تحقیقی کاوشیں کسی قوم کی زندگی کی علامت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ملک میں نصف صدی گزارنے کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی قابلِ فخر روایت قائم نہیں کر سکے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پرنت نئے حالات اور مہمات مسائل سے سابقہ پڑ رہا ہے۔ لیکن ہم سنجیدہ تحقیقی رویے اختیار کرنے کے بجاے‘ موقع بہ موقع کسی ایک رجحان کے مطابق صحیح یا غلط حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ایک بدقسمتی تو یہ ہے کہ سائنس کی غیرمعمولی اہمیت نے تحقیق کا مطلب سائنسی موضوعات پر تحقیق کرنے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے تک محدود کر دیا ہے۔ ملکی سطح پر سارا بجٹ اور توجہ اسی دائرے پر مرکوز ہے۔ بیرونِ ملک جو طالب علم وظائف پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں‘ ان کا بہ ظاہر ۹۰ فی صد حصہ سائنس کے طلبہ کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ بیرونی ممالک سے ملنے والے وظائف انھی موضوعات کے لیے ہوتے ہیں(وہ ہم سے ریسرچ کروا کے خود فائدے اُٹھاتے ہیں)‘ اور ملک میں بھی اسی دائرے پر اسے کسی منفعت کا سبب سمجھ کر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سوشل سائنسز کا اہم تر میدان بے توجہی اور بے نیازی کا شکار رہ جاتا ہے (یہ بجاے خود تحقیق کا ایک موضوع ہے)۔
اسلام‘ مسلمان اور مغرب سے اس کا تعامل‘ ایک زندہ اور گرم موضوع ہے۔ مسلمان ممالک کی گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ سال کی تاریخ کا تحقیقی تجزیاتی مطالعہ مستقبل کے لیے روشن راہیں کھول سکتا ہے۔ قومی سطح پر تعلیم‘ معیشت‘ معاشرت‘ خارجہ تعلقات اور نفسیاتی رجحانات کے کتنے ہی پہلو تحقیق کے منتظرہیں۔ پاکستان میں (اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی) احیاے اسلام کی جو جدوجہد ہو رہی ہے‘ اس کے معروضی مطالعے بھی وقت کا تقاضا ہیں۔
ہم اپنی بات کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں۔ہم اس تاثر کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں جن کا ایک زندہ قوم میں تحقیق میں نمایاں اور قائدانہ کردار ہونا چاہیے۔ نجی تحقیقی ادارے اس وقت پیش نظر نہیں۔ جن کا المیہ عموماًیہ ہے کہ تحقیق کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیتے ہیں اور محض ایک پبلشنگ ہائوس بن کر رہ جاتے ہیں۔
تحقیق کا ذکر اذکار تو بہت ہوتا ہے اور جب سے حکومت نے تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے پی ایچ ڈی پر الائونس شروع کیا ہے تو پی ایچ ڈی کرنے کے‘ یعنی تحقیق کرنے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے جو یقینا ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن بجٹ کا سارا بہائو سائنس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی طرف ہے۔ جن میدانوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے‘ اور جن کی اہمیت و ضرورت ہر دانش مند کے نزدیک فائق تر ہے‘ وہ اس بہائو سے محروم سوکھے ہی پڑے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے بیان کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن بیرونِ ملک سائنسی موضوعات پر ۴۰‘ ۵۰ لاکھ روپے فی پی ایچ ڈی خرچ کرنے کو تیار ہے‘ جب کہ ملکی جامعات میں اہم سوشل اہمیت کے موضوعات پر پی ایچ ڈی کے لیے دو ڈھائی لاکھ روپے دینے کو بھی تیار نہیں۔ (روزنامہ جسارت‘ ۱۶ جولائی ۲۰۰۳ئ)
اگر ہم ان موضوعات کے حوالے سے مغربی جامعات کے تحقیقی منظر پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہار آئی ہوئی ہے۔ دنیا کا موضوع ہم ہی ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد سے اسلام پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور انھوں نے زندہ لوگوں کی طرح‘ ہماری ہر چیز کے‘ ملک ملک کے مختلف واقعات اور رجحانات کے مطالعوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ اتنے کہ ہم خود اپنے بارے میں شائع ہونے والے مطالعے حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے (یا ضرورت نہیں سمجھتے‘ مطالعہ تو ذرا دُور کی بات ہے)۔ اسلامک فائونڈیشن کا مجلہ مسلم ورلڈ بک ریویو ہر سہ ماہی پر اتنی کتابوں اور مقالوں کی نوید لاتا ہے کہ اپنے سے مقابلہ کیا جائے تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ہماری جامعات جن کے اتنے متعلقہ شعبے قائم ہیں‘ نامی گرامی افراد مامور ہیں‘ آخر کیا کر رہی ہیں؟ صلاحیت و جذبے سے بھرپور سیکڑوں طلبہ ان کے پاس آتے ہیں۔ وہ چند ہی میں کوئی چراغ جلا کر کوئی روشنی فراہم کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ ۲۰‘ ۲۲ جامعات کے کتنے تحقیقی رسالے نکلتے ہیں اور ان میں کس معیار کے مقالات شائع ہو رہے ہیں‘اس کے جائزے ہیسے تصویر سامنے آجائے گی۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ہماری کئی جامعات کسی مقالے پر ڈگری تو دے دیتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ موضوع حساس اور نازک ہے بلکہ جامعہ اس کی اشاعت سے شرمسار نہیں ہونا چاہتی۔
اسلام کو جدید معاشرے میں جو چیلنج درپیش ہیں‘ کیا ان پر کسی جامعہ میں ریسرچ ہو رہی ہے؟ بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمان ہمارے بالکل پڑوس میں ہیں‘ کیا ان کے مسائل ہماری کسی جامعہ کی توجہ کے مستحق بنے؟ مشرق وسطیٰ میں کیا کچھ نہیں ہوگیا‘ کسی جامعہ سے اس کے بارے میں کوئی کتاب شائع ہوئی؟ امریکہ پاکستان کے ساتھ جو تعاون کر رہا ہے‘ (یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) ‘ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ کسی جامعہ نے اس کو موضوع بنایا؟ کتنے طلبہ کو جامعات نے اسکالرشپ دے کر افریقہ کے مغربی ممالک یا سوڈان یا وسطی افریقہ کے مسلم ممالک میں تحقیق کے لیے بھیجا؟
یہ ایک بہت بڑے منظر سے متعلق محض چند سوالات ہیں۔ یقینا اس کے جواب میں کسی جامعہ کی کوئی کاوش پیش کی جاسکتی ہوگی‘ لیکن ہماری مراد تحقیق کی ایک مسلسل ‘زندہ اور توانا روایت سے ہے۔ جامعہ کے ذمہ داروں کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتیں اور اپنے بجٹ کو--- وہ اتنی بھی بے وسیلہ نہیں--- ملّت کی دل چسپی کے ان مسائل کی طرف بھی موڑنا چاہیے۔ کوئی نیچرل اور سوشل سائنسز پر تحقیق کے لیے صرف کیے جانے والے بجٹ کا تقابلی مطالعہ ہی کرے۔ اور پھر سوشل سائنسز میں جو کچھ تحقیق ہوئی ہے‘ اس کا تجزیہ کرے کہ کتنے موضوعات کسی شخصیت کے حالاتِ زندگی ‘ قدیم تاریخ یا مخطوطات سے متعلق رہے ہیں اور کتنے آج کے زندہ مسائل سے‘ جن پر تحقیق‘ محنت اور وسائل اور ذہن مانگتی ہے۔
جامعات کے مقتدر اداروںکو صورتِ حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔