ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| ستمبر ۲۰۰۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے‘ خرم مراد۔ شائع کردہ: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات:  ۲۶۶۔ قیمت: ۶۰ روپے

ہر دفعہ جب خرم مراد مرحوم کی کوئی نئی کتاب‘ کوئی نئی تحریر سامنے آتی ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں‘ ہم سے جدا نہیں ہوئے ہیں‘ اور تحریک ہی نہیں بلکہ اسلام سے وابستہ نوجوانوں کے تزکیے‘ ہدایت اور راہ نمائی کے کاموں میں بدستور مصروف و منہمک ہیں۔

ان کی زیرنظر تصنیف (اشاعت: جولائی ۲۰۰۳ئ) ان کی فکری اور تحریکی کاوشوں کی ایک نہایت قیمتی دستاویز ہے‘ جسے ان کے مختلف خطبات سے ان کے ایک رفیقِ کار امجد عباسی نے نہایت محنت اور خوب صورتی سے مدون کیا ہے۔

اگرچہ ’’تحریک‘‘اور ’’اسلامی تحریک‘‘ کے الفاظ عام طور پر ’’جماعت اسلامی‘‘ کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ جس کے بانی اور اولین قائد سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے‘ لیکن خرم مراد مرحوم اس اصطلاح کو وسیع‘ بنیادی اور ہمہ گیر معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کی اصطلاح تو نئی ہے‘ لیکن یہ اتنی ہی قدیم ہے‘ جتنا خود اسلام۔ حضرت ابراہیم ؑ اس کے پہلے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نمونہ ہیں۔ جہاد (اپنے بنیادی مفہوم میں) تحریک کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور اللہ کی رضا کا حصول اس کا ہدف اور جنت اس کی منزل اور انعام ہے۔ لیکن تنظیم یا جماعت کو مقصود قرار نہیں دے دینا چاہیے۔ منصوبہ بندی اگرچہ ناگزیر ہے‘ تاہم تنظیم ہلکی پھلکی ہو‘ وقت کی قدر کی جائے اور اجتہاد سے اغماض نہ کیا جائے۔ وہ موثر قیادت کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں‘ جس میں احساسِ ذمہ داری ہو‘ جواب دہی کا تصور راسخ ہو‘ اللہ کی تائید اور نصرت پر ایمان ہو اور خود اپنے آپ پر بھی بھروسا ہو‘ اہم اورغیر اہم باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہو اور ترجیحات کا درست تعین کر سکے۔ تربیت سے وابستہ قائدین اور کارکن‘ سبھی کی اوّلین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود اپنی تربیت کی طرف پہلے توجہ دیں ۔ مگر تربیت محض کسی    کتابِ ہدایت کو پڑھ کر نہیں حاصل ہوتی‘ یہ عملی زندگی میں کود پڑنے اور مسلسل جدوجہد ہی سے حاصل ہوتی ہے‘ اور اہم بات یہ ہے کہ درسِ تربیت‘ تربیتی پروگرام اور کارکنوں اور قائدین کی زندگیوں‘ نیز تحریک کے راستے اور سمت میں مطابقت ہونی چاہیے ۔اگر ان میں ہم آہنگی نہ ہو تو ساری تربیت غیرموثر ہوجائے گی۔ خوداحتسابی‘ رحمت و شفقت‘ دعوت و اخوت‘ گہرے اور موثر رابطے‘ تحریک اور دعوت کو پھیلانے اور اُسے مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لیکن کوئی بھی اسلامی تحریک‘ افراد کے انفرادی تزکیۂ نفس کے بغیر موثر نہیں ہوسکتی۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ تزکیے کا مرکز ’’قلب‘‘ہے۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر کامیابی اور نجات کا وعدہ فرمایا ہے‘ وہ اعمال سے پہلے ’’قلب‘‘ ہے۔ ’’قلب ِ سلیم‘‘ لیے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے ہی پر مدارِ نجات ہے‘ اور اس کے لیے صفت ’’احسان‘‘ (جس نے مسلمانوں کے سوادِاعظم میں ’’تصوف‘‘ کی صورت اختیار کرلی) ناگزیر ہے۔ اللہ کی بندگی اس طرح کیجیے‘ گویا آپ اُسے دیکھ رہے ہیں‘ورنہ کم از کم یہ تو ضرور ہو‘ گویا اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔

نصف کے قریب کتاب ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے طریقوں‘ ذکر‘نماز‘ تلاوت‘ تعلق باللہ‘ شکر‘استغفار‘ دُعا اور آخرت کے یقینی اجر پر بھروسے اور ایمان اور ان کے تقاضوں پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے یہی وہ اہم چیز ہے‘ جس سے بہت سی اسلامی تحریکیں اور جماعتیں نابلد ہوتی جا رہی ہیں۔ خرم مرحوم کو اس بات کا احساس تھا ‘ اس لیے انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں‘ تقریروں اور تحریروں میں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا‘ اور ان کی یہ (اب تک کی) آخری کتاب ان کی اس کوشش کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔

منشورات نے اس کتاب کو بھی اپنی روایتی نفاست اور خوب صورتی کے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


Quranic Topics ] قرآنی موضوعات[ ‘ محمد شریف بقا۔ علم و عرفان پبلشرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے یا ۱۰ پونڈ یا ۵ ڈالر۔

قرآنی موضوعات کو انگریزی زبان میں انگریزی حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے‘ مثلاً حرف A کے سلسلے میں جتنی آیاتِ قرآنی موجود ہیںان کو فاضل مولف نے مع انگریزی ترجمہ بڑی کاوش سے یکجا کر دیا ہے۔ انگریزی ترجمے کے ساتھ متعلقہ آیت کا مکمل متن (مع سورہ اور آیت کا حوالہ) بھی دیا گیا ہے۔ ایک کمی محسوس ہوتی ہے: یہ نہیں بتایا گیا کہ  انگریزی ترجمے کا ماخذ کیا ہے؟

میں اسے قرآن کا اعجاز سمجھتا ہوں کہ انگریزی حرف A سے پہلا لفظ (Ablution)‘ یعنی وضو بنتا ہے جو اسلامی طہارت اور پاکیزگی کا نقطۂ آغاز ہے اورجس کے بغیر اولین عبادت نماز ادا نہیں ہوسکتی۔

قرآنی موضوعات میں اتنی وسعت‘ ہمہ گیری اور جامعیت ہے کہ وہ خدا‘ انسان‘ حیات و کائنات اور حیات بعدالممات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ انسان کی پیدایش سے لے کر سفرِآخرت تک اعلیٰ اقدارِ حیات کے لیے زندگی کو امن و آشتی کے ساتھ بسر کرنے کے تمام معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تمدنی اوراخلاقی احکام موجود ہیں جن سے انحراف خود ہماری فطرت اور قوانینِ قدرت سے کھلی بغاوت ہے اور جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم و جبر‘     خوں ریزی اور فساد برپا ہوتا ہے۔ جس دردناک ابتلا اور عذاب سے موجودہ صدی گزر رہی ہے‘ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان نے قرآن کے اس مکمل اور آخری پیغام کو فراموش کر دیا ہے جو ذات ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیش رو برگزیدہ پیغمبرتسلسل کے ساتھ اپنی اپنی قوموں کے لیے لے کر آئے تھے۔ اب یہ انسانیت کی اپنی بقا کے لیے ضرور ہوگیاہے کہ اس گلوبل پیغام کو جو تمام انسانوں کے لیے نسل‘ رنگ‘ زبان‘ قومیت اور جغرافیائی حدود سے بلند ہوکر وحدت آدمیت کے لیے پکار رہا ہے‘ عام کیا جائے۔ قرآنی موضوعات اسی سلسلے کی ایک مربوط کڑی ہے۔ انگریزی میں ایسی تالیف کی اس لیے ضرورت تھی کہ اب یہ دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بن گئی ہے۔ ایک پڑھے لکھے عام آدمی اور ریسرچ کرنے والے طالب علم کے لیے اس کتاب میں وہ قرآنی موضوع بآسانی مل جائے گا جس کی اسے کسی بھی مسئلہ حیات میں    راہ نمائی کے لیے ضرورت ہو جس کو پڑھنا‘ سمجھنا اور سمجھانا بھی بذاتِ خود ایک عبادت ہے۔

فاضل مولف ماہر اقبالیات اور معروف اسکالر ہیں۔ وہ لندن میں اسلامی تعلیمات کی روشنی سے جاہلیت ِجدید کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ خدا انھیں اپنے اس مشن میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین (محمد اسماعیل قریشی)


ماہنامہ تعمیرافکار‘ کراچی۔ اشاعت خاص: بیادپروفیسر سید محمد سلیمؒ۔زیراہتمام: پروفیسر سید محمد سلیم اکیڈمی‘ کراچی۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ شمارہ ایک ایسی ہستی کے تذکرے پر مشتمل ہے جس کی پوری زندگی تعلیم و تعلم میں گزری۔ آغازِ حیات میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوئے اور دمِ آخر جماعت اسلامی کے اجتماع عام (قرطبہ‘۲۰۰۰ئ) میں گزرا۔ تحریکی زعما کے حالات کے بارے میں زیرنظر جیسے مجموعوں کی اچھی روایت قائم ہو رہی ہے۔ ماضی کی بلند قامت شخصیات کے ایسے تذکرے موجود نہیں‘مثلاً: تاج الملوک‘ مولانا عبدالعزیزؒ (مولانا خلیل حامدیؒ کے بارے میں اب اعلان آیا ہے)۔

پروفیسر سید محمدسلیمؒ نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کا عرصہ تنظیم اساتذہ کے ادارہ  تعلیمی تحقیق سے وابستہ رہ کر گزارا اور اسلامی نظام تعلیم کے نظری و عملی پہلوئوں پر بیش قیمت تالیفات پیش کیں۔ مگر ان کا اصل میدان تاریخ تھا۔ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ بہت زیادہ پڑھنے والے تھے۔

یہ فرض تو تنظیم اساتذہ کا تھا کہ ان کی حیات و خدمات پر ایک اشاعت خاص مرتب کرتی لیکن یہ سعادت سید سلیم مرحوم کے نواسے عزیزالرحمن (مدیر) اور ان کے ایک دیرینہ رفیق ملک نواز اعوان(مدیراعلیٰ) کے حصے میں آئی‘ جنھوںنے اس طرح کے کام میں درپیش مسائل و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ قابلِ قدر مجموعہ مرتب کیا ہے۔ اس میں مرحوم کے متعلق بہت کچھ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کی حیات و شخصیت‘ زندگی کے مختلف پہلو (خاندان‘ سوانح‘ بطور مورخ‘ بطور شاعر‘بطور معلم‘ بطور ماہر تعلیم وغیرہ)‘ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا ذکر‘ اعزہ‘ احباب اور شاگردوں کے تاثرات‘ ان کے لیے منظوم خراج تحسین‘ ان کے نام خطوطِ مشاہیر (سید مودودی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ مسعود عالم ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ غلام رسول مہر‘ عبداللہ چغتائی‘ مختارالدین احمد وغیرہ) اور ان کے خطوط بنام مشاہیر وغیرہ۔ ان کی شخصیت کیسی پُرکشش اور علمی اعتبار سے کیسی بلندپایہ تھی کہ ان کے رفقا اور شاگردوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ میاں طفیل محمد‘حکیم سید محموداحمد برکاتی‘ نعیم صدیقی اور پروفیسر خورشیداحمد ایسے اصحاب نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مرتبین مبارک باد کے مستحق ہیں۔

سچ یہ ہے کہ اتنی ہمہ پہلو تحریروں کے باوجود سید سلیم کی شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکا ہے۔ غالباًاسی لیے اکیڈمی نے مزید خاص اشاعتوں کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔(مسلم سجاد)


بیدار دل لوگ‘ شاہ محی الحق فاروقی۔ ناشر: اکادمی بازیافت‘ اُردو سنٹر‘کمرہ نمبر۴‘ پہلی منزل‘اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اکیسویں صدی نے آغاز ہی میں‘ بہت سے ناخوش گوار واقعات کے ذریعے‘ بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو حزن و یاس کے تحفے دیے ہیں۔ ایسے میں شاہ محی الحق فاروقی کی یہ تالیف‘ لطافت و انبساط کا ایک گل دستہ نورستہ بن کر سامنے آئی ہے کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ ملول انسانوں کی روح کے لیے اُمید اور آس اور بھلائی کی ایک کرن بن کر سامنے آتا ہے۔

چند شخصیات پر زیرنظر مضامین یا خاکے تاثر کے اعتبار سے بھرپور ہیں۔ مصنف نے جن افراد کو اپنا موضوع بنایا ہے‘ وہ ان کے بنیادی مزاج‘ افتادِ طبع‘ انداز فکروعمل اور طور واطوار کی بوقلمونی کو بڑی سادگی لیکن پرکاری سے زینت ِ قرطاس بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کراچی میں تو پرنسپل بشیراحمد صدیقی مرحوم کو جاننے والے کتنے ہی لوگ ہوں گے مگر مجھے اس مطالعے سے وہ اپنے ساتھ ٹہلتے‘ چائے پیتے اور دفتری ذمہ داریاں نبھاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ‘ معاملاتِ زیست میںکافی حد تک احساس یگانگت بھی ہے۔ مصنف نے خوردبین سے عیوب کی تلاش سے گریز کیا ہے۔ پروفیسر مشیرالحق شہید کی زندگی پر مشتمل خاکہ دیانت تحریر اور اصابت ِ فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اندازِ تحریر بے تکلفانہ ہے۔ شاہ محی الحق کی بے ساختگی‘ ندرتِ خیال‘ بیان کی شگفتگی اور کہیں کہیں گدگدی کرنے کی جسارت ان کے اسلوب کو نہایت دل چسپ بنا دیتی ہے۔

مصنف‘ ماہرالقادری (یادِرفتگاں) سے متاثر معلوم ہوتے ہیں مگر ماہرصاحب کے ہاں اختصار ہے اورفاروقی نہایت (کہیں غیرمتعلق اور غیرضروری) طوالت سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ ۴۰‘ ۵۰ صفحات کا مضمون پڑھتے ہوئے‘ لگتا ہے فاروقی صاحب نے پوری سوانح عمری  لکھ ڈالی ہے۔ ہر مضمون کی تمہید بہت طولانی ہے۔ بایں ہمہ مصنف نے واقعات کے چمن کو  حسنِ ترتیب‘ مہارتِ فن اور سلیقہ شعاری سے اہل فکرونظرکی ضیافت کے لیے پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے انسانوں کو دیوتا بنایا ہے‘ نہ ہیرو‘ بس روز مرہ زندگی میں حالات کی افت و خیزمیں مصروف تگ و تاز دیکھ کر ان کی شرافت و سعادت سے متاثر ہوئے اور مادہ پرستی کی ظلمت آسا فضا میں ان کو مانند جگنو نور افشاں پایا ہے۔ پروفیسر سید محمد جعفر‘ مولانا ابوالجلال ندوی‘ مولانا ابوالقاسم‘ قمراحمد‘اکبر علی وغیرہ ہر شخص کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔

جن پر خاکے لکھے گئے‘ ان میں سے متعدد افراد مصنف کے اعزہ ہیں۔ اس لیے مصنف کے اپنے بہت کچھ حالات بھی ان مضامین میں آگئے ہیں چنانچہ کتاب میں مصنف کی آپ بیتی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ مؤلف نے بتایا کہ وہ اپنی خود نوشت بھی لکھنا چاہتے ہیں‘ تاثر ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس کا ٹریلر ہے۔ (دانش یار)


جوہری توانائی ‘ ایم ایچ مسعود بٹ ۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۵۔ قیمت: ۱۲۵روپے۔

سائنسی موضوعات پر عام فہم لٹریچر کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صاحب ِ قلم حضرات بالعموم سائنس داں نہیں ہوتے اور سائنس دانوں کو عموماً لکھنے لکھانے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ دوسرا سبب سائنس سے ہماری اپنی عدم دل چسپی ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ کے لیے آج تمام اسلامی دنیا میں جدوجہد جاری ہے مگر اس سلسلے میں کوئی تبدیلی اس وقت تک رونما نہیں ہوسکتی جب تک مسلمان‘ دنیاوی علوم پر دسترس حاصل کر کے‘ ان میں اپنی فوقیت ثابت نہیں کردیتے۔ ان میں سائنس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ سائنسی علوم میں دسترس اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا انھی لوگوں کا کام ہے جو سائنس دان کہلاتے ہیں لیکن کسی قوم میں بھی اعلیٰ درجے کے سائنس دان اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے جب تک اس قوم میں عمومی طور پر سائنس سے دل چسپی اور سائنسی معلومات کا شوق پیدا نہ ہو جائے۔

زیرنظر کتاب کے فاضل مصنف الیکٹریکل انجینیرہیں اور عرصۂ دراز سے عام لوگوں کے لیے سائنسی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں کو  اظہار خیال کا ذریعہ اُردوزبان ہی کو بنانا چاہیے کیوں کہ وہ تہذیب گونگی ہے جو اپنی زبان کے بجاے کسی اجنبی زبان کو ذریعۂ اظہار بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر سائنسی شعور کو اجاگر کرنے کا بیڑا سائنس دانوں ہی کو اٹھانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے سائنس کو نہ صرف سلیس اور عام فہم زبان میں پیش کرنا ہوگا‘ بلکہ ایسا دل چسپ انداز اختیار کرنا ہوگا کہ قاری سائنس کو ایک اجنبی اور مشکل چیز سمجھنے کے بجاے اس کے مطالعے میں محوہوجائے اور اس کے اندر مزید سائنسی مواد کو پڑھنے کی طلب اور لگن پیدا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں پاپولر سائنس کے نام سے اس شعبے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکہ میں آئزک ایزیموف اور کارل ساگان نے اس باب میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔

جوہری توانائی کا پہلا ایڈیشن ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا تھا اور اس میں ایٹم اور ایٹمی توانائی کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں۔ ان میں ایٹم کے متعلق قدیم و جدید نظریات‘ ایٹم کی ساخت اور جسامت کے متعلق جدید معلومات‘ جوہرشکنی‘ جوہرِانشقاق‘ زنجیری تعامل‘ جوہری تابکاری اور جوہری توانائی کا پُرامن استعمال شامل ہیں۔ موجودہ ایڈیشن کے آخر میں ’’پاکستان ایٹمی طاقت کیسے بنا‘‘کے عنوان سے ایک طویل باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ایٹمی طاقت بننے کے بھارتی عزائم اور تیاریوں کا ۱۹۶۰ء سے اب تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۹۸ء کے بھارتی ایٹمی دھماکوں اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے متعلق تفصیلی معلومات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام کسی قدر اہم‘ بروقت اور ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھارت پر کیسی سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔ اس باب میں بھارت کی مختلف قسم کی ایٹمی تنصیبات اور تحقیقی مراکز وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔

ایٹم بم اور ایٹمی توانائی میں دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس کتاب میں وسیع معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ (فیضان اللّٰہ خان)


جنات اور جادو کے سربستہ راز‘ عبیداللہ ڈار۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

جنات اور جادو دو ایسے موضوعات ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے میں اور کسی نہ کسی حوالے سے گھر گھر موضوع سخن بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے جہالت اور توہم پرستی کے سبب کئی گھرانے جعلی عاملوں اور نام نہاد پیروں کے ہاتھوں مدتوں استحصال کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے مصائب کے تدارک کے لیے عبیداللہ ڈار نے زیرنظرکتاب پیش کی ہے۔

عرصہ ہوا‘ مصنف نے عملیات کے موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھیں بے شمار خواتین و حضرات نے دردناک اور رقت انگیزخطوط لکھے جن میں اپنے مصائب کا ذکر تھا۔ یہی خطوط اس کتاب کا محرک بنے۔ کتاب بنیادی طور پر بعض روحانی عاملین کے مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہے۔ انھوں نے جنات‘ کالے علوم‘ روحانی عملیات‘ جعلی عاملین‘ خواتین کے توہمات جیسے موضوعات کے بہت سے پہلوئوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور نہایت خوب صورت پیراے میں قارئین کی راہ نمائی بھی کی ہے۔

کتاب میں عمومی دل چسپی کے کئی پہلوئوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ جنات کو قابو میں لانا‘ جنات اور عامل کے رابطے کے طریقے‘ جادوئی علوم کی حقیقت‘ کاروبار پر جادو کے اثرات‘ آگ باندھنا‘ جنات کہاں رہتے ہیں؟ کیا کھاتے ہیں اور ان کا حلیہ کیا ہوتا ہے؟ تعویزات کے اثرات کیوں کر زائل کیے جاسکتے ہیں؟ دعائوں کی قبولیت کیسے ممکن ہے؟ وغیرہ--- کتاب میں ایسی دعائوں اور قرآنی آیات کے وظائف بھی بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ‘مصنف کا خیال ہے کہ‘ خواتین و حضرات اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب شکوک و شبہات اور توہم پرستی کے زہرکا تریاق بھی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)