ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

حجۃ اللہ البالغہ

پروفیسر عبدالجبار شاکر | ستمبر ۲۰۰۳ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

اسلامی لٹریچر کی چوٹی کی کتب کا انگریزی ترجمہ اس دور کا ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے‘ ہالینڈ کے علومِ اسلامی کے مرکز لائڈن سے ۱۹۹۶ء میں شائع شدہ مارسیہ کے ہرمینسن کا حجۃ اللّٰہ البالغہ کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کے تعارف کے موقع پر اصل کتاب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں کچھ گزارشات بے محل نہ ہوں گی۔

شاہ ولی ؒاللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) اٹھارھویں صدی میں نہ صرف برعظیم بلکہ عالم اسلام کے ایک ممتاز عالم دین‘ محدث‘مفکر اور فقیہہ ہیں‘ جنھیں بعض حضرات نے بجاطور پر مجدّدین اُمت میں شمار کیا ہے۔ ابن خلدون کے بعد آپ سب سے بڑے عمرانی مفکر (social scientist) ہیں۔مختلف علوم و فنون پر ان کی ۴۰ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی زبان میں مطبوعہ ملتی ہیں۔ سات کتابوں کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتاہے مگر ان کے مسودات ابھی تک معدوم ہیں۔ آپ کی یہ جملہ کتب قرآن‘ تفسیر‘ حدیث‘ اصول فقہ‘ عقائد و کلام‘ تصوف‘ تاریخ اور سیرت جیسے اہم موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ ہرچند یہ تمام کتب اپنے اپنے دائرہ علمی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں مگر ان سب میں گل سرسبد کی حیثیت ان کی تصنیف  حجۃ اللّٰہ البالغہ کو حاصل ہے۔ برعظیم میں علم حدیث کے مطالعہ و تحقیق کی سب سے محکم روایت کے بانی خود شاہ ولی ؒ اللہ ہیں‘ جن سے برعظیم کے تمام مکاتب فکر اور مسالک نے خوشہ چینی کی ہے اور فیض حاصل کیا ہے۔ آپ کے نامور فرزندوں نے اس علمی اور عملی سلسلے کو مزید کمالات عطا کیے ہیں۔ برعظیم کے اسلامیان بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے بالعموم ‘ اس خاندان کی خدمات سے کبھی صرفِ نظر نہ کرسکیں گے۔

حجۃ اللّٰہ البالغہ ‘ شاہ ولی  ؒاللہ نے حرمین سے واپسی (دسمبر ۱۷۳۲ئ) کے بعد لکھنا شروع کی اور قیاساً انھوں نے اسے ۱۷۴۲ء تک ختم کرلیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعے سے ان کی محدثانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے عہد کی سب سے ممتاز تصنیف ہے جس نے برعظیم کی فرقہ وارانہ فضا میں اسلام کے مسلکِ اعتدال کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی بلکہ مابعد کی صدیوں میں سیکڑوں علماے عرب وعجم کو بھی متاثر کیا جن میں علامہ رشید رضا ؒ، علامہ محمداقبال ؒاورسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔

شاہ ولی ؒاللہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات (۱۷۰۷ئ) کے بعد مغل خاندان کے تیز رفتار انحطاط کا دور تھا۔ ۶۰ برسوں میں دہلی کے تخت پر ۱۰حکمران براجمان ہوئے مگر استحکامِ سلطنت نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ اس دور میں مسلمان فقہی طبقات میں منقسم اور تقلیدِ جامد کی گرفت میں تھے‘ تصوف کے مختلف سلاسل میں بٹے ہوئے تھے‘ یا برعظیم کی مخصوص فضا میں شیعہ سُنّی تعصبات کے باعث اُمت واحدہ کا تصور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس اختلاف زدہ ماحول میں اور فقہی نزاعات کی دلدل میں اترے ہوئے علما و صوفیا کو ایک مسلکِ اعتدال  پر لانے کی کامیاب علمی کوشش کی۔ اس لحاظ سے حرمین سے واپسی کے بعد ان کی بیشتر تحریروں بالخصوص حجۃ اللّٰہ البالغہ کا موضوع مختلف فقہی طبقات کے عقائد و افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان میں اعتدال کی روش اور اُمت واحدہ کے احسا س کو بیداراور تازہ کرنا ہے۔ اس علمی منہج اور مقصود کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ استفادہ احادیث صحیحہ سے کیا۔ شاہ صاحب کے اس عظیم کام کو اسلوبِ تطبیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تطبیق کا یہ اسلوب اورفن   شاہ صاحب کی تحریروں کا امتیاز اور کمال ہے اور اس کے اثرات نے اُمت کے جمود کو توڑ کر جہادی اور اجتہادی فکر کی لہریں پیدا کیں۔

آج اُمت مسلمہ میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو اتحادِ اُمت کی ایک خواہش  اور شریعت ِاسلامی کے احیا کی جو ایک تڑپ پائی جاتی ہے‘ اس میں شاہ صاحب کی تصنیف   حجۃ اللّٰہ البالغہ کا بہت نمایاں کردار ہے۔ شاہ صاحب نے ایک طرف حنفی‘ شافعی‘ حنبلی‘ مالکی اور اہلحدیث کے درمیان مشترکہ فکر کی اساس کو واضح کیا‘ تو دوسری طرف صوفی اور غیرصوفی علما کے درمیان موافقت تلاش کی۔ تیسری طرف معتزلہ‘ اشاعرہ‘ ماتریدیہ اور اہل حدیث کے درمیان فلسفہ و شریعت کی مغائرت کو دُور کر کے قربت کی راہیں کھولیں‘ اور چوتھی طرف تسنن اور تشیع کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو اعتدال اور ادب کی حدود سے شناسا کیا۔ اس تمام ترعلمی کاوش اور عملی جدوجہد میں ان کا اصل ہتھیار اصولِ مطابقت ہے‘ جس کا چشمہء صافی کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں‘ مگر انھی منابع علم اور مصادر تحقیق سے انھوں نے استخراج نتائج کا ایک ایسا جہان آباد کیا جسے ہم ملت اسلامی کے فکر وعمل میں الہیات کی تشکیلِ جدید کا نام دے سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر بعد کی صدیوں میں تاریخ دعوت و عزیمت کے قافلے فکر ولی اللہٰی سے استفادہ کرتے رہے اور ہنوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اٹھارھویں صدی عیسوی میں فلسفۂ اسلام کی تدوین کا یہ عظیم شاہکار‘ یعنی حجۃ اللّٰہ البالغہ جو عربی زبان کی دو جلدوں پرمشتمل ہے ‘سامنے آیا ہے۔ اس کا آغاز مابعدالطبیعیاتی افکار و مسائل سے ہوتا ہے اور پھر عبادات اور احکامِ شریعت کے عظیم تر مصالح کی وضاحت پر ختم ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے جس نوعیت کی شخصیت کا ہونا ضروری تھا ‘ اس کے متعلق خود شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’صرف وہی شخص اس میدان کا شہسوار بن سکتا ہے‘ جس کو تمام علومِ دینیہ پرکامل عبور ہو‘ نیز اس علم کے متعلق‘ اسی کو وہبی شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی سے بہرۂ وافی عطا کیا ہو اور اس کے سینے کو تعلیمات الٰہیہ کے اسرار سمجھنے سے بھردیا ہو۔ یہ بھی شرط ہے کہ اس کا ذہن غیرمعمولی طور پر زود رس ہو اور وہ نگاہ ژرف بیں رکھتا ہو‘ ساتھ ہی اس میں یہ قابلیت ہو کہ دقیق سے دقیق مضمون کو وہ عام فہم پیرایے میں بیان کر سکے۔ نئے اصول قائم کر کے‘ ان سے نتائج اخذ کرنے کی وہ کامل استعداد رکھتا ہو اور منقول کو معقول کے ساتھ تطبیق دینے اور قابلِ قبول صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں اس کو پوری دسترس حاصل ہو‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب اسی حجۃ اللّٰہ البالغہ کا انگریزی ترجمہ ہے جسے پاکستانی نژاد محقق اور اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ایما پر امریکی خاتون اور الٰہیات کی محققہ مارسیہ کے ہرمینسن نے کیا ہے‘ جسے اس مترجم نے عربی کے دو اور ایک اُردو ترجمے کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ عربی زبان میں اس کا ایک محقق نسخہ ایک مصری اسکالر السیدسابق نے ۱۹۵۳ء میں مرتب کیاتھا۔ فاضل مترجمہ نے اس اہم کتاب کے کامل ترجمے کی بجاے اس کے سات اہم ابواب میں شامل ۸۵ مباحث کے ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ اصل کتاب کی فہرست اور اس ترجمے کے مندرجات کے تقابل سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کن کن ابواب کے کن کن مباحث کونظرانداز کیا گیا ہے۔ کاش! فاضل مترجمہ نظرانداز کردہ حصوں کو شامل نہ کرنے کی وجوہ بھی لکھ دیتیں‘ تو مناسب ہوتا۔

شاہ ولی ؒاللہ کی اس شاہکار تصنیف پر فاضل مترجمہ نے اپنا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ ان کی اس کتاب کا لوازمہ ان کی بہت سی دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ ترجمے کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کتاب کے مقصدِ تحریر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مغرب کی علمی تحقیق کے طرز کے مطابق متن کے فٹ نوٹس میں کچھ حوالوں کی تخریج اور چند مقامات پر مختصر حواشی کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ انتہاے آخر میں کتابیات کے علاوہ قرآنی آیات‘ احادیث‘ اسما اور مضامین و اصطلاحات کے اشاریے بھی ترتیب دیے گئے ہیں‘ جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ترجمہ حسنِ طباعت کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور ارزاں قیمت پر دستیاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے سے مسلم اور غیرمسلم دنیا کے انگریزی خواں حضرات اسلام کے عقائد‘ عبادات‘معاملات‘ امورمملکت‘ اخلاق و معاشرت کے علاوہ اس کی عمرانی‘ تمدنی‘ ثقافتی اور معاشی تعلیمات کے بارے میں  واضح علم حاصل کرسکیں گے۔ موجودہ عہد کے وہ تمام اہل فکرونظر جو الٰہیات کی اسلامی تشکیلِ جدید کے موضوع سے دل چسپی رکھتے ہیں‘ اس ترجمے کے مطالعے سے ایک جدید زبان اور ایک جدید تر اسلوب میں برعظیم کے سب سے بڑے مفکر‘ محدث‘ فقیہہ اور مجتہد کے روشن خیالات سے مستفید ہوسکیں گے۔ امید ہے کہ ہماری جامعات کے اساتذہ اور طلبہ اور ہمارے قانونی‘ عدالتی‘ معاشی   اور معاشرتی اداروں سے متعلق اربابِ اختیار اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے۔ ( The Conclusive Argument From God ‘ ] حجۃ اللّٰہ البالغہ[ شاہ ولی اللہ دہلویؒ،مترجم: مارسیہ کے‘ ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) ‘ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۶۔ قیمت: ۵۵۰ روپے‘۲۰۰۳ئ)