جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ: ’’دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی روشن چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اصولی طور پر ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ: ’’پاکستان کو ایک ماڈرن ترقی پسند معتدل اسلامی ریاست بنانا چاہیے‘‘۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ اسلام کے جدید تصور اور ماڈرن اسلامی ریاست کے نام پر کمال اتاترک اور متعدد حکمرانوں نے جو گل کھلائے ہیں اور پرویز مشرف نے جس طرح انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے‘ اس سے یہ سوال ایک گہری تشویش میں بدل جاتا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام دورئہ امریکہ سے واپسی کے فوراً بعد ان کے دورئہ تیونس نے کیا ہے جہاں انھوں نے تیونس کے ساتھ یہ انوکھا معاہدہ کیا کہ ’’دونوں مسلم ممالک مل کر اسلام کا جدید ماڈل پیش کریں گے‘‘۔ اس سے پہلے اس نوعیت کا معاہدہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا ہوگا۔
تیونس کے حالات سے بے خبر پاکستانیوں کے لیے یہ شاید کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو‘ لیکن جو شخص تیونس اور اس کے ماڈرن اسلام کا حال جانتا ہے‘ اس کے لیے یہ معاہدہ کسی خوف ناک المیے سے کم نہیں کیونکہ سابق صدر بورقیبہ اور حالیہ صدر بن علی نے جدید اسلام کے نام پر تمام دینی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ روزہ تک ساقط کر دیا‘ نماز پڑھنا دہشت گردوں کی علامت قرار دے دیا گیا‘ عریانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئی‘ ساحل سمندر پر مغربی ممالک جیسے نظارے عام ہوگئے۔ خواتین کے مساویانہ حقوق کے نام پر قرآن کریم کے وراثتی احکام کو منسوخ کرتے ہوئے ہر خاتون کو وراثت میں مرد کے مساوی حصہ دینے کا اعلان کیا‘ شراب جیسی اُم الخبائث کی ہر ممکنہ حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک طویل فہرست ہے جو ماڈرن اسلام کے نام پر مسلط کی گئی۔
’’جدید اسلام‘‘ پیش کرنے کی یہ کوئی پہلی یا آخری کوشش نہیں ہے۔ گذشتہ صدی میں ترکی اور مصر سمیت مسلم ممالک کے کئی حکمران یہ جنون پال چکے ہیں۔ اب بھی امریکی سائے تلے پلنے کی خواہش رکھنے والے حکمران اسی کینسرکا شکار ہیں۔ فلسطین میں تحریک مزاحمت ختم کرنے اور صہیونی ریاست سے دوستی کروانے کے لیے گذشتہ پوری دہائی ان کوششوں میں صرف ہوگئی کہ جہاد سے متعلقہ تمام قرآنی آیات‘ احادیث رسولؐ اور مضامین و تحریروں کو تمام تعلیمی نصابوں سے خارج کر دیا جائے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اب اسی راستے پر مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایک تیونسی ’’اسکالر‘‘ العفیف الاخضرنے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے ذرا دل تھام کر اس کا حال بھی سن لیں۔
۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اس نے کہا کہ ’’عالم اسلام میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا اصل سبب یہ ہے کہ مسلمان اب بھی زمانہ قدیم کی اسی فقہ کو درست سمجھتے ہیں جو غیرمسلموں کی تقلید کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔ ہماری دینی نرگسیت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اسلام آنے کے بعد تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فقہ اسلامی کی ڈکشنری سے لفظ ’’کفار‘‘ خارج کر دیا جائے‘‘۔الاخضر نے اس بات پر فخر کرتے ہوئے کہ ۱۹۵۶ء میں اسی کی تحریک پر جامعہ الزیتونہ بند کی گئی تھی۔ تجویز دی کہ ’’تمام مسلم دارالحکومت اپنے ہاں تیونس کے تجربات پر عمل کریں‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’تمام عرب ممالک کو زندگی کے ہر شعبے میں انسانی حقوق کی تعلیم دینا چاہیے جیسا کہ تیونس میں ہو رہا ہے تاکہ اس اسلامی شعور سے چھٹکارا پایا جا سکے جو حلال اور حرام کے چکروں میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔ اس نے مغربی دنیا کو عالمِ اسلام میں براہِ راست مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ’’دینی دہشت گردی کا خطرہ مغرب تک جاپہنچنے کے بعد اب یہ آپ کی اپنی ضرورت بھی ہے کہ آپ دینی تعلیم میں اصلاحات کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں‘‘۔
ایک اور نام نہاد مسلم دانش ور ڈاکٹر حیدر ابراہیم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مسلمانوں کی پستی کی وجہ ان کا اس اختلاف میں پڑے رہنا ہے کہ کیا نص ناقابلِ تبدیلی ہے یا اسے زندگی کے معاملات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے… مسلمان زندگی کے متعلق سوچنے سے زیادہ آخرت کے متعلق سوچتے ہیں‘‘۔ پھر مزید کھل کر کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس طرح کی آیاتِ قرآنی کے سحر سے نکل آنا چاہیے کہ ’’کنتم خیر اُمۃ اخرجت للناس… تم بہترین اُمت ہو‘ لوگوں کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘ کیونکہ اس آیت سے (نعوذباللہ) تکبر اور تعلّی پیدا ہوتی ہے۔
اسی کانفرنس میں ایک اور عرب دانش ور اڈوینس نے ان دونوں کی باتوں کو اپنی مسیحیت کے لبادے میں زیادہ وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس نے کہا: ’’معلوم نہیں ہم یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ کیا واقعی ثقافتی تجدید اور صراحت سے بات کرنے کے لیے یا اب بھی ممنوعات (taboos) پر سکوت اختیار کرنے کے لیے؟ تم لوگ بصراحت کیوں نہیں کہتے کہ ترقی کی راہ میں سب سے پہلی رکاوٹ وحیِ الٰہی اور اسلام ہے۔ اس بات کو پوری جرأت اور صراحت سے بیان کرنا ہوگا ورنہ ترقی نام کی کوئی چیز وجود میں نہیں آسکے گی‘‘۔
بدقسمتی سے اڈوینس نے یہ خرافات سرزمین ازھر پر مصری وزیرثقافت کی طرف سے بلائی گئی ایک کانفرنس میں کی۔ اس کے تمام شرکا اسی قبیل کے تھے‘ اور یہ سب کچھ تجدید کے نام پر ہو رہا تھا اور امریکی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہو رہا تھا۔ امریکی پیمانے کے مطابق یہ سب اقدامات ماڈرن اسلام کی ضروری بنیادیں ہیں۔ ان اقدامات اور دردیدہ دہنی کے بعد ہی کوئی شخص معتدل اور جدت پسند ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے سرگرم متحرک یہودی ڈینئل پائپس سے پوچھا گیا کہ ’’کیا عربوں اور مسلمانوں میں بھی کوئی معتدل افراد پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے شدت سے نفی کرتے ہوئے کہا: ہرگز نہیں۔ پھر کہا: ہاں البتہ سلمان رشدی اور تیونسی صدر زین العابدین بن علی اعتدال پسند شخصیات ہیں‘‘۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۸۶‘ جنوری ۲۶- ۲۰۰۲ئ)
گذشتہ ۳۰ سال میں جنرل پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران ہیں جو تیونس کے دورے پر گئے اور وہاں تاریخ کا یہ منفرد معاہدہ کر آئے۔اس معاہدے کے بعد خود تیونس کے عوام نے پاکستان اور اس کے حکمران کے بارے میں کیا تصور قائم کیا ہوگا‘ جنرل صاحب اور ان کے کسی ساتھی کو اس کی کوئی پرواہ نہ ہو۔ لیکن جنرل صاحب کے سامنے یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ تیونسی صدر حبیب بورقیبہ کی سالہا سال کی کوششوں اور بن علی کے سولہ سالہ اقتدار میں دین کے تمام سوتے خشک کر دینے کے منصوبوں کے باوجود ان دنوں تیونسی حکمران پریشان ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے خواتین میں حجاب کا اور مساجد میں نمازیوں کا تناسب اچانک کیوں بڑھ گیا ہے۔ ’’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ کے مصداق ماڈرن تیونس کے حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُور رکھنے کے لیے کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہوا میں مچھلیاں پالنا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب حقائق جنرل پرویز مشرف سے مخفی تھے یا یہ کہ انھی حقائق کی وجہ سے انھیں تیونس کے ساتھ جدید اسلا م متعارف کروانے کے لیے معاہدوں کے سفرپر بھیجا گیا اور کیا واقعی جنرل مشرف رشدی‘ بن علی کے ساتھ ایک تیسرے مسلمان کا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وقت بہت جلد ان سوالات کا جواب دینے والا ہے۔ لیکن خود جنرل صاحب خالق کائنات اور پاکستانی قوم کو کیا جواب دیں گے؟ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کی امین پاکستانی قوم کو؟