مئی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

ایک تاریخ ساز لمحہ

عبدالرشیدارشد | مئی ۲۰۰۴ | شخصیت

Responsive image Responsive image

۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا ملکی سطح کا اجلاس طے کرکے لاہور کی انتظامیہ سے جگہ اور لائوڈاسپیکر کے لیے حسب ضابطہ درخواست گزاری۔ سالانہ اجتماع کے فیصلے کی خبر اخبارات کے ذریعے ملک کے طول و عرض کے علاوہ بیرونِ ملک بھی پھیل چکی تھی۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی حکومت اس جلسے کے انعقاد کے حق میں نہ تھی اور اسے روکنے کا ’’ٹاسک‘‘ گورنر ملک امیرمحمدخان کے سپرد تھا۔

ضلعی انتظامیہ اس درخواست کو حیلے بہانوں سے ٹال رہی تھی اور جماعت کے ذمہ داران ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے چکرلگاتے‘ امن و امان کے حوالے سے اُنھیں تسلیاں دیتے تھک گئے تو   بہ امرمجبوری موچی دروازے کے باہر بلااستعمال لائوڈاسپیکر جلسے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔

گورنر ملک امیر محمدخان نے ایس پی لاہور‘ جن کا نام غالباً سکندر تھا‘ کے ذمے لگایا کہ اجازت تو بہ امر مجبوری (کہ کالک سرکار کے منہ نہ لگے) دے دی گئی ہے مگر جلسہ ہر قیمت پر روکنا ہے۔ اب نواب آف کالاباغ کا حکم ہو اور ایس پی نے نوکری کرنی ہو تو انکار کی گنجایش کہاں۔ لہٰذا وفاداری ثابت کرنے کے لیے یہی ’’ٹاسک‘‘ ایس پی نے اچھا شوکر والا نامی بیڈن روڈ کے بستہ ب کے غنڈے کے ذمے لگایا‘ جس کا خاصا گروہ تھا۔ کہنے کو تو پولیس ریکارڈ میں اچھا شوکر والا بدمعاش اور غنڈا تھا مگر اس کے اندر بھی ضمیر نام کی چیز ابھی زندہ تھی۔ ایک طرف پولیس کا شکنجہ اور دبائو اور دوسری طرف بے گناہوں پر حملہ‘ ایک ’’بدمعاش‘‘ کا زندہ ضمیر اس پر آمادہ نہ ہو رہا تھا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی اور وہ خاموشی سے ایڈیٹر چٹان    آغا شورش کاشمیری ؒکے پاس پہنچا اور حکومتی حکم کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کی خلش سے آگاہ کیا۔ آغا صاحب نے یہ خبر مولانا مودودی کو پہنچائی۔

مولانا مودودیؒ نے آغا صاحب کی بات سن کر اُن سے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ: میری خواہش اور دعوت پر پاکستان کے کونے کونے سے مردوزن موچی دروازے پہنچیں اور میں موت کے خوف سے گھر بیٹھ جائوں۔ کیا یہ وطیرہ کسی بھی بھلے آدمی کو زیب دیتا ہے؟ موت کا وقت معین ہے اور اگر یہ موچی دروازے کی سٹیج پر ہی لکھی ہے تو میں اس شہادت سے فرار کیوں اختیار کروں؟ وہ اپنا کام کریں‘ ہم اپنا کام کریں گے۔

مولانا مودودیؒ کی اس جرأت مندانہ گفتگو سے متاثر ہوکر شورش کاشمیری ؒنے چٹان میں ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا:’’شاید تیری قسمت میں بھی کوئی بالاکوٹ ہے‘‘۔ چٹان کی اس اشاعت کے دو ایک دن بعد موچی دروازے میں جلسۂ عام طے پا چکا تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن آنے والے طوفان سے بے خبر‘ جلسے کی تیاریوں میں صبح شام‘ ہمہ تن مصروف تھے اور تخریب کار اپنی جگہ۔

بالآخر وہ دن آگیا جب موچی دروازے کے پنڈال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ باہر سڑک تک پھیل چکے تھے۔ لائوڈاسپیکر پر پابندی کے سبب بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے پرانے طریقے پر نقیب اپنی اپنی جگہ مقرر کیے جا چکے تھے‘ اور اُدھر سرکاری منصوبہ بندی کے مطابق ہر خیمے کی طنابیں کاٹنے کے لیے‘ ہرکِلّے کے ساتھ چاقو لیے ایک ایک بدمعاش بیٹھا تھا کہ جونہی بڑا بدمعاش پہلا فائر کرے ڈیوٹی پر موجود ہر بدمعاش شامیانوں کی رسیاں کاٹ دے۔

چنانچہ اُدھر مولانا مودودیؒ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور ابھی دوچار منٹ تقریر کی ہی تھی کہ پروگرام کے مطابق بڑے بدمعاش نے پستول سے فائر کر کے کارروائی کے آغاز کا سگنل دیا۔ اسٹیج کی طرف فائرنگ ہوئی‘ شامیانوں کی رسیاں کٹ گئیں‘ مگر وائے حسرتا وہ بھگدڑ نہ مچی جو بدمعاشوں کے ہاتھوں مچتی دیکھ کر ’خفیہ والے‘ اُوپر پہنچانے کے لیے اپنے اپنے مچان پر  انتہائی بے چین بیٹھے تھے۔ ایس پی اپنے ’کنٹرول روم‘ میں خبر سن کر’آگے‘ سنانے کے لیے    بے قرار بیٹھا تھا۔

یہی لمحہ تھا جب مولانا سے برستی گولیوںمیں بیٹھنے کی استدعا کی گئی۔ مولانا اپنے جاںنثاروں کے حصار میںتھے۔ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ظلم کے خلاف آج میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟ ظلم کی آندھی‘ گوجرہ سے آئے پروانے اللہ بخش کی قربانی اور مکتبے میں قرآنِ حکیم کی بے حرمتی کے بعد تھم گئی۔

جلسہ درہم برہم نہ کیا جا سکا‘ بارہ پندرہ ہزار کے مجمع عام کو مشتعل نہ کیا جا سکا‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہر تدبیر کو ناکام کر دیا کہ اہلِ لاہور اس ظلم و درندگی پر جماعت اسلامی کے ہم نوا     بن گئے۔ اس حال میں کہ رفیقِ سفر کی میت خون میں لت پت سامنے تھی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ دعا کر رہے تھے اور ہزاروں کا مجمع آمین کہہ رہا تھا۔ یہ منظر پتھردلوں کو بھی موم کر رہا تھا۔ سید محترم نے اپنا مقدمہ عادلِ حقیقی کی عدالت میں درج کرا دیا۔

نواب آف کالاباغ اور اُس کے کارندے اوپر والی سرکار کو وہ خبر نہ سنا سکے جس کے لیے کئی ہفتوں سے تیاری کی گئی تھی‘ البتہ کالک کالاباغ کا مقدر ضرور بنی کہ ہرباشعور نے اس ظلم کی مذمت کی۔ عوام نے‘ خواص نے‘ دانش وروںنے‘ صحافیوں نے‘ وکلا نے‘ قرآن حکیم کے فیصلے کے مطابق کہ: ’’ممکن ہے تمھیں کوئی چیز ناپسند ہو مگر اس میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔اللہ بخش شہیدؒ کے خون نے جماعت اسلامی کو ملک کے کونے کونے سے مزید گرم خون مہیا کیا۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بارگاہِ رب العزت میں صدر محمد ایوب خان‘ گورنر امیرمحمد خان‘ ایس پی لاہور اور اس کے غنڈوں کے خلاف جو مقدمہ درج کرایا تھا‘ اس کی کارروائی سید کی زندگی ہی میں شروع ہوگئی اور عادلِ مطلق نے مرحوم اللہ بخش کے خون کا حساب یوں چکایا کہ اس ظلم سے آگاہی رکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔

مذکورہ کارروائی کے ذریعے پولیس کے چہیتے اچھا شوکر والا اور اُس کے چند ساتھی اُسی ایس پی کے حکم سے دن دیہاڑے بیڈن روڈ پر پولیس مقابلے میں‘ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے اور علاقے کے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئے۔ پولیس نے انھیں استعمال کیا تو وہ سمجھے کہ اب ’سیّاں بھیّے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘ مگر سرکار کی اپنی مصلحتیں اور اللہ تعالیٰ کا قانون اپنی جگہ مسلّم ٹھیرے۔ بقول شورش کاشمیری ایس پی سکندر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا کہ بیماری کی شدت کے آخری مرحلے میں اس کے گلے سے نکلنے والی آواز کتّے کے بھونکنے سے مشابہ تھی اور وہ اسی عالمِ بے بسی میں میوہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈمیں خالقِ حقیقی کے سامنے پیش ہوگیا۔ یوں سیّد کی زندگی میں اللہ بخش شہیدؒ کا دوسرا قاتل اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ اپنی منزل کو سدھارا۔

نواب آف کالا باغ میں خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی تھیں۔ اپنے خودساختہ اور بعض دینی اور معاشرتی اصولوں میں اُس کے ہاں کوئی لچک نہ تھی‘ مثلاً وہ نواب ہوتے ہوئے بھی زانی‘  شرابی اور رشوت خور نہ تھا مگر جسے دشمن قرار دیتا اسے برداشت نہ کرتا تھا۔ گھر میں پردے کا سخت پابند تھا۔ باہراور اندر ہر جگہ حاکم رہنا اُسے پسند تھا۔ اسی حاکمیت کا نتیجہ تھا کہ نواب صاحب کا بیٹا مدِّمقابل آگیا۔ بیٹا لمحے بھرکو چوک جاتا تو باپ کے پستول کی گولی اسے چاٹ جاتی مگر اس نے ’جابرباپ‘ کو مہلت ہی نہ دی اور اسٹین گن کا برسٹ مار کر چہرہ اور اوپر کا دھڑ بالکل مسخ کردیا۔ اپنے خون نے اپنا ہی خون بہایا۔

سیّد ہی کی زندگی میں جنرل محمد ایوب خان‘ اقتدار سے اس حال میں الگ ہوئے کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور اُن کے خلاف غلیظ ترین نعرہ بازی ہوئی۔ اُن کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان نے اسمبلی کے اندر ’’ہرشاخ پہ اُلّوبیٹھا ہے‘‘کہا اور آخری وقت اُن کے چہیتے وزرا تک ساتھ چھوڑ گئے‘ اور آخری وقت چارپائی پر فالج کے سبب بے بسی اور بے کسی کی مثال بن گئے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!

o

جس سیّد کو ۱۹۶۳ء میں ختم کرانے کی سازش کی گئی وہ ۱۹۷۹ء تک بقیدِ حیات رہے اور تمام سازشی یکے بعد دیگرے اُن کی زندگی ہی میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ سیّد کا فرمان درست تھا کہ زندگی اور موت کے فیصلے بندے نہیں کرتے‘ کہیں اور ہوتے ہیں۔ خالق کا طے شدہ لمحہ نہ آگے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے۔ مگر اس اٹل حقیقت کو سمجھنے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ شاید موت سے بے خوفی تھی کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ انتہائی ٹھنڈے دل و دماغ والے راہنما تھے اور یہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ پا پر چلنے کے عزم کے سبب ممکن تھا۔ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو جذباتی ہوکر دوسرے کے میدان میں پٹنے کے بجاے دوسروں کو اپنے من پسند میدان میں لاکر شکست دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی ملاقات سے آخری ملاقات تک راقم نے صرف ایک بارسیّد محترم کے جذبات کو متلاطم دیکھا۔

بھٹو صاحب کے دور حکومت میں محترم میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کو ’اوپر والوں‘ کے اشارے کے سبب کوٹ لکھپت جیل میں پریشان کیا گیا تو مولانا  میاں صاحب سے محبت کے سبب بے چین ہوگئے۔ چنانچہ ۵-اے‘ ذیلدار پارک میں ایک  مذمتی جلسہ ہوا۔ راقم الحروف اس جلسے میں شامل تھا۔

اُس روز مولانا کے ’کَھولتے ہوئے جذبات کا بہائو‘ پہلی بار دیکھا‘ مگر یہ کھولتا لاوا بھی کناروں سے باہر نہ نکل رہا تھا۔ مولانا فرما رہے تھے: ’’ہر فرعون نے اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر‘ خطرے والا ہر دروازہ اپنے ظلم کے ذریعے بند کرنے کی کوشش کی۔ زمانے نے بڑے بڑے فرعون دیکھے اور ان فرعونوں نے اپنے فرار یا تحفظ کے لیے جو دروازہ محفوظ جانا‘ اُن پر وبال اُسی دروازے سے داخل ہوا‘ وہ بچ نہ سکے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کا راستہ روکنے والوں نے کیا کیا جتن نہ کیے‘ کبھی سزاے موت سے ڈرایا تو کبھی جلسے میں گولیاں چلاکر کارکن شہید کر کے راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ اب جماعت اسلامی کے انتہائی محترم امیر کو جیل میں پریشان کرنے کی گھٹیا حرکت کی گئی ہے جو ہرلحاظ سے قابلِ مذمت ہے‘‘۔ مولانا محترم نے اپنے بھرپور جذبات کے ساتھ اس صورتِ حال کی مذمت کی۔

اس جلسے میں خفیہ والوں کو راقم نے باتیں کرتے خود سنا جو اپنی پریشانی کا ایک دوسرے سے اظہار کر رہے تھے‘ کہ مولانا نے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ حکمرانوں کو خوب سنائیں مگر کوئی جملہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی انتقامی کارروائی کے لیے جواز بنائیں۔ مولانا کی تقریر و تحریر کی یہ خوبی تھی کہ اخلاق و کردار کی ہروسعت اس میں سموئی گئی ہوتی تھی۔ راقم کے سرمایۂ حیات میں ان تقاریر کے ٹیپ بھی محفوظ ہیں۔