نوجوان، طالبات کو کھینچ کر گاڑیوں میں بٹھانا چاہتے تھے۔(روزنامہ آواز، ۱۰جنوری۲۰۱۲)
یہ تو تھیں مختلف اخبارات میں اس حادثے کی رپورٹیں۔ اب دو تین اداریے ملاحظہ کیجیے (یاد رہے انگریزی اخبارات نے اس واقعے پر کوئی ادارتی سطر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی):
روزنامہ نواے وقت نے اپنے ادارتی شذرے میں لکھا کہ والدین بڑی بڑی فیس برداشت کرکے اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اس اعتماد کے ساتھ بھجواتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ وہ محفوظ بھی رہیں گے لیکن جب کسی بھی غیرذمہ داری یا غفلت کے باعث بچے یا بچی کی نعش گھر پہنچتی ہے تو والدین پر ایک قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ جس تقریب میں ۷ہزار افراد شریک ہوں، اس کو محفوظ تر بنانے کے لیے متعلقہ ادارے کی انتظامیہ کو خصوصی اقدامات کرنے چاہییں تھے۔ طالبات کو ہر صورت ڈسپلن قائم رکھنے کی بریفنگ دی گئی ہوتی تو بھگدڑ مچنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ .... اس کے لیے نہ صرف حکومت طلبہ و طالبات کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے سخت ضوابط بنائے، بلکہ تعلیمی اداروں کو خود بھی اصلاحی اقدامات تجویز کر کے لاگو کرنا چاہییں اور والدین کو ایسے معاملات میں دل چسپی لینا چاہیے۔ (۱۱جنوری ۲۰۱۲ئ)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے شوز کا اہتمام کرنے والے ادارے تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کی طرف توجہ دیں۔ (ادارتی شذرہ، روزنامہ جنگ، ۱۱ جنوری۲۰۱۲ئ)
اس افسوس ناک واقعے پر اخبارات ہی کے صفحوں سے اتنا لوازمہ نقل کرنے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ آزادیِ اظہار اور ریاست کا چوتھا یا پانچواں ستون قرار دینے والے ذرائع ابلاغ پر اس پہلو سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ وہ کس انداز سے مچھر چھانتے اور کس کاریگری سے اُونٹ نگل جاتے ہیں۔ دیکھیے، کم و بیش سبھی اخبارات نے اس نجی گروپ آف کالجز کا نام شائع کرنے سے اجتناب برتاہے۔ البتہ ایک انگریزی اور ایک اُردو اخبار نے لکھ دیا کہ یہ ’پنجاب گروپ آف کالجز‘کے زیراہتمام میوزک شو تھا، اور متاثرین اس کی طالبات تھیں۔
اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں نے ادارے کا نام لینے اور اس الم ناک واقعے پر تحقیقی رپورٹیں دینے سے اس لیے اجتناب برتا کہ مذکورہ گروپ آف کالجز ، تعلیم کی تجارت کے ساتھ ساتھ ایک عدد ٹیلی وژن چینل اور اخبار کا مالک بھی ہے۔ اس لیے صحافتی برادری نے اپنی برادری کے ساتھی کو تحفظ دینے کی کوشش کی، یا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ادارے اخبارات کو لاکھوں روپے کے اشتہارات دیتے ہیں، اور اخبارات اپنے کاروباری معاون کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اتنی بڑی تعداد کس خوشی اور بے خوفی سے اپنی بچیوں کو گانے بجانے کے پروگراموں میں رات دیر تک باہر جانے کی اجازت دینے کا حوصلہ رکھنے کے عادی ہوتی جارہی ہے، اور یہ امر ایک واضح ثقافتی اور تہذیبی تبدیلی کا بھی مظہر ہے۔
یا پھر یہ ہے کہ بچے، بچیاں اتنے منہ زور ہوگئے ہیں کہ بے بسی کے باعث والدین کے لیے اُن کی مرضی کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طالبات کی ایک بڑی تعداد اپنے ’محبوب گلوکار‘ سے آٹوگراف لینے یا بہت قریب سے اس کی جھلک دیکھنے کے لیے اُمڈ پڑی، جس پر بدنظمی اور سانحہ رونما ہوا۔
پھر سفّاکیت کا یہ مظہربھی ملاحظہ کیجیے کہ طالبات بدحواسی اور خوف میں اس شہرلاہور میں جان بچانے کے لیے بھاگ رہی ہیں اور ’بھیڑیوں‘ کی مانند آوارہ نوجوان اُن پر جھپٹ رہے ہیں۔ یہ سب وہی ’روشن خیالی‘ ہے، جس کا ڈول جنرل مشرف نے ڈالا، ذرائع ابلاغ نے اس آگ کو بھڑکایا اور نجی تعلیمی اداروں نے بڑی بڑی فیسیں اینٹھ کر اس آوارگی کو ’ہم نصابی سرگرمی‘ بنادیا۔
ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات نے موسیقی کے اس جنون کو دینی و اخلاقی پہلو سے زیربحث لانے کے برعکس یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ جیسے یہ چیزیں اب طے شدہ ہیں اور ہوتی رہنی چاہییں۔
ایسے واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے رونما ہوتے ہیں، مگر مفلس کی آہ کی طرح یہ ناشنیدہ ہی رہتے ہیں اور اکثر و بیش تر فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بہرحال نقّارخانے میں طوطی کی آواز کہیں، کسی درجے میں سنی جاسکے اور اس پر کسی روک ٹوک کے بارے میں سوچنا ہی شروع کر دیا جائے تو غنیمت ہوگا۔۲۴جنوری کو پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں میوزک پروگراموں کے خلاف متفقہ قرارداد کی منظوری اور پھر میڈیا کی جوابی یلغار کے جواب میں حکومت پنجاب کی پسپائی، پھر ۲۵جنوری کو قرارداد کی واپسی میں عبرت کا پیغام پوشیدہ ہے۔