سید مودودیؒ ایک عظیم عالم تھے جنھوں نے جہاد اور اجتہاد کے درمیان گہرے تعلق کو پوری قوت استدلال سے بیان کیا۔ اسی حوالے سے عرب دنیا انھیں داعی اسلام‘ مفکرعصر‘ فقیہہ اُمت اور مجاہد اعظم کے القابات سے یاد کرتی ہے۔
عرب ممالک میں سید مودودیؒ کی آواز اس وقت پہنچی جب عرب کے بڑے بڑے اشاعتی مراکز نے بیروت‘ قاہرہ اور دمشق سے ان کی کتب شائع کرنا شروع کیں۔ مطالعے اور اثرپذیری کے اس دائرے میں اتنی وسعت آئی کہ پہلے تو سید مودودیؒ کو اسلامی احیا سے وابستہ تحریکی حلقوں نے سید قطبؒ اور حسن البنا ؒکی صف میں شامل کیا‘ لیکن بہت جلد ان کی فکری گہرائی‘ اجتہادی روح اور اسلامی تعلیمات پر تحقیقات میں اعلیٰ درجے کے رسوخ نے انھیں عرب اہلِ علم کی نظر میں حسن البنا شہیدؒ اورسید قطب شہیدؒ جیسے عظیم قائدین سے بھی فائق تر تسلیم کرلیا۔
ہم عرب دنیا کے آخری منطقے مراکش کے رہنے والے ہیں۔ جب سیدمودودی کی تحریریں ہم تک پہنچیں تو ان کے افکار اور ان کی آرا ہماری روح میں رچ بس گئیں۔ ہم نے ان میں ایمانی حرارت اور عملی قوت محسوس کی۔
مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں میٹرک کا طالب علم تھا تو تنظیم کے ذمہ داران نے ان کی کتاب دینیاتکا اجتماعی مطالعہ رکھا ‘اور اس کے فوراً بعد قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اجتماعی مطالعے کے نصاب میں رکھی۔ بعدازاں بالترتیب تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ حقوق الزوجین اور پھر خلافت و ملوکیتپڑھنے کو دیں۔
نصابی مطالعے کی یہ ترتیب‘ اور نشست میں ہونے والے مباحث میری اور میرے ہم عمر نوجوانوں کی ایک طرف تو پیاس بجھاتے اور دوسری جانب ہماری فکری پیاس کو خوب بڑھاتے۔ ہمارا جی چاہتا کاش! ہم اُردو جانتے اور ان کی ایک ایک کتاب کا ایک ایک ورق پڑھے بغیر دم نہ لیتے۔ اس مطالعے نے ہمیں سید مودودیؒ کی علمیت‘ ان کی زندگی کے کارنامے اور تصانیف کی اہمیت کو جاننے کا ایک شوق اور جذبہ دیا۔ ان کی تحریروں میں ہم نے اپنا یہ گوہر مقصود پالیا کہ عصرجدید کے بہت سارے سوالات کا ہمیں جواب کیسے دینا چاہیے؟
اس کے علاوہ ایک عجیب تجربہ ہوا کہ‘ مراکش جیسے دُور علاقے میں رہنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چلتا پھرتا محسوس کرنے لگے۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم اُن کے مسائل کا کرب محسوس کرتے ہیں‘ اُن کی خوشی ہماری خوشی ہے‘ اور ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔ ہم یہ تک بھول گئے کہ ہم مسلم دنیا کے دوسرے سرے پر رہنے والے ہیں۔ دین کے لیے مولانامودودیؒ سے محبت نے ہمارے ذہنوں سے جغرافیائی سرحدوں‘علاقائی فاصلوں اور تہذیب و ثقافت کے بعد کو نکال دیا۔ ہمارے دل کی دھڑکنوں نے تسلیم کیا کہ دین کی محبت سب سے زیادہ طاقت ور محبت ہے۔ ہم پکار اُٹھے کہ اُمت مسلمہ کا دکھ اور درد مشترک ہیں۔ عظیم شاعر شوقی کہتا ہے ع
ولٰکـن کلــنا فی الــھم شــرق
مولانا مودودی ؒکی فکر‘ جہاد زندگانی اور اصولی سیاست نے ہمیں بہت سے اسباق سے روشناس کرایا‘ مثال کے طور پر:
سید مودودیؒ نے ہمیں سکھایا کہ اسلامی نظریۂ حیات کے لیے صرف فارغ اوقات اور اضافی روپیہ پیسہ خرچ کرنا کافی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے مکمل یکسوئی اور اپنے اوقات و اموال کا بہترین حصہ لگانا چاہیے۔ اسی لیے خود انھوں نے سماجی اور معاشی مقام و مرتبے کے حصول کے بجاے دین کی خدمت کے لیے سب کچھ لگا کر بہترین مثال پیش فرمائی۔
سید مودودیؒ نے ہمیں بتایا کہ عصرحاضر میں صحافت ایک مؤثر ترین ذریعہ ابلاغ ہے۔ انھوں نے عنفوان شباب میں صحافت کے ذریعے دُور دُور تک پیغام پہنچانے اور غفلت میں پڑے انسانوں کو جگانے کا کام کیا۔
سید مودودیؒ نے ہمیں سکھایا کہ عقیدے اور نظریے کے مقابلے میں مشکلات و مصائب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ دین کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے وہ جیلوں میں گئے‘ بلکہ درست بات یہ ہے کہ جیلیں ان سے محبت کرنے لگیں۔ آزمایش کی یہ تمام منزلیں انھیں اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر مجبور نہ کرسکیں۔
سید مودودیؒ نے ہمیں تعلیم دی کہ وانذر عشیرتک الاقربین کی منطق کے تحت ان پر لازم ہے کہ پہلے اپنے گردوپیش اور علاقے کو دعوت دی جائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ اپنے گردوپیش کے لوگوں کے سوالوں اور خطوط کا جواب دینے میں کسی قسم کی سُست روی کا شکار نہیں ہوئے اور اپنے شب و روز کی محنت سے ان کے مسائل حل اور ان کے شبہات دُور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی لیے انھوں نے اُردو میں لکھنے کو ترجیح دی‘ حالانکہ وہ عربی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے یہ کام اہل ترجمہ پر چھوڑ دیا کہ اگر وہ ان کی تخلیقات کو موثر اور باوزن سمجھیں تو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرلیں اور پھر ایسا ہوا کہ زمانے نے اپنی طلب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تراجم کیے۔
سید مودودیؒ نے تحقیق کے لوگوں اور عمل کے لوگوں کی الگ الگ دنیا کا تصور ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے بڑی خوب صورتی سے تربیتی‘ تنظیمی اور پُرمشقت سیاسی کاموں کے ساتھ علمی و تحقیقی کام کو اکٹھاکر دیا۔ اس طرح علم کے ذخیرے اور عمل کی راہوں کو یکجائی سے لے کر چلنے کی شان دار روایت پیش کی۔
سید مودودیؒ نے ہمیں بہت پہلے یہ تعلیم دی تھی کہ جمہوریت کو صرف اس وجہ سے کفر قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ مغرب کی پیداوار ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اس کی روح شورائیت کے منافی نہیں ہے‘ اس لیے تحریک اسلامی کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کو اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے‘ اور اسے عام لوگوں تک اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پہنچانا چاہیے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے موجودہ دور کا اہم وسیلہ سمجھ کر اس سے کام لینا اور اسے آزمانا چاہیے۔ اس مقولے پر عمل کیا جائے کہ ’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘ یعنی بنیادی طور پر تمام چیزیں مباح ہیں‘ جب تک کہ حُرمت کا صریح حکم نہ ہو۔ افسوس کہ اسلامی تحریکوں نے نصف صدی اس بحث میں ضائع کر دی کہ جمہوریت حلال ہے یا حرام۔
سید مودودیؒ نے ہمیں تاکیداً یہ بھی سمجھایا کہ دینی تحریکوں اور اسلامی شخصیات کی مخالفت کے جواب میں الجھ کر ہم دشمنوں کا مقصد ہی پورا کریں گے۔ اس لیے دینی طبقے میں موجود اپنے مخالفین کا جواب دینے کے بجاے ان کی سلامتی طبع کی دعا کرنی چاہیے۔
سید مودودیؒ نے یہ درس بھی دیا کہ جامد تقلیدی رجحان پر تنقید‘ مغرب کی تباہ کن فکر پر تنقید سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی سمجھایا کہ اسلامی تحریک کے قائد کو تنظیمی یا سیاسی چوٹی پر چمکنے کی فکر چھوڑ کر مقصد اور ہدف کو اولیت دینا چاہیے۔
سید مودودیؒ نے ہمیں بہت کچھ سکھایا‘ بہت کچھ بتایا اور بہت کچھ کرنے کا اسلوب راسخ کیا۔ یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے کہ امام مودودیؒ عالمِ عرب کی اسلامی فکر اور تحریکوں پر مشتمل اجتماعیت پر اثرانداز ہوئے۔ درحقیقت آپ کی عمدہ فکر ‘ موثر جدوجہد اور بے ریا شخصیت کی وجہ سے آپ کی دعوت پر مشتمل صداے بازگشت دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں سنی جاسکتی ہے۔ اس بیان میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بڑے بڑے معاصر عرب مفکرین کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر سید مودودیؒ کی فکر نے گہرے اثرات ثبت کیے۔ عرب دنیا میں یہ فکر ان کی کتب کے ذریعے پہنچی ‘جنھیں پڑھ کر نوجوانوں میں سید مودودیؒ سے وابستگی پیدا ہوئی۔ اسی وجہ سے سیکولر عرب دانش ور ان کے مخالف بن گئے‘ اور سید مودودیؒ اور سید قطبؒ کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ ان ناقدین میں عرب قومیت کے علم بردار پیش پیش تھے‘ جنھیں یہ بات گوارا نہیں تھی کہ کوئی غیرعرب عالم‘ علاقے اور زبان کے اختلاف کے باوجود عرب دنیا کے اتنے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لے کہ وہ سیکولرزم سے منہ موڑ کر اسلام سے وابستہ ہونے کے لیے میدان میں نکل آئیں۔
عرب دنیا میں سید مودودیؒ پر لکھنے والے حضرات میں چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے:
المتشار عبداللہ عقیل نے اپنی کتاب من اعلام الحرکۃ والدعوۃ الاسلامیۃ المعاصرہ کا ایک حصہ سید مودودیؒ کے لیے مختص کیا ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں: ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سیدمودودیؒ کی کتب عرب دنیا میں پہنچیں اور اخوان نے انھیں فوراً اپنے تربیتی نصاب کا حصہ بنالیا۔ عرب اہلِ قلم میں سید قطبؒ سب سے زیادہ متاثر ہوئے‘ جو سید مودودیؒ کو ’المسلم العظیم‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔
امام حسن البناؒ کے رفقا میں سے ایک فاضل عبدالحلیم ابوشقہ ہیں‘ جنھوں نے علمِ حدیث میں امام البانی مرحوم کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی کتاب تحریر المراۃ فی عصر الرسالۃ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کے تحقیقی مقالے خواطرحول ازمۃ الخلق المسلم المعاصرنے عرب دنیا میں ہلچل مچا دی تھی‘ جس میں انھوں نے اعتراف کرتے ہوئے سیدمودودیؒ کی تحریر تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔
اس وقت عالمِ عرب میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر محمدعمارہ‘ علمی دنیا کے قطبی ستارے ہیں۔ ڈاکٹر عمارہ نے اپنی کتاب ابوالاعلٰی المودودی والصحوۃ الاسلامیۃ میں بڑی تفصیل سے ان کی حیات و خدمات اور امکانات کا تذکرہ کیا ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستگی کے لیے ڈاکٹر عمارہ کو راستہ سید مودودیؒ ہی نے دکھایا تھا۔
عبدالمجید النجار‘ تیونس کے معروف دانش ور ہیں۔ انھیں اسلامی تحریک کے بہی خواہ اہلِ قلم میں بلند مقام حاصل ہے۔ وہ سید مودودیؒ کی ان تحریروں کے خاص طور پر مداح ہیں جن میں مغربی تہذیب کا عادلانہ محاکمہ کیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘ اسلام کا نظریۂ سیاسی‘ تجدید و احیاے دین کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ تحریریں اسلامی اقدار کی بازیافت اور مقلدانہ ذہنیت سے نجات کی ایسی کشادہ شاہراہ پر لے آتی ہیں کہ منزل‘ نشانِ منزل اور زادِ راہ آسانی سے مل جاتے ہیں۔
حمدجمال کے مقالے ابوالاعلٰی المودودی حیاتہٗ وفکرہ العقدی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ مقالہ داعی اسلام المودودی ؒکے بارے میں عرب دنیا میں پہلی جامع تحریر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سید مودودیؒ کے ہاں فکری اور تہذیبی مسائل حل کرنے کے لیے عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اسلام کے فروغ کو اصول کے ساتھ جوڑتے ہیں‘ عقیدے کو فکرکے مختلف پہلوئوں سے مربوط کرتے ہیں‘ خواہ اس کا تعلق معاملات‘ فرد‘ جماعت‘ معاشیات یا سیاسیات سے ہو۔ عقیدے پر بحث کے دوران وہ مسلمان فرد کو مسلم معاشرے سے جوڑ کر مدعا بیان کرتے ہیں۔
سید مودودیؒ درحقیقت ایک صاحب قلم ہی نہیں‘ بلکہ میدانِ عمل کے شہسوار‘ داعی اور مربی بھی ہیں۔ اس لیے ان کی علمی کتب کو عملی جدوجہد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی انقلابی قائد کی فکر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے‘ مذکورہ فرد کی عملی زندگی کی روشنی میں دیکھا جائے۔
انھوں نے زندگی بھر کسی مخالف سے مخالف فرد کے لیے تکلیف دہ الفاظ نہیں برتے اورنہ کفر کے فتوے دیے ہیں۔ لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ سید مودودیؒ کے عرب مخالفین ایک یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم خیالوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے ایمان کو ناقص قرار دیتے ہیں‘ حالانکہ انھوں نے کہیں بھی ایسی بات نہیں کہی۔
اللہ تعالیٰ سید مودودیؒؒ کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور اپنے برگزیدہ بندے کے تذکرے اور اعمال کو دائمی نیکیوں کا ذریعہ بنائے۔