ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ستمبر ۲۰۰۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

شادی پر ویڈیو بنوانے سے انکار

سوال: میں الحمدللہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوں اور شرعی پردہ بھی کرتی ہوں۔ میری شادی عنقریب ہونے والی ہے۔ میرے گھر کا ماحول اسلامی ضرور ہے لیکن پھر بھی میرے گھر والے تصاویر اتروانا اور ویڈیو فلم بنوانا پسند کرتے ہیں۔ میری شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے۔ میرے چچا کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ میرے لیے یہ بات باعث ِپریشانی ہے کہ اب میں کیا کروں‘ جب کہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر کوئی کسی سے زیادتی کرے تو گناہ زیادتی کرنے والے کے سرجاتا ہے۔ میرے چچا بھی یہی کہتے ہیں کہ گناہ تو ہمارے ہی سرہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ میں کوئی کوشش ہی نہ کروں۔ پریشانی صرف میری شادی تک ہے۔ بعد میں وہ مجھے پردے کے حوالے سے کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن میرے لیے تو شادی پر بے پردہ ہونا بھی بہت بڑی بات اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے‘   جب کہ شادی کے معاملے میں میرے گھر والے اور چچابات ماننے کو تیار نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ نہ میری مووی بنے اور نہ میری تصویریں ہی اتاری جائیں۔ میرے تمام خاندان والے ایک طرف ہیں اور میں توکل علی اللہ ایک طرف ہوں۔ براہ مہربانی رہنمائی  فرما دیجیے کہ اس سلسلے میں مجھے کیا انتہائی اقدام کرنا چاہیے اور شادی کے وقت اپنا چہرہ کتنا اور کس حد تک کھول سکتی ہوں؟

جواب: شادی کے موقع پر ویڈیو فلم (مووی) بنوانا غیرضروری شغل ہونے کے علاوہ فحاشی اور عریانی کی اشاعت کا ذریعہ بھی ہے۔ شادی کے موقع پر دلہن بنی سنوری ہوئی ہوتی ہے اور جو خواتین شادی میں شرکت کرتی ہیں وہ بھی بن سنور کر آتی ہیں۔ ایسی صورت میں جو مووی بنے گی‘ اور دکھلائی جائے گی‘ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ ایسی مووی جب بنائی جاتی ہے تو اس وقت بھی منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس موقع پر صرف دلہن ہی نہیں دوسری   خواتین جو شادی میں شریک ہوتی ہیں‘ ان سب کی بھی مووی بنتی ہے‘ جو بے نقاب اور زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں‘ بعض نیم عریاں لباس میں بھی ہوسکتی ہیں‘ سب کی تصویر اس میں آئے گی۔ مرد و زن مخلوط ہوں‘ تو بیک وقت دونوں کی‘ اور الگ الگ ہوں تب بھی دونوں فلم میں یک جا ہوجائیں گے۔ مووی بنانے والا اور اس کے رفقا خواتین کی مجلس میں جائیں گے‘ ان کے مختلف پوز دیکھیں گے اور ان کا عکس لیں گے۔ گویا فلم کی تیاری میں بھی فحاشی اور عریانی ہے اور بعد میں جب اسے دکھایا جائے گا تب بھی محرم اور غیرمحرم‘ تمام اسے دیکھیں گے اور ان میں جنسی جذبات اُبھریں گے اور اس کے نتیجے میں برائی کے میلانات پروان چڑھیں گے۔ یہ تو پہلی خرابی ہے۔

دوسری خرابی اس میں بے غیرتی اور بے حمیتی کو فروغ دینا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی‘ اور ماں باپ اپنی بیٹی کو حسن و جمال کے مظاہرے کے لیے پیش کریں تو اس میں غیرت و حمیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

تیسری خرابی یہ ہے کہ ایک خاتون شادی کے موقع پر شرم و حیا کا پیکر ہوتی ہے۔ باکرہ خاتون کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے ’’اس کا اِذن خاموشی ہے‘‘۔ اس لیے کہ اس موقع پر اس کی زبان گنگ ہوتی ہے۔ وہ یہ لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتی کہ میری طرف سے نکاح کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں اس کی مووی بنانا اس کے شرم و حیا کے جذبات پر ظلمِ عظیم ہے۔

ایسے میں کسی خاتون کا یہ کہنا ہے کہ میں اپنی مووی نہیں بنوائوں گی‘ قابل قدر و تحسین ہے۔ اس کی یہ خواہش ایسی ہے کہ پورے خاندان اور ہونے والے شوہر کو اس کا پورا احترام کرنا چاہیے۔ معاشرے کو ایسی خواتین کی خواہش کی تکمیل کے لیے فضا پیدا کرنا چاہیے اور مووی بنانے کے رجحان کو روکنا چاہیے اور روکنے میں مدد دینا چاہیے۔ خود بچی کے والدین اور اقربا کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نکاح جیسی پاکیزہ اور بابرکت محفل کو فحاشی و عریانی اور غلط رجحانات کے فروغ اور دین کے واضح احکام کی نافرمانی کر کے منکرات کے مرتکب ہونے کی جرأت‘ خدا کے مقابلے میں کس حوصلے پر کر رہے ہیں! کیا ان میں خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کی جرأت ہے؟ انھیں تو اپنی بچی کی اس خواہش پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور خدا کا شکرادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انھیں ایسی شرم و حیا اور سچے ایمان والی بچی سے نوازا ہے‘ چہ جائیکہ والدین اور بزرگ ایسی قبیح رسوم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر دین دار گھرانے بھی ایسا کریں اور یہ روش عام ہو جائے تو ہماری اخلاقی اقدار کا کیا بنے گا اور معاشرتی انحطاط کس تیزی سے وقوع پذیر ہوگا-- - یہ بات بھی سوچنے کی ہے!

ایسی صورت میں اگر کوئی بچی اپنی اس شرعی خواہش کو کہ اس کی شادی کی مووی نہ بنائی جائے‘ اپنے والدین تک پہنچاتی ہے‘ انھیں قائل کرنے کی اور ہم نوا بنانے کی پوری کوشش کرتی ہے‘ سسرال والوں تک بھی اپنے جذبات اور آواز پہنچاتی ہے اور اس کے بعد بھی اگر وہ نہ مانیں‘ تو وہ حکمت و تدبیر اور ماں باپ کے آداب کو ملحوظ رکھ کر دھمکی بھی دے سکتی ہے کہ اگر مووی بنائی گئی تو وہ نکاح کی اجازت نہ دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ دھمکی کارگر ہو جائے۔ البتہ ان ساری کوششوں کے باوجود اگر موقع پر مووی بنانے والے آجائیں تو ایسی صورت میں ایک حد تک رکاوٹ ڈالنے کی تدبیر کرے لیکن اگر شرم و حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو پھر نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالے کیونکہ نکاح ایک ایسی سنت ہے جس پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔

موجودہ حالات میں اگر کسی بچی کو ٹھیک شریعت کے مطابق رخصت نہیں کیا جاتا اور  اس میں مووی وغیرہ منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے تو وہ رخصت ہوتے وقت انکار کر کے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا نہ کرے۔ ایسی صورت میں اگر منکرات کا ارتکاب یا ان میں اضافہ ہوگا تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنھوں نے اس کی اجازت دی‘ اور پورے معاشرے پر ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ وہ اسے روکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کی سفارش کی ہے۔ اگر کھانوں کے رواج کو حکومت روک سکتی ہے تو مووی جیسی ناروا سرگرمی کو کیوں نہیں روک سکتی۔ اگر حکومت اس کے لیے تیار نہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔ نیک لوگوں کو ایسی شادیوں میں شامل ہونے اور علما کو نکاح پڑھانے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو اس برائی کا انسدادہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم!

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے عزم اور جذبے کی جزا دے‘ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے اور آپ کے اہلِ خاندان کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر دے۔ (مولانا عبدالمالک)


اذان کے بعد کی دعا ___ ایک شبہہ

س:  پاکستان ٹیلی ویژن پر نمازِ عشاء کی اذان کے بعد دعا پڑھی جاتی ہے: ’’اے اللہ! اس اذان کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب‘ تو محمد(ﷺ)کو وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقامِ محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘۔ ہم جو مقامِ رسالتؐ کی معرفت رکھتے ہیں تو کیا ہم گنہگاروں کو زیب دیتا ہے کہ ہم اللہ سے آپؐ کے لیے وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجے کی دعا کریں؟ کیا آج ۱۴۲۰ سال کے بعد حضوؐر کو مقامِ محمود نصیب نہیں ہوا؟ اور پھر ان سفارشات کے بعد ہم اللہ کو یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا توہینِ رسالتؐ ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس پر بصیرت افروز روشنی ڈال کر مجھے ممنون فرمایئے۔

ج :  دراصل دعا کی حیثیت نہ صرف ایک درخواست کی ہے جو عموماً کسی ایسی چیز کی بابت کی جاتی ہے جس سے ہم محروم ہوں بلکہ دعا شکر اور احساسِ ممنونیت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا‘ ہم جب پیاس بجھانے کے لیے پانی پیتے ہیں تو شکر کے جذبات کے ساتھ بے ساختہ دعا زبان پہ آتی ہے کہ اس رب کی تعریف و حمد جس نے پینے اور کھانے کو دیا اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔

اذان کے بعد دعا کے حوالے سے آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس طرح       ہم  توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ یہ ایک دل چسپ الٹی منطق معلوم ہوتی ہے۔ دراصل اس دعا کو بخاری میں باب بعدالاذان میں حضرت جابربن عبداللہؓ سے روایت کیا گیا ہے جس میں حضور نبی کریمؐ یہ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ دعا اذان سننے کے بعد پڑھی تو قیامت کے روز اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔

اگر اس دعا کی تعلیم خود شارع اعظمؐ نے اپنے ماننے والوں کو اس وعدے کے ساتھ دی ہے کہ وہ خود اس دعا کے کرنے والے کی شفاعت فرمائیں گے تو اس سے توہین کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس لیے میں نے اسے الٹی منطق سے تعبیر کیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ بخاری اور مسلم میںحضورؐ     کے بار بار استغفار کرنے کا بیان آتا ہے اور بعض احادیثِ صحیحہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپؐ ۷۰ مرتبہ یا زائد مرتبہ استغفار صرف ایک دن میں فرماتے تھے۔ اگر آپؐ کی بیان کردہ الٹی منطق استعمال کی جائے تو کیا نعوذباللہ اس کا سببؐ آپ کی طرف سے کسی بھول چوک کا ہونا تھا‘ جب کہ آپؐ معصوم تھے۔ اس لیے بجاے الٹی منطق کے‘ ہمیں دین کو جو سیدھا ہے ‘آسان ہے اور قابلِ عمل ہے‘ اس کے مصادر ‘یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست اخذ کرنا چاہیے اور ذہن کو گم راہ ہونے سے بچانا چاہیے۔

احادیث یہ وضاحت بھی کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے اپنے اصحاب سے ذکر فرمایا کہ جنت میں ایک مقامِ محمود ہے‘ جو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایت سے کسی ایک نبی کو دے گا اور یہ فرمایا کہ آپؐ کی خواہش ہے کہ وہ نبی آپؐ ہوں۔

اذان سننے کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے جو احسانِ عظیم کیا ہے‘ یعنی تعلیمات اور اس کی عملی شکل کو ہمارے لیے آسان بناکر پیش کیا ہے‘ اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہم یہ اذان سننے کے بعد رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی کریمؐ کو مقامِ محمود عطا کرے۔ یہ کم سے کم شکریہ ہے جو نبی کریمؐ کے اُمت پر احسانات کا ہم ادا کرسکتے ہیں۔

اذان میں وسیلے کا ذکر اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہم اُردو میں اسے استعمال کرتے ہیں کہ فلاں صاحب کے وسیلے سے کوئی کام کروا لیا جائے۔ یہ بھی مقامِ محمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر‘ قرآن کریم کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)


جلدبازی شیطان کا کام

س:  دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘‘ اور دوسرا یہ کہ ’’سب سے بھلی نیکی وہ ہے جو جلد کر لی جائے‘‘۔ کیا یہ دونوں مقولے احادیث نبویؐ ہیں؟ اگر ہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط؟

ج:  پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبوی کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:

الأناۃ  من  اللّٰہ  والعجلۃ  من الشیطان (ترمذی)‘ ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہر قوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیرٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہرزمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:  فی التأنی السلامۃ وفی العجلۃ الندامۃ‘ سوچ بچار کر ٹھیرٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے‘ اور جلدبازی میں ندامت ہے۔

ابن قیم فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن‘ غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار‘ بردباری اور ثبات سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج ہمیشہ برے ہوتے ہیں۔ حدیث نبویؐ ہے: یستجاب للعبد مالم یستعجل(بخاری)‘ بندے کی دعا قبول ہوتی ہے اگر وہ جلدی نہ مچائے۔

رہا دوسرا مقولہ تووہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا ایک قول مروی ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ: لا یتم المعروف الا بتعجیلہ، بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے۔ اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا‘ ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف     فرمائی ہے:  اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱) ’’یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری آیت ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) ’’بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو‘‘۔ چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے گرچہ یہ حدیث نہیں ہے۔ اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔

علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابل تعریف اور جلدبازی کو قابل مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایاہے:

۱-  پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو اگر اطاعت الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتاہے تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا‘   نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبیؐ نے حضرت علی ؓ کو ہدایت کی تھی کہ اے علی ؓ!تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا: نماز جب اس کا وقت ہوجائے‘ جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے‘ اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے۔ (ترمذی)

مشہور عالم دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو موسٰی ؑکبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ: وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o  (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہو جائے‘‘۔

۲-  وہ جلدبازی قابل مذمت ہے‘ جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کر لینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

۳-  ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کر دے کہ مقصد ہی فوت ہو جائے‘ یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کف ِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی‘ ترجمہ:  سید زاہد اصغر فلاحی‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ ص ۵۵-۵۷)