عراق میں امریکی اور اتحادی افواج (بلکہ اقوامِ متحدہ کے مرکزی دفتر تک پربھی) حملوں کے ساتھ ساتھ‘ افغانستان سے بھی مختلف علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور بعض علاقوں پر قبضے کی اطلاعات مسلسل آرہی ہیں۔ عراق کے حوالے سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے دستوں اور خصوصاً ان کے سربراہ کو اپنی حرام موت کا منظر پہلے سے ہی دیکھ لینا چاہیے لیکن افغانستان کے حوالے سے‘ خود گھرکے ایک بھیدی کے معروضانہ تجزیے سے اخذ کردہ مشاہدات پر ایک نظر شاید بند آنکھوں والوں کی آنکھیں بھی کھول دے۔ ان مشاہدات کی سند کے لیے برطانوی جریدے اکانومسٹ کا نام کافی ہے۔ شمارہ ۱۶ اگست ۲۰۰۳ء کے اس تجزیے کا آغاز عراق سے ہوتا ہے۔ ’’افغانستان‘ عراق پر حملے کی ریہرسل نہیں تھا… یہ غریب ہے‘ اس کے پاس تیل نہیں‘‘ (اس لیے اس تحریر کا آغاز بھی عراق سے کیا گیا ہے!)۔
افغانستان کو تباہ کرنے اور فتح کرنے کے بعد اصل کام تعمیرنو کا تھا۔ لیکن تعمیرنو تو دُور کی بات ہے‘ اصل مسئلہ تو امن و امان برقرار رکھنا اور کرزئی حکومت کے لیے اپنا حکم نافذ کرنا ہوگیا ہے (طالبان کے دور میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن دنیا کو کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔اب کس حال کو پہنچا دیا گیا ہے؟)۔
امریکہ کی قیادت میں ۱۲ ہزار اتحادی افواج کے ساتھ نیٹو کے زیراہتمام ترکی‘ جرمنی‘ برطانیہ اور ہالینڈ کی ۵ ہزار امن فوج (ISAF) اپنے فرائض ادا کر رہی ہے لیکن قیمت بھی ادا کررہی ہے۔ جون میں چار جرمن فوجی ایک حملے میں ہلاک ہوگئے‘ اسپین کا امن دستہ گھر واپس لے جانے والا جہاز گرگیا اور ۷۵ ہلاک ہوگئے (قیمت غالباً اس سے بہت زیادہ ادا کی جا رہی ہے)۔ لیکن جہاں امن کی اصل ضرورت ہے‘ یعنی کابل سے باہر‘ وہاں جانے میں امن دستوں نے ابھی کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ تعمیرنو کی چند صوبائی ٹیمیں (PRTS) بنائی گئی ہیں لیکن مزارشریف میں ۷۲ افراد کی ایک ٹیم کے سپرد اسکاٹ لینڈ کے برابر علاقہ ہے۔ اس سے ان کی ممکنہ کارکردگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی افواج جنوبی افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمرکا کوئی پتا نہیں‘ لیکن جنوب کا علاقہ کم نہیں‘ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی کارروائیوں کے نتیجے میں چند افراد ہاتھ آتے ہیں جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ عام دیہاتی بھی ہو سکتے ہیں (یہ ا کانومسٹ کے الفاظ ہیں)۔ انھیں تفتیش کے لیے بگرام کے ہوائی اڈے لے جایا جاتا ہے۔ وہاں کئی افراد مرچکے ہیں۔ اس سب پر امریکہ ۱۰ ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔
پُرامید لوگ کہتے ہیں: افغانستان گذشتہ ۲۴ سال میں اتنا مستحکم کبھی نہ تھا۔ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں۔ قومی حکومت کی بنیاد پڑ چکی ہے‘ دستور مرتب کیا جا رہا ہے‘ آیندہ سال خواتین کے ووٹ کے ساتھ انتخابات متوقع ہیں۔ معاشی ترقی ۲۸ فی صد رہی۔ ۲۰لاکھ مہاجرین جرمن واپس آئے ہیں۔
ناامید لوگ --- جو اپنے کو حقیقت پسند تصور کرتے ہیں --- کہتے ہیں: ایک تہائی ملک خطرناک علاقہ ہے جہاں امدادی کارکنان تک نہیں جاتے۔ کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں طالبان لیڈر کھلے عام اسلحہ تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان خود اپنے پڑوسی کو غیرمستحکم کر رہا ہے۔ کئی دفعہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ تعمیرنو کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے‘ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑی سڑکوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ کابل قندھار شاہراہ جس کے لیے صدربش نے ذاتی طور پر‘ اختتامِ سال کا ہدف دیا ہے‘ انجینیرسرگوشی کرتے ہیں کہ پپڑی جما کر بنائی جا رہی ہے جو دو تین سردیاں بھی برداشت نہ کر سکے گی۔
امریکہ کا آدمی ("boy") کرزئی تنہا اور بے اثر ہے۔ اصل طاقت صوبوں کے وارلارڈز کے پاس ہے۔ دستور میں الٹ پھیر ہو جائے گا۔ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ عورتیں بے اثر رہیں گی۔ معیشت میں ضرور بہتری ہوئی ہے لیکن صفر سے آغاز ہو تو ذرا سی بھی نظرآتی ہے۔اس وقت یہ ۱۹۷۸ء سے نصف ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی انسانی المیہ نہیں ہے‘ حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے۔ اکثریت کو طبی سہولت میسر نہیں۔ زچہ و بچہ کی ہلاکت کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ یہاں ہے۔ ہیضہ اور وبائی امراض بڑھ رہے ہیں۔ جس ساڑھے ۴ ارب ڈالر امداد کا وعدہ تھا‘ اس میں سے صرف ایک ارب ڈالر ملی ہے۔ اس کا بھی بیش تر حصہ تنخواہوں اور غیرملکیوں کی چمکتی دمکتی کاروں میں چلا جاتا ہے۔
ان نکات پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری رکھی جا سکتی ہے اور کابل میں بیش تر لوگ یہی کرتے ہیں۔ لیکن دستور اور معیشت کیسے بھی ہوں‘ دو عناصر ایسے ہیں جو سب کچھ تباہ کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے پانی کا مسئلہ ہے۔ ۸۰ فی صد افغان کاشت کاری پر زندگی گزارتے ہیں لیکن افغانستان میں پانی اور قابلِ کاشت زمین نہیں ہے۔ ۷۰ کے عشرے میں صرف ۵ فی صد زمین کو پانی نصیب تھا۔ جنگ نے اسے نصف کر دیا۔ پھر سات سال کا خشک سالی کا دور آیا۔ پانی کی سطح بے حد نیچی ہوچکی ہے۔ مویشی مرگئے ہیں۔ فصل ہے ہی نہیں۔ پہاڑوں میں پانی کے ذخائر بنانا اورآب پاشی کا نظام تعمیر کرنا بہت مہنگے منصوبے ہیں۔
دوسرا مسئلہ منشیات کا ہے۔ دنیا کی تین چوتھائی اور یورپ کی ساری افیون افغانستان سے آتی ہے۔ پشتون گلہ بان اب اس تجارت میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ منشیات‘ خشک سالی اور عدمِ استحکام ایک دوسرے کو پروش کرتے ہیں۔ افیون پیدا کرنے والے پانچ میں سے تین بڑے صوبے--- ہلمند‘ ارزگان‘ قندھار‘ زیادہ غیرمستحکم اور خشک سالی کا شکار ہیں۔
صرف ایک صوبے غور کی مثال لیں۔ یہ کابل سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔ غور کے ۳ ہزار ملائوں میں سے بیش تر اَن پڑھ ہیں۔ یہاں صرف پانچ ڈاکٹر ہیں۔ ساڑھے ۷لاکھ آبادی ‘ بیش تر نئے واپس آنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مویشی مرچکے ہیں یا بیچے جا چکے ہیں۔ ہر شخص مقروض ہے۔ لوگوں نے اپنی بیٹیاں تک فروخت کی ہیں۔ کچھ نے افیون کاشت کی ہے لیکن برف باری نے فصل تباہ کر دی۔ اب اگلی فصل کا انتظار ہے اور قرض بڑھ رہا ہے۔
پورے صوبے میں صرف ۵۰ عورتیں لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں اب بھی مشکلات ہیں۔ قرض کی ادایگی‘ منافع یا قتل کے جھگڑوں کے تصفیے میں لڑکیوں کا مالِ منقولہ کی طرح لین دین کیا جاتا ہے۔
اس وقت افغانستان کی ایک تہائی معیشت افیون پر منحصرہے۔ گذشتہ سال ایک ارب ۲۰کروڑ ڈالر اس سے ملے۔ جب یہ ایڈنبرا اور پراگ میں گلوکوز اور اینٹ کے برادے سے مل کر رگوں میں داخل کی جاتی ہے‘ اس کی قیمت ۲۵ ارب ڈالر ہوچکی ہوتی ہے۔ افیون کی کاشت کو اب باقاعدہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے (کون یاد دلائے کہ ملاعمر نے طالبان کے دور میں اسے ختم کر دیا تھا)۔ جمہوریت بھی انھی نودولتیے کمانڈروں کا ہتھیار ہے جن کے پاس افیون کی رقم ہے۔ وہ ابھی سے اگلے سال کے انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ہم اس نقد رقم کا مقابلہ کس طرح کریں جو ان لوگوں کے پاس ہے۔
اکانومسٹ آخر میں لکھتا ہے کہ ’’جنھوں نے افغانستان کی تباہی میں حصہ لیا‘ ان کی کچھ ذمہ داری ہے کہ اسے واپس ٹھیک کر دیں‘‘۔
کاش! ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔