آج جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری نمازیں اور دعائیں‘ ہمارے اوراد و وظائف‘ اور ہماری پرستشیں اور ریاضتیں‘ اخروی نجات و فلاح کے لیے کافی ہیں‘ انھیں غور کرنا چاہیے کہ جب صحابہ کرامؓ کو ان کی نمازوں اور عبادتوں اور اعمال صالحہ کے باوجود انجام سے اس لیے ڈرایا جا رہا ہے کہ مبادا اسلام کی سربلندی اوردین حق کے غلبے کی کوشش میں ان کے قدم سُست پڑجائیں‘ تو ہم لوگوں کی عبادتیں کس شمار و قطار میں ہیں‘ جب کہ ہم خدا کے دین کو سربلند کرنے اور اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لیے ادنیٰ ترین قربانی دینے پر بھی تیار نہیں ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے قلوب بھی اب اس آرزو اور تمنا سے خالی ہوچکے ہیں کہ خدائی زمین پر اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے عطا کیے ہوئے قانونِ سعادت اور ضابطہ ء حیات کابول بالا ہو۔ کیا آج اسلامی نظام عملاً اسی طرح کفر کے غلبے سے گھرا ہوا نہیں ہے جس طرح وہ مدنی زندگی میں کفر کی طاقتوں سے محصور تھا؟ اور کیا آج دین حق کے قیام اور اسلامی طرزِ زندگی کو ایک عملی حقیقت بنانے میں جاںفروشی اور ایثار و قربانی کی کچھ کم ضرورت ہے؟
…… نماز‘ روزہ اور عبادات اور اعمال صالحہ‘ سب درحقیقت اس لیے ہیں کہ کائنات عالم میں صرف خداے واحد کی بندگی ہو‘اسی کا قانون بالاتر ہو اور اسی کی مرضی حکمران ہو۔ اگر دنیا معبودانِ باطل کی بندگی میں لگی ہو‘غیرالٰہی نظامات غالب ہوں اور اسلامی اقدار آپ کی آنکھوں کے سامنے مٹ رہی ہوں‘ لیکن آپ مسجدوں میں نمازیں پڑھتے رہیں یا لمبی لمبی تسبیحیں لے کر شب بیداری اور تہجدگزاری کرتے رہیں تو حقیقتاً آپ کو نہ اسلام سے محبت ہے اور نہ کفر سے نفرت۔ اس لیے کلام مجید نے صاف کہہ دیا ہے کہ بڑی سے بڑی نیکی ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے۔ (’’مذہب کا انقلابی تصور‘‘، محمد مظہرالدین صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۳‘ عدد ۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۲ھ‘ ستمبر-اکتوبر ۱۹۴۳ئ‘ ص ۵۱-۵۲)