ستمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

ملٹی لیول مارکیٹنگ ایک جائزہ

فضل الرحمن فریدی | ستمبر ۲۰۰۳ | اسلامی معیشت

Responsive image Responsive image

گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں مختلف ناموں سے بعض ایسی اسکیمیں مقبول ہو رہی ہیں جن میں کچھ رقم جمع کرنے والے یا اشیا فروخت کرنے والے اس سلسلے کو پھیلا کربڑھتا ہوا منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں مدیر ترجمان القرآن سے بھی سوالات کیے گئے جن کا ایک مختصر جواب بھی دیا گیا (مارچ ۲۰۰۳ئ)۔ حسنِ اتفاق سے  زندگی نو ، دہلی میں اس کا مبسوط جواب دیا گیا ہے۔ ہم اسے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ ملٹی لیول مارکیٹنگ کے خوش نما ناموں سے ہندستان میں (اور متعدد دوسرے ملکوں میں) بعض تجارتی اسکیمیں چل رہی ہیں۔ یہ اتنی پُرکشش ہیں کہ نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ان کی طرف لپک رہی ہے۔ ان اسکیموں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت کم سرمایے سے نہایت قلیل مدت میں ناقابلِ تصور منافع کمانے کا لالچ دلاتی ہیں‘ اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان سے وابستہ ہونے کے لیے بجز ہوشیاری اور تجارتی مہارت (skill) کے کسی خاص استعداد (expertise)کی ضرورت نہیں ہے۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا طریقہ اختیار کرنے والی مختلف کمپنیاں کچھ دنوں سے ہندستان میں بھی سرگرم کار ہیں۔ ان کے متعلق مدیر  زندگی نوکے پاس بہت سے سوالات گذشتہ ۱۰‘۱۱ مہینوں سے آرہے ہیں۔ ان سوالات میں صرف استفسار ہی نہیں بلکہ متضاد فتاویٰ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض فتاویٰ ان کے شرعی جواز کے حق میں دیے گئے ہیں اور بعض ان کی قباحت پر استدلال کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے فتاویٰ کا سرسری جائزہ بھی بتاتا ہے کہ ان اسکیموںکی بعض فروعات کو سامنے رکھ کر ان پر شرعی حکم لگایا جا رہا ہے‘ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے بعض علما کا معمول ہے۔ فروعات کے پیش نظر رائے قائم کرنے کے بہت سے فوائد ہیں‘ بالخصوص ایسے معاملات میں جن کا روز مرہ کی زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر کبھی فرع کے بارے میں غلط یا صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے تو صرف وہ جزو متاثر ہوتا ہے۔ عام سماجی نظام پر کوئی ایسا اثر نہیں پڑتا جس سے اس کے مقصد‘ کردار اور منہج میں غیرمعمولی تغیرہوجائے۔ عبادات کے تفصیلی احکام اس ضمن میں آتے ہیں لیکن اسلامی اقدار اور احکام اور اس کی اجتماعی اخلاقیات ایک ایسے معاشرے کی تعمیروتشکیل کے لیے عطا کی گئی ہیں جو فرد کی ضرورت‘ اس کی آرزوئوں اور تمنائوں کی تشفی کا سامان بہم پہنچاتی ہیں۔ ان کی تکمیل کے لیے دیانت اور امانت پر مبنی طریق کار متعین کرتی ہیں۔ مادی مقاصد کے حصول میں اعتدال کی روش اختیار کرنے کی تاکید کرتی ہیں اور ظلم و استحصال‘ خیانت‘ فریب اور دھوکا دہی کا حتی الوسع ازالہ کرتی ہیں۔ اس غرض کے لیے اسلام نے خالص فطری طریقۂ کار اختیار کیا ہے۔ دولت اور آمدنی کے اسباب اور وسائل پر عمومی قدغن کے بجاے اس نے صرف چند مخصوص مسائل پر قید لگائی ہے جو عام انسانی معاشرے کی صحت‘ اور اس کی اخلاقی زندگی کے لیے مضرہوں۔ اس نے کسب ِرزق کے غیر اخلاقی ذرائع پر پابندی عائد کی ہے‘ اجتماعی زندگی کے لیے صحت مند اور انسانیت دوست ذرائع اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ دولت اور اقتدار کے حصول کے لیے جبر‘ ظلم ‘ استحصال اور خیانت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ دولت اور آمدنی کی مقدار پر عمومی قید لگا کر اسلام نے فرد کے فطری داعیے پر بند نہیں باندھا ہے بلکہ مطلوبہ جدوجہد میں اعتدال اور توازن کی تعلیم دی ہے ‘ تاکہ زندگی کے دوسرے اعلیٰ مقاصد مجروح نہ ہوں۔

اجتماعی زندگی ایک مربوط حقیقت ہے۔ اسی طرح اجتماعی اخلاقیات کا ہر پہلو دوسرے پہلو سے متعلق ہے۔ ان کے ذیلی مقاصد‘ اس کے جامع مقصد کے تابع ہیں۔ ان کا استحکام اور ان کی نشوونما کے لیے ہر جزو اہم ہے‘ چنانچہ اگر اجتماعی زندگی کا ایک شعبہ متاثر ہو جائے تو دوسرا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ معاشی زندگی کا گہرا تعلق اخلاقی مقاصد سے ہے۔ سیاسی اقتدار اگر دینی اخلاقیات سے منقطع ہو جائے تومحض چنگیزی بن جاتا ہے۔ اسی طرح حرص‘ طمع اور بددیانتی‘ دھوکا دہی اگر جائز مقاصد (یعنی حصولِ دولت) کے لیے بھی استعمال کیے جائیں تو کسب ِرزق کی پوری جدوجہد فساد سے عبارت ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا تعلق صرف زندگی کے مختلف پہلوئوں کے درمیان نہیں قائم ہوتا‘ بلکہ ہر ایک شعبے کے تمام داخلی عناصر ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ انھیں اجزاے ترکیبی کہا جا سکتا ہے۔اس لیے اجتماعی زندگی کے کسی ایک جزو کے بارے میں جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کرتے وقت اس امر کا لحاظ کرنا چاہیے کہ اس کے اثرات دوسرے اجزا پر اس طرح مرتب ہو سکتے ہیں کہ پوری جدوجہد صالح بن جائے یا موجب فساد بن جائے۔

معاشی زندگی سے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ لین دین اور بیع شرا کا کوئی معاملہ یا ان جیسے معاملات کا مماثل مجموعہ جزوی طور پر جائز ہونے کے باوجود معاشی زندگی کی عام غایت کو نقصان پہنچائے اور ایسی فضا تشکیل دے جس سے اسلامی معاشرے کا کردار بدل جائے اور اس کے نتیجے میں زندگی کے تمام پہلو غیراسلامی اور غیر اخلاقی نہج پر چل پڑیں۔ دولت کمانا اور اسبابِ رزق کی فراہمی فی نفسہٖ ایک مستحسن عمل ہے‘ لیکن اس جدوجہد کے دوران اگر تاجر اپنی اشیا کی مبالغہ آمیز تعریف کرے تاکہ اس کا مال جلد از جلد فروخت ہو جائے تو نہ صرف مال کی تجارت غیراخلاقی ہوگی بلکہ جھوٹ اور دروغ گوئی کا چلن دوسرے معاشی معاملات تک پھیل جائے گا۔ مرابحہ (Markup Pricing) اگرچہ دو افراد کے درمیان جائز ہے‘ لیکن اگر مرابحہ کا بے دریغ استعمال کر کے اسے اداروں اور افراد تک وسیع کر دیا جائے تو وہ بالفعل   سودی عمل بن جاتا ہے۔ اسی طرح کاروبار میں سرمایہ کاری ایک مفید اور جائز کام ہے لیکن کسی کاروبار میں سرمایہ لگانے کو سنہری امیدوں کا مرجع قرار دے کر اس کی اس طرح اشاعت کی جائے کہ لوگ ناقابل یقین منافع کی توقعات باندھنے لگیں تویہی جائز کام تحریص کا موثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ معقول آمدنی اور بہتر معیارِ زندگی کے لیے جدوجہد پسندیدہ فعل ہے‘ لیکن اگر کسی ذریعہء تجارت سے غیرمتوقع طور پر کثیر آمدنی حاصل ہونے لگے تو یہی فعل صارف پسندمعاشرہ (Consumerist Society) کو فروغ دے کر معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔

اسلام کا معاشی نقطۂ نظر

ان مقاصد کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے ‘ اپنے فضل و کرم سے بعض نہایت اہم تعلیمات نازل فرمائیں تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات اعتدال و توازن کے ساتھ پوری ہوں۔ ذرائع بھی پاکیزہ ہوں اور ان سے حاصل کردہ دولت کا استعمال فرد و معاشرے کے لیے منفعت بخش بھی ہو۔ اگر کسی فی نفسہٖ جائز ذریعے سے دولت سمٹ کر ایک مخصوص طبقے میں محدود ہو جائے‘ یا غیرفطری رفتار سے ترقی پانے کی بنا پر عیش و عشرت اور اسراف پسندی کے رجحانات کو تقویت پہنچائے تو اس ذریعے سے احتراز کرنا شرعاً اور اخلاقاً واجب ہوگا۔ معاشی جدوجہد بالعموم افراد اور معاشرے یا افراد کے درمیان معاملات پر مبنی ہوتی ہے‘ اس لیے معاملات کو شک و شبہے سے بالاتر اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ معاملات میں کذب اور دروغ گوئی ہمیشہ راست اور کھلم کھلا نہیں ہوتی بلکہ بالواسطہ اور خفیہ بھی ہوتی ہے‘ مثلاً سرمایہ کاری کے کسی معاملے میں ۱۰۰ روپے پر ایک مختصر مدت میں ۱۲۰۰ روپے منافع ملنے کا وعدہ کیا جائے تواس معاملے کی تہ میں فریب کی تلاش ضرور کرنا چاہیے۔ ہمارے اطراف میں اس طرح کے بہت سے معاملات میں دھوکے کا انکشاف ہوا اور کتنے لوگ عمربھر کی کمائی کھو بیٹھے۔ علی گڑھ میں پھولوں کی کاشت کا ایک وسیع اسیکنڈل اس نوعیت کا تھا۔ اسی طرح بدنام زمانہ المیزان کا کاروبار بھی تھا جس میں حصے دار کو پہلے ماہ سے ایک معقول رقم بطور منافع دی جاتی تھی‘ حالاں کہ کسی پیداواری معاملے میں پہلے ماہ سے منافع دینا ناممکن ہے۔

قرآن کریم نے کسب ِمعاش اور اس سے حاصل ہونے والے سامان راحت و آسایش کو زینت قرار دیا ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط (الاعراف۷:۳۲)

اے نبی! ان سے کہو‘ کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا۔

اس نے حلال اور طیب رزق کو استعمال کرنے کی تلقین فرمائی ہے:

یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ ۲:۱۶۸)

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیںہیں‘ انھیں کھائو اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔

وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًا ص (المائدہ ۵ : ۸۸)

جو کچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے‘اسے کھائو پیو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت اور کسب ِرزق کے طریقوں کے متعلق بعض کلیدی ہدایات دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

اپنے مال کو بیچنے میں کثرت سے قسمیں کھانے سے بچو‘یہ چیز وقتی طور پر تو تجارت کوفروغ دیتی ہے لیکن آخرکار برکت کو ختم کردیتی ہے۔ (مسلم)

ایک دوسری روایت میںاسی بات کو دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے:

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ یومِ قیامت میں کلام نہیں فرمائے گا اور نہ اُن کی طرف دیکھے گا‘ نہ ان کو پاکیزہ کرے گا اور ان کے لیے عذابِ الیم ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: ناکام و نامراد ہوئے۔ یارسولؐ اللہ!وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ جو اپنی تہبند کو ٹخنوں کے نیچے لٹکاتا ہے‘ اور وہ جو احسان جتاتا ہے‘ اور وہ جو جھوٹی قسم کھاکر اپنے مالِ تجارت کو فروغ دیتا ہے۔

تاجر کی اخروی کامیابی کے متعلق ارشاد نبویؐ ہے:

سچا اور ایمان دار تاجر (یومِ قیامت) انبیا‘ صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)

اسلام نے معاشی جدوجہد کے لیے غیر اخلاقی ذرائع ممنوع قرار دیے ہیں۔ معاملات میں شفافیت اور صداقت و دیانت کی تلقین فرمائی ہے۔ لیکن یہ بھی تاکید فرمائی ہے کہ دولت کمانے کے لیے محنت اور عمل کے ذرائع اختیار کرنا چاہییں۔ محنت اور عمل میں جسمانی اور دماغی دونوں طرح کی جدوجہد شامل ہے بشرطیکہ ان کے نتیجے کے طور پر یا تو پیداوار میں اضافہ ہو‘ یا اس کی افادیت میں۔ سود کو حرام قرار دے کر اس نے زر سے زر کمانا حرام قرار دیا ہے۔ سرمایہ فی نفسہٖ ایک غیرپیداواری شے ہے‘ جب تک اس کو محنت کے ساتھ جمع نہ کیا جائے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیم کی نوعیت

اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ملٹی لیول مارکیٹنگ کا تجزیہ کیجیے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیم اپنی تاریخ کے اعتبار سے چارلس پونزی  (Charles Ponzi) کے نام سے موسوم ایک Pyramid (مخروطی‘ مثلث نما ) اسکیم سے وابستہ ہے۔ چارلس پونزی نام کے ایک شخص نے ۱۹۲۰ء میں انگلینڈ کے ہزاروں باشندوں کو بے وقوف بنایا تھا اور سرمایہ لگانے والوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں بنک کے ۵ فی صد نفع کے مقابلے میں ۹۰ دنوں میں ۴۰ فی صد منافع دے گا۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی اسکیم مختلف شکلوں میں اس بنیاد پر کام کررہی ہے کہ ’’زید کو لوٹ کر حامد کو منافع دو‘‘۔

اس ابتدائی اسکیم کی ترقی یافتہ شکل ’’ملٹی لیول مارکیٹنگ‘‘ (MLM) ہے۔ اس اسکیم کی متعدد شکلیں ہیں‘ لیکن ان کی مشترک خصوصیات درج ذیل ہیں:

(۱)  یہ اسکیمیں عام تجارتی خرید وفروخت کی جگہ پر تقسیم کار (distributors)کو بھرتی کرنے (recruit) کا طریقہ ء کار اختیار کرتی ہیں۔ تقسیم کار کو اسی بنیاد پر منافع حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

(۲)  اس طریق کار کو اختیار کرنے کی وجہ سے وہ تقسیم کاروں کو ایک حسین اور پُرکشش فریب میں مبتلا کرتی ہیں اور یہ لالچ دلاتی ہیں کہ وہ کم وقت میں ناقابلِ تصور منافع حاصل کرسکتے ہیں کہ تم جتنے جتنے ڈسٹری بیوٹرز بھرتی کرو گے اسی تناسب سے تمھیں نفع حاصل ہوگا۔

اس کے لیے انھیں پُرکشش مجلسوں میں مدعو کیا جاتا ہے‘ جاذب توجہ لٹریچر فراہم کیا جاتا ہے‘ تحریک اور داعیہ پیدا کرنے والے تمام طریقے (motivational discourses) اختیار کیے جاتے ہیں‘ اور انھیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اس کے لیے انھیں اپنی عقل‘ تجارتی فرزانگی اور محنت درکار ہے۔

(۳)  اس تمام جدوجہدمیں ایک کلیدی عنصر عمداً چھپایا جاتا ہے‘وہ یہ ہے کہ ہر تجارت کی کامیابی کا انحصار اس کی مصنوعات کی طلب (demand) اور رسد (supply) پر ہے‘ اور طلب کا جائزہ لینا اور اس کے مطابق قیمت کا تعین اور اس کے پیش نظر رسد کی مقدار کا تعین ضروری ہے۔

MLM میں طلب سے توجہ ہٹا کر ڈسٹری بیوٹرز کی ایک مخروطی شکل‘ یعنی Pyramid ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ترتیب دیا جاتا ہے کہ بھولے بھالے تقسیم کار اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ نفع کے امکانات لامحدود ہیں۔ اس لیے کہ تقسیم کاروں کو بھرتی کرنا ایک لامتناہی سلسلہ ہے‘ حالاں کہ معمول کے مطابق ہرپیدا کنندہ (producer) یابائع (seller) اپنی مصنوعات کی مارکیٹ ڈیمانڈ کا صحیح اندازہ لگانے کا پورا اہتمام کرتا ہے۔ اسے تجربے سے یہ معلوم ہے کہ ہر خریدار اس کی مصنوعات میں دل چسپی نہیں رکھتا اور ہزار ترغیب کے باوجود اس کی ترجیحات نہیں بدل سکتیں۔ اس لیے کہ مصنوعات کی فروخت کا انحصار‘ خریدار کی ضرورت ‘ اور اس کی مالی استطاعت پر ہے۔ بنابریں تقسیم کاروں کو یہ یقین دلانا کہ تم اگر تقسیم کار بھرتی کرتے رہے تو تمھارا نفع بڑھتا جائے گا‘محض فریب ہے۔

اس فریب کا اندازہ لگانے کے لیے اس امر کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہر اسکیم میں متوقع حصہ داروں کی تعداد لازماً محدود ہوگی۔ اس لیے کہ آبادی بھی محدود ہے اور ضرورت اور استعداد بھی محدود ‘ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ہر مرحلے (level) میں حصے دار ملتے چلے جائیں۔ ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیجیے:

فرض کیجیے کہ ہر مرحلے پر ایک نیا تقسیم کار ۱۰ نئے تقسیم کار بھرتی کرتا ہے‘ اب یہ تعداد کتنی تیزی سے ترقی کرے گی۔ دوسرے مرحلے میں تقسیم کار ۱۰ ‘ تیسرے میں ۱۰۰‘ چوتھے میں ۱۰۰۰‘ پانچویں میں ۱۰ ہزار‘ اسی طرح بڑھتے بڑھتے نویں میں ۱۰ کروڑ اور دسویں مرحلے میں ایک ارب تقسیم کار بھرتی کرنا ہوں گے۔

اگر ایک شہر کی آبادی ۲ ملین(یعنی ۲۰ لاکھ) ہے تو اس اسکیم کے تحت ساتویں لیول تک پہنچتے پہنچتے کم از کم ایک ملین (۱۰ لاکھ) نئے تقسیم کار کی بھرتی ہونی چاہیے۔ جو نہ صرف یہ کہ صریحاً ناممکن ہے بلکہ فریب ہے اور اس اسکیم کے انہدام (collapse) کی قطعی دلیل ہے۔

اس کی وجہ آسان سا ریاضی فارمولا ہے۔ Pyramid اسکیم کا مفروضہ یہ ہے کہ نئے تقسیم کاروں کی تعداد نہایت تیزرفتاری سے بڑھتی جائے گی۔ اگر ’n‘ پہلا نمبر ہے جو ’n‘ نئے تقسیم کاروں کو بھرتی کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک ’n‘ نئے تقسیم کار بھرتی کرتا ہے تو مجموعی تقسیم کاروں کی تعداد nn (raised to power of n) بڑھے گی‘ چاہے n بہت چھوٹا نمبر ہی کیوں نہ ہو۔ نئے حصہ داروں کی مجموعی تعداد بہت زیادہ مراحل سے گزرے بغیر حیرت ناک رفتار سے بڑھ جائے گی۔ یہی وہ تیز رفتار اور حیرت ناک سرعت ہے جس کی بنا پر ایسی اسکیم میں شرکت کرنے والوں کو یہ فریب دیا جاتا ہے کہ تمھارا منافع غیرمعمولی رفتار سے بڑھے گا۔ حالاں کہ کسی بھی شہر میں نہ اتنے لامحدود خریدار مہیا ہوسکتے ہیں اور نہ پوری دنیا کی آبادی ہی اتنی ہے۔

مندرجہ بالا نقشے کے مطابق ساتویں مرحلے کے بعد نہ خریدار مل سکتے ہیں اور نہ اس لیول کے بعد منافع ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس مرحلے کے شریک تمام لوگ اپنی رقم بھی کھودیں گے۔   دل چسپ بات یہ ہے کہ گیارھویں لیول تک پہنچنے تک پوری دنیا کی آبادی کی حد سے بھی گزر جائیں گے‘ اور دست حسرت ملتے تقسیم کار اپنی قسمت کو کوسیں گے۔

(۴)  Pyramid اسکیم کا انہدام اور اس سے متوقع خسارہ خارجی حالات‘ مثلاً طلب کی کمی یا کمپٹیشن کی زیادتی اور ترجیحات کی غیر متوقع تبدیلی کے سبب بطور حادثہ نہیں ہوتا بلکہ یہ فریب عمداً کیا جاتا ہے (by design)۔ یہ حقیقت اسکیم کے چلانے والوں (promoters) کو اچھی طرح معلوم ہے کہ Pyramid منہدم ہوگا۔ لیکن وہ اس حقیقت کو اپنے تقسیم کاروں سے چھپاتے ہیں تاکہ ان کی دولت حاصل کر کے اپنی جیب بھرلیں۔

(۵) اس اسکیم سے نہ حقیقی دولت میں اضافہ ہوتا ہے‘ نہ پیداوار بڑھتی ہے‘ بلکہ یہ صرف ایک گھنائونا کھیل ہے جس میں ایسی اسکیموں کے چلانے والے‘ عام خریداروں کو ترغیب اور تحریص کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔

مثال سے وضاحت

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ‘ مثلاً AMWAY اسکیم کے تحت پہلے خریدار کو ایک کِٹ(kit) سپلائی کی جاتی ہے جس کی قیمت لگ بھگ ۵ ہزار روپے ہوتی ہے‘ جس میں صرف آدھی رقم کے بقدر بعض مصنوعات ہوتی ہیں۔ بقیہ رقم میں ایک معتدبہ رقم بطور رجسٹریشن فیس اور دوسرے مصارف کے لیے طلب کی جاتی ہے۔ اس طرح پہلے خریدارکے ذریعے ہر دوسرے خریدار (تقسیم کار) اور اس کے ذریعے دوسرے تقسیم کاروں کو یہ کِٹ بھیجی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رجسٹریشن فیس براہِ راست اسکیم کے چلانے والے کی جیب میں جاتی ہے۔ اس طرح promoters کی جیب میں لاکھوں کی رقم بطور رجسٹریشن فیس اور دوسرے اخراجات کی مد میں جاتی ہے‘ جس کا نہ حساب کتاب ہے اور نہ جواز۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کٹ میں جو مصنوعات ارسال کی جاتی ہیں‘ ان میںاکثر ایسی ہیں جو عام خریدار استعمال نہیں کرتے‘ مثلاً  car wash وغیرہ‘ اور ان کے مماثل مصنوعات آدھی سے کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ اس طرح اس اسکیم کو چلانے والی کمپنیاں اپنے خریداروں کا دوہرا استحصال کرتی ہیں۔ مصنوعات دوگنی اور سہ گنی قیمت پر سپلائی کرتی ہیں اور ان مصنوعات کو خریدنے کے لیے تقسیم کار کو مجبور کرتی ہیں کہ اگر تمھیں غیرمعمولی منافع حاصل کرنا ہے تو ضروری اور غیرضروری مصنوعات خریدو۔ دوسرے‘ ہر ایک بلاجواز کِٹ کی قیمت میں تقریباً۳۰‘ ۴۰ فی صد بطور رجسٹریشن اور دوسرے مصارف کے لیے حاصل کرتی ہیں۔

(۶)  ایسی اسکیموں میں ہر لیول کے تقسیم کار کو منافع دوسرے مراحل کے تقسیم کار کی رقم سے منہا کر کے بطور کمیشن دیا جاتا ہے جو AMWAY کی اسکیم میں دو فی صد سے شروع ہوتا ہے ‘ اور تدریجاً ۲۱ فی صد تک بڑھتا ہے۔ اس طرح بعد میں شامل ہونے والے تقسیم کار کی رقم سے پہلے لیول کے خریدار کو منافع دیا جاتا ہے‘ جس کا بازار میں مصنوعات کی پیداوار یا خرید و فروخت سے کوئی تعلق نہیںہے۔یہ ایک سے لوٹ کر دوسری جگہ پہنچانے کا عمل ہے۔

اس طرح چند مراحل کے تقسیم کار نفع کماتے ہیں اور بعد میں آنے والے اس سے بتدریج محروم کر دیے جاتے ہیں جیسا کہ AMWAY جیسی تمام MLM اسکیموں کا حال ہے۔

اسکیم کے چلانے والے تمام تقسیم کاروں کو غیرمعمولی منافع کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر بعد میں آنے والے  (Down Liners) نہایت ہوشیاری سے نہ صرف یہ کہ نفع سے محروم    کر دیے جاتے ہیں بلکہ پہلے چند مرحلوں میں شامل ہونے والوں (Top Levels) کو بعد میں آنے والوں کی ادا کردہ رقم سے ایک خاص تناسب سے رقم کاٹ کر بطور منافع ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اس طرح بعد میں آنے والوں کے لیے کشش پیدا کی جائے کہ جب Top Levels کے لوگوں کو اتنی سرعت سے منافع ملے گا تو ہم کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہیے۔ یہ حقیقت کمپنی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نفع سب کو نہیں مل سکتا بلکہ بعد میں آنے والے بیشتر لوگ اپنی رقم بھی کھو دیں گے۔ مگر یہ بات عمداً تقسیم کاروں سے چھپائی جاتی ہے۔

صریحاً فریب دہی اور دھوکا

غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ فریب کا یہ کاروبار عمداً اور ارادے سے (by design) کیا جاتا ہے۔ یہ بات کمپنی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر پیداوار کی طلب کی ایک انتہا ہوتی ہے‘ جو مارکیٹ کا لازمہ ہے۔ مگر جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا ہے کہ تقسیم کاروں کو منافع کمانے کے بخار میں مبتلا کر کے ان کو اندھا کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے تقسیم کار (Down Liners) ایک حد کے بعد نہیں مل سکتے۔ اس لیے منافع پہلے مرحلوں کے بعد ملنا ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ Pyramid اسکیم کا لازمی مقدر انہدام (collapse) ہے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں یہ اسکیم نہایت کامیابی سے چل رہی ہے اور ہندستان میں بھی چل سکتی ہے‘ مگر یہ غلط ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اس طرح کی اسکیموں کے فریب پر مبنی ہونے کے سلسلے میں تنبیہہ کی گئی ہے‘ مثلاً امریکہ کی بہت سی ریاستوں کے ریاستی قوانین Pyramiding کو یا تو ممنوع قرار دیتے ہیں‘ یا ان کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ بعض ریاستوں کے قوانین میں یہ‘ یا اس طرح کی مماثل عبارتیں ملتی ہیں: MLM پلان عموماً یہ وعدہ کرتے ہیں کہ نئے تقسیم کاروں کی بھرتی کے لیے دو یا اس سے زیادہ مرحلوں کے لیے جنھیں وہ تقسیم کار کے Down Liner کے نام سے موسوم کرتے ہیں‘ نفع ملتا ہے۔ اگر کسی اسکیم میں اس طرح کے کام پر کمیشن ملتا ہے تو خبردار ہوجانا چاہیے۔ اس عمل کو Pyramiding کہتے ہیں جس کو بہت سی ریاستوں میں قانوناً ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے منصوبے جن میں نئے تقسیم کار بھرتی کرنے پر کمیشن دیا جاتا ہے لازماً منہدم ہوجاتے ہیں‘ جب کہ نئے  تقسیم کار نہیں ملتے‘ اور جب کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے تو اکثر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں بجز ان لوگوں کے جو اُوپر ہوتے ہیں (Upliners)۔ ریاست ہاے متحدہ کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے اس سلسلے میں صرف چند ہدایات دی ہیں جو اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ نہایت ہوشیاری سے اس طرح کی اسکیم میں فریب اور دھوکا عمل پیرا ہے۔ اگرچہ وہاں کے قوانین نے اسے ممنوع نہیں قرار دیا ہے لیکن اس امر کے واضح اشارے دیے ہیں کہ یہ سحر اور فریب کاری ایک نہایت شاطرانہ کاروبار ہے۔

ان سب کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مصنوعات کی تھوک یا خوردہ فروخت ایک چیز ہے‘ اور تقسیم کاروں کو ترغیب دے کر کسی کمپنی کی ایک اسکیم کا ممبربنانا دوسری بات۔ اگر AMWAY یا کسی دوسری کمپنی کو اپنی مصنوعات فروخت کرنا ہیں‘ اور وہ واقعی اتنی معیاری ہیں اور ضرورت کو پورا کرتی ہیں تو وہ انھیں براہِ راست مارکیٹ میں کیوں نہیں لاتی۔ اور دوسری معروف کمپنیوں کی طرح اپنے سیل ایجنٹ سے کیوں نہیں کہتی کہ وہ اس کی مصنوعات کو بازار میں فروخت کریں اور اس طرح کمیشن حاصل کریں۔ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ اس طرح وہ مصنوعات پر معقول منافع حاصل کرنے کے بجاے تقسیم کاروں سے رجسٹریشن فیس کے ذریعے غیرمعقول منافع حاصل کرتی ہیں‘ اور اپنی ایسی مصنوعات پر فائدہ حاصل کرتی ہیں جس میں بیشتر ایسی ہیں جو کمپٹیشن کے بازار میں فروخت نہیں ہوسکتیں۔ جیساکہ آپ AMWAY کی کسی کِٹ کو کھول کر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہر مسلمان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اسکیم زر کے ذریعے زر (Money For Money) کا کاروبار ہے‘ جو اسلام کے نزدیک حرام ہے۔ سود کے حرام کرنے کے بنیادی دلائل میں سے یہ دلیل ہے کہ سود فی الواقع زر سے زر کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس میں نہ پیداواری عمل شامل ہے اور نہ سچی محنتہی۔ جس کو اسکیم کے لوگ محنت اور جدوجہد کہتے ہیں وہ محض ترغیب‘ تسحیر‘ اور طلاقت لسانی (چرب زبانی) کا عمل ہے جس کے ذریعے منافع کے خواہاں افراد اور روزی کے متلاشی لوگ بلاسوچے سمجھے اس میں پھنس جاتے ہیں۔