پروفیسر عبدالجبار شاکر


مسلمانوں کی علمی تاریخ میں علم حدیث اور سیرت نگاری دو ایسے پہلو ہیں کہ جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری قوم اور کوئی دوسرا مذہب نہیں کر سکتا۔ ان دونوں علوم میں سے پہلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ گفتگو‘ اعمالِ حسنہ اور طریقِ زندگی کے ہر پہلو کو اس حزم و احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے کہ محدّثین کی اس علمی اور تحقیقی کاوش کو غیر مسلموں نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔

علمِ حدیث کے دفاع کی خاطر اسماء الرجال جیسا عظیم فن ایجاد ہوا‘ جس کی نظیر اس سے قبل دنیا کی کسی علمی روایت میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر مستزاد درایت کا ایک ایسا اسلوب وضع کیا‘ جس سے اس اندیشے کا امکان بھی رفع ہو گیا کہ کوئی ظالم‘ آپؐ کی شخصیت اور کلام کے ساتھ کوئی غلط بات منسوب کرسکے۔

جہاں تک علم سیرت نگاری کا تعلق ہے‘ اس میں آپؐ کی حیات طیبہؐ کے ہر ممکنہ اور ضروری پہلو کو اس طرح محفوظ کیا گیا ہے کہ ایک زندہ اور متحرک شخصیت کے بچپن سے وصال تک کا کوئی گوشہ  سامنے آنے سے نہیں رہ گیا۔ اس ضمن میں احوالِ حجاز و عرب‘ قبائل عرب اور ان کے نسب نامے‘ تاریخ و جغرافیۂ عرب‘ عرب کی تہذیبی اور ثقافتی روایات‘ سیاسی اور تمدنی نقشہ‘ ادبی اور شعری سرمایہ اور ان کے خصائل و رذائل‘ سب کچھ تفصیل کے ساتھ فراہم کر دیا گیا ہے۔ آپؐ کے کارنامۂ زندگی اور احوالِ سیرت کو صحیح طور پر جاننے کے لیے مذکورہ تفصیلات بہت ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔

سیرت نگاری کا آغاز عربی زبان میں ہوا‘ اسی باعث سیرت کے تمام تر منابع‘ مصادر اور مراجع بھی اسی زبان میں موجود ہیں۔ قرآن مجید آپؐ کے احوالِ سیرت کی سب سے بنیادی اور اساسی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ احادیث نبویؐ‘ کتب سیر‘ مغازی‘ تفاسیر‘ تواریخ‘ اسماء الرجال‘ دلائل‘ شمائل‘ آثار و اخبار‘ ادب و شاعری‘ تاریخ الحرمین‘ حج کے سفرنامے اور انساب و جغرافیہ کی کتب بنیادی     ماخذِ سیرتؐ قرار پاتی ہیں۔ قرآن مجید تو خود آپؐ کی حیات طیبہ میں مکمل اور محفوظ ہوا۔ احادیث نبویؐ‘ صحابہؓ کے وردِ زبان تھیں تو روایات سنت ان کے اعمال کا مصفّا آئینہ تھیں۔ غزوات و سرایا میں صحابہؓ چونکہ خود شریک ہوتے تھے‘ اس لیے ان سے بڑھ کر ان کا شاہد کون ہو سکتا ہے۔ اسی باعث مغازی کی کتابیں عہد صحابہؓ میں مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ ان تمام مراجع اور مصادر کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ قدرت سابقہ انبیا و رسل کے برعکس نبی آخرالزماں ؐ کی حیات و خدمات کو اس کی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اگر صرف قرآن مجید کو دیکھا جائے تو خود اس میں آپؐ کی سیرت کے تمام تر پہلو ہر اعتبار سے محفوظ اور موجود ہیں۔ اس ضمن میں مولانا مودودیؒ کے ۱۹۲۷ء میں لکھے ہوئے ایک مضمون کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے:

دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت صرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور آپؐ کی شخصیت ۱۳ صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہو گیا ہے کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہے… لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثتِ انبیا کے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنا منظور تھا‘ جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور عالم گیر سرچشمۂ ہدایت ہو۔ اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبداللہ کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا‘ جو جاہل معتقدوں کے ہاتھوںدوسرے انبیا اور ہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ اول تو آپؐ کے صحابہؓ و تابعین اور بعد کے محدثین نے پچھلی امتوں کے برعکس اپنے نبیؐ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیر معمولی اہتمام کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ہم آپؐ کی شخصیت کو ۱۴۰۰ برس گزر جانے پر بھی آج تقریباً اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں‘ جتنے قریب سے خود آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اگر کتابوں کا وہ تمام ذخیرہ دنیا سے مٹ جائے جو ائمہ اسلام نے سالہا سال کی محنتوں سے مہیا کیا ہے‘ حدیث و سیر کا ایک ورق بھی دنیا میں نہ رہے جس سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا کچھ حال معلوم ہو سکتا ہو‘ اور صرف کتاب اللہ (قرآن) ہی   باقی رہ جائے‘ تب بھی ہم اس کتاب سے ان تمام بنیادی سوالات کا جواب حاصل کر سکتے ہیں‘ جو اس کے لانے والے کے متعلق ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم‘ ص ۱۷- ۱۸)

جناب نعیم صدیقی (م: ۲۰۰۲ئ) کی محسن انسانیتؐ اپنے اسلوب میں ایک منفرد کتاب ہے۔ اسے دور حاضر میں اُردو زبان کی مقبول ترین سیرت کی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک میں سیرت پاک کا ایک نمایندہ اظہار کہہ سکتے ہیں۔ سید مودودیؒ نے محسن انسانیتؐ کے دیباچے میں سیرت نگاری کے منہج اور مقصود کو یوں واضح کیا ہے:

پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمتِ اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں‘ جو ازل سے چلے آ رہے ہیں‘ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن مجید کی صورت ہی میں مل سکتا ہے‘ دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہو سکتا ہے تو اس کی صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا‘ اس نے اسلام کو سمجھا‘ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔

محسنِ انسانیتؐ کی طرح بیسیوں دوسری ایسی تصانیف ِسیرت ہیں‘ جن میں سید مودودیؒ کی فکر اور تحریروں سے براہ راست استفادہ کیا گیا ہے۔

سید مودودیؒ کے کارنامۂ سیرت کو بیان کرنے سے پہلے ایک اہم کتاب کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام ؒآزاد (۱۸۸۸ء - ۱۹۵۸ئ) کی سیرت پر تحریروں کا مجموعہ رسولؐ رحمت ہے جسے مولانا غلام رسول مہرؒ نے مرتب کیا۔ اس کتاب کی سید مودودیؒ کی سیرت سرور عالمؐ کے ساتھ ایک تدوینی اور تصنیفی مناسبت ہے۔ یہ دونوں کتابیں مصنفین نے خود نہیں لکھیں‘ بلکہ انھیں ان کی تصنیفات‘ مقالات اور خطبات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں کی ترتیب میں ایک فرق یہ ہے کہ سیرت سرور عالمؐ  کا خاکہ مرتبین (نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) نے مصنف کے سامنے پیش کیا‘ جسے نہ صرف مولانا نے بالاستیعاب دیکھا‘ بلکہ اس میں مناسب تجاویز کے بعد بذات خود سیکڑوں صفحات کے موزوں اضافے تحریر کیے۔

۱۹۴۷ء میں پاکستان کی صورت میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہوئی جو قرارداد مقاصد کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ماڈل قرار پائی۔ اس ریاست کے آئینی‘ سیاسی‘ معاشی‘     معاشرتی‘ تہذیبی‘ تمدنی‘ علمی اور ثقافتی وجود اور اسلامی تشخص کے لیے سید مودودیؒ نے ایک طرف  احیاے اسلام کے لیے ایک نظریاتی تحریک کو پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسوۂ حسنہ اور سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے بھرپور علمی اور عملی مساعی کیں۔ اس لحاظ سے   سیرتِ نبویؐ پر ان کی تحریروں کا مزاج محض مستند علمی معلومات کو پیش کرنے اور وقائع نویسی تک محدود نہیں رہتا‘ بلکہ وہ سیرت کے اس فکری اور انقلابی سرمائے کو ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ما قبل کے تمام ذخیرۂ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے۔

سید مودودیؒ کی سیرت پر تحریریں ۶۴ برس (۱۹۱۵ ئ- ۱۹۷۹ئ) کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہزار ہا صفحات پر مشتمل ان تحریروں کا آغاز ۱۹۱۵ء میں ہوا‘ جب آپ نے ۱۲ برس کی عمر میں ’’سیرت النبویؐ‘‘ کے عنوان سے ایک مجوزہ کتاب کا پہلا باب تحریر کیا۔ اس مضمون کا اختتام ان سطور پر ہوتا ہے:

اس نسبی بحث کے بعد‘ ہم اس حقیقی بحث کی طرف راجع ہوتے ہیں‘ جس کے بعد ہم حبیبؐ رب العالمین کی سیرت پاک کو زیادہ روشن اور بہت واضح دکھا سکتے ہیں‘ اور جس کے ذریعے لوگ نہایت آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم حقیقتاً تمام دنیا کے انسانوں سے‘ خواہ وہ حکیم ہوں یا عالم‘ زاہد ہوں یا متقی‘ والی ہوں یا پیغمبر‘ غرضیکہ بلند سے بلند مرتبے کے انسانوں سے زیادہ افضل اور برگزیدہ ہیں۔ اگر کوئی شخص انسانیت کی تفسیرمعلوم کرنا چاہتا ہے‘ تو اس کے لیے صرف آنحضرتؐ کی سیرت کا مطالعہ تمام دنیا کی کتابوں کی چھان بین سے زیادہ مفید ہے اور سب سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ اس آئینے میں نہ صرف انسانیت بلکہ جمال خداوندی کا عکس دیکھ سکتا ہے۔ یعنی ہم اسلام سے قبل عرب کی بدویت و جہالت کا ایک مختصر سا خاکہ دکھائیں گے اور اس تاریک قوم میں آنحضور ؐ کے خاندان کی حیثیت سے بحث کریں گے اور پھر بتائیں گے کہ آنحضرتؐ کا کن لوگوں میں نشوونما ہوا‘ اور کن حالات میں انھوں نے پرورش پائی اور کس زمین میں اپنی اصلاحات کا بیج بویا۔(وثائق مودودی‘ ص ۲۱)

سید مودودیؒ کے قلم سے ۱۲ سال کی عمر میں لکھی ہوئی اس تحریر سے سیرت کے موضوع اور اسلوب کے بارے میں ان کے ذہنی اور قلبی احساسات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان اثرات کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں ان کے خانوادے کی علمی اور روحانی حیثیت اور پھر والدین کی تربیت کا جائزہ لینا چاہیے‘ جس کے باعث کم عمر ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے قلب و ذہن میں اسوۂ رسولؐ کی یہ رعنایاں اور لطافتیں پختہ سے پختہ تر اور عمیق سے عمیق تر ہوتی چلی گئیں۔ اس ضمن میں سید مودودیؒ کی ۱۹۳۲ء میں لکھی گئی خودنوشت کا یہ مختصر اقتباس دیکھیے:

میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں ۱۳۰۰ برس تک سلسلۂ ارشاد و ہدایت اور فقر و درویشی جا ری رہا ہے --- اس خاندان کے ایک نامور بزرگ مولانا ابو احمد ابدال چشتی (م: ۳۵۵ھ) حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن کی اولاد سے تھے۔ انھی سے صوفیہ کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا ہے --- حضرت ناصرالدین ابو یوسف کے فرزند ِاکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م: ۵۲۷ھ) تھے‘ جو تمام سلاسلِ چشتیۂ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مودودی کے مورث ہیں --- اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا حال سب جانتے ہیں۔ مگر ہمارا خاندا ن اس میں عام مسلمانوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا‘ کیونکہ یہاں مذہب کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی --- والد مرحوم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی ایک ہی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ان کی اس تربیت اور عملی نمونے کا یہ اثر    تھا کہ ابتدا ہی سے میرے دل و دماغ پر مذہب کے گہرے نقوش مرقسم ہو گئے ---    والد مرحوم نے اوّل دن ] سے[ اردو اور فارسی کے ساتھ عربی زبان اور فقہ و حدیث کے درس پر ڈال دیا --- (مولانا مودودیؒ اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘ مرتبہ: محمدیوسف بھٹہ‘ ص ۳۱-۳۹)

سید مودودیؒ نے اپنی ۷۶ سالہ زندگی میں سے ۶۴ سال کے دوران سیرت پاک پر جو نگارشات رقم کیں‘ ان میں مقالات‘ خطبات‘ مصاحبے (انٹرویو)‘ مکتوبات‘ استفسارات‘ پیغامات‘ تقریظات اور دیباچے شامل ہیں۔ یہاں اُن کی چند مختصر تحریروں اور خطبوں کی فہرست ترتیب زمانی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔

۱۹۱۵ء : ’’سیرت النبویؐ‘‘ مشمولہ  وثائق مودودی‘   ص ۲۱

۱۹۲۵ئ: ’’مدینۃالرسولؐ‘‘ مشمولہ‘   صدائے رستاخیز‘ ص  ۳۳۹

۱۹۲۶ئ: ’’سرکار دو عالمؐ کی توہین‘‘ مشمولہ  بانگ سحر‘ ص  ۳۱۶

۱۹۲۷ئ:’ ’مقدمہ رنگیلا رسولؐ کا فیصلہ‘‘ مشمولہ آفتاب تازہ‘ ص ۱۴۲‘ ۱۸۲‘ ۱۸۶‘ ۲۲۴‘ ۲۵۲‘ ۲۶۷

۱۹۲۸ئ: ’’دیارِ مقدسہ میں توہین رسول کا فتنہ‘‘ مشمولہ  جلوہ نور‘ ص  ۳۶

۱۹۴۱ئ: ’’سرورِ عالمؐ‘‘ مشمولہ  نشری تقریریں‘ ص  ۱ - ۱۹

۱۹۴۱ئ:  ’’معراج کی رات‘‘ مشمولہ‘ ایضاً‘ص ۳۹ - ۴۶

۱۹۴۲ئ: ’’میلاد النبیؐ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۲۰ - ۲۷

۱۹۴۳ئ: ’’معراج کا سفرنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۶۰ - ۶۹

۱۹۴۸ئ: ’’سرور عالم ؐ کا اصلی کارنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص  ۲۸ -۳۸

۱۹۴۸ئ: ’’معراج کا پیغام‘‘ مشمولہ  ‘ایضاً‘ص ۴۷ - ۵۹

۱۹۴۸ئ: ’’اسلام کی ابتدا‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۵ - ۱۲

۱۹۵۳ئ: قادیانی مسئلہ، لاہور‘ ص ۱۵ - ۱۶

۱۹۶۲ئ: ختم نبوتؐ‘لاہور‘ ص  ۷۰

۱۹۶۲ئ: توحیدو رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت ، لاہور‘ ص ۶۴

۱۹۶۹ئ: رحمۃ للعالمینؐ سیرت کانفرنس‘ ڈھاکہ‘ ص ۱۶

۱۹۷۵ئ:  سیرت کا پیغام‘پنجاب یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین‘ ص ۳۶

۱۹۷۸ئ: نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا نظام حکومت، لاہور‘ ص ۳۲

--- اسلامی نظام کے عملی تقاضے‘ ص  ۸

--- درود اُن پر سلام اُن پر‘ ص  ۱۶‘ ماخوذ:تفہیم القرآن

۳- وانک لعلٰی خلقٍ عظیم مشمولہ قائد انسانیتؐ،احباب پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ص ۲۲ - ۳۱

آپ نے سیرتؐ پاک سے متعلق حسب ِ ذیل کتب پر تقاریظ رقم فرمائیں:

  • محسن انسانیتؐ‘ از نعیم صدیقی
  •   آئینہ حقیقت ‘از میرعبدالباسط
  • سراپاے رسولؐ ‘از اعجاز الحق قدوسی
  • فیوض الحرمین‘ از سید عبدالعزیز شرقی
  • سیرت المختار‘ از شیخ مصطفی غلامینی۔

سید مودودیؒ کے معارف پرور اور فکر انگیز قلم سے چھوٹی بڑی ایک سو کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس علمی گلستان کا سدا بہار مظہرتفہیم القرآنکی چھ جلدیں ہیں۔ قرآن مجید ہی حقیقتاً سیرت کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ ہے۔ مولانا محترم نے بھی اس کی تفسیر میں وہ مقامات جو سیرت سے متعلق ہیں‘ ان کی تشریح میں بہت عرق ریزی اور جگر سوزی سے کام لیا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس  تفسیر کے سیکڑوں مقامات پر سیرت کے لوازمے کو تحقیقی‘ تاریخی اور داعیانہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہی باعث ہے کہ سید صاحب کی تالیف سیرت سرور عالمؐ جو تمام تر ان کی     مختلف کتابوں کے سیرت سے متعلق تحریروں سے ترتیب پائی ہے‘ اس کا غالب حصہ تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے سیرتؐ پر کتاب پیش کرنے کی پہلی کاوش سیرت ختم الرسلؐ، مرتبہ: احمد انس کی صورت میں سامنے آئی۔ کیا عجب کہ سیرت سرورعالمؐ مرتب کرنے کی بنیاد  سیرت ختم الرسلؐ بنی ہو۔

سیرت سرورِ عالمؐکی پہلی جلد ۷۶۴ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں سے ۴۰۸ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ باقی ماندہ ۲۴۳ صفحات کا لوازمہ ان کی۱۶ کتب سے منتخب کیا گیا ہے۔

اسی طرح سیرت سرورِ عالمؐ جلد دوم ۷۶۳ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں ۳۵۵ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ ۶۱ صفحے کا لوازمہ ان کی دیگر کتابوں سے ماخوذ ہے۔ یہ پہلو قابل توجہ ہے کہ جلد دوم میں انھوں نے ۳۴۷ صفحات کے جو نئے اور تازہ اضافے کیے ہیں‘ وہ ان کی درایت سیرت‘ مؤرخانہ ژرف نگاہی‘ تحقیقی بصیرت‘    وسعت مطالعہ اور شوکت اسلوب کا شاہکار ہیں۔ یوں سیرت سرور عالمؐ کی دو جلدوں کے ۱۵۲۷ صفحات میں تفہیم القرآن سے ۸۷۶‘ ان کی دوسری ۱۸ کتابوں سے ۳۰۴ اور مؤلف کے اپنے قلم سے ۳۴۷صفحات کا نیا تحریرشدہ لوازمۂ سیرت ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس لوازمے کے بارے میں اپنی کتاب کی دوسری جلد کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:

اس کتاب سیرت (سیرت سرور عالمؐ) کی پہلی جلد میں مجھے کسی حذف و اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی --- لیکن اس دوسری جلد کے لیے میرے جو مضامین کے درمیان جگہ جگہ ایسے خلا باقی تھے‘ جن کی موجودگی میں کسی طرح سیرت کی کتاب نہ بن سکتی تھی۔ اس لیے میں نے اس میں بکثرت اضافے کر کے اسے ایک مسلسل اور مربوط کتاب سیرت بنا دیا ہے۔ یہ جلد ہجرت کے بیان پر ختم ہوئی ہے۔ آگے مدنی دور شروع ہوتا ہے‘ جو درحقیقت ایک بحر نا پیدا کنار ہے۔(سیرت سرورعالمؐ‘ ج۲‘ ص ۲۳)

سید مودودیؒ کا سیرت پر ابتدائی مضمون جو انھوں نے ۱۹۱۵ء میں لکھا‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے علم انساب کی ایک ایسی بحث سے متعلق ہے‘ جس کا تفصیلی نقشہ ہم سرسید احمد خان کے ہاں دیکھتے ہیں۔ ذبیح کون ہے؟ سیرت کا ایک ایسا موضوع ہے جو مستشرقین اور مسلمان محققین کے درمیان صدیوں سے موضوع بحث ہے۔ سیرت سرور عالمؐ کی دوسری جلد کے صفحات ۶۱ سے ۶۵ کے درمیان اس موضوع پر ایک ایسی تحقیقی تحریر سامنے آتی ہے‘ جو اس عنوان پر ایک قاری کے لیے تشفی کا سامان فراہم کرتی ہے۔  سیرت سرور عالمؐ  کی دونوں جلدوں کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مختلف ابواب میں دوسرے مذاہب کی کتب بالخصوص عہدنامہ قدیم اور جدید سے براہ راست استثہاد کر کے بہت سے الزامات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح ہندومت‘ آریہ سماجیوں‘ قادیانیوں اور منکرین سنت وغیرہ کے الزامات کی تردید میں ان کے قلم کے تحقیقی شہ پارے ہمیں ورق ورق پر دکھائی دیتے ہیں۔

سید مودودیؒ ۲۲ سال کی عمر میں دہلی میں سہ روزہ الجمعیۃ کے مدیر مقر رہوئے۔ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۲۸ء کے اس دور ادارت میں انھوں نے سیکڑوں موضوعات پر اداریے لکھے ہیں۔ ان میں سے  کچھ اداریے آریہ سماجیوں کی نفرت انگیز کتب‘ بالخصوص پنڈت کالی چرن کی رنگیلا رسول اور اس کے پبلشر راجپال کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ مگر ان میں اہم ترین موضوع پیغمبروں اور رسولوں کی اہانت کا ہے۔ توہین رسالتؐ اور blaspheme کا موضوع بہت قدیم ہے۔ سید مودودیؒ نے    سہ روزہ الجمعیۃ میں جو اداریے لکھے ہیں وہ چار مستقل کتابوں صداے رستاخیز‘ بانگِ سحر‘ آفتابِ تازہ‘ جلوۂ نور کی صورت میں ترتیب دیے گئے ہیں۔

سید مودودیؒ کی مذکورہ چار کتابوں کے نو مضامین کے مطالعے سے نوجوانی کے دور میں ان خاص جذبات و احساسات کا اندازہ ہوتا ہے‘ جو حبِ رسول سے عبارت ہیں۔ ۱۲ سال کی عمر میں ترتیب پانے والے احساسات اور ۲۲ سال کی عمر میں تشکیل پانے والے جذبات‘ جب ۵۰برس کی عمر میں ختم نبوتؐ کی تحریک کے ایک خاص تاریخ ساز مرحلے (۱۹۵۳ئ) تک پہنچتے ہیں‘ تو قدرت حق نے محبت رسول کے صلے میں انھیں ایک ایسے اعزاز کا حق دار ٹھیرایا‘ جو بارگاہ الٰہی میں خاص الخاص لوگوں کا حصہ ہوا کرتا ہے۔ قادیانی مسئلے اور ختم نبوت کی تحریروں کے جرم میں انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کے مقربین نے مشاہدہ کیا کہ ان کے چہرے پر ایک طمانیت اور نورانیت کھیلنے لگی۔(مشاہدات، از میاں طفیل محمد)

سیرت نگار سید مودودیؒ کا‘ صاحب سیرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قلبی اور ذہنی رشتہ کس نوعیت کا تھا‘ یہ پہلو ان کی تحریروں کے علاوہ‘ ان کے عمل و کردار سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیرت نگاری کی ۱۴صدیوں میں سیرت نگاروں کی محبت و الفت کے بہت سے مظاہرِ عقیدت سامنے آتے ہیں۔ علمی اور تحقیقی اعتبار سے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے وقائع کا ایسا ذخیرہ مرتب کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر اقوام عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔ مگر سیرت نگاروں کی اس پوری صف میں یہ امتیاز صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اس سیرت مطہرہ اور سنت ثابتہ کے احیا کے لیے ایک تحریکِ دعوت کی بنا ڈالی اور پھر عملاً ریاست مدینہ کے سیاسی‘ آئینی‘ تمدنی‘ تہذیبی‘ عدالتی‘ عسکری‘ معاشرتی‘ معاشی اور ثقافتی اقدار کے احیا کے لیے ایک خطۂ زمین کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی زندگی کی تمام تر توانائیوں کو وقف کر دیا۔ یہی باعث ہے کہ وہ تفہیم القرآن میں تفسیری مباحث پیش کر رہے ہوں‘ یا سنت کی آئینی حیثیت پر قلم اٹھا رہے ہوں یا اسلامی ریاست کے مباحث کی تفصیلات مہیا کر رہے ہوں‘ ہر جگہ ان کا قلم وقائع سیرت میں سے ایک ایسی تصویر پیش کر دیتا ہے‘ جو اپنے موضوع کے لحاظ سے معتبر‘ مستند اور اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک پرُ تاثیر اسلوب نگارش کی حامل ہے۔

نصف صدی پر پھیلی (۱۹۱۲ء - ۱۹۶۶ئ) ہوئی مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے‘ سیرت نبویؐ پر چار جلدوں پر مشتمل ایک ابتدائی مسودہ تیار کر کے مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ تو ایک حد تک ان کو بھی اس پر حیرت ہوئی کہ انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی شخصیت اور سیرت کے متعلق اتنا وسیع مواد اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔ ] اس کا اندازہ فہرست ہی سے لگایاجا سکتا ہے[ پہلی جلد کا تعلق بنیادی مباحث‘ منصب نبوت اور نظام وحی‘ بعثت آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور ما قبل بعثت کے ماحول‘ اور دعوت کی مخالف قوم اور عرب کے مختلف گروہوں کے احوال سے ہے۔ دوسری جلد حضور کی پیدایش سے لے کر ہجرت مدینہ تک کے احوال و واقعات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد میں اس انتہائی سرگرم تحریکی زندگی کا مرقع سامنے آتا ہے‘ جو لمحۂ وصال تک حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے مدینہ میں گزاری۔ چوتھی جلد جو ابھی باقی ہے‘ اس میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی اصلاحات‘ تعلیمات اور نظام زندگی‘ مختلف شعبوں میں لائے جانے والے تغیرات کا نقشہ پیش کرنا مطلوب ہے۔ (سیرت سرورِ عالمؐ‘ ج ۱‘ ص ۱۰)

سیرت نبویؐ پر سید مودودی ؒکے اس کارنامے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک قاری کو جس حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ وہ ان کا قدیم و جدید علوم و فنون کا وسیع مطالعہ ہے۔ وہ اپنے مطالعے میں ایک ایسی تحقیقی نظر سے کام لیتے ہیں کہ بسا اوقات وہ برسوں کی رائج غلط فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے نئے‘ درست اور تازہ حقائق بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے نتائج فکر کو اس ترتیب اور نوعیت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو تاریخی تناظر اور دینی پس منظر میں صحیح صورت حال کا علم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت سرورعالمؐ میں بعض معلومات پہلی مرتبہ یکجا نظر آتی ہیں اور سیرت کے بعض وقائع پر منفرد انداز میں‘ روشنی پڑتی ہے۔ بعثت کے بعد کے تین برسوں میں خفیہ دعوت کے نتیجے میں جن قبائل کے جن خوش نصیب افراد نے شرف صحابیت حاصل کیا‘ اس کی ایک کامل تفصیل اور فہرست سیرت نگاری میں پہلی دفعہ پیش کی گئی ہے‘ جس میں ۱۲۹ اشخاص کا تذکرہ ملتا ہے۔ مکہ کے کفار و مشرکین نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی دعوت پر جس نوعیت کے الزامات عائد کیے یا اعتراضات اٹھائے‘ اس کی جامع تفصیل بھی پہلی مرتبہ اس میں پیش کی گئی ہے۔

ان دونوں جلدوں کا مطالعہ کرتے ہوئے صحیح اور مستند معلومات کا ایک دریا بہتا دکھائی دیتا ہے‘ جن میں سے کسی بات کو مستند حوالوں کے بغیر درج نہیں کیا گیا۔ اگر اس لوازمۂ سیرت کے منابع‘ مراجع‘ مصادر اور ماخذوں پر نگاہ ڈالی جائے تو مولانا مودودیؒ کے وسعت مطالعہ اور استخراج نتائج کی داد دینا پڑتی ہے۔ وقائع نگار کا کام محض معلومات کو جمع کرنا نہیں بلکہ ان کی تنقید‘ تنقیح اور تصحیح بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک قاری کو بیسیوں مقامات پر یہ علمی اور تحقیقی عمل دکھائی دے گا۔ کتب سیرت میں اگر مستند اور محقق روایات و معلومات کے حوالے سے تقابل کیا جائے تو سیرت سرور عالمؐ ایک ممتاز کاوش نظر آتی ہے۔ اس کی ایک مثال حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے عہد طفولیت کی تفصیلات سے دی جاسکتی ہے۔

سیرت نگاری میں اماکن کا تعین‘ اسما ء الرجال سے واقفیت‘ ماہ و سال اور سنین کا تعین‘ ہجری اور عیسوی تقویم میں مطابقت اور عربوں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا بھرپور علم اور قبائل کی زندگی کا دستور اور عرف‘ چند ایسے مسائل ہیں‘ جن سے عہدہ برآ ہوئے بغیر کوئی سیرت نگار اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا۔

مستشرقین کے اعتراضاتِ سیرت کا جواب یوں تو سر سید سے لے کر علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر ظفراقبال تک سب نے فراہم کیا ہے‘ مگر ان میں سید مودودی نے ان مستشرقین کے فسادِ نیّت سے لے کر ان کے منہج تحقیق پر جو گرفت کی ہے‘ وہ عملی تحقیق کا ایک ایسا نمونہ ہے‘ جس سے کام لے کر ہم مستشرقین کی اسلام‘ قرآن اور صاحبِ قرآن کے خلاف تمام معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کا علمی اور تحقیقی احتساب کر سکتے ہیں۔

سیرت نگاری کی ۱۴ صدیوں میں اہل علم اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ روایت اور درایت کا جو معیار ہمارے ہاں محدثین کرام نے تدوین حدیث میں پیش نظر رکھا ہے‘ وہ احتیاط وقائع سیرت نگاری میں کم تر دکھائی دیتی ہے۔ ارباب علم اور صاحبان تحقیق اگر سید مودودیؒ کے تحقیقی موقف اور درایت کو دیکھیں گے تو انھیں سید محترم اور دوسرے سیرت نگاروں میں مابہ الامتیاز فرق دکھائی دے گا۔ مثال کے طور پر حرب فجار ہو‘ بحیرہ راہب کا تذکرہ اور ازواج النبی میں عمر عائشہؓ کا معاملہ ہو‘ یا پھر بناتِ رسول کا تذکرہ‘ مولانا مرحوم کے قلم سے تجزیہ و تحقیق کی ایک خاص انفرادیت دکھائی دے گی۔

سیرت نگاری کی تحریک میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ مطالعہ مغرب کے حوالے سے اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں‘ جس میں مغرب شناسی کی اس روایت میں علامہ اقبالؒکے استثنا کے بعد سید مودودیؒ ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ الغرض سید مودودیؒ کی سیرت نگاری کی یہ انفرادیت ہے کہ انھوں نے سیرت کو ایک متحرک فکر اور فعال تحریک کے تناظر میں دیکھا ہے۔ انھوں نے وقائعِ سیرت کا خزینہ مرتب کرنے کے ساتھ ان واقعات کے دامن میں مضمر اسباب‘ عوامل اور محرکات کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ کام‘ اسلوبِ دعوت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ وہ چونکہ خود ایک اسلامی تحریک کے مؤسس تھے جو خلافت علی منہاج النبوۃ کی طرز پر ایک انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک دعوت کے پیرائے میں‘ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک نظامِ تزکیہ و تربیت کے شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ سیرت نگاری میں ایک وقائع نگار سے آگے بڑھ کر اس کا رنامۂ رسالت کے از سرنو احیا کے متمنی ہیں‘ جو عصری طاغوت اور گلوبل لادینیت کے مقابلے میں ایک صالح مومن‘ ایک اسلامی معاشرے اور ایک اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل میں معاون بن سکے۔ بس یہی ایک پہلو انھیں نہ صرف اردو سیرت نگاری بلکہ عالمی سیرت نگاری میں بھی ممتاز و منفرد بنا دیتا ہے۔

سیرت نگاری کے اس داعیانہ دبستان کے اثرات گذشتہ نصف صدی میں ان کے معاصر اور بعد میں آنے والے سیرت نگاروں نے بھی قبول اور جذب کیے ہیں۔ ایسے سیرت نگاروںمیں ملّاواحدی کی دو جلدوں میں حیات سرور کائنات ؐ، نعیم صدیقی کی محسن انسانیتؐ اور سید ؐ انسانیت،محمد شریف قاضی کی اسوۂ حسنہؐ ،  سید اسعد گیلانی کی رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب اور حضور ا کرمؐ اور ہجرت،  ڈاکٹر خالد علوی کی انسان کاملؐ،  ابو سلیم محمد عبدالحی کی حیات طیبہؐ، ماہر القادری کی در یتیمؐ،  ڈاکٹر اسرار احمد کی منہج انقلاب نبویؐ اوردوسرے بہت سے رسائل سیرت‘ علی اصغر چودھری کی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم‘     بنت الاسلام کی اسوۂ حسنہؐاور خالد مسعود کی حیات رسول امیؐ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر انور محمود خالد نے اپنے تحقیقی مقالے  اردو نثر میں سیرت رسول میں سید مودودیؒ کی سیرت نگاری پر اپنے تاثرات کو یوں بیان کیا ہے:

مولانا مودودی نے (سیرت سرور عالمؐ) جلد دوم میں جہاں جہاں اضافے کیے ہیں‘ وہاں ان کا تصنیفی تجربہ‘ سیرتی علم اور اسلوبی حسن اپنے معراج پر ہے۔ بحیثیت مجموعی سیرت سرور عالمؐ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت و کردار اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے ابدی پیغام کو جس خوب صورت اور عالمانہ انداز میں پیش کرتی ہے‘ اس کی مثال دور حاضر کی کتب ِسیرت میں کم کم ملتی ہے۔(ص ۷۳۸)

سیرت سرور عالمؐ کے مطالعے اور تجزیے کا ایک رخ اس کے اسلوب نگارش کا جائزہ بھی ہے۔ اردو زبان و ادب کا اولیں علمی سرمایہ مذہبی تحریوں پر مبنی ہے۔ ابتدائی دور کی تحریروں کا اسلوب عربی اور فارسی زبان اور مقامی بولیوں کے متروک اور نامانوس الفاظ سے مرکب ہے۔ اس کے برعکس سید مودودیؒ کا اسلوب کئی اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے۔ ان کا اسلوب جن اجزا سے تشکیل پاتا ہے‘ اس میں روح مطالب تک پہنچنے کے لیے لفاظی‘ عبارت آرائی‘ آرایش اور تصنّع کے بجاے ایک سادگی‘ سلاست‘ روانی‘ شگفتگی اور وضاحت کا احساس ہوتا ہے۔ اردو میں ادبی لوازم کو دینی موضوعات میں کامیابی سے استعمال کرنے والی پہلی شخصیت شبلی نعمانی کی ہے۔ دینی ادب کی اس رو کو ایک بحر مواج میں تبدیل کرنے والی شخصیت ابوالکلامؒ آزاد کی ہے۔ مگرسیرابیوں اور شادابیوں کا سامان پیدا کرتی ہوئی ادبی لہر صرف سید مودودیؒ کے قلم سے پیدا ہوئی۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو مقام علامہ اقبالؒ  کو اردو شاعری میں حاصل ہے تقریباً وہی حیثیت سید مودودیؒ کی اردو نثر کو میسر ہے۔ اقبالؒ نے   مسلم قومیت کے دھاروں کو اسلامیت کے رنگ سے آشنا کیا۔ اسلامیت کے جس دروازے کو اقبالؒ نے کھولا‘ سید مودودیؒ نے اس میں داخل ہو کر ملت کے لیے اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک ایوان تعمیر کر دیا۔ اس ایوانِ ادب میں جہاں قدیم علوم کی اینٹیں چنی گئیں وہاں جدید علوم کا مسالہ بھی آپ نے فراہم کیا۔ یوں ان کے اسلوب میں قدیم اور جدید موضوعاتی ہم آہنگی اور توازن ملتا ہے۔ سیدمودودیؒ چونکہ ایک مشنری انسان ہیں‘ اس لیے وہ اپنے اسلوب سے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کے اسلوب کی مقصدیت اور ثقاہت نے ان کے  قلم میں تجزیہ و تحلیل اور زور استدلال کی خوبی پیدا کی ہے۔ الغرض سید مودودیؒ سیرت نگاری میں بھی منفرد حیثیت کے مالک نظر آتے ہیں۔

اسلامی لٹریچر کی چوٹی کی کتب کا انگریزی ترجمہ اس دور کا ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے‘ ہالینڈ کے علومِ اسلامی کے مرکز لائڈن سے ۱۹۹۶ء میں شائع شدہ مارسیہ کے ہرمینسن کا حجۃ اللّٰہ البالغہ کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کے تعارف کے موقع پر اصل کتاب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں کچھ گزارشات بے محل نہ ہوں گی۔

شاہ ولی ؒاللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) اٹھارھویں صدی میں نہ صرف برعظیم بلکہ عالم اسلام کے ایک ممتاز عالم دین‘ محدث‘مفکر اور فقیہہ ہیں‘ جنھیں بعض حضرات نے بجاطور پر مجدّدین اُمت میں شمار کیا ہے۔ ابن خلدون کے بعد آپ سب سے بڑے عمرانی مفکر (social scientist) ہیں۔مختلف علوم و فنون پر ان کی ۴۰ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی زبان میں مطبوعہ ملتی ہیں۔ سات کتابوں کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتاہے مگر ان کے مسودات ابھی تک معدوم ہیں۔ آپ کی یہ جملہ کتب قرآن‘ تفسیر‘ حدیث‘ اصول فقہ‘ عقائد و کلام‘ تصوف‘ تاریخ اور سیرت جیسے اہم موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ ہرچند یہ تمام کتب اپنے اپنے دائرہ علمی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں مگر ان سب میں گل سرسبد کی حیثیت ان کی تصنیف  حجۃ اللّٰہ البالغہ کو حاصل ہے۔ برعظیم میں علم حدیث کے مطالعہ و تحقیق کی سب سے محکم روایت کے بانی خود شاہ ولی ؒ اللہ ہیں‘ جن سے برعظیم کے تمام مکاتب فکر اور مسالک نے خوشہ چینی کی ہے اور فیض حاصل کیا ہے۔ آپ کے نامور فرزندوں نے اس علمی اور عملی سلسلے کو مزید کمالات عطا کیے ہیں۔ برعظیم کے اسلامیان بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے بالعموم ‘ اس خاندان کی خدمات سے کبھی صرفِ نظر نہ کرسکیں گے۔

حجۃ اللّٰہ البالغہ ‘ شاہ ولی  ؒاللہ نے حرمین سے واپسی (دسمبر ۱۷۳۲ئ) کے بعد لکھنا شروع کی اور قیاساً انھوں نے اسے ۱۷۴۲ء تک ختم کرلیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعے سے ان کی محدثانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے عہد کی سب سے ممتاز تصنیف ہے جس نے برعظیم کی فرقہ وارانہ فضا میں اسلام کے مسلکِ اعتدال کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی بلکہ مابعد کی صدیوں میں سیکڑوں علماے عرب وعجم کو بھی متاثر کیا جن میں علامہ رشید رضا ؒ، علامہ محمداقبال ؒاورسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔

شاہ ولی ؒاللہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات (۱۷۰۷ئ) کے بعد مغل خاندان کے تیز رفتار انحطاط کا دور تھا۔ ۶۰ برسوں میں دہلی کے تخت پر ۱۰حکمران براجمان ہوئے مگر استحکامِ سلطنت نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ اس دور میں مسلمان فقہی طبقات میں منقسم اور تقلیدِ جامد کی گرفت میں تھے‘ تصوف کے مختلف سلاسل میں بٹے ہوئے تھے‘ یا برعظیم کی مخصوص فضا میں شیعہ سُنّی تعصبات کے باعث اُمت واحدہ کا تصور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس اختلاف زدہ ماحول میں اور فقہی نزاعات کی دلدل میں اترے ہوئے علما و صوفیا کو ایک مسلکِ اعتدال  پر لانے کی کامیاب علمی کوشش کی۔ اس لحاظ سے حرمین سے واپسی کے بعد ان کی بیشتر تحریروں بالخصوص حجۃ اللّٰہ البالغہ کا موضوع مختلف فقہی طبقات کے عقائد و افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان میں اعتدال کی روش اور اُمت واحدہ کے احسا س کو بیداراور تازہ کرنا ہے۔ اس علمی منہج اور مقصود کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ استفادہ احادیث صحیحہ سے کیا۔ شاہ صاحب کے اس عظیم کام کو اسلوبِ تطبیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تطبیق کا یہ اسلوب اورفن   شاہ صاحب کی تحریروں کا امتیاز اور کمال ہے اور اس کے اثرات نے اُمت کے جمود کو توڑ کر جہادی اور اجتہادی فکر کی لہریں پیدا کیں۔

آج اُمت مسلمہ میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو اتحادِ اُمت کی ایک خواہش  اور شریعت ِاسلامی کے احیا کی جو ایک تڑپ پائی جاتی ہے‘ اس میں شاہ صاحب کی تصنیف   حجۃ اللّٰہ البالغہ کا بہت نمایاں کردار ہے۔ شاہ صاحب نے ایک طرف حنفی‘ شافعی‘ حنبلی‘ مالکی اور اہلحدیث کے درمیان مشترکہ فکر کی اساس کو واضح کیا‘ تو دوسری طرف صوفی اور غیرصوفی علما کے درمیان موافقت تلاش کی۔ تیسری طرف معتزلہ‘ اشاعرہ‘ ماتریدیہ اور اہل حدیث کے درمیان فلسفہ و شریعت کی مغائرت کو دُور کر کے قربت کی راہیں کھولیں‘ اور چوتھی طرف تسنن اور تشیع کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو اعتدال اور ادب کی حدود سے شناسا کیا۔ اس تمام ترعلمی کاوش اور عملی جدوجہد میں ان کا اصل ہتھیار اصولِ مطابقت ہے‘ جس کا چشمہء صافی کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں‘ مگر انھی منابع علم اور مصادر تحقیق سے انھوں نے استخراج نتائج کا ایک ایسا جہان آباد کیا جسے ہم ملت اسلامی کے فکر وعمل میں الہیات کی تشکیلِ جدید کا نام دے سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر بعد کی صدیوں میں تاریخ دعوت و عزیمت کے قافلے فکر ولی اللہٰی سے استفادہ کرتے رہے اور ہنوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اٹھارھویں صدی عیسوی میں فلسفۂ اسلام کی تدوین کا یہ عظیم شاہکار‘ یعنی حجۃ اللّٰہ البالغہ جو عربی زبان کی دو جلدوں پرمشتمل ہے ‘سامنے آیا ہے۔ اس کا آغاز مابعدالطبیعیاتی افکار و مسائل سے ہوتا ہے اور پھر عبادات اور احکامِ شریعت کے عظیم تر مصالح کی وضاحت پر ختم ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے جس نوعیت کی شخصیت کا ہونا ضروری تھا ‘ اس کے متعلق خود شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’صرف وہی شخص اس میدان کا شہسوار بن سکتا ہے‘ جس کو تمام علومِ دینیہ پرکامل عبور ہو‘ نیز اس علم کے متعلق‘ اسی کو وہبی شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی سے بہرۂ وافی عطا کیا ہو اور اس کے سینے کو تعلیمات الٰہیہ کے اسرار سمجھنے سے بھردیا ہو۔ یہ بھی شرط ہے کہ اس کا ذہن غیرمعمولی طور پر زود رس ہو اور وہ نگاہ ژرف بیں رکھتا ہو‘ ساتھ ہی اس میں یہ قابلیت ہو کہ دقیق سے دقیق مضمون کو وہ عام فہم پیرایے میں بیان کر سکے۔ نئے اصول قائم کر کے‘ ان سے نتائج اخذ کرنے کی وہ کامل استعداد رکھتا ہو اور منقول کو معقول کے ساتھ تطبیق دینے اور قابلِ قبول صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں اس کو پوری دسترس حاصل ہو‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب اسی حجۃ اللّٰہ البالغہ کا انگریزی ترجمہ ہے جسے پاکستانی نژاد محقق اور اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ایما پر امریکی خاتون اور الٰہیات کی محققہ مارسیہ کے ہرمینسن نے کیا ہے‘ جسے اس مترجم نے عربی کے دو اور ایک اُردو ترجمے کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ عربی زبان میں اس کا ایک محقق نسخہ ایک مصری اسکالر السیدسابق نے ۱۹۵۳ء میں مرتب کیاتھا۔ فاضل مترجمہ نے اس اہم کتاب کے کامل ترجمے کی بجاے اس کے سات اہم ابواب میں شامل ۸۵ مباحث کے ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ اصل کتاب کی فہرست اور اس ترجمے کے مندرجات کے تقابل سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کن کن ابواب کے کن کن مباحث کونظرانداز کیا گیا ہے۔ کاش! فاضل مترجمہ نظرانداز کردہ حصوں کو شامل نہ کرنے کی وجوہ بھی لکھ دیتیں‘ تو مناسب ہوتا۔

شاہ ولی ؒاللہ کی اس شاہکار تصنیف پر فاضل مترجمہ نے اپنا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ ان کی اس کتاب کا لوازمہ ان کی بہت سی دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ ترجمے کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کتاب کے مقصدِ تحریر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مغرب کی علمی تحقیق کے طرز کے مطابق متن کے فٹ نوٹس میں کچھ حوالوں کی تخریج اور چند مقامات پر مختصر حواشی کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ انتہاے آخر میں کتابیات کے علاوہ قرآنی آیات‘ احادیث‘ اسما اور مضامین و اصطلاحات کے اشاریے بھی ترتیب دیے گئے ہیں‘ جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ترجمہ حسنِ طباعت کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور ارزاں قیمت پر دستیاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے سے مسلم اور غیرمسلم دنیا کے انگریزی خواں حضرات اسلام کے عقائد‘ عبادات‘معاملات‘ امورمملکت‘ اخلاق و معاشرت کے علاوہ اس کی عمرانی‘ تمدنی‘ ثقافتی اور معاشی تعلیمات کے بارے میں  واضح علم حاصل کرسکیں گے۔ موجودہ عہد کے وہ تمام اہل فکرونظر جو الٰہیات کی اسلامی تشکیلِ جدید کے موضوع سے دل چسپی رکھتے ہیں‘ اس ترجمے کے مطالعے سے ایک جدید زبان اور ایک جدید تر اسلوب میں برعظیم کے سب سے بڑے مفکر‘ محدث‘ فقیہہ اور مجتہد کے روشن خیالات سے مستفید ہوسکیں گے۔ امید ہے کہ ہماری جامعات کے اساتذہ اور طلبہ اور ہمارے قانونی‘ عدالتی‘ معاشی   اور معاشرتی اداروں سے متعلق اربابِ اختیار اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے۔ ( The Conclusive Argument From God ‘ ] حجۃ اللّٰہ البالغہ[ شاہ ولی اللہ دہلویؒ،مترجم: مارسیہ کے‘ ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) ‘ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۶۔ قیمت: ۵۵۰ روپے‘۲۰۰۳ئ)

ایران‘ براعظم ایشیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سائرس اعظم سے لے کر رضا شاہ پہلوی تک اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی مستقل تاریخ موجود ہے۔ اس دوران ان کے ادبیات کے حوالے سے ان کے قومی مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایرانی اپنی تہذیب‘ تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار کے ساتھ گہری قلبی اور ذہنی وابستگی رکھتے ہیں۔ انھوں نے جب کبھی کسی نوعیت کی تبدیلی یا انقلاب کو قبول کیا ہے تو اس کے پس منظر اور پیش منظر میں ان کی مخصوص تاریخی اور ثقافتی روایات کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ خلافت راشدہ میں جب فتح ایران کے بعد یہ علاقے اور ان کے عوام اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو انھوں نے اپنے عقائد کی تبدیلی کے باوجود اپنے معتقدات میں ماضی کی تاریخی اور ثقافتی اقدار کو اپنے سے جدا نہیںہونے دیا۔

ایران اپنی تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود عوامی سطح پر کوئی بڑا معاشی انقلاب برپا نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ تر آبادی متوسط اور مجبور نوعیت کی زندگی گزارنے کی خوگر ہے۔ حالیہ دو عشروں میں شرح خواندگی میں ایک نمایاں اضافے نے ان کے معیار زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی عمومی زندگی میں ذوق جمالیات کا عنصر زندگی کے ہر دائرے میں نمایاں دکھائی دے گا۔ ادب لطیف کا مطالعہ‘ پھولوں سے محبت‘ صحت اور حسن کی حفاظت کا خیال‘ گھروں میں مناسب تزئین اور کھانوں میں لذت کا عنصر‘ ان کے شخصی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔

دورئہ ایران کے دوران اگرچہ میرا بیشتر سفر سرکاری عہدے داروں کی رہنمائی میں گزرا مگر اس دوران جن جن اصحاب فکرونظر سے ملاقاتیں ہوئیں‘ ان سے ایران کے موجودہ احوال کو سمجھنے میں سہولت پیدا ہوئی۔

تہران میں ہوٹل آزادی سے قریب تر اور بزرگراہ شہید چمران پر واقع وسیع و عریض ایک مستقل نمایش گاہ ہے جہاں وقفے وقفے سے مختلف ملکی اور غیرملکی نمایشیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ یہ نمایش گاہ بذات خود ایک لائق نظارہ جگہ ہے۔ اس وسیع سلسلۂ عمارات میں نمایش کے لیے تین تین منزلہ بڑے بڑے ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ کشادہ پارک اور ایک وسیع تر اوپن ایئرہال ہے جہاں پر تمام نمایشوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس میں ریستوران‘ بنک‘ مسجد اور تفریح کے بہت سے لوازم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سیکڑوں ایرانی اور غیر ملکی ناشرین کے اسٹال بڑی عمدگی سے ترتیب دیے گئے تھے۔ ایرانی کتب کے اسٹال الگ سے کئی بڑے ہالوں میں ترتیب دیے گئے تھے اور وہاں سے کتب کی خریداری میں کوئی رکاوٹ نہ تھی البتہ غیر ایرانی شائقین کے لیے غیر ایرانی پبلشرز کی کتب کی خرید کا مرحلہ ایک ہفت خواں طے کرنے کے بعد ممکن تھا۔ ایرانی قوم کے مطالعے کا ذوق بھی لائق رشک ہے۔ بلامبالغہ لاکھوں شہری‘ طلبہ اور طالبات روزانہ ان کتابوں کو خریدنے میں مصروف دکھائی دیے۔ ۱۰ روز تک صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخری چند دنوں میں تو بعض کتابیں ناپید ہو گئیں۔ایرانیوں کے ہاں علمِ خطاطی اور طباعت کے جمالیاتی اور فنی ذوق نے ان کے ہاں بہت قابل رشک اور بلند معیار قائم کیے ہیں۔ ان کی نصابی کتابوں اور رسائل و جرائد کی کثرت بھی ان کے علمی ذوق کی آئینہ دار ہے۔ایرانی قوم میں طالبات کا ذوق کتب بینی بالخصوص باعث حیرت ہے۔ خریداروں میں خواتین کا تناسب ۷۰ فی صد کے قریب ہے۔ ایرانی شہریوں کا یہ ذوق خواندگی ان کے روشن مستقبل کی ایک محکم ضمانت ہے۔

اس نمایش کا افتتاح صدر اسلامی جمہوریہ ایران سید محمد خاتمی نے کیا جو خود بھی بہت بڑے کتاب دوست ہیں۔ مذہبی خانوادے کے فرد ہونے کے باوصف وہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جناب خاتمی ایرانی کتب خانوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ قلم اور کتاب سے ان کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ وہ ایک عظیم اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

شہنشاہ ایران کے زوال کے بعد ایرانی انقلاب کو اب دو عشرے گزرچکے ہیں۔ اس دوران ایران عراق جنگ کے علاوہ اور بہت سے تغیرات رونما ہوئے مگر سیاسی اور انتخابی عمل کی روایت وہاں بہت مستحکم رہی ہے۔ ایران کا آئین ۱۴ ابواب اور ۱۷۷ دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے دستاتیر میں اپنی نوعیت کا منفرد آئین ہے۔  یہ بہ یک وقت جمہوری روایات اور شیعہ فقہ کے تصور ولایت فقیہ کے امتزاج کا آئینہ دار ہے۔اس کے آٹھویں باب کی چھ دفعات جو راہبر اور کونسل آف لیڈرشپ سے متعلق ہیں‘ ایران کی سیاست میں ایک عجیب مزاج کی حامل ہیں۔ اگر ایرانی صدر کے اختیارات اور راہبر انقلاب کے اختیارات اور انتخاب کا موازنہ کیا جائے تو چند عجیب حقائق سامنے آتے ہیں جن کو سمجھے بغیر ایرانی انتخابات اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا مزاج سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ایرانی صدر تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر چار برسوں کے لیے منتخب ہوتا ہے مگر راہبر کا انتخاب مجلس خبرگان کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مجلس کے ارکان براہِ راست انتخاب سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ اس مجلس خبرگان کے تمام تر فیصلے شوریٰ نگہبان کی توثیق کے محتاج ہیں۔  اس شوریٰ نگہبان کی تشکیل میں عوام کے انتخابی عمل کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ اس ادارے کی تشکیل سے تھیوکریسی کا ایک ایسا رجحان سامنے آتا ہے جس کی مثال عالم اسلام کی کسی دوسری مملکت میں دکھائی نہیں دیتی۔

ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال تک تو ان کے راہبر کے منصب پر کسی کے لیے تنقید یا انگشت نمائی کا موقع نہیں تھا مگر موجودہ راہبر سید علی خامنہ ای کے دَور میں ولایت فقیہ اور اختیارات کے اس توازن پر ایران کے سیاسی حلقوں میں اندیشہ ہاے دُور و درازموجود ہیں۔ ایران کے موجودہ صدر سید محمد خاتمی مئی ۱۹۹۷ء میں پہلی مرتبہ ۴۹ فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انھیں بالعموم ایران میں اصلاح پسندوں کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ان کے صدارتی انتخاب میں عالمی پریس‘ ملکی اخبارات اور اصلاح پسند گروہ ان کو ملنے والے ووٹوں میں کمی کے اندازے پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس دوران معاشرے کے چھوٹے طبقات کے افراد سے ان کے احساسات کو جانچنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ کیونکہ وہ قدامت پسندوں کے ماحول سے براہِ راست متعلق ہونے کے باوجود جدید تعلیم سے آراستہ اور عالمی راے عامہ کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ انھوں نے راہبرمعظم کے ساتھ مل کر ایک ایسے توازن کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ایرانی دانش وروں کے موجودہ اضطراب میں انقلاب اسلامی کے مقاصد کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ وہ اس بار ۷۷ فی صدووٹ  حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد واضح کرتی ہے کہ ان کے ذہنی اور فکری طرزعمل کو قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔

سید محمد خاتمی کے گذشتہ دور صدارت میں نوجوان نسل میں فکری اور ثقافتی آزادی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ مجھے آٹھ سال پیشتر کی نوجوان نسل کو بھی براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا تھا مگر اس بار ان کے ثقافتی مظاہر سے اس تبدیلی کا صاف اندازہ ہو رہا ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج سے قدامت پسندوں بالخصوص علما کے حلقے میں تشویش کی ایک لہر یقینا بیدار ہو گی جسے بالغ نظری اور وسیع المشربی کے ساتھ سنبھالانہ گیا تو آگے چل کر یہ لہر ایک مستقل خلیج کا روپ دھار سکتی ہے۔

ماضی کا ایران عالمی ثقافتی الیکٹرونک میڈیا کی یلغار سے متاثر ہو چکا ہے۔ عالمی ثقافتی یلغار نے ایرانی انقلاب کے روایتی احوال و ظروف میں ایک دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایران کے مقتدر مذہبی طبقات کو اپنے روایتی انقلاب کے تحفظ کے لیے مستقبل میں بہت کچھ سوچنے اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔