ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

الاستاذ سلامات ٭ہاشم رحمہ اللہ

محمد ایوب منیر | ستمبر ۲۰۰۳ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

جنوب مشرقی ایشیا کی نامور مسلم شخصیت الاستاذ سلامات ہاشم ۱۳ جولائی ۲۰۰۳ء کو انتقال فرما گئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات نہ صرف بنگسامورو مجاہدین اور مورو قومی محاذِ آزادی کے لیے ایک جانکاہ صدمہ ہے بلکہ عالمی اسلامی تحریکات بھی ایک عظیم قائد سے محروم ہوگئیں۔ مورو مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں الاستاذ سلاماتؒ نے جو تابناک تاریخ رقم کی ہے اُس کا ہمیشہ روشن حروف میں تذکرہ ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازے۔ آمین!

سلامات ہاشم مرحوم ۷ جولائی ۱۹۴۲ء کو پگالونگان‘ مگندانو میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک دینی خانوادے سے تھا‘ تاہم ابتدائی تعلیم و تربیت میںاُن کی والدہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اُنھوں نے سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبروں کے ساتھ سند حاصل کی‘ اس کے فوراً بعد ۱۹۵۸ء میں حج کی ادایگی کے لیے گئے تو مکّہ میں شیخ زواوی کی زیرِنگرانی تعلیمی مدارج طے کیے۔ مسجدالحرام میں قائم تدریسی حلقوں سے استفادہ کیا اور مدرسۃ الصولتیہ الدینیہ میں باضابطہ زیرِتعلیم رہے۔ دینی اُٹھان کی خشتِ اول والدہ کی تربیت تھی لیکن اقامت ِ دین کی جدوجہد کا عزم کعبۃ اللہ الحرام کے سائے تلے پختگی اختیار کرتا رہا۔


  •  لیکچرار ‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ لاہور کینٹ

  • عموماً سلامت لکھا جاتا ہے۔ صاحب ِ مضمون کی ۱۹۸۵ء میں ذاتی ملاقات ہوئی ہے۔ اس موقع پر سلامات نام لیا گیا۔

ایک برس بعد وہ قاہرہ پہنچ گئے جو اُس زمانے میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا سرگرم مرکز تھا۔ اُنھوں نے جامعۃ الازہر میں داخلہ لیا اور معھد البحوث الاسلامیہ سے ۱۹۶۳ء میں سندِفراغت حاصل کی۔ بعدازاں دینیات کالج سے عقیدہ اور فلسفہ کے مضامین کے ساتھ ۱۹۶۷ء میں گریجوایشن کیا اور ۱۹۶۹ء میں ایم اے پاس کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے اُن کا باضابطہ طالب علم کے طور پر اندراج ہو گیا۔ ابھی تحقیقی مقالے کی تسوید کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اُنھیں وطن واپس لوٹنا پڑا۔ دورانِ قیامِ قاہرہ اُنھوں نے طلبہ کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کی اور جب وہ وطن واپس لوٹ رہے تھے اُس وقت اُن کی حیثیت ایک پُرجوش مقرر اور ہردل عزیز قائد ِطلبہ کی تھی۔ قاہرہ میں انھوں نے مختلف خطوں اور علاقوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور قومی خصائص سے براہِ راست شناسائی حاصل کی۔ اُمت کے مسائل سے آشنائی نے اُنھیں مسلم عالم دین سے انقلاب پسند قائد میں تبدیل کر دیا۔ جامعۃ الازہر میں وہ فلپائن مسلم طلبہ انجمن کے صدر اور ایشیائی طلبہ کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔

سلامات ہاشمؒ نے فلپائن کے مقبوضہ جزائر کے مسلم طلبہ کے‘ جو عرفِ عام میں بنگسا مورو کہلاتے ہیں‘ قاہرہ میں اجتماعات منعقد کیے اور وطن کی آزادی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ ان کے اجلاسوں میں شریک ہونے والوں کے لیے ضروری تھا کہ اپنے جیب خرچ کا نصف حصہ آزادی وطن کی جدوجہد کے لیے وقف کریں۔ اُنھوں نے پاکستان‘ سعودی عرب‘ لیبیا اور کئی دیگر ممالک کے دورے بھی کیے۔

انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے ملحقہ فلپائن کے جزائر کی مسلم آبادی عرصۂ دراز سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد ۶۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔    سقوطِ غرناطہ کے ۲۹ سال بعد ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے ان جزائر کو اپنی کالونی بنالیا اور یہاں کے مسلمان ہسپانوی اقتدار کے خلاف ۳۷۷ برس جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ۴۰برس تک امریکی استعمار سے برسرِپیکار رہے۔فلپائن کی آزادی کے بعد یہ مسلم جزائر منیلا حکومت کے زیرِانتداب آگئے۔ ظالم فلپائنی حکومتوں نے تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہرممکن فوجی کارروائیاں کی ہیں اور ارویو کی موجودہ حکومت بھی تشدد سے تحریک کو کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ بنگسامورو مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹتی رہی ہیں‘ افسوس اُمت مسلمہ اس سے بہت زیادہ آگاہ نہیں ہے!

مورو اسلامی محاذِ آزادی کی بنیاد سلامات ہاشمؒ نے ۱۹۶۲ء میں رکھی‘ نورمحمد میسواری کی مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF) کی طرح یہ خِطّۂ وطن کی آزادی کی قوم پرستانہ تحریک نہیں ہے بلکہ اسلامی مملکت کے قیام کی ایک مبارک جدوجہد ہے اور اس کے وابستگان اسلامی حقوق و فرائض پر عمل کرتے ہیں۔ محاذِ آزادی‘ شریعت اسلامیہ کے حکمِ جہاد کی عملی تعبیر کا نام ہے۔ اگرچہ نورمحمد میسواری نے منیلا حکومت کے زیرِانتظام جزوی خودمختاری کے معاہدے پر دستخط کر کے ۱۴صوبوں پر حکومت بنا لی ہے ‘ تاہم سلامات ہاشم نے تمام جزائر کی مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ظالم و غاصب فلپینی حکمرانوںکے خلاف عملی جدوجہد میں مصروف رہے۔

سلامات ہاشمؒ کی زیرِقیادت بنگسامورو عوام انھیں امیرالمجاہدین کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے ۲۰ سالہ پروگرام (۱۹۸۰ئ-۲۰۰۰ئ) ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے میں طے کیا گیا کہ آیندہ عرصے میں بنگسامورو عوام کی عمومی زندگی میں اسلامی طرزِ زندگی کو رواج دیا جائے گا۔ عسکری طور پر عوام الناس کو فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کے بنیادی اصول سکھائے جائیں گے۔ انتظامی‘ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں کو مضبوط تر بنایا جائے گا۔ مذکورہ مدت کے بعد ۵۰ سالہ منصوبہ عمل تیار کیا گیا جس کے اہم نکات میں انصاف کا قیام‘ مکمل آزادی‘ غربت‘ جہالت اور ناخواندگی سے نجات‘ باعزت حصولِ روزگار‘ مساوی حقوق کی فراہمی‘ اور بدعنوانی کا خاتمہ شامل ہے۔ ۲۹ ہزار تربیت یافتہ مجاہد اور مراوی‘ منڈانائو‘ سولوجزائر کی ۸۵ فی صد آبادی‘ آزادی کی جدوجہد میں سلامات ہاشم کے دیے ہوئے نقشے پر عمل پیرا ہے۔ سلامات نے جونسل تیار کی ہے وہ آخرکار اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی۔

بنگسامورو عوامی مشاورتی اسمبلی کے چیئرمین سید ایم لینگا نے مرحوم کے بارے میں لکھا ہے: ’’الاستاذسلامات ہاشم‘ بنگسامورو قوم کے امام اور امیرالمجاہدین تھے۔ اُن کی وفات سے ہم ایک قائد‘ ایک دوست بلکہ مورو تاریخ کے سب سے بڑے محسن سے محروم ہوگئے ہیں۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بے انتہا محبت تھی۔ آپ ایک عام کسان کی سی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز تقویٰ تھی۔ عالمی اسلامی تحریکات سے اُنھیں غایت درجہ محبت تھی‘‘۔

الاستاذ سلامات ہاشمؒ کو علم سے محبت تھی اور گھنے جنگل میں قائم ابوبکر کیمپ میں بھی اُنھوں نے وسیع لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ اُن کی ذات میں عالمِ دین کی شان بھی تھی اور پُرعزم قائد کی سوچ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اُن کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کرتے تھے۔ راقم کو الاستاذ سے ملاقات کا شرف ۱۹۸۵ء میں حاصل ہوا جب مولانا خلیل احمد الحامدی مرحوم و مغفور نے سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ایک سال کے موقع پر ۱۰ روزہ تقریبات کا انعقاد کیا اور الاستاذ کو مدعو کیا۔ اس موقع پر ایک نشست میں سلامات ہاشمؒ نے مورو جدوجہد پر شرح و بسط سے عربی زبان میں روشنی ڈالی۔

وہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آزادی سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور اُنھوں نے اپنی زندگی جنگلوں‘ پہاڑوں اور دلدلوں میں اپنے مجاہدین کے ساتھ گزاری۔ مجاہدین اُن سے محبت کرتے تھے کیونکہ وہ اُن کے درمیان گھومتے پھرتے تھے‘ اُن کی تربیت کرتے تھے اور اُن جیسی مصائب بھری زندگی اُنھوں نے اختیار کیے رکھی تھی۔ مذاکرات‘ سرکاری مراعات اور آزادی کے بدلے شاہانہ زندگی کی بیسیوں پیش کشوں کا اُنھوں نے جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا۔

مجاہدین کی ایک تربیتی نشست میں امیرالمجاہدین نے کہا تھا: ’’میں نے بنگسا مورو لوگوں کے دلوں میں جہاد کا بیج ڈال دیا ہے۔ میں زندہ نہ بھی رہا تب بھی جہاد جاری رہے گا اور آزادی کی منزل مل کررہے گی‘‘۔ آج یہ جہاد جاری ہے اور یقینا منزل مل کر رہے گی!