ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

اسرائیل‘ پاکستان اور اُمت مسلمہ

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانا اور اختلافی امور کو حل کرنا حکمت و دانائی کا شیوہ ہے مگر اسے کیا کہا جائے کہ اب اقتدار پر قابض جرنیل اور ان کے ہم نوا دانش ور طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی مشق بڑی بے دردی سے کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اندرونی مسائل اور مشکلات کی دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا ہو رہی ہے‘ اور نہ خارجہ سیاست میں کہیں روشنی کی کوئی کرن ہی نظر آرہی ہے--- ژولیدہ فکری‘ تضادات اور کہہ مکرنیوں کے سیلاب کے ساتھ اب اصولی موقف اور قومی زندگی کے ثابت اور مستحکم امور بھی مشتبہ اور غیرمعتبر ہوتے جا رہے ہیں اور مفاد کے نام پر ہر اصول‘ ہر حقیقت اور ہر مسلّمہ کلیے سے انحراف کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ چنانچہ  صرف کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے‘ پالیسی کے روشن خطوط دھندلا گئے ہیں اور دلیل کی جگہ ایک ایسے شوروغوغا نے لے لی ہے کہ  ع  کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

مصائب تو بہت تھے مگر ذہنی افلاس اور بے اصولی کا جو منظر خارجہ سیاست کے میدان میں نظر آ رہا ہے‘ اس نے ملک و ملّت کو ایسے خطرات سے دوچار کر دیا ہے جن کا اگر بروقت مقابلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کے نظریاتی وجود اور تاریخی کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان تمام معاملات کا تعلق محض وقتی مصلحتوں سے نہیں بلکہ معاملہ اصول اور ملک و ملّت کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ہے جنھیں محض کسی کی خوشنودی یا کچھ مراعات کی توقع کی خاطر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بڑے شدومد سے اٹھایا گیا ہے۔باہر کے دشمن اور اندر کے سازشی کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فضا ہموار ہو۔

یہ ایک بڑا چونکا دینے والا سوال ہے کہ آخر اس وقت یہ شوشہ کیوں چھوڑا گیا ہے؟ فلسطین میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کو تیسرا سال ہے۔ ڈھائی تین ہزار مسلمان مرد‘ عورت اور بچے اس عرصے میں شہیدہو چکے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے ’’لائ‘‘(law) کی رپورٹ کے مطابق صہیونیوں نے ۱۹۴۸ء سے لے کر اب تک ۱۵لاکھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کو ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے اور طویل عرصے تک بلامقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا ہے۔ ۳ لاکھ فلسطینیوں کو زخمی کیا اور ان میں سے ۴۰ ہزار سے زیادہ کو مستقلاً معذور کر دیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل عرب باشندوں میں سے اتنی بڑی تعداد کو ملک بدر کیا ہے کہ اب فلسطین سے باہر فلسطینی مہاجرین کی تعداد۴۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو اسرائیل کی پوری یہودی آبادی کے برابر ہے۔ آج بھی مہاجر کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۷۰ ہسپتالوں ‘ ۳۱۵ اسکولوں اور سات یونی ورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ عرب علاقے کے ۶۰ فی صد کھیت کھلیان جلا کر خاکستر کر دیے گئے ہیں‘ ۳۷۰فیکٹریاں تباہ کی ہیں‘ ۶ لاکھ سے زائد جانوروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اب عرب علاقوں میں ۲۱۰میل لمبی آہنی فصیل بنائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں عربوں کی لٹی پھٹی زمین کا مزید ۱۰‘۱۵فی صد پر اسرائیلی قبضہ ہوگا۔ جس علاقے کو مستقبل کی عرب ریاست کا محل سمجھا جا رہا ہے وہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور اسرائیل کی فوج اور آبادکار ان پر بدستور قابض رہیں گے۔

ظلم و ستم کی اس نہ ختم ہونے والی سوچی سمجھی اسٹرے ٹیجی کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیل امن کی کسی بھی تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیںہے۔ نام نہاد روڈمیپ اور اپنی پسند کے فلسطینی وزیراعظم اور پولیس سربراہ کے تقرر کے باوجود نہتے عوام پر ٹینکوں اور ایف-۱۶ سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہدف بنا کر سیاسی قائدین اور علما کو قتل کیا جا رہا ہے۔پوری عرب آبادی کو فصیلوں کے ذریعے محصور کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ یاسرعرفات کو بھی کونے سے لگا دیا گیا ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے ’’روڈمیپ‘‘ کہا جا رہا ہے وہ ایک سراب سے زیادہ نہیں کہ فلسطینیوں کے قدموں تلے کوئی روڈ ہی نہیں ،’’میپ‘‘ کی تو بات ہی کیا!

ایک طرف حالات کی یہ ہولناک صورت ہے اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ کے دورے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے سوال پر اچانک خود کلامی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سیکرٹری وزارتِ خارجہ اور سیکرٹری اطلاعات نے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے حق میں وعظ شروع کر دیا۔ جنرل صاحب کے علاوہ وزیر داخلہ اور سردار عبدالقیوم بھی میدان میں کود پڑے اور جولائی ۲۰۰۳ء کے Jan's Intelligence Digestنے تو اعلان ہی کردیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس کے الفاظ میں:

پاکستان کے حکام خصوصیت سے مشرف سے قریب فوجی قیادت اسرائیل کے ساتھ براہ راست روابط قائم کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ مشرف اپنے ایجنڈے کے ساتھ مستقبل قریب میں آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

دفاعی امور کے اس مجلے کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان اور اس کی فوج کو بھارت اور امریکہ سے تعلقات کے باب میں اور اسلحے کی خریداری کے لیے کچھ سہولتیں حاصل ہو جائیں گی :

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان کو مستحکم کرنے کی جنرل پرویز مشرف کی کوششوں‘ نیز ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر لازماً اہم اثرات مرتب کرے گا۔

دفاعی امور کے بارے میں سراغ رسانی کی اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے البتہ ’’جنرل مشرف اندرونِ ملک اور بیرون ملک اس کے ممکنہ اثرات کو ضرور جانچنا چاہتے ہیں‘‘۔

ہم اپنی رائے تو دلائل کے ساتھ پیش کریں گے لیکن اپنی بحث کا نتیجہ بالکل واضح الفاظ میں پہلے ہی بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی جو قوم کے احتجاج اور نفرت ہی نہیں‘ خدانخواستہ اللہ کے غیض و غضب کو بھی دعوت دینے کا ذریعہ بنے گی۔ یہ پاکستان اور جنرل مشرف کے سیاسی مستقبل کو استحکام بخشنے کا نہیں‘ فوری طور پر عدمِ استحکام کی نذر کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ اس شوشے کے چھوڑے جانے کے بعد سے آج تک جو کچھ اس کے بارے میں لکھا گیا ہے یا تقاریر اور تبصروں میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے سوا پوری قوم‘ تمام اہم کالم نگاروں اور تمام قابلِ ذکر سیاسی حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اسے قومی مفاد اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کی ضد اور ایک بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے اور اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ پاکستان کے اندر سے اُبھرنے والا ایک رجحان نہیں بلکہ باہر سے ہم پر مسلط کیا جانے والا ایک فتنہ ہے--- کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!

کسی ملک کے جائز ہونے کی بنیادیں

کسی ملک کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال بین الاقوامی قانون‘ سفارت کاری اور تجارت سے متعلق ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے لیے ضروری نہیں کہ ہر دوسرے ملک کو لازماً تسلیم کرے‘ یا اس سے سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق دو ہی پہلوئوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کیا وہ ریاست یا ملک جس سے معاملہ کیا جا رہا ہے ایک  مبنی برحق اور صاحب ِ اقتدار ملک ہے یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ اس سے سفارتی یا تجارتی رشتہ استوار کرنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں؟ پہلا سوال اپنے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا خالص مفادات سے متعلق ہے۔ بین الاقوامی قانون اور روایات کی روشنی میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ ملک جس سے آپ حالت جنگ (state of war) میں نہ ہوں‘ آپ لازماً اسے تسلیم کریں یا اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کا رشتہ استوار کریں۔ نیز مختلف وجوہ سے دنیا کے دسیوں ممالک نے برسہا برس تک دوسرے ممالک کو تسلیم نہیں کیا اور کوئی آسمان نہیں گر پڑا۔

خالص قانونی نقطۂ نظر سے کسی ملک کو تسلیم کرنے کے معنی اسے ایک جائز وجود (legitimate entity) تسلیم کرنا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے اس کے لیے اس ملک کے بارے میں چار امور یقینی ہونا چاہییں: ۱- متعین جغرافیائی حدود (defined geographical borders) ۲-آبادی ۳- اپنے حدود میں مکمل آزادی اور ۴- قبضہ۔

یہ حاکمیت (sovereignty) کے لازمی اجزا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی ملک ان میں سے کسی پہلو سے بھی متنازع ہو تو اسے تسلیم کرنے میں تردد کیا جاتاہے۔ وہ ملک یا علاقہ جو کسی دوسری قوت کے تابع (کنٹرول میں) ہو اسے آزاد تسلیم نہیں کیا جاتا‘ یا اگر کسی اور وجہ سے اسے جواز (legitimacy) سے محروم تصور کیا جاتا ہو تب بھی اسے تسلیم نہیں جاتا اور یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ فاک لینڈ پر انگلستان کے قبضے کو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہونے کے باوجود‘ ارجنٹائن نے اسے آج تک قبول نہیں کیا۔ روس‘چین‘ تائیوان سب ان مراحل سے گزرے ہیں۔ جموںو کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارت کا قبضہ ہے مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے صرف قبضے کی بنیاد پر اسے قانونی جواز حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے سلسلے میں بھی سب سے پہلا اصولی‘ قانونی‘اخلاقی اور سیاسی سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ایک مبنی برحق ’’جائز‘‘ (legitimate) ریاست ہے؟اس کے عملی وجود (de facto existence) سے توکوئی انکار نہیں کرتا۔ جس طرح صدیوں پر محیط برطانوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی‘ ہسپانوی‘ ولندیزی اور دوسرے استعماری طاقتوں کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا جس طرح جنوبی افریقہ میں سفیدفام پورپیوں کی نسلی ریاست (apartheid state) کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان ریاستوں کو محض قبضے اور اقتدار کی وجہ سے جائز تسلیم نہیں کیا گیا اور بالآخر حالات کی تبدیلی سے آزاد قومی ریاستیں وجود میں آئیں جن کو یواین چارٹر کے تحت سندِجواز حاصل ہوئی۔

اسرائیل کی حیثیت

اسرائیل کا معاملہ دنیا کے باقی تمام ممالک سے بالکل مختلف ہے۔

ارضِ فلسطین بنی اسرائیل کا اصل مسکن نہ تھا۔ یہ اس سرزمین پر ۱۳ سو برس قبل مسیح میں داخل ہوئے اور ۲۰۰ سال کی کش مکش کے بعد اس پرقابض ہوگئے۔ دو بار یہ اس سرزمین سے   بے دخل کیے گئے۔ ۱۳۵ء میں رومیوں نے بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین سے مکمل طور پر نکال باہر کیا۔ گذشتہ ۶ ہزار سال کی تاریخ میں شمالی فلسطین میں بنی اسرائیل کا قیام چار پانچ سو برس اور جنوبی فلسطین میں کل آٹھ نو سو برس رہا جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً ۲ ہزار سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔

ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی بنیاد بائبل میں درج نام نہاد الٰہی وعدے پر ہے جسے زیادہ سے زیادہ ایک  خیالی مفروضہ (myth) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تصوراتی استحقاق کی بنیاد پر انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے دولت مند اور سیاسی طور پر طالع آزما یہودی قیادت نے فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کے لیے ایک سیاسی تحریک صہیونیت (Zionism) کا آغاز کیا۔ انھوں نے دولت‘ ظلم و تشدد‘ سیاسی جوڑ توڑ اور سامراجی سازشوں کے ذریعے بالآخر عربوں اور ترکوں کو لڑا کر‘ برطانوی انتداب (mandate) کے دور میں اس سرزمین پر اپنے قدم جمائے۔ یوں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت‘ لیکن دراصل فوجی قوت اور اہل فلسطین کے جبری انخلا اور نسل کشی (genocide) کے ذریعے‘ اسرائیل کے قیام کا ہدف حاصل کیا گیا۔ ایک یہودی دانش ور اور ادیب آرتھر کویئسلر(Arther Koestler)  اپنی جوانی میں صہیونیت کے طلسم کا شکار تھا اور جرمنی میں اپنا گھربار چھوڑ کر فلسطین کی صہیونی بستیوں (kibbutz) میں نقل مکانی کرنے والوں میں شامل تھا۔ مگر جب اس نے بچشم سر اس ظلم کو دیکھا جس کا نشانہ اہلِ فلسطین کو بنایا گیا تو اس نے ایک مختصر جملے میں اس تاریخی ظلم کو یوں بیان کیا:

کیا ستم ہے کہ ایک قوم نے ایک دوسری قوم کو ایک تیسری قوم کا ملک (بڑی فیاضی سے) تحفتاًدینے کا حلفیہ وعدہ کیا۔ (آرتھر کویئسلر‘ Promise and Fulfilment لندن‘ ۱۹۴۹ئ‘ص ۴)

۱۹۱۴ء میں فلسطین میں صرف ۳ ہزار یہودی گھرانے آباد تھے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد وسیع پیمانے پر یہودیوں کو غیر قانونی طور پر ارضِ فلسطین منتقل کرنے کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی صرف ۵۶ ہزار تھی‘ جب کہ اس وقت فلسطینی عربوں کی تعداد ۶ لاکھ ۴۴ ہزار تھی۔ ساری قتل و غارت گری اور تشدد کے باوجود ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو جبراً ریاستی حیثیت دی گئی‘ یہودی ارضِ فلسطین میں صرف ۶.۵ فی صد زمین کے مالک تھے اور فلسطین کی آبادی میں ان کا حصہ بمشکل ۳۳ فی صد تھا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے ۸۰ ممالک سے    چن چن کر یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے اور خود فلسطینیوں کو ان کے گھربار سے نکالنے اور ان کی بستیوں کی بستیوں کو تاراج کرنے کے ذریعے یہودی آبادی ۱۰ گنا سے زیادہ بڑھا لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے یہودیوں کو ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد سونے کی طشتری میں  رکھ کر دے دیا گیا اور باقی ۴۴فی صد فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو دیا گیا لیکن اسرائیل کے جنگجو گروپوں نے عملاً ۱۹۴۸ء ہی میں ارضِ فلسطین کے ۷۸ فی صد پر بزور قبضہ کرلیا اور پھر ۱۹۶۷ء میں باقی تمام فلسطین بشمول مشرقی بیت المقدس اپنے قبضہ میں لے لیا۔

مقصد یہاں ظلم کی یہ پوری دل خراش داستان بیان کرنا نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کرنا ہے کہ اسرائیل ایک حقیقی اور فطری ریاست نہیں جو ایک علاقے میں اس کے رہنے والوں کے حق خود ارادی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو بلکہ ایک چرائی ہوئی (stolen) ریاست ہے جو ایک سرزمین کے اپنے باسیوں کو بے دخل کر کے‘ باہر سے لائے ہوئے افراد (colonisers) کے تسلط کو قائم کرنے سے وجود میں آئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کے   اس عمل (genesis) کو سمجھے بغیر علاقے میں اس کی نوعیت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے قلب--- فلسطین میں ایک یورپی استحصالی قوم کے   تسلط اور غلبے سے عبارت ہے جو بین الاقوامی قانون میں ہر جواز (legitimacy) سے محروم ہے اور رہے گی--- اس کے جواز کی صرف ایک بنیاد ہے اور وہ ہے: جبرکے ذریعے قبضہ (occupation by force) ۔ اور محض قبضے کو کسی بھی ملک کے لیے جوازتسلیم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں بین الاقوامی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بھی ہے۔

امریکی اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)میں ایک مضمون نگار John V. Whitbeek جو بین الاقوامی قانون کا ماہر ہے موجودہ نام نہاد روڈمیپ کو ایک مغالطہ (illusion) قرار دے رہا ہے۔ اس نے مسئلے کی صحیح تنقیح کی ہے:

"The roadmap builds on a false premise, that the real problem is Palestinian resistance to the 36 years occuption and not THE OCCUPATION ITSELF.

موصوف نے صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ مسئلہ فلسطینیوں کی طرف سے تشدد نہیں بلکہ ان کی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوگا امن کا قیام ممکن نہیں۔

اس ریاست کی نوعیت اور اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق نگاہ میں رکھنا ضروری ہیں:

جبری تسلط: اسرائیلی یہودی اس علاقے کے اصل باسی نہیں تھے‘ اور آج تک نہیں ہیں۔ انھیں ساری دنیا سے لاکر‘ ملک کے اصل باشندوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر کے ناجائز طور پر‘ محض قوت کے بل بوتے‘ اور استعماری تحفظ کی چھتری تلے دوسروں کے ملک پر غلبہ دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ کوئی قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے اپنے کلچر اور زندگی کو اس علاقے پر مسلط کر رہے ہیں اور صرف قوت کے بل بوتے پر موجود ہیں۔

استصواب کے بغیر: اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جس کی رو سے صرف کسی علاقے کے لوگ اپنی آزاد مرضی اور استصواب رائے کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان عرب فلسطین کی آبادی کا ۶۶ فی صد تھے اس لیے اقوام متحدہ نے امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی ملی بھگت سے استصواب کے طریقے کو ماننے سے انکار کر دیا اور محض اقوام متحدہ کی قرارداد سے فلسطین کو تقسیم کر کے دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ یہ بھی اس طرح کیا گیا کہ جنرل اسمبلی میں ووٹ کو دو بار موخر کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت کے ۵۶ ممالک میں سے صرف ۳۰ اس قرارداد کے حق میں تھے‘ ۱۳ خلاف تھے اور ۱۳ غیر جانب دار تھے اور اس طرح دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی۔ دو بار ووٹ موخر کر کے امریکہ اور عالمی صہیونی ایجنسی نے اپنا اثر اور سرمایہ استعمال کر کے تین غیر جانب دار ممالک (ہیٹی‘ فلپائن اور لائبریا--- جو سب امریکہ کے زیراثر تھے) کو تقسیم کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ گویا اقوام متحدہ کے چارٹر کی تین کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر یہ قرارداد منظور ہوئی۔ (الف) استصواب کے بغیر ایک ملک کے مستقبل کا فیصلہ (ب) دو بار ووٹ موخر کرنا (ج) تین ملکوںسے زبردستی (under duress) تائید حاصل کرنا (یہ تمام حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور امریکی کانگریس میں اہم ارکان کی تقریروں میں اعتراف کی شکل میں موجود ہیں)۔

قانون اور عالمی آداب کی خلاف ورزیاں یہاں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ قرارداد منظور ہونے سے پہلے اسرائیل کا اپنی قوت سے حاصل کردہ غیر متعین علاقے پر اپنی حکومت کا اعلان اور اس کا امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے تسلیم کیا جانا (recognition) بھی قانون اور عالمی آداب کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ یہ ہیں تاریخی حقائق--- اور اسرائیل کو تسلیم کرنا اس پورے تاریخی ظلم اور دھاندلی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

غیر متعین سرحدیں: اسرائیل وہ واحدملک ہے جس کا قیام‘ وجود اور انحصار آبادی کے مسلسل غیر فطری انتقال‘ تشدد اور قوت کے ذریعے علاقے پر قبضے اور جنگ اور قوت کے ذریعے مسلسل اپنی سرحدوں میں اضافے پر ہے۔ آج بھی اس کی حدود متعین نہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد میں ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد اسے حاصل ہوا‘ جسے فوج کشی کے ذریعے ۱۹۶۷ء تک ۷۸ فی صد کر لیا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴۲ اور ۳۸۳ کے ذریعے جنگ سے قبل کی حدود پر واپسی کے احکام جاری کیے گئے اور ۲۰ سے زیادہ قراردادوں میں اس کا اعادہ کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اب جس روڈمیپ کی بات ہو رہی ہے اس میں عملاً فلسطینیوں کے باقی ماندہ ۲۲ فی صد میں سے بھی تقریباً ۴۰ فی صد عملاً اسرائیل کے قبضے میں ہوگا اور باقی علاقہ جسے ابھی فلسطین اتھارٹی اور ۲۰۰۵ء کے بعد فلسطینی ریاست کہا جائے گا کس مپرسی اور بے چارگی کے عالم میں ہوگا ۔ وہ سارا علاقہ نہ آپس میں مربوط ہوگا اور نہ ایک حصے سے دوسرے حصے میں اسرائیلی چوکیوں سے گزرے بغیر آمدورفت ممکن ہوگی۔ نیز یہ نام نہاد ریاست ہمیشہ فوج سے بھی محروم رہے گی اور اس کی امن عامہ کی دیکھ بھال (policing) اسرائیل کی ذمہ داری ہوگی جس کا اقتدار شاہراہوں اور پانی کے تمام ذخائر پر ہوگا۔

جو لوگ آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ کس چیز کو تسلیم کرنے کے مدعی ہیں--- ہماری نگاہ میں تو اسرائیلی ریاست کا وجود ہی ہرجواز سے محروم ہے لیکن جو    اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر دو ریاستوںکی بات کرتے ہیں ان کو اتنا تو صبر کرنا چاہیے کہ  نام نہاد ریاستوں کے حدود تو واضح ہو جائیں۔ لچک دار‘ غیر متعین تبدیل ہونے والی سرحدات (flexible, undefined changing boundries) کی حالت کو تسلیم کرنے کے کیا    معنی ہیں؟

توسیع پسندی:

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اسرائیل ریاست کی نظریاتی اساس ہی وسعت پذیر حدود (expanding boundries) پر ہے جو امپریلزم کا دوسرا نام اور پورے علاقے کے لیے مسلسل خطرے کا پیغام ہے۔ اسرائیل اور اس کی قیادت نے اس معاملے کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ ہمارا ہدف عظیم تر اسرائیل (greater Israel) ہے۔ بن گورین ۱۹۴۸ء میں اس کا اظہار اس طرح کرتا ہے:

عرب اتحاد کا زد پذیر پہلو لبنان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی برتری مصنوعی ہے‘ اور اسے بآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہاں ایک عیسائی ریاست بننی چاہیے۔ جس کی جنوبی سرحد Litani ہو۔ ہم اس ریاست کے ساتھ اتحاد کا ایک معاہدہ کریں گے۔ اس طرح سے جب ہم عرب لیجن کی طاقت کو توڑ دیں گے ‘ اور عمان پربم باری کرچکے ہوں گے تو اس کے بعد شام کا سقوط ہوگا۔ اور اگر مصر نے ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم پورٹ سعید‘ اسکندریہ اور قاہرہ کو بم باری کا نشانہ بنائیں گے۔اس طرح سے ہمیں اس جنگ کا خاتمہ کرنا ہے اور یوں ہم اپنے آباواجداد کی طرف سے مصر‘ اسیریہ اور چالڈیہ کا بدلا اتاردیں گے۔ (بن گورین کی ڈائری‘ ۲۱ مئی ۱۹۴۸ئ)

اس سے پہلے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) نے ۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس (Versailles Peace Conference) کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا: اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H Miller: My Diary at the Conference of Paris with Documents, Vol v, p 17)

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے یکم جنوری ۱۹۸۲ء کو  کیمپ ڈیوڈ کے تین سال بعد اسرائیلی پارلیمنٹ (Knesset) میں تقریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا:

اصولی طور پر مملکت اسرائیل کی شمالی سرحد میں گولان ہائٹس کو شامل ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۸ء میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے‘ اور فلسطین پر برطانیہ کے انتداب کے قیام کے بعد استعماری حکمرانوں کے ایسے عہد میں یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے یہ شامل نہ ہوسکا جو گزر چکا ہے اور اب کبھی نہیں لوٹے گا۔ ہم ان یک طرفہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں…

عالمی صہیونی تحریک اور اسرائیلی قیادت نے علاقے کی تمام وسعتوں پر اپنا حق جتایا اور قوت سے انھیںحاصل کرنے کے بارے میں کبھی کسی تحفظ کا لحاظ نہیں رکھا:

فلسطین ایک علاقہ ہے جس کا نمایاں جغرافیائی فیچر یہ ہے کہ دریاے اُردن اس کی حدود متعین نہیں کرتا بلکہ اس کے بیچ میں بہتا ہے۔ (ولادیمیر جیبوٹس‘ سولھویں صہیونی کانگرس ۱۹۲۹ء کے موقع پر)

مثال کے طور پر امریکہ کے اعلان آزادی کو لیجیے۔ اس میں علاقائی حدود کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ہمارے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔(بن گورین کی ڈائری‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ئ)

صورت حال کو علیٰ حالہ ہی باقی رکھنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمیں ایک ایسی حرکی ریاست قائم کرنا ہے جو توسیع پسند ہو۔ (Ben Gurion in Rebirth and Destiny of Israel, دی فلاسوفیکل پریس‘ نیویارک‘ ۱۹۵۴ئ)

گذشتہ ۱۶ سو برسوں میں ہمارے لوگ ایک ملک اور قوم کی تعمیر اور اس کی توسیع‘ مزید یہودی جمع کرنے اور اضافی آبادیاں قائم کرنے میں مصروف رہے ہیں تاکہ اپنی حدود کو وسیع کریں۔ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ یہ عمل ختم ہوگیا ہے‘ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔ (موشے دیان‘ MAARIV ‘۷ جولائی ۱۹۶۸ئ)

اسرائیل کے وزیردفاع موشے دیان نے دی ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:

ہمارے آباواجداد ان حدود تک پہنچ گئے جو تقسیم کے منصوبے میں تسلیم کیے گئے تھے۔ ہماری نسل ۱۹۴۹ء کی حدو دتک پہنچ گئی۔ اب شش ایام کی نسل سویز‘ اُردن اور گولان ہائٹس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ منزل نہیں ہے۔ موجودہ جنگ بندی لائن کے بعد نئی جنگ بندی لائنیںہوں گے۔ یہ اُردن سے شام تک جائیں گے شاید لبنان تک اور شاید وسط شام تک۔ (دی ٹائمز‘ لندن‘ ۲۵ جون ۱۹۶۹ئ)

یہ ہے اسرائیل کا اپنے عزائم اور اہداف کا کھلا کھلا اظہار۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسرائیل ایک امن پسند ریاست نہیں ایک سامراجی قوت ہے جس کو تسلیم کرنے کے معنی سامراج کو سندجواز دینا ہے۔ ذرا یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سامراجیت کی تعریف کیا ہے۔ مشہور ویبسٹر ڈکشنری اس کی تعریف یوں کرتی ہے:

امپریلزم: کسی قوم کا اپنے اختیار اور حدود کو توسیع دینے کی پالیسی‘ عمل یا وکالت‘ خصوصاً براہِ راست علاقے حاصل کر کے یا دوسرے علاقوں کی سیاسی اور معاشی زندگی کے اوپر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرکے۔ (ویبسٹر‘ نئی کالج ڈکشنری‘ ۱۹۸۱ئ)

مناسب ہوگا کہ اس موقع پر ایسی اسرائیلی ریاست کے بارے میں مغرب کے چند اہم افراد کی آرا اور خیالات کو بھی پیش کر دیا جائے:

اگر ایک ایسی یہودی ریاست کی تشکیلِ نو مناسب ہے جس کا وجود ۲ ہزار سال سے نہ تھا‘ تو ایک ہزار سال مزید پیچھے کیوں نہ جائیں اور کین اینائٹ (cannanite) ریاست کو کیوں نہ دوبارہ قائم کریں۔ یہودیوں کے برخلاف کین اینائٹس اب بھی وہاں ہیں (ایچ جی ویلز)

فلسطین میں بدامنی کا سبب اور واحد سبب صہیونی تحریک اور اس کے ساتھ ہمارے وعدے ہیں۔ (ونسٹن چرچل‘ تقریر دارالعوام‘ ۱۴ جون ۱۹۲۱ئ)

فلسطین میں صہیونی ریاست صرف جبر کے ذریعے قائم کی جا سکتی ہے اور قائم رکھی جاسکتی ہے اور ہمیں اس میں فریق نہ ہونا چاہیے۔ (صدر روزولٹ‘ ۵ مارچ ۱۹۴۵ئ)

یہودی ریاست کے تخیل کی میرے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ اس کا تعلق تنگ نظری اور معاشی رکاوٹوں سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بدی ہے۔ میں ہمیشہ اس کا مخالف رہا ہوں۔ (البرٹ آئن سٹائن‘ ۱۹۴۶ئ)

یہ تمام حوالے امریکی پروفیسر ولیم بیکر کی چشم کشا کتاب Theft of a Nation سے لیے گئے ہیں۔ ولیم بیکر خود بشریات (Anthropology) اور تاریخ کا پروفیسر ہے اور وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

آیئے غور کریں ۱۹۱۷ء سے اب تک کیا ہوا ہے۔ سیاسی صہیونیوں نے فلسطین کا پورا ملک لے لیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک قوم سے ایک ملک کی چوری میں شرکت کی ہے‘ حمایت کی ہے اور اس پر یقین رکھا ہے۔ زمینیں‘ مکانات‘ رسوم و رواج‘ معیشت‘ غرض جو چیز بھی عربوں کی تھی‘ اس کی جگہ اسرائیلی کنٹرول اور اثر نے لے لی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا نام بھی۔ یہ مفروضہ کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے اور انھیں ‘ جو ان کا حق ہے‘ اس کو واپس لینے میں ان کی مدد چاہیے‘ اس کا اتنا زوردار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ جو کوئی فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کی حمایت نہ کرے تو اس پر امتیاز کرنے (discrimination) اور یہودیت دشمنی (anti semitism) کا الزام لگ جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کے جذباتی ردعمل کو نظرانداز کر کے حقائق کو پیش کرنے پر اصرار کریں--- اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اس المناک ناانصافی کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل کبھی نہیں ہوگا۔ (جورے پبلی کیشنز‘ لاس اینجلس‘ ۱۹۸۹ئ)

نسل پرست ریاست :بات یہیں تک نہیں۔ اسرائیل صرف ایک سامراجی اور اپنی سرحدوں کو مسلسل بڑھانے والی ریاست ہی نہیں وہ ایک نسل پرست (racist) ریاست بھی ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں یہودیوں کی اکثریت ہو اور وہ وہاں ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہیں تو جس طرح دنیا میں ہندو ریاستیں (نیپال)ہیں‘ یا بدھ مت ریاستیں ہیں (تھائی لینڈ‘سری لنکا) یا عیسائی ریاستیں ہیں (بشمول Vatican)‘ اسی طرح اگر ایک یہودی ریاست بھی ہو تو کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بنیاد یہ نہیں ہے۔ دوسروں کی زمین پر‘ ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کر کے‘جبر اور ظلم کے ذریعے ریاست قائم کرنے کے ساتھ دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہودی قوم نسلی بنیادوں پر دوسری اقوام سے مختلف اور بالاتر ہے اور دوسرے کم تر ہیں     اس لیے یہ ایک بالاتر ریاست کی حیثیت سے ان پر حکمران ہونے کا حق رکھتی ہے۔ یہ بالکل جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ ذہنیت ہے۔ یہ وہ چیزہے جواسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل چارٹر آف ہیومن رائٹس کے برعکس ایک نسل پرست ریاست بناتی ہے اور علاقے کے تمام ممالک اور اقوام کے لیے خطرہ بناتی ہے‘ جب کہ عسکری اعتبار سے اور ایٹمی صلاحیت سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اسے علاقے کے سارے ممالک پر ویسے بھی بالادستی حاصل ہے۔

صہیونی عالمی تحریک کے صدر ڈاکٹر ویزمین نے جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا‘ ۱۹۱۸ء میں بالفور اعلان کے ضمن میں جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت اور اقلیت کا مذاق اڑاتے ہوئے عربوں کو حقارت سے مقامی (native) اور یہودیوں کو ان سے صلاحیت (qualititavely) کے اعتبار سے مختلف قرار دیا تھا۔

جمہوری اصول تعداد کو اہمیت دیتا ہے اور خوف ناک تعداد ہمارے خلاف پڑتی ہے‘ اس لیے کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب ہیں۔ یہ نظام اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھتا کہ ایک یہودی اور ایک عرب میں ایک بنیادی فرق ہے جو یہودی کی صلاحیت میں فوقیت پر مبنی ہے۔ موجودہ نظام یہودی کو اسی سطح پر لے آتا ہے جس پر ایک مقامی ہے۔

جب آئن سٹائن نے ڈاکٹر ویزمین سے پوچھا کہ اگر فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے تو پھر عربوں کا کیا ہوگا تو ویزمین نے کہا: کون سے عرب؟ ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟

پروفیسر بین زیون دی نور (Prof. Ben Zion Dinur)  اسرائیل کا پہلا وزیراعظم تھا۔ اس نے History of the Haganah کے پیش لفظ میں صاف لکھا ہے:

ہمارے ملک میں صرف یہودیوں کے لیے جگہ ہے۔ ہم عربوں سے کہیں گے: باہر نکل جائو۔ اگر وہ یہ نہ مانیں اور مزاحمت کریں تو پھر ہم ان کو طاقت کے زور سے نکال باہر کریں گے۔ (راجر گارودی (The Case of Israel: A Study of Political Zionism, London, 1983)

یہی وہ تصور ہے جس کے تحفظ کے لیے عربوں کو اسرائیل میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں اور دوسری طرف قانون مراجعت  (Law of Return) کے تحت دنیا کے ہر یہودی کو اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے کا نسلی اختیار حاصل ہے۔ ابھی ۳۱جولائی ۲۰۰۳ء کو اسرائیل کی پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا ہے اور جس کی تنسیخ کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر ایک عرب فلسطین کے مغربی کنارے کا رہنے والا اسرائیل میں کسی عرب خاتون سے جو اسرائیل کی شہری ہے شادی کرتا ہے تو انھیں اسرائیل میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ یا دونوں الگ الگ رہیں‘ یا اسرائیل کو چھوڑ دیں۔ اس سے زیادہ اس کا کیا ثبوت درکار ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری نہیں‘ ایک نسل پرست ریاست ہے اور اس کو تسلیم کرنا انسانیت کے آج تک کے حاصل شدہ اکرام کی نفی ہوگا۔ فرانس کا مشہور مفکر راجر گارودی اسرائیل کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں صاف الفاظ میں لکھتا ہے:

۱-  اسرائیلی ریاست جہاں قائم کی گئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا ریکارڈ اسے ان بدترین ریاستوں میں شمار کراتا ہے جن سے اس کے قریبی روابط ہیں: ۱-امریکہ ۲- جنوبی افریقہ ۳- ایل سیلوے ڈور ‘گوئٹے مالا‘ پیراگوئے۔

۲-  اسرائیلی ریاست کا بنیادی عقیدہ (سیاسی صہیونیت) یہودی روایت سے پیدا نہیں ہوا۔ وہ صرف مغربی قوم پرستی بلکہ۱۹ویں صدی کی استعماریت سے وجود میں آیا ہے۔ یہ نسل پرستی‘ قوم پرستی اور استعماریت کی ایک شکل ہے۔

۳-  یہ ریاست اقوام متحدہ کے ایک غلط فیصلے‘ دبائو اور بدعنوانی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ اور مغرب سے ملنے والے اسلحے اور مال کے زور پر قائم ہے اور ان سب سے بڑھ کر امریکہ کی غیر مشروط اور غیرمحدود مدد پر۔

۴-  یہ کوئی مقدس ریاست نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۵۷-۱۵۸)

فلسطینی ریاست کی کس مپرسی :  اسرائیل کا جو کردار گذشتہ ۵۵ سالوں میں رہا ہے اور جو مظالم وہ اس وقت بھی فلسطینیوںپر ڈھا رہا ہے‘ ان کو نظرانداز کر کے اور فلسطین اتھارٹی کی بے بسی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نام دینا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی شخص بہ قائمی ہوش و حواس نہیں کر سکتا۔ ۲۲ عرب ملکوں میں سے صرف دو (یعنی مصر اور اُردن) نے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے مگر شدید مجبوری کے تحت۔ ان دونوں نے بھی ایک عرصے سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا ہوا ہے۔ رہا معاملہ یاسر عرفات اور فلسطین اتھارٹی کا‘ تو وہ تو ابھی ریاست کے مراحل کے دور دور بھی نہیں اور محض اسرائیل کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم نے برطانوی سامراج کو تسلیم کرلیا تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے مراحل میں وہ انڈین قانون ساز اسمبلی میں شریک ہوگئے تھے۔ فلسطینی آج اپنے حالات کے مطابق سیاسی اور جہادی ہر راستے سے اپنی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسے ’تسلیم کرنا‘ قرار دینا حقائق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور دوسرے ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسرائیل پر جو بھی تھوڑا بہت عالمی دبائو ہو سکتا ہے اسے بھی کسی فیصلہ کن مرحلے سے گزرے بغیر ختم کر دیا جائے۔ یہ اہلِ فلسطین کی جدوجہد آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ محض ایک ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ نہیں۔ ارضِ فلسطین صرف فلسطینیوں اور عربوں کے لیے اہم نہیں‘ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی اہم ہے۔ القدس ہمارے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ واقع ہیں اور جو حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بعد قبلہ اول کی حیثیت سے دنیا کی تمام مساجد کے مقابلے میں سب سے محترم عبادت گاہ ہے‘ جس کی تقدیس پر قرآن گواہ ہے:  سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَاط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِحرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ‘‘۔

الاقصیٰ پر یہودیوں کا قبضہ اور پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا--- محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

پاکستان سے دشمنی:  پاکستان پہلے دن سے اور خصوصیت سے نیوکلیر صلاحیت کے حصول کے بعد‘ اسرائیل کا ایک واضح ہدف ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر اسرائیل اس پورے علاقے اور خصوصیت سے پاکستان کو غیر مستحکم (de-stabilize) کرنے میں عملاً سرگرم ہے۔ بن گورین نے صاف لفظوں میں اسرائیل کے عزائم کو بیان کر دیا تھا‘ کیا ہماری قیادت ان حقائق سے ناآشنا ہے۔ جیوئش کرانیکل کے ۱۹ اگست ۱۹۶۷ء کے شمارے میں بن گورین کا اعلان ان الفاظ میں موجود ہے:

ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پر ان خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدف اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس (پاکستان) کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے اور یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہ (پاکستان) عرب کا شیدائی ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوںکے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے۔

اس کے بعد گورین نے بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہرقسم کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔

ایک دوسرے اسرائیلی وزیراعظم شیمون پیریز نے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد نیوزویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور جنرل مشرف اب ایک ہی کشتی کے سوارہیں لیکن ذرا انداز بیان کا تیکھا پن ملاحظہ ہو۔ صدربش کی دہشت پسندی کے خلاف اسٹرے ٹیجی اور اس کے ذیل میں اسرائیل کے گرم جوشی سے حصہ نہ لینے (low profile) کے ضمن میں فرماتے ہیں:

میں نے اسے بتایا ہم تمھاری حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایک اچھے یہودی لڑکے کی طرح میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ میں پاکستان کے صدر مشرف کی حفاظت کے لیے دعا کروں گا۔ یہ ایک بہت ہی زیادہ غیرمتوقع تجربہ ہے۔ لیکن ہم آپ کی  حکمت عملی کو سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ خود اپنا کوئی ایجنڈا وضع کریں۔ (نیوزویک‘ ۵ نومبر ۲۰۰۱ئ‘ ص ۳۳)

اس انٹرویو میں طالبان کے بعد عراق پر حملے کا مشورہ بھی موجود ہے اور واضح رہے کہ پس منظر میں کہوٹہ پر بھارت یا اسرائیل کے پیشگی حملے (pre-emptive strike) کے خدشات بھی موجود ہیں۔

عین اس وقت جب جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قومی بحث کی بات کر رہے تھے اسرائیل کے سرکاری نمایندے نے اعلان کیا ہے کہ ایریل شیرون ستمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے اور یہ کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے (اوصاف‘ لندن‘ ۱۲ جولائی ۲۰۳)۔ اس سے پہلے ۹ جنوری کے دی نیشن میں پیریز کا بیان بھی قابلِ توجہ ہے جو عین بھارت کی لام بندی کے وقت دیا گیا تھا کہ ’’اگر ہندستان کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو ہندستان جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل ہندستان کا ساتھ دے گا‘‘۔ کیا یہی وہ اسرائیل ہے جس سے دوستی اور خیر کی توقعات باندھی جا رہی ہیں  ع

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

اقبال اور قائداعظم کا واضح موقف

علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کی باتیں ہماری قیادتیں بہت کرتی ہیں۔ لیکن کیا ان کو اسرائیل اور صہیونی عزائم اورایجنڈے کے بارے میں اقبال اورقائداعظم کے خیالات اور احساسات کا کوئی پاس ہے۔ علامہ اقبال کو یورپ کے پنجۂ یہود میں ہونے کا مکمل ادراک تھا اور صہیونی دعوے کے بارے میں بڑے واضح الفاظ سے انھوں نے کہا تھا کہ    ؎

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

اور قائداعظم نے ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء رائٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ:

فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمایندے نے اقوام متحدہ میںکر دی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک کش مکش اور تصادم ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ کش مکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے اور (عربوں کے خلاف) اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی اس کے بس میں ہو‘ پورے جوش اور جذبے اور طاقت سے بروے کار لائے۔

۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۸ء تک قائداعظم کے کم از کم ایک درجن بیان اور خود امریکی صدر ٹرومین کے نام ان کا خط اسرائیل کے خلاف ان کے موقف کا منہ بولتا اعلان ہے۔ لیکن ہماری قیادت کا حال یہ ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں‘ اور دل ہیں کہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

اسلام نے خارجہ سیاست کے جو اصول دیے ہیں ان کی روشنی میں بھی ہمارے لیے اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ اسرائیل جو ایک کھلی کھلی جارح قوت ہے اور ہمارے کلمہ گو بھائیوں اور مظلوم انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہم کسی موہوم مفاد کی خاطر اس ہمہ گیر خون خرابے کے لمحے اسے سندجواز فراہم کریں اور فلسطین‘ عرب اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوم عوام سے اپنے کو کاٹ لیں۔ عرب عوام ہمارے اصل شریک کاررواں ہیں‘ ہمارے ہم راہی وہ حکمران اور مفادپرست عناصر نہیں جن کو اُمت کا مفاد عزیز نہیں اور جو مغرب کے آقائوں کی خوشنودی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔

حال ہی میں فلسطین میں جو سروے ہوا ہے اس کی رو سے آبادی کا ۹.۸۷ فی صد الاقصیٰ انتفاضہ کے حق میں ہیں۔ ۳.۶۵ فی صد اسرائیل کے علاقوںمیں اور ۵.۶۰ فی صد مقبوضہ غربی حصوں میں عسکری اورجہادی اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ۹.۵۹ فی صد خودکش حملوں کے حق میں ہیں۔ ابومازن کو جن کا اعتماد حاصل ہے وہ آبادی کا صرف ۸.۱ فی صد ہیں اور ۸.۶۷ فی صد کا خیال ہے کہ موصوف کو وزیراعظم صرف بیرونی دبائو میں بنایا گیا ہے البتہ ۹.۵۱ فی صد کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مسئلے کا حل دو آزاد ریاستوں کے قیام کی شکل میں ممکن ہے بشرطیکہ فلسطین کی ریاست بھی حاکمیت کے معیار پر پوری اترے اور اپنے معاملات کی خودمختار ہو (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مئی ۲۰۰۳ئ‘ ص ۱۳)۔ لیکن ظاہر ہے کہ فی الحال ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ ایسے حالات میں اپنے اصولی موقف سے ذرا سا بھی ہٹنا حد درجہ تباہ کن ہوگا۔ ان حالات میں ہمارا کام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں‘ --- اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی ہر ممکن مدد اور ان کی حوصلہ افزائی ہے۔ قرآن تو صاف کہتا ہے:

لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (الممتحنہ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔