رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی سب سے مقدس ہستی اور سب سے بڑی انقلابی شخصیت ہیں۔ آپؐ نے ملکوں‘ انسانوں اور تاریخ کو شناخت عطا فرمائی اور دنیا کے ہر پہلو کو اپنے روحانی اور علمی انقلاب سے متاثر کیا۔ دل بھی بدلے اور ذہن کی سمت بھی بدلی‘ اخلاق بھی بدلا اور زاویۂ نظر کو بھی تبدیل کیا‘ ظاہری اطوار بھی تبدیل کیے اور باطنی واردات میں بھی انقلاب برپا کر ڈالا۔ یہی آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ اس سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ براعظموں‘ رنگوں‘ نسلوں‘ خطوں‘ قوموں‘ پہاڑوں‘صحرائوں‘ دریائوں اور میدانوں کے ہزاروں میل کے فاصلے سمیٹ کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ایک اُمت میں سمو دیا‘ اور ایسا عالمی نظام عطا فرمایا کہ جس کی نظیر پوری تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔
کتاب الٰہی میں عالمی نظام کے جو بنیادی اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَا ٓیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۰)، یعنی اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘ اور بدی اور نامعقول کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے سے خطبۂ جمعہ میں اس آیت کریمہ کی تلاوت کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اسلام کی ساری تعلیمات اور اصلاح عالم کے لیے قرآن کے پروگرام کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے ۰ ۱ ہجری میں آخری حج ادا فرمایا جسے حجۃ الوداع کے نام سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا جو عالم انسانیت کے لیے پہلا باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوامِ عالم کے لیے نیا عالمی نظام تھا۔اس عالمی اسلامی نظام کا سب سے اہم پہلو عالمی سطح پر قیامِ امن ہے۔ آج دنیا کو امنِ عالم کا ہی مسئلہ درپیش ہے‘ اور مسلمان ہی وہ اُمت ہیں جنھیں یہ مشن فرضِ منصبی کے طور پر سونپا گیا تھا۔
اس وقت پورا عالمِ اسلام نہایت خوفناک سیاسی ‘ اقتصادی اور دفاعی آشوب کا شکار ہے‘ اور اس کا منظرنامہ اتنا بھیانک اور خطرناک ہے کہ ہر انصاف پسند اس سے خوفزدہ ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے ارزاں شے مسلمانوں کا خون ہے۔ آئے دن ہر جگہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ بوسنیا‘ افغانستان‘ فلسطین‘ کشمیر اور عراق وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کی شہادت اس کا واضح ثبوت ہے۔ غرضیکہ ہر جگہ غیر قومیں مسلمانوں کو علی الاعلان تختۂ مشق بنا رہی ہیں۔ لیکن تعداد میں ایک ارب سے بھی زیادہ اُمت مسلمہ ان مظلوموں کی مدد تو کیا کرے گی‘ ہر مسلمان ملک اپنی اپنی جگہ نیو ورلڈ آرڈر کے خوف سے لرزاں ہے۔
گذشتہ ۵۰ برس کے اندر اندر تمام مسلمان ملک پنجۂ غیرسے گلوخلاصی کرانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر آزادی کے دن سے آج تک جو مسائل پیدا ہوئے وہ جوں کے توں ہیں‘ خواہ ان کا تعلق اندرونی سیاست‘ معیشت اور دیگر پالیسیوں سے ہو یا خارجی طور پر درپیش مسائل سے۔ اگر کسی ملک کے باشندوں میں زبان کا مسئلہ ہے تو وہ جوں کا توں ہے۔ کسی ملک سے سرحدی تنازعہ تھا تو وہ اب تک حل ہوئے بغیر ہی چلا آ رہا ہے۔ اگر داخلی خودمختاری کا سوال تھا تو ہنوز لاینحل ہے۔ مسئلہ فلسطین تاحال ناکامی کا شکار ہے۔ برعظیم کا مسئلہ کشمیرہنوز حل طلب ہے۔ بیت المقدس کی آزادی تشنۂ تعبیر خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تو وہ اُبھرے ہوئے اور چیدہ مسائل ہیں جو زیادہ تر اندرونی اور داخلی نوعیت کے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر وقار اور عزت کا مسئلہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ۱۹۱ ارکان ممالک میں ۵۰ سے زائد مسلمان ممالک ہیں‘ ان ممالک کے مسلمان باشندوں کی کل آبادی سوا ارب سے متجاوز ہے‘ لیکن بایں ہمہ مسلمان کسی گنتی اور شمار میں نہیں‘ اور یہ نتیجہ ہے اُمت مسلمہ کے فرد فرد اور لخت لخت ہونے کا۔ اس افتراق و انتشار کا نتیجہ ہے کہ ہم افرادی قوت‘ مالی وسائل اور مملکتی طاقت رکھنے کے باوجود کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔
تیل ہمارا مگر زندگی یورپ و امریکہ کی روشن اور رواں دواں‘ خام مال ہمارا مگر کام امریکہ اور یورپ کی فیکٹریوں کے آ رہا ہے۔ افراد کار ہمارے مگر ان کے دماغ‘ صلاحیتیں اور قوت کارکردگی امریکہ و یورپ کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔ سرمایہ ہمارا مگر تجوریاں یورپ اور امریکہ کی بھری ہوئی اور بنک ان کے چل رہے ہیں۔ ان سارے کچوکوں‘ دھکوں اور محرومیوں کے باوجود اُمت مسلمہ خوابِ غفلت میں محو ہے۔
قصۂ کوتاہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام سیاسی بحران‘ معاشی بحران‘ قیادت کا فقدان‘ مالی بحران اور امن و امان کی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے‘ اور مسلمان من حیث القوم ساری دنیا میں اس قدرپسماندہ ہیں کہ دوسری اقوام انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھتیں ع
تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کجا کجا نہم
زبوں حالی کے بنیادی اسباب
۱- قرآن حکیم اور صاحب ِقرآن کی تعلیمات سے روگردانی‘ علم و تحقیق سے بے اعتنائی۔
۲- سیاسی سطح پر عالم اسلام کا غیرمنظم ہونا اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کے باہمی اختلافات۔
۳- یہود بالخصوص اور ہنود کا مسلمانوں کو گروہوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں خصوصی کردار۔
۴- مسلمانوںمیں مغربی تہذیب کی نقالی کا رجحان۔ سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشرتی اور عدالتی قوانین کی بھیک مانگ کر اپنے قوانین کو مغربی قانون کے مطابق ڈھالنے کی کوشش۔
۵- سب سے اہم‘ عالم گیر اور بنیادی وجہ وھن ہے۔
حضرت ثوبانؓ کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مختلف قومیں مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے کے حریص دیگوں پر آگرتے ہیں۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا اس وقت ہم بہت قلیل تعداد میں ہوںگے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تم لوگ تعداد میں کثیر ہوگے‘ لیکن اس جھاگ کی طرح کمزور اور بے بساط جو سیلاب میں اوپر آجاتا ہے‘ اور پھر اسے پانی بہا لے جاتا ہے۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت اور رعب نکال دے گا اور خود تمھارے دلوں میں وھن ڈال دے گا۔ پوچھنے والے نے عرض کیا: وھن کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: دنیا سے محبت اور موت کا خوف۔ (کنزالاعمال‘ ج ۵‘ ص ۴۳۰)
قدرت نے عالم اسلام کو جن نوازشات اور امکانات سے مالا مال کر رکھا ہے اگر ان پر نظرڈالی جائے تو اس سے بڑھ کر خلافت و وراثت ارضی کا مستحق کوئی دوسرا نظرنہیں آتا لیکن گردوپیش اور اعداد و شمار اور حقائق کو دیکھا جائے تو بہت تلخ اور عبرت آموز صورت حال ہے۔
دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ عالم اسلام ہے اور یہ بہت بڑی افرادی قوت ہے۔ اس کے جغرافیائی حدود سوا تین کروڑ مربع میل ہے۔ اسے دریائوں‘ نہروں‘ سمندروں‘ پہاڑوں‘ صحرائوں‘ میدانوں‘ جنگلوں اور زرخیز زمینوں کا سب سے بڑا ذخیرہ میسر ہے۔ معدنیات اور خام قدرتی وسائل کا خزانہ سب سے زیادہ عالم اسلام کے پاس ہے۔ تیل کے مجموعی عالمی ذخائر کا چوتھائی حصہ عالمِ اسلام کی ملکیت ہے۔ زرعی پیداوار کی بے پناہ استعداد کا حامل بھی عالم اسلام ہے۔ اسے ایک گونہ جغرافیائی وحدت اور قرب باہمی بھی حاصل ہے۔
نیو ورلڈ آرڈر میں طاقت اور بے محابا قوت معبود اعلیٰ کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ ہمیں اسلام کو اپنا محورو مرکز ‘ اپنا تشخص و تعارف اور اپنا نام و نسب اور اعزاز بنانے میں کیوں جھجک محسوس ہوتی ہے جو بحمدللہ دنیا کا بہترین فلسفہ اور نظام ہے‘ جس میں رنگ و نسل کی بے رحمانہ تقسیم نہیں‘ علاقے اور زبان کو بت کا درجہ حاصل نہیں‘ اس کا عنوان جلی اور طرئہ امتیاز ’’شوریٰ‘‘ ہے۔ دنیا کی مادیات اور لذات جس کا اول و آخر ہدف نہیں۔ جو ہر نوع کی ذہنی و جسمانی غلامی کا دشمن ہے۔ جس کے ہاں شرف انسانی بیت اللہ سے بڑھ کر مقام رکھتا ہے۔ جو اپنے پیروکاروں کو ’’اُمت وسط‘‘ (البقرہ ۲:۱۳۳)کہتا ہے‘ یعنی دائیں اور بائیں اور افراط و تفریط کے مرض سے پاک اُمت۔ جو اُمت کی تشکیل نسلی و لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر نہیں‘ انسانی اور روحانی بنیادوں پر کرتا ہے‘ اور جو دنیا بھر کو اپنا مدعو قرار دیتا ہے‘ کسی کو حریف نہیں کہتا۔ اس کے ہاں کالے اور گورے‘ یورپی اور ایشیائی اور عربی وعجمی کی تفریق نہیں۔ وہ صرف حق اور باطل‘ اور عدل و ظلم کے درمیان میزانِ امتیاز کھڑی کرتاہے۔
کش مکش ایک حقیقت ہے مگر عالم اسلام چاہے تو یہ سمجھ کر اپنی جدوجہد کو تیزکرسکتا ہے کہ اس نے مورچہ چھوڑا ہے‘ جنگ نہیں ہاری۔ مورچہ چھوڑنا ایک جنگی حکمت عملی یا وقتی پسپائی ہوتی ہے‘ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جنگ جاری ہے ازل سے تا امروز۔ اس کے لیے تیاری کر کے میدان میں اُترنا چاہیے۔
۱- اسلام اور اہل اسلام کے نزدیک یورپ اور ایشیا‘ عرب اور افریقہ‘ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کا کوئی تصور نہیں بلکہ اسلام ابتدا ہی سے ایک عالمی ریاست کا نظریہ رکھتا ہے۔ اسلام نسلوں‘ قوموں اور خطوں کے مقابلے میں عقیدۂ توحید کو عالمی ریاست کا سنگِ بنیاد قرار دیتا ہے‘ اور وہ بنی نوع انسان کو صرف اور صرف تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ (اٰل عمران۳:۶۴) کی دعوت دیتا ہے‘ یعنی آئو ہم اور آپ اس کلمے پر متحد ہوجائیں جو ہمارے اور آپ کے درمیان قدرِ مشترک کا درجہ رکھتا ہے‘ اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامک ورلڈ آرڈر کسی سے دشمنی اور مخاصمت پراپنی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ وہ سب کا حلیف ہے‘ حریف نہیں‘ اور وہ پوری انسانیت کے ساتھ عقیدئہ توحید کی بنا پر دوستی اور بھائی چارے کا حامی ہے۔
۲- اسلام‘ حق اور ناحق کا واضح اور متعین معیار رکھتا ہے۔دوغلاپن‘ دوہرا معیار‘ منافقت‘ سازش اور فریب کا اسلامی اقدار و ضوابط میں کوئی گزر نہیں۔ اسلام میںظالم اور مظلوم کی واضح تقسیم ہے۔ ظلم و زیادتی جہاں ہو‘ اسلام اس کا مخالف ہے‘ اور اس ضمن میں کسی مذہب‘ نسل‘ رنگ اور علاقے کا امتیاز نہیں رکھتا۔ اس کی پالیسیاں انسانی مفاد پر استوار ہیں‘ نہ کی نسلی‘ لسانی اور علاقائی مفاد پر۔ لہٰذا فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں ایک اصول کو قائم کیا جائے‘ جہاں ظلم ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے‘خواہ وہ سیاسی ہو یا عسکری۔ ان کے لیے الگ الگ اصول اور معیار نہ بنائے جائیں۔
۳- تمام مسلم ممالک اگر باغیرت قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے وسائل کو یک جا کر کے تعلیم‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ دفاع اور بین الاقوامی تجارت کو مضبوط کرنے پر صرف کریں کیونکہ ان پانچ امور کو مضبوط کیے بغیر اُمت مسلمہ کا مستقبل محفوظ اور باعزت نہیں ہو سکتا۔
۴- مسلم ممالک میں سائنس کی تعلیم اور تحقیق پرسب سے زیادہ توجہ دی جائے اور ایسے مسلمان سائنس دان تیار کیے جائیں جو اپنے کارناموں سے مسلم قوم کو اقتصادی اور سیاسی طور پر ایک قوت بنا دیں۔ اسلامی ممالک میں شرح خواندگی دنیا کے باقی ممالک کی نسبت سب سے کم ہے‘ اور جہالت کا تناسب سب سے زیادہ۔ سامراجی دور میں ہر سامراجی طاقت کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے زیراثر ممالک میں تعلیمی اور تہذیبی انحطاط رہے‘ اس سے سامراجی طاقتوں کے مفادات کو کم خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ امریکہ کے نئے سامراجی نظام میں یہی تصور پیش کیا گیا ہے کہ ان ممالک کی تہذیب و ثقافت کو اپنے زیراثر رکھا جائے گا۔ لہٰذا اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ تعلیم وثقافت کے میدان میں اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ مختص کریں تاکہ مسلمان قوم اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اورسپر ٹکنالوجی استعمال کرنے کے قابل ہو سکے‘ جس کے بغیر اقتصادی اور سیاسی برتری کا حصول ناممکن ہے۔
۵- اسلام کے کلچر اور اسلام کے وجود کو عالمی سطح پر اُبھارنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اس کا آغاز اسلامی تعلیم‘ اسلامی تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹکنالوجی کے فروغ سے کریں۔
۶- اسلامی دنیا جو خام مال کے اعتبار سے کافی دولت مند اور باوسائل ہے‘ اسے اس کا احساس کرنا چاہیے۔ اسے ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہییں کہ مسلم ممالک خام مال اپنی طرف سے طے شدہ قیمت پر غیرمسلم دنیا کو فروخت کریں اور ان سے تیار ہونے والا مال اپنی مرضی کے مطابق لیں‘ نہ یہ کہ یورپ اور امریکہ ہم سے خام مواد بھی اپنی مرضی کی قیمت سے لیںاور تیار مال بھی اپنی مرضی کی قیمت سے بیچیں۔
۷- مختلف مسلم ممالک اپنی جغرافیائی حدبندیوں میں نرمی پیدا کریں۔ مناسب تحفظات اور احتیاط کے ساتھ یہ نرمی برادر مسلم عوام کے درمیان اخوت اور قربت کی راہ کھولے گی۔ امریکہ کی طرف سے نیوورلڈ آرڈر میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ عرب ممالک میں مسلمان لیبر کے بجاے غیرمسلم ممالک سے افرادی قوت کھپائی جائے۔ اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ وہاں فحاشی پھیلے‘ غیرمسلم افراد وہاں کی کمزوریوں سے آگاہ ہو سکیں‘ وقت آنے پر ان کو واپس بلایا جاسکے اور افرادی قوت کی کمی کا بحران پیدا کیا جا سکے‘ یا پھر مسلم اور غیرمسلم افراد کے آزادانہ اختلاط سے مسلم تشخص مدہم ہو۔ لہٰذا اس سلسلے میںضروری ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربت‘نرمی اور تعاون کا معاملہ کریں اور سرحدوں پر عائد ناروا پابندیاںاور سفارتی رکاوٹیں موزوں حد تک نرم کر دیں تاکہ مسلمان ایک دوسرے کا دست و بازو بن سکیں اور مسلم ممالک کے راز بھی محفوظ رہیں۔
۸- اسلامی ممالک امریکہ کی نئی سامراجیت کی یلغار سے بچنے کے لیے ’’مشترکہ دفاعی قوت‘‘ تشکیل دیں‘ جو ’’مشترکہ علاقائی دفاع‘‘ کی صورت میں ہو۔ جن مسلمان ممالک کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوں انھیں اپنے دفاعی معاہدے تشکیل دینے چاہییں۔ اعلیٰ سطح پر معلومات کے تبادلے کا نظام موثر ہونا چاہیے۔ دفاعی اور فوجی سطح پرریسرچ اور انٹیلی جنس کے منصوبوں میں تعاون ہونا چاہیے۔
۹- بین الاقوامی سطح پر عالم اسلام کے مسائل اور اختلافات کو نبٹانے کے لیے ’’ورلڈ اسلامک کورٹ آف جسٹس‘‘قائم کی جائے جس میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے ضابطوں پر عمل درآمد کا انتظار کرنے کے بجاے اسلامی بین الاقوامی قانون کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں داخلی اور خارجی قوانین پرمشتمل دفعات ترتیب دی جائیں تاکہ عدالتی نظاموں میں یکسانیت پیدا ہو۔
۱۰- مسلم ممالک اپنی کامن ویلتھ قائم کریں اور زیادہ سے زیادہ رقوم و وسائل اس کے حوالے سے زیرگردش رہیں۔ اس سے غریب یا ترقی پذیر مسلم ممالک کو اپنی مشکلات پر قابو پانے اور اپنے ترقیاتی منصوبے کامیاب کرنے میں حددرجہ مدد ملے گی۔
۱۱- مسلم ممالک اپنے سیاسی نظاموں کے اندر عدل و استحکام پیدا کریں۔ آمریت‘ جبر اور بددیانتی کے راستوں کو ترک کر دیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عادلانہ جمہوری نظام کو قرآن و سنت کے تحت فروغ دیں۔
۱۲- یہودی محض اسلام کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے لگائے گئے زخموں اور بچھائی ہوئی سازش کی بساط سے ہر ملک کا انسان کراہ رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی بناتے وقت اس تجزیے کو پیشِ نظر رکھ کر یہود اور یہود نواز طاقتوں کے بارے میں لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔
۱۳- اسلام کے تشخص کو نمایاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم دنیا میں ’’اُمہ‘‘ کا تصور اجاگر کیا جائے اور ان تمام تحریکوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے جو مسلم دنیا کے کسی بھی خطے میں رنگ‘ نسل‘ وطن اور کسی بھی جاہلی عصبیت کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع میں ان تمام جاہلی تعصبات کی یکسرنفی کی گئی ہے۔
یہ تھے نئے اسلامی عالمی نظام کے بنیادی خدوخال۔ اب اُمت مسلمہ کے دانش وروں‘ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ خلوصِ نیت سے اسلامی عالمی نظام کی مفصل تشکیل اور اس کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کریں اور عملی اقدام اٹھائیں‘ تاکہ بنی نوع انسان سکھ کا سانس لے سکے۔ ان شاء اللہ اس متبادل عالمی نظام کے اختیار کرنے سے حسب ذیل مثبت نتائج برآمد ہوں گے:
۱- کوئی کسی کا غلام نہیں ہوگا۔ سبھی اللہ کے بندے ہوں گے‘ جب کہ آج ہر شخص اپنی جگہ فرعون ہے اور دوسروں کو غلام بنانے کی فکر میں ہے۔
۲- کسی انسان کو کسی پر فوقیت نہیں ہوگی‘ سبھی اولادِ آدم ہیں‘ جب کہ آج ہر شخص اپنے مال اور دولت کی فوقیت ثابت کرنے میں تمام حدود کو پامال کر رہا ہے۔
۳- کوئی پیدایشی طور پر سونے یا مٹی کا نہیں ہوگا‘ سب کا باوا آدم ہے‘ جب کہ آج امریکی اور انگریز خود کو کسی طور پر مٹی کا بنا ہوا ماننے پر تیار نہیں۔
۴- مخلوق خدا کا کنبہ ہوگی‘ کوئی کسی کے رزق پر قدغن عائد نہیں کرسکے گا‘ جب کہ آج اقتصادی امداد کی بندش الخلق عیال اللّٰہ کے تصور کی صریحاً نفی ہے۔
۵- الٰہی قانون سب کے لیے یکساں ہوگا‘ جب کہ آج آئین کچھ عہدیداروں کو ہرقانون اور گرفت سے مبرا قرار دیتا ہے۔
۶- ہر نوع کا تعصب اور امتیاز ’’نخوت جاہلیہ‘‘ قرار پائے گا‘ جب کہ رنگ‘ نسل‘ قومیت اور صوبائیت کے تعصبات آج کا فیشن ہیں۔
۷- ہر ایک خود اپنا محتسب ہوگا‘ جب کہ آج کوئی کسی کے سامنے جواب دہ نہیں رہا‘ ہرفردِ بشر خودمختاری کے چکر میں ہے۔
۸- ہر شخص آخرت میں جواب دہی کا مکلف ہوگا‘ جب کہ آج آخرت کا لفظ ’’دقیانوسی‘‘ قرار پا گیا ہے۔
۹- زندگی امانت الٰہی ہے۔ اس میں خیانت سب سے بڑا جرم ہے‘ جب کہ آج زندگی ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘کا منظرپیش کر رہی ہے۔
۱۰- دنیوی عزت کے مقابلے میں اخروی عزت زیادہ وقیع اور قابلِ لحاظ ہوگی‘ جب کہ آج دنیوی عزت ہی حرف آخر ہے۔ آخرت کے وعدے پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
قرآن و حدیث کی پیش گوئی کے مطابق اسلام کو بہرحال دنیا پر حاوی اور غالب ہونا ہے۔ پیرس‘ لندن اور واشنگٹن جیسے جگمگاتے شہروں سے لے کر چراغ کی لو سے ٹمٹماتے خیموں تک اسلام بہرحال پہنچے گا۔ آٹھ آٹھ رویہ شاہراہوں سے لے کر لق و دق صحرائوں تک اسلام سفر کرے گا۔ بلند و بالا پلازوں اور شاہی ایوانوں سے لے کر ساحلوں اور کوہستانوں تک اسلام کی آواز جائے گی۔ یہ بہرحال طے ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اسلام کے غلبے کے لیے کیا جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک ارب مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں‘ ان کی سوچ یکساں ہو‘ ان کی آواز ہم آہنگ ہو‘ ان کا لائحہ عمل متفقہ ہو تو پوری دنیا کی طاقت کا توازن بدل کر اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ اور یہی خدائی وعدہ ہے:
وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کر دو کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا‘ بے شک باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے