مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ان خطوط میں سے بعض خطوط ان کے معاون خصوصی ملک غلام علی مرحوم کی طرف سے بھی ہیں۔ مولانا کے ایک قلمی تبصرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں ملک غلام علی مرحوم ‘مولانا مودودی کی تحریر کردہ عبارت کو من و عن ٹائپ کر کے اپنے دستخط سے ارسال کرتے تھے۔ البتہ بعض اوقات مولانا زبانی ہدایات دیتے تھے جنھیں ملک صاحب خط کے قالب میں ڈھال لیتے۔ چنانچہ ایسے خطوط کے آخر میں مولانا مودودیؒ کے دستخط سے یہ اضافہ ملتا ہے: ’’یہ جواب میری ہدایت کے مطابق ہے‘‘۔ (واللّٰہ اعلم)
(۱)
اچھرہ‘ لاہور
۲۴ ستمبر ‘ ۱۹۵۹ء
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ۱؎ سورہ روم کی آیت وما اتیتم من ربا… سے سب مفسرین نے عطایا اور ھدایا ہی مراد لیے ہیں۔ طبری نے جو اقوال اس کی تفسیر میں نقل کیے ہیں‘ ان سے تو بلاشبہہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں عطایا کا ذکر ہے‘ لیکن آلوسی نے اس کا ظاہر اور متبادر مفہوم جو پہلے نقل کیا ہے‘ وہ یہی ہے کہ ربا سے مراد وہی معروف اضافہ ہے‘ جسے شارع نے حرام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت بنوثقیف اور قریش کے بارے میں اتری ہے جو سودخوار تھے۔ اس کے بعد آلوسی نے دوسرا قول نقل کیا ہے کہ ۔۔۔۔ بھی اسی ترتیب سے دونوں قول بیان ہیں۔
جدید مترجمین میں سے شاہ عبدالحق اور عبداللہ یوسف علی کے علاوہ شاہ ولی اللہ صاحب‘ شاہ عبدالقادر صاحب اور شاہ رفیع الدین صاحب نے بھی ربا کا ترجمہ یہاں سود ہی کیا ہے۔ تاہم‘ اگر یہاں سود کا اضافہ محرمہ مراد نہ لیا جائے تب بھی وہ اشکالات پیدا نہیں ہوتے جو آپ نے بیان کیے ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم اپنا فاضل مال جو دوسروں کو اس غرض کے لیے عطا کرتے ہو‘ کہ وہ ان کے اموال میں مل کر بڑھوتری کا موجب ہو(اور اس اضافے میں سے تم کو بھی ملے) تو یہ درحقیقت اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت ان عطایا پر بھی حاوی ہے‘ جن سے مقصد یہ ہو کہ لینے والا پھلے پھولے اور پھر ہمیں یہ مع شے زائد واپس کرے‘ نیز یہ آیت سودی لین دین اور بالخصوص تجارتی سود پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔
اگر آپ اس تاویل کو سامنے رکھ کر اپنے اشکالات پر دوبارہ غور کریں گے تو وہ تینوں حل ہو جائیں گے اور کوئی الجھن باقی نہ رہے گی۔
یہ جواب میری ہدایات کے مطابق ہے۔ خاکسار
(۲)
جناب کا عنایت نامہ مولانا مودودی کو بروقت مل گیا تھا‘ مگر افسوس ہے کہ علالت اور بعض دیگر وجوہ کی بنا پر وہ رسید جلد نہ بھجوا سکے‘ جس کے لیے وہ آپ سے معذرت خواہ ہیں۔
موضوع متعلق کے سلسلے میں آپ نے جو حوالے احادیث کے ارسال فرمائے ہیں‘ ان کے لیے وہ آپ کے شکرگزار ہیں۔ وہ ان شاء اللہ خود ان روایات کو دیکھیں گے اور اس کے بعد حسب ضرورت آپ سے مراسلت کریں گے۔۲؎
(۳)
آپ نے اپنے مضمون میں بڑی مفید معلومات جمع کر دی ہیں۔ البتہ آخری حصہ ایک حد تک ترمیم طلب یا وضاحت طلب محسوس ہوتا ہے۔ اس حصے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چرچ کا سود کی حُرمت پر اصرار عملی زندگی کے حقائق سے ٹکراتا تھا‘ اس لیے آخرکار چرچ کو پسپا ہونا پڑا اور اس چیز کو روا ٹھیرانا پڑا جسے وہ بے جا طور پر ناروا قرار دے رہا تھا۔
دراصل چرچ کی دو کمزوریاں اس چیز کی موجب ہوئیں: ایک یہ کہ وہ کوئی ایسا متبادل مالی نظام نہ پیش کر سکا جو بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات ‘سود کے بغیر پوری کرنے کے قابل ہوتا۔ دوسرے یہ کہ چرچ کے ارباب اقتدار خود بہت بڑی دولت کے مالک و متصرف بنے ہوئے تھے۔ ان کا ضمیر کچھ کہتا تھا اور ان کا مفاد کچھ اور چاہتا تھا۔
اس خط کے ساتھ مضمون واپس نہیں کیا جا رہا‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے پتے کے بارے میں کچھ اشتباہ ہوگیا ہے۔آپ نے اپنا پورا اسم گرامی تحریر نہیں فرمایا۔ اگر مضمون کی ضرورت ہو تو خط ملنے پر مطلع فرما دیں‘ ارسال کر دیا جائے گا۔ مکمل پتا بھی تحریر فرمائیں۔
(۴)
’’انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں‘ جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کرکے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے انعامات کی شکل میں دیا جائے گا‘ اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ’انعامات‘ کن کو دیے جائیں‘ قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جائے گا۔ پہلے ہر وثیقہ دار کو سود کا لالچ دے کر اس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بجاے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’انعام‘ تیرے ہی نام نکل آئے‘ اس لیے قسمت آزمائی کر لے۔
یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے ‘ اور روح قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے‘ وہ اولاً ،اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرض کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً، جس کے نام پر ’’انعام‘‘نکلتا ہے ‘اسے دراصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا ہے۔ ثالثاً، جو بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد ’’انعام‘‘ ملے گا۔ اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت ‘سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ رابعاً، جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بصورت ’’انعام‘‘ دی جاتی ہے‘ اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام ’’انعامات‘‘نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا باقی تمام لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی‘ بلکہ صرف وہ سود‘ جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے‘ انھیں نہیں ملتا‘ بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے‘‘۔
(۵)
آپ کا خط بہت دنوں سے آیا رکھا تھا‘ اس کے ایک حصے کا جواب تو بھیج دیا گیا تھا‘ مگر بقیہ کا جواب دینے میں مصروفیت کی بنا پر غیرمعمولی تاخیر ہوگئی۔ اب ذرا فرصت پا کر مختصر جواب عرض کیا جا رہا ہے:
۱- کنز العمال کی منقولہ تین احادیث ایک اصول بیان کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حقیقی اور اہم دینی‘ اخلاقی‘ معاشی یا معاشرتی ضرورت کے لیے نیک نیتی کے ساتھ قرض لے‘ اور اچانک یا بحالت مجبوری‘ اس قرض کو ادا کیے بغیر مر جائے‘ جب کہ اس کی نیت اس قرض کو مار کھانے کی نہ تھی‘ اور وہ فی الواقع اسے ادا کرنے میں کوشاں یا اس کا خواہاں تھا‘ تو اللہ تعالیٰ اسے قرض مارنے والوں میں شامل نہ کرے گا‘ بلکہ اس کا قرض خود ادا کردے گا۔ یہ صرف ایک انفرادی اور استثنائی صورت حال سے متعلق ہے‘ اسے افراد یا اسٹیٹ بطور پالیسی کے اختیار نہیں کر سکتے۔
۲- نقد کی قیمت اُدھار کی قیمت سے مختلف رکھنے کی پوزیشن رعایت کی پوزیشن discount کی پوزیشن سے مختلف ہے۔ ایک بائع کو ہر وقت حق ہے کہ اپنے مال کی قیمت میں جس کے لیے جتنی چاہے کمی کر دے‘ یا لاگت سے بھی کم قیمت اس سے وصول کرے‘ یا اس کو مفت دے دے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بعض فقہا کے نزدیک تو نقد اور اُدھار قیمتوں کا فرق ہر حال میں ربا اور ممنوع ہے‘ لیکن اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ یہ ممانعت صرف اس صورت میں ہے‘ جب کہ یہ امر قطعی طور پر طے نہ ہو کہ یہ چیز نقد بیچی جا رہی ہے یا اُدھار پر۔ لیکن جب معاملے کا نقد یا اُدھار ہونا طے اور واضح ہو تو قیمتوں کا تفاوت ممنوع نہیں۔
۳- حدیث میں جس ولایت اور ذمہ داری کا ذکر ہے‘ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرت میں ولایت بھی مراد ہے‘ اور آنحضوؐر یا آپؐ کے جانشینوں کی طرف سے دنیوی ولایت بھی مراد ہے۔ اگر ایسے شخص کے وارث موجود نہ ہوں تو حکومت اس کا قرض ادا کرے گی اور اس کی میراث بھی لے گی۔
۴- قرعہ اندازی پر قمار کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے‘ جب کہ بہت سے لوگوں کا مال یا حق چھن کر اتفاقاً کسی ایک شخص کو پہنچ جاتا ہو۔
۵- اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک لمبی بحث درکار ہے کہ یہودی اور عیسائی مذہب میں سود کی حُرمت میں عملاً ناکامی کے کیا اسباب ہیں۔ آپ اس کے لیے ان دونوں گروہوں کی تاریخ پڑھیں۔ یہودیوں کی سوشل ہسٹری اور پاپائیت کی تاریخ دونوں ان اسباب کو عیاں کر دیتی ہیں۔
(۶)
۱- شارع علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ لاربا الا فی النسیہ۔مزیدبرآں مطلق ربوٰ اور ربوٰ الفضل کی دو الگ الگ اصطلاحات بھی استعمال فرمائی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ربوٰ اور ربوٰالفضل دونوں کی نوعیت میں مشابہت کے ساتھ ساتھ کچھ فرق ضرور ہے۔ یہ فرق اخاف علیکم الربوٰا کے ارشاد گرامی سے معلوم ہوتا ہے۔ اس ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ ربوٰالفضل عین ربا تو نہیں‘ لیکن اس سے سود کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے سود خواری کی چاٹ لگ جانے کا قوی خدشہ ہے۔ تفاضل سے سودخوارانہ ذہنیت پیدا ہونے کے خطرات کو اور ’سدباب ذریعہ‘ کے اصول پر اس کی حُرمت کو جب ایک یا دو مرتبہ بیان فرما دیا گیا تو اب ضروری نہیں تھا کہ ربوٰالفضلکے سارے معاملات میں اس علّت حُرمت کو دہرایا جاتا۔
۲- سوالات نمبر ۲ تا ۶ غالباً سود کے پرانے ایڈیشن کو پڑھ کر پیدا ہوتے ہیں۴؎۔ نئے ایڈیشن میں اس ساری بحث کو بدل کر ازسرنو تحریر کیا گیا ہے۔ اسے ملاحظہ فرمالیں۔
۳- مناجشہ اور استطالہ فی عرض المومن وغیرہ کو جس مفہوم میں ربا کہا گیا ہے‘ وہ بالکل ایک مجازی اور توسیعی مفہوم ہے۔ کتاب و سنت میں نرے قانونی دفعات بیان نہیں ہوئے اور نہ ہر مقام پر خالص اصطلاحی اور قانونی زبان استعمال کی گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے الفاظ ایسے ہیں‘ جو ایک جگہ اپنے مخصوص اور محدود اصطلاحی معانی میں مستعمل ہیں لیکن دوسری جگہ جہاں اسلوبِ بیان قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور دعوتی ہے‘ وہاں وہی الفاظ وسیع تر معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ صدقہ کو لیجیے۔ اپنے خاص مفہوم کے اعتبار سے اس سے مراد محض مالی صدقہ واجبہ یا صدقہ نافلہ ہے۔ لیکن اس کارخیر کی تہہ میں صدق و صفا کی جواصل اسپرٹ کارفرما ہے‘ اس کا وسیع ترین تصور ذہن نشین کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رہ گزر سے کنکر پتھر ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ خندہ پیشانی سے ملاقات بھی صدقہ ہے ‘ اہل و عیال کے لیے رزق حلال کی فراہمی بھی صدقہ ہے۔ حتیٰ کہ ایک شخص تنہا نماز پڑھ رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا: کون ہے جو اپنے اس بھائی پر صدقہ کرے؟مدعا یہ تھا کہ اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے تاکہ دونوں کی نماز باجماعت ہو جائے۔
زنا کو لیجیے؟ زنا کی قانونی تعریف جس پر دنیا میں حد جاری ہوتی ہے‘ وہ تو عین مباشرت فاحشہ ہے۔ لیکن حدیث میں آنکھوں اور کانوں کے زنا کا بھی ذکر ہے۔ شرک کو لیجیے‘ ایک تو جلی شرک ہے جس سے مراد اللہ کی ذات و صفات میں دوسروں کو شریک کرنا ہے‘ لیکن اس کے علاوہ شرک خفی کی بے شمار شکلیں ہیں‘ جو شارع نے بیان کی ہیں‘ حتیٰ کہ ریا کو بھی ’شرک اصغر‘ قرار دیا گیا ہے۔
ایک آدمی جیسے جیسے کتاب و سنت کے مطالعے میں وسعت پیدا کرتا جاتا ہے‘ وہ ایک طرف قانونی انداز کلام اور دوسری جانب تبلیغی اسلوبِ بیان سے روشناس ہوتا جاتا ہے‘ اور کسی اُلجھن یا التباس کا شکار ہونے کے بجاے اس کے ذہن پر اس حقیقت کا نقش ثبت ہوجاتا ہے کہ شریعت محض ہمارے ظاہر کو تابع قوانین نہیں بنانا چاہتی‘ بلکہ اخلاقی ہدایات کی وساطت سے ہمارے باطن کا تزکیہ اور تربیت بھی اس کے پیش نظر ہے۔
(۷)
(۱-۵) ان پانچ سوالات کا جواب اس سے پہلے خط میں دیا جا چکا ہے۔ امید ہے کہ وہ مل گیا ہوگا۔
(۶) اس سوال میں آپ نے جو روایات نقل کی ہیں‘ ان میں بعض نامکمل معلوم ہوتی ہیں (مثلاً الطعام بالطعام‘ مثلاً بمثل) اور ان کے الفاظ بھی صحیح طور پر نہیں پڑھے جا سکتے۔ آپ نے ان کے لیے کنزالعمال کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے‘ جس کے بعض اجزا ہمارے پاس نہیں ہیں۔ مزیدبرآں یہ تصنیف اُمہات کتب میں سے نہیں ہے ‘بلکہ اس میں مختلف کتب حدیث سے ہر طرح کی روایات کو جمع کر دیا گیا ہے‘ اور صحت کے بجاے استیعاب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس لیے کنزالعمال کی احادیث پر استنباطِ احکام کی بنا رکھنا مخدوش ہے۔ اگر آپ تحقیق کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں اور اس کی نازک ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں‘ تو آپ کو چاہیے کہ ان احادیث کو اصل کتابوں میں تلاش کریں (کنزالعمال کی ہرحدیث کے آخر میں بالعموم راوی اور کتاب کا حوالہ درج ہوتا ہے)۔ اصل کتابوں میں حدیث کے مل جانے پر روایتاً اور درایتاً سارے پہلوئوں کو اچھی طرح جانچا جا سکتا ہے‘ اور اس کے صحیح معانی و مفہوم متعین کرنے میں شروح سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اپنی دوسری مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے یہ بڑا مشکل ہے کہ ہم کنزالعمال کی ایک ایک روایت کو پرکھنے کے لیے اتنی دُور تک جا سکیں۔
(۷) یہ بات صحیح ہے کہ فقہاے حنفیہ میں زوجین کے ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں اختلاف ہے‘ لیکن اس معاملے میں دلائل کے اعتبار سے صحیح مسلک امام ابوحنیفہؒ ہی کا ہے۔ ظاہر ہے کہ بیوی سے زکوٰۃ لینے کے بعد خاوند غنی اور صاحب استطاعت ہوجائے گا اور بیوی کا نان و نفقہ چونکہ اس پر ہر حال میں واجب ہے‘ اس لیے وہ زکوٰۃ ہی کا مال نفقے کی صورت میں بیوی کو لوٹائے گا۔ اس طرح یہ اُلٹ پھیر بالکل مہمل بن کر رہ جائے گا۔ صاحبین نے اس معاملے میں حضرت ابن مسعودؓ والی اس روایت سے استدلال کیا ہے‘ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی اہلیہ زینب ؓ سے صدقہ لینا جائز قرار دیا ہے۔ لیکن جو روایت‘ صاحب ِ مبسوط نے نقل کی ہے‘ خود اس میں ’صدقہ‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ ہیں جو عام اور صدقہ نافلہ پر بھی حاوی ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ یہاں صدقہ سے بھی زکوٰۃ ہی مراد لی جائے۔
(۹) آج کل مختلف ممالک کے مابین تجارتی و اقتصادی حالات کا پورا لحاظ کیے بغیر‘ جو شروح مبادلہ مقرر کی جاتی ہیں‘ ان کو نباہنا بعض اوقات عملاً محال ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جو خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے اسے خلافِ شریعت قرار دینا مشکل ہے۔ عہدنبویؐ اور بعد کے ادوار میں چونکہ درہم و دینار کی قیمت سونے چاندی کی بازاری قیمت سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی‘ اس لیے اس میں ’تفاضل ‘کے لیے کوئی بناے جواز نہ تھی۔
(۱۰) قرآن کی شانِ نزول کی طرح احادیث کے بارے میں بھی‘ خود احادیث و سیرت میں بہت سا مواد موجود ہے‘ جس سے احادیث کا زمانہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اسباب ورود حدیث کے موضوع پر مستقل تصانیف موجود ہیں۔ جس طرح علومِ قرآنی میں علمِ ناسخ و منسوخ ایک مستقل شعبہ ہے‘ اسی طرح کا ایک شعبہ علوم حدیث میں ہے۔ اگر آپ حدیث اور علمِ حدیث کا وسیع مطالعہ کریں گے‘ توآپ کو اس موضوع پر بڑا مواد ملے گا۔
(۱۱) المسلمون شرکا … فی الکلا والماء والنار والی حدیث کا آج کل کی مصنوعی محنت سے پیدا کردہ برقی قوت اور ایندھن کی کثیر مقدار پر منطبق کرنا صحیح نہیں۔ اس حدیث سے مراد تو وہ عام خود رو گھاس یا پانی ہے جو تھوڑی بہت مقدار میں افتادہ زمین یا شاملات دیہہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’آگ میں شرکت‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ نے چولھے میں آگ جلائی اور کسی ضرورت مند نے اسے تاپ لیا ‘یا اس سے چند کوئلے لے کر اپنی ضرورت پوری کرلی۔ اس حدیث سے ملک بھر کی روئیدگی‘ یا برقی قوت یا سوختنی اور سیال ذخائر کو ’’قومیانے‘‘ کا استدلال تو ایسا ہی ہے‘ جیسے بعض لوگ والارض وضعھا للانام سے زمین کو قومی ملکیت بنائے جانے کے حق میں استدلال کرتے ہیں۔
(۸)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ غِیْلہ کے سلسلے میں آپ نے جن احادیث کا حوالہ دیا ہے‘ ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ زمانہ رضاعت میں لوگوں کو ضبطِ نفس سے کام لینا چاہیے‘ تاکہ دوبارہ جلدی حمل ٹھیرجانے سے بچے کی رضاعت نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ ذہنی یا جسمانی حیثیت سے قوی اولاد پیدا کرنے کے اختیارات ہمیں تفویض کر دیے گئے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ طاقت ور اور ذہین بچے پیدا کریں۔ یہ بات تو بداہتاً غلط ہے۔
آپ کے پہلے خط کا جواب ۲۴ اگست کو دیا جا چکا ہے۔
(۹)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ شیخ الزرقا کا مضمون میں نے دیکھا ہے۔ ان کے دلائل اور اخذ کردہ نتائج سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔۵؎
(۱۰)
آپ کا خط ملا۔ آپ نے اپنے استفسار میں لکھا ہے:’فقہا کا فیصلہ یہ ہے کہ مضاربت میں اگر عامل اپنا سرمایہ لگائے تو اس کا سارا نفع عامل کو ملے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ رب المال کے سرمائے سے تجارت کر کے اس کے نفع سے بھی اپنا حصہ بٹائے گا‘۔ اس فتوے کو بنیاد بنا کر آپ نے بہت سے اشکالات و اعتراضات کرتے ہوئے ان کا حل طلب کیا ہے۔
یہ فیصلہ فقہا‘ بالخصوص فقہاے حنفیہ کے مسلک کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ حنفی مسلک کی تفصیل اس معاملے میں یہ ہے کہ مضارب‘ رب المال کے روپے کو نہ کسی دوسرے کے سپرد بطور مضاربت کرسکتا ہے‘ نہ اس مال کے ساتھ کسی دوسرے سے شرکت کرسکتا ہے‘ اور نہ اس مال کو اپنے مال میں خلط ملط کرسکتا ہے۔ البتہ رب المال اگر مضارب کو اس طرح کے تصرفات کی خصوصی اجازت دے دے‘ یا یہ کہہ دے کہ تم اپنی رائے سے جس طرح چاہو اس کاروبار کو بڑھائو‘ تو ایسی صورت میں مضارب اپنا مال صاحبِ سرمایہ کے مال میں ملا سکتا ہے۔ یہ مذاہب اربعہ کا تقریباً متفق علیہ مسلک ہے۔
فقہاے حنفیہ نے مضارب پر مزید یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ وہ قرض دے کر یا لے کر مال مضاربت میں کمی بیشی نہ کرے اور کوئی ایسی کارروائی بھی نہ کرے جو فریقین کے لیے موجب ضرر ہو‘ یا جو مضاربت و تجارت کے معروفات کے خلاف ہو۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو غاصب ہوگا اور اس پر تاوان عائد ہوگا۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مضارب اگر اپنے مال کو ساتھ ملانا چاہے‘ تو اس کے لیے فریق ثانی کی اجازت لازم ہوگی۔ فریق ثانی اگر مناسب سمجھے گا تو مضارب کو اپنا مال شامل کرنے کی اجازت دے گا‘ ورنہ نہ دے گا۔ اس اجازت کے بعد مضارب کے مال کا نفع مضارب ہی کو ملے گا‘ اور کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کو نہ ملے۔ آپ کے بیان کردہ اشکالات کچھ زیادہ وزنی نہیں معلوم ہوتے۔ سرمائے میں اضافے سے منافع میں جو اضافہ بھی ہوتا ہے‘ اس میں فریقین کا سرمایہ مل جل کر کام کرتا ہے۔ اپنی مقدار کے مطابق ہر فریق کا سرمایہ نفع آور ثابت ہوتا ہے اور تناسب سے نفع دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد زیادہ سرمائے والے کو محض سرمائے کی زیادتی کے بل پر دوبارہ مالِ مضاربت کے نفع میں شریک ٹھیرانا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
(۱۱)
آپ کا عنایت نامہ اور مضمون ملا۔۶؎ مجھے صحت کی کمزوری کے باوجود آج کل اتنے ضروری کام انجام دینے پڑ رہے ہیں‘ کہ میں کسی طرح آپ کا مضمون پڑھ کر اظہار رائے کرنے کے لیے کافی وقت نہیں نکال سکتا۔ اس قسم کے مضامین کو محض سرسری طور پر دیکھ کر رائے دے دینا صحیح نہیں ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے‘ کہ میں خود بھی جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو ازسرنو تحقیق کروں اور یہ محنت طلب کام ہے۔ اگر آپ نے نجات اللہ صدیقی صاحب کی کتاب شرکت و مضاربت کے شرعی اصول نہ دیکھی ہو تو براہِ کرم اسے ضرور دیکھ لیں۔
(۱۲)
۱- ہم پاکستان کی اراضی کو عشری سمجھتے ہیں۔ مال گزاری کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ سردست اس نظام کو تبدیل کرنے اور عُشرکا نظام رائج کرنے میں وقت لگے گا۔۷؎
۲- مجھے بالکل یاد نہیں کہ پروفیسر محمود احمدصاحب کے مضمون کے اس حصے پر میری ان سے کوئی گفتگو ہوئی تھی‘۸؎ بلکہ ان کی یہ تجویز تو آپ کے خط سے پہلی مرتبہ میرے علم میں آئی ہے۔ میں نے ان کے مضمون پر بحیثیت مجموعی اظہار پسندیدگی کیا تھا‘ نہ کہ اس کے ہر جز سے اتفاق ظاہر کیا تھا۔ میرے نزدیک غیر سودی بنکنگ کے بارے میں بہترین تجاویز وہ ہیں‘ جو نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب میں بیان کی ہیں۔
(۱۳)
عنایت نامہ ملا۔ نجات اللہ صاحب کا مقالہ مل گیا تھا۔۹؎ میں آج کل بیماری کی وجہ سے بہت تھوڑا کام کرسکتا ہوں۔ اسی وجہ سے ابھی تک اس مقالے کو نہیں دیکھ سکا۔ اگر نجات اللہ صاحب کچھ اور انتظار کرسکتے ہوں تو میں کسی وقت موقع نکال کر اسے دیکھ لوں گا اور اگر انھیں جلدی ہو تو میں پھر اسے واپس بھیج دوں۔
مکتوب نگار نے کاروباری شراکت اور تجارت کے ضمن میں ’بیع سلم‘ اور اس کی مختلف شکلوں کے بارے میں استفسار کیا‘ جس کے جواب میں مولانا مودودی کی ہدایت پرملک غلام علی صاحب نے یہ جواب بھیجا:
آپ کا خط ملا۔ شریعت میں ’بیع سلم‘ کا مطلب یہ ہے کہ پوری قیمت پیشگی ادا کر دی جائے اور مال بعد میں وصول کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مال کی قیمت‘ مقدار‘ قسم اور وقت کی ادایگی کا تعین کرلیا جائے‘ تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو۔ شریعت نے نرخ کے معاملے میں کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ اس وقت کا بازاری نرخ ہو جب سودا ہو رہا ہو یا اس سے کم و بیش ہو۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آپ کی بیان کردہ صورت ’بیع سلم‘ کی تعریف میں آسکتی ہے۔ لیکن بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ظاہری اور قانونی شکل میں جائز دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن اپنے باطن اور ہیئت کے اعتبار سے دین کی روح اور مزاج کے خلاف ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اگر ’بیع سلم‘ کے نام سے کسی ضرورت مند مقروض سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور ارزاں نرخ مقرر کرا لے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت میں اس کا معاملہ اس احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہوگا‘ جو ظاہروباطن سب کچھ جانتا ہے۔ شریعت میں نقدا نقد فروخت پر منافع کی بھی کوئی حد مقرر نہیں‘ لیکن کوئی شخص اس عدم تحدید کی آڑ لے کر منافع خوری اور گراں فروشی کرے‘ تو بعید نہیں کہ اس سے بھی عنداللہ مواخذہ ہو۔
ادھار کے جن سودوں کا ذکر آپ نے کیا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ ان میں نرخ ایسا مقرر کیا جائے جو موجودہ نرخ اور میعاد ادایگی کے متوقع نرخ کے بین بین ہو‘ تاکہ فریقین میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
(۱)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اگرچہ ’مثال پیش کرنے‘ میں اردو زبان کے لحاظ سے وہ قباحت نہیں ہے جو آپ نے بیان کی ہے اور ’پیش کرنے‘ کا لفظ لازماً یہ معنی نہیںرکھتا کہ چھوٹے کی جانب سے بڑے کے سامنے ہی پیش کیا جائے۔ لیکن آپ کی معلومات کے لیے میں یہ بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ میں نے ’اللہ مثال دیتا ہے‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ یہ رپورٹر کا اپنا کام تھا کہ اس نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے میرے الفاظ کو ’مثال پیش کرنے‘ سے بدل دیا۔ ایشیا میں میرے درسوں کی جتنی بھی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں‘ ان سب پر یہ الفاظ احتیاطاً لکھ دیے جاتے ہیں کہ ’’رپورٹنگ کی ذمہ داری ادارہ ایشیا پر ہے‘‘۔ اس کے باوجود اگر ہر درس کی رپورٹ پڑھ کر قارئین مجھ سے اس طرح کے سوالات کرنے لگیں جیسا ایک سوال آپ نے کیا ہے تو میرا اچھا خاصا وقت ان کی جواب دہی کرنے میں ہی صرف ہو جائے گا۔
(۲)
آپ کی کتاب وصول ہوگئی ہے‘ یہ خیرآبادی اسکول پر ایک قرض تھا جسے ادا کر کے آپ نے دوسروں کو سبک دوش فرما دیا۔ میں ان شاء اللہ اسے ضرور دیکھوں گا۔
(۳)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ جمعیت علما ہند کے اس اجلاس میں‘ میں شریک تھا‘ جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ مگر مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ امام الہند کے انتخاب میں بعض اکابر علما مانع ہوئے اور یہ انتخاب نہ ہوسکا۔ تفصیلات مجھے یاد نہیں۔
مجھے جہاں تک یاد ہے یہ اجتماع لاہور میں ہوا تھا‘ نہ کہ دہلی میں۔ مولانا معین الدین مرحوم و مغفور سے مجھے کبھی نیاز حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جس رائے کا ذکر پیر ہاشم جان مرحوم نے کیا ہے وہ انھوں نے الجمعیۃ میں میرے مضامین دیکھ کر کیا ہوگا۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ جمعیت علما ہند کی کسی مجلس میں وہ مجھ سے ملے ہوں‘ مگر تعارف نہ ہوا ہو۔
ایک مدت دراز کے بعد آپ کا عنایت نامہ پاکر دل کو بڑی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس محبت و اخلاص کے لیے جزاے خیر دے کیونکہ یہ خالصتاً للہ ہے۔
یہاں جماعت کے حالات کے متعلق جو خبریں آپ لوگوں کو اخبارات کے ذریعے سے پہنچتی ہیں‘ وہ بے شک آپ لوگوں کے لیے سخت موجب اضطراب ہوتی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اخباری پروپیگنڈا ایک غلط اور مبالغہ آمیز تصویر پیش کرتا ہے۔ حقیقی صورت حال وہ نہیں ہے جو ان اخباروں کے ذریعے سے سامنے آتی ہے۔ جماعت کے ارکان اور متفقین یہاں پوری دلجمعی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اُن باتوں سے غیرمتاثر ہیں جو الگ ہونے والے چند حضرات نے کی ہیں۔ پبلک میں جماعت کے اعتماد کو بھی یہ حضرات کوئی صدمہ نہیں پہنچا سکے ہیں‘ بلکہ خدا کے فضل و کرم سے اعتماد روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جماعت کے اندر اور باہر بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کے اندر انھوں نے کچھ تذبذب کی کیفیت پیدا کی ہے۔ لیکن ان شاء اللہ اس سے کوئی قابلِ لحاظ نقصان نہ ہوگا‘ بلکہ تجربہ بہت جلد ان کے تذبذب کو بھی رفع کر دے گا۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں اور جماعت کے لیے دعاے خیر فرماتے رہیں۔
وہاں سب رفقا واحباب کو میرا سلام پہنچا دیں۔ طفیل صاحب اور نعیم صاحب اور دوسرے رفقا ے مرکز کی طرف سے بھی سلام عرض ہے۔
میں ۱۳ اگست کو Allegheny کی فلائٹ نمبر ۴۵۸ پر‘ شام کو سوا سات بجے بفیلو سے روانہ ہو رہا ہوں۔ یہ پرواز ۸ بج کر ۱۸ منٹ پر کینیڈی ایرپورٹ پہنچتی ہے۔ ۱۴ اور ۱۵ کو میں نیویارک میں رہوں گا۔ اس دو روزہ قیام کے لیے جو کچھ پروگرام بنایا گیا تھا‘ وہ غالباً انیس صاحب کے ذریعے سے آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا۔ غالباً مجیب قادری صاحب بھی اس سے واقف ہیں۔ کینیڈی ایرپورٹ پر میرے لیے وہیل چیر کا انتظام کر لیجیے گا۔
۱۶ کی صبح کو ۱۰ بجے ہمیںBOAC/Pan Amکے جہاز سے لندن روانہ ہونا ہے۔ آپ وہاں میرے اور میری اہلیہ کے لیے اس فلائٹ میں نشستیں محفوظ کرا دیں۔ ان کو یہ بھی کہہ دیں کہ میرے لیے نیویارک اور لندن میں وہیل چیر فراہم کرنا ہوگی‘ نیز غذا کے متعلق ان سے کہہ دیں کہ ہم ویجیٹیرین ڈائٹ لیں گے‘ جس میں کوئی حیوانی چربی شامل نہ ہو۔
مکرر: لندن کی جس فلائٹ کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس کے متعلق یٰسین صاحب نے اپنے خط میں BOAC/PAN AM ہی لکھا تھا ‘اس لیے میں نے اسی طرح لکھ دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ان دونوں کمپنیوں کی کوئی مشترکہ پرواز ہے یا کوئی اور صورت ہے۔ ممکن ہے کہ نیویارک میں پی آئی اے کے مینجر صاحب آپ کو کچھ بتا سکیں۔
(۲)
اس سے پہلے میں نے آپ کو اطلاع دی تھی کہ میں ۱۴ اگست کو بفیلو سے Allegheny کے جہاز پر روانہ ہوں گا‘ اور آپ ہی کے ذریعے سے میں نے سیراکیوز-نیویارک کا ٹکٹ تبدیل کرا کے‘ بفیلو-نیویارک کا ٹکٹ بنوایا تھا۔ مگر احمد فاروق کے لیے بفیلو میں مکان کا کوئی انتظام نہ ہو سکا اور ہسپتال کے جس مکان میں ہم مقیم تھے‘ وہ صرف ۲ اگست تک کے لیے ہمیں ملا ہوا تھا۔ اس لیے اب ہم پھر سیراکیوز واپس آگئے ہیں اور ہمارا پروگرام اس مجبوری کے باعث پھر تبدیل ہوگیا ہے۔
اب ہم ۱۴ اگست کو امریکن ایئرلائنز کے جہاز پر سیراکیوز سے نیویارک کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہاں سے یہ جہازشام کو ۵ بج کر ۵۵ منٹ پر روانہ ہوگا اور ہم سات بجے سے پہلے ہی La Guardia ایرپورٹ پر پہنچ جائیں گے۔ دوسرے احباب کو بھی اس سے مطلع کر دیں۔ اور انیس صاحب اگر امریکا واپس آگئے ہوں‘ یا ۱۴ اگست سے پہلے آنے والے ہوں تو انھیں بھی ٹیلی فون سے اطلاع دے دیں۔
اگر کچھ احباب اس ہفتے کے اختتام پر آنا چاہتے ہوں تو وہ بفیلو کے بجاے سیراکیوز آئیں۔
(۳)
آپ کا خط مورخہ ۲ جنوری آج ملا۔ آپ نے میرے ساتھ جس خلوص و محبت کا اظہار کیا ہے‘ اس کے لیے شکرگزار ہوں۔ آپ کے ہاں لڑکے کی ولادت کی اطلاع پاکر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نومولود کو نیک اور سعادت مند بناکر پروان چڑھائے‘ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور اسے اپنے دین کا خادم بنائے۔
اپنی اہلیہ محترمہ کو میری طرف سے اور میری اہلیہ کی طرف سے مبارک باد اور سلام پہنچا دیں۔ وہاں کے سب دوستوں کو بھی میری طرف سے سلام کہیں‘ نیزسب خواتین کو میری اہلیہ سلام کہتی ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ انور بتاتے ہیں: میں جب ایف ایس سی (پری میڈیکل) کا طالب علم تھا‘ تب سورۃ الحج آیات ۲ تا ۷پر‘ مولانا مودودی کے لکھے ہوئے حاشیے پر اپنا اشکال پیش کیا تھا:’’زندگی صرف زندہ چیزوں سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے زندگی بعد موت پر یہ استدلال: ’’ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کرگیا۔ (یہ احیاے اموات کا عمل ہے)(تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۲۰۵)‘‘۔ میری گزارش یہ تھی کہ :’’یہ Dormancy کی حالت ہے نہ کہdeath کی۔ اس پر مولانا محترم نے یہ جواب ارسال کیا:
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ جس چیز کو آپ علم النبات کی اصطلاح میں Dormancy کی حالت کہتے ہیں‘ وہی حقیقت میں موت کی حالت ہے۔ قرآن کو آپ بغور پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ موت دراصل فنا اور عدم نہیں ہے‘ بلکہ وہی Dormancy کی حالت ہے‘ یعنی حیات کی ایک جڑ اُس کے بعد بھی باقی رہتی ہے‘ جو اس وقت تک ظہور سے محروم رہتی ہے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے ظہور کے لیے سازگار حالات پیدا نہیں کر دیتا۔ پھر جونہی کہ اللہ کا حکم ہوتا ہے‘ اور اس کے ظہور میں آنے کے لیے سازگار حالات پیدا ہو جاتے ہیں‘ تو وہی حیات پھر اپنی اصل صورت میں رونما ہو جاتی ہے جو موت سے پہلے تھی۔ فرق یہ ہے کہ یہ خفتگی کی حالت نباتات کے لیے کچھ اور معنی رکھتی ہے اور انسان کے لیے کچھ اور۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں زندگی بعد موت پر جگہ جگہ بارش اور اس کے اثر سے نباتات کے اگنے سے استدلال کیا گیا ہے۔