’’خارجہ پالیسی کی حالیہ ناکامیاں اور قلابازیاں‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) عوام و ارکانِ حکومت کے لیے چشم کشا ہیں۔ مشرف صاحب کی قیادت میں پالیسیوں میں یوٹرن اور میڈیا کے زور سے عوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کرنا‘ اسلام سے بے وفائی‘ جمہوری اقدار کی پامالی اور قومی اور بین الاقوامی تناظر میں اُمت مسلمہ کے مفادات سے بے بہرہ ہونے کی علامت ہے۔ ترجمان القرآن کا ان حقائق سے آگاہ کرنا ’’امامِ برحق‘‘ ہونے کی علامت ہے۔
’’خارجہ پالیسی کا جائزہ ‘‘(اگست ۲۰۰۳ئ) تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ۹ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے پاکستان ہر طرح کی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اب آہستہ آہستہ یہ پابندیاں ختم ہو رہی ہیں۔ اسلحے کے فالتو پرزہ جات جن کی پاکستان کو اشد ضرورت تھی‘ اب ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ کیا یورپی یونین نے ٹیکسٹائل کوٹہ نہیں بڑھایا؟ امریکہ نے بھی برآمدات کے سلسلے میں رعائتیں دی ہیں۔ کیایہ خارجہ پالیسی کے نتیجے میں مراعات نہیں ہیں؟
’’اُردن کے انتخابات میں اسلامک فرنٹ کی کامیابی‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) بلاشبہہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قبل مراکش‘یمن‘ مصر‘ لبنان‘ بنگلہ دیش‘ کویت‘ انڈونیشیا‘ملائیشیا میںجزوی کامیابیاں حاصل ہوچکی ہیں۔ تحریکِ اسلامی ایران اور ترکی میں اپنی حکومتیں بنا چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں شریکِ اقتدار ہے۔ ملائیشیا کے دو صوبوں اور پاکستان کے دو صوبوں میں ان کی حکومتیں ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ تحریکِ اسلامی جمہوری راستے سے اقتدار میں نہیں آسکتی۔ اب یہ طعنہ کھوکھلا اور بودا ہو چکا ہے۔ اگر تحریکِ اسلامی اسی طرح جمہوری راستے پر کام کرتی رہی تو ایک دن آئے گا کہ عالمی اسلامی انقلاب کی منزل بھی سر ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ!
’’نسوانیت زدہ مغرب‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) نظر سے گزرا۔ مغرب کے معاشرتی انحطاط اور فکری انتشار کا بہت عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ گھرکی گواہی ہے۔ مغرب کا بے خدا معاشرہ توازن سے محروم ہے۔ عورت کے بارے میں نقطۂ نظر کبھی ایک انتہا پر ہے اور کبھی دوسری انتہا پر۔ اسلام کی معتدل فکر اور اسلام میں عورت کا جو مقام ہے‘ غالباً مغرب اس سے تعصب برت رہا ہے یا پھر اس پر غور ہی نہیں کیا گیا۔مغرب کے دل دادہ لوگوں کے لیے یہ تحریر آئینہ ہے۔
’’قازقستان کی صورت حال‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) میں ظالم حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی اور مسلمانوں پر روا رکھا جانے والا ظلم و جبر رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ مسلم ہونے اور اسلام قبول کرنے کی اس قدر سزا کہ گردن زدنی کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ یہ حال صرف قازق حکمرانوں کا ہی نہیں‘ اس میں غیرمسلم حکمران اورمسلمان بادشاہ اور برسرِاقتدار طبقہ‘ سب یکساں ہیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔اس سے قبل بھی ہر رسول اور نبی اور ان پر ایمان لانے والوں کے ساتھ ایسا بلکہ اس سے بڑھ کر بُرا سلوک کیا گیا ہے۔ مگر یہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں اور حکمرانوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ حق کی قوتوں کو ختم کر دیں گے۔ ظلم سے کبھی بھی حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ ظلم کی نائو ڈوب کر رہتی ہے۔ ظالم حکمرانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کہیں وہ خود ہی مقامِ عبرت نہ بن جائیں!
’’زکوٰۃ کا نفاذ: چند قابل غور پہلو‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) میں مشینوں‘ آلات اور اس طرح کی دوسری اشیا پر زکوٰۃ کے حوالے سے نقطۂ نظر قابلِ توجہ ہے۔ پاکستان میںعام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان اشیا پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے‘ اس لیے اگر کسی اہل علم کے اس رائے کے حق میں دلائل ترجمان میں شائع ہوں توشاید قارئین کے لیے مفید ہو۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اہم موضوع ہے۔
دل چاہتا ہے کہ ترجمان القرآن میں پروف کی ایک بھی غلطی نہ ہو۔ اس ماہ (اگست ۲۰۳ئ) دو تین نظر آئیں‘ مثلاً: ’نورخدا ‘کے بجاے، ’نورحق‘ (ص ۱۷)۔ شعر کی غلطی خصوصی تکلیف دیتی ہے۔