بیسویں صدی نے تاریخ کے اوراق پر تباہی اور شکست و ریخت کے بڑے ہولناک نقوش ثبت کیے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ‘ فکری اور تعمیری حوالے سے بھی‘ اس کے دامن میں چند مثبت کارنامے اور بعض افادی پہلو نظرآتے ہیں۔
اُمت مسلمہ ایک طرف بدترین استحصال کا شکار ہوئی تو دوسری جانب اسے استعمار کی غلامی سے نجات بھی ملی اور تیسری جانب اس کے اندر ایسی تحریکیں برپا ہوئیں‘ جنھوں نے اُمت کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان تحریکوں کے بعض داعیوں اور رہنمائوں نے مسلمانوں کو بحیثیت اُمت سربلندی اورعظمت کی طرف لے جانے میںاہم کردارادا کیا۔ ایسی شخصیات میں ایک نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ہے۔
زیرنظر مضمون میں مولانا مودودیؒ کی زندگی کے فکری پہلوئوں پر جو معروضات پیش کی جارہی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کے فکری وعملی کارناموں کی روشنی میں ہم بھی ایمان‘ دانش اور عمل کی راہوں کو کشادہ کرتے ہوئے‘ اپنے زمانے کے درپیش چیلنجوں اوربحرانوں کا مقابلہ کریں۔ دورِ جدید کی تاریخ میں حق و باطل کی کش مکش کا جب بھی ذکر ہوگا‘ تو اس میں اس دور کی زمانہ ساز شخصیات اور تحریکوں کا بھی لازمی طور پر تذکرہ ہوگا۔ اس تذکرے میں مولانا مودودیؒ کی کاوشوں کو ایک مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
یہی زمانہ تھا جب ان کے ہم خیال‘ جاںنثار دوستوں‘ حلیفوں اور ہم سفروں پر مشتمل ان کے حلقۂ احباب میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ اسلامیانِ ہند (خصوصاً مسلم اُمہ اور بالعموم پوری نوعِ انسانی) کے مستقبل کے بارے میں جو تصور اور وژن (vision) رکھتے تھے اور جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ وہ تن تنہا بروے کار نہیں لائی جاسکتی۔ اس مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا تھا کہ ایک منظم اور مربوط اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ سید مودودیؒ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ بلاشبہہ دورِ جدید میں اسلام کے احیا کے لیے فکری کام بھی ضروری ہے‘ لیکن اس فکر کو بروے کار لانے کے لیے کسی عملی جدوجہد اور اجتماعی تحریک کے بغیر‘یہ عظیم کام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ تجدید و احیاے دین اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش جیسی تصانیف ان کے اس ذہنی سفر کی عکاس ہیں‘ جو بالآخر ایک صالح جماعت کی ضرورت پر منتج ہوا۔
ایک دل ہے اور ہنگام حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
اس طرح میں ان کی زندگی کو ان تین حصوں میں تقسیم کر کے غور کرتا ہوں۔
اولیں دورِ صحافت میں بالکل نوعمری ہی میں مولانا مودودیؒ نے بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور بحیثیت ایک وسیع النظر صحافی کے اپنی منفرد اور غیرمعمولی صلاحیتِ کار کا لوہا منوایا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انھوں نے تاج‘ مسلم اور جمعیت العلما کے پرچے الجمعیۃ میں لکھا‘ بلکہ اس کے ساتھ نگار ‘مدینہ‘ بجنور اور لاہور کے ہمایوں میں بھی مضامین لکھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۲۱‘۲۲ برس کے نوجوان کو مسلمانوں کی اس وقت کی ایک اہم تنظیم جمعیت العلما کے سرکاری ترجمان کی ادارت مکمل ذمہ داری کے ساتھ سونپی گئی جو مولانا مودودیؒ کی غیرمعمولی ذہانت اور ان کے کردار کی پختگی کے ساتھ جمعیت علماے ہند کے قائدین کی مردم شناسی کا مظہر بھی تھی۔ خصوصاً مفتی کفایتؒ اللہ اور مولانا احمدسعیدؒ اس نوجوان سے بے حد متاثر تھے۔ دوسری طرف مولانا محمدعلی جوہرؒ بھی چاہتے تھے کہ مولانا مودودی ؒان کے معاون کے طور پر‘ ان کے تاریخ ساز اخبار ہمدرد کے عملۂ ادارت میں شامل ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور صحافی کے‘ انھوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا نے ترجمے بھی کیے ہیں اور متعدد مضامین بھی لکھے ‘لیکن ان کا پہلا کارنامہ صحافت ہے۔
ان مضامین میں وہ پوری شرح وبسط سے بیان کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین اور انسانیت کے لیے ایک آفاقی پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی تحریک بھی ہے۔ ان مضامین میں مولانا کے ہاں زبان و بیان کی صحت اور اثرانگیزی کے ساتھ ساتھ فکر کی پختگی اور وسعت تہہ در تہہ نظرآتی ہے۔ ایک سہ روزہ اخبار میں خبروں کے انتخاب اور ترجمے کے ساتھ اداریہ نویسی اور کالم نویسی بذات خود بڑاجاںگسل کام تھا‘ جب کہ معاونت کے لیے اس کا عملہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس متفرق نویسی کے ساتھ وہ اعلیٰ درجے کے علمی وفکری مضامین بھی لکھتے رہے۔ یہ چیز تحریر وتصنیف پر ان کی ماہرانہ دسترس اور ان کی غیرمعمولی دماغی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔
مثال کے طور پر ہندستان کے صنعتی زوال اور اس کے اسباب ۱۶۰۰ئ-۱۹۲۴ء کے موضوع پر قومی نقطۂ نظر سے‘ مگر معتدل و متوازن انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ سیدمودودیؒ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’کسی ملک کی اقتصادی و تمدنی حالت پر غور کرتے وقت‘ سب سے زیادہ توجہ کے قابل یہ امر ہوتا ہے کہ اس کا نظامِ حکومت کیسا ہے؟ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ قوموں کے بننے بگڑنے میں بڑا حصہ حکومت کا ہوا کرتا ہے۔ کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کا نظامِ حکومت درست نہ ہو‘ اور اسی طرح کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی‘تاوقتیکہ اس کا نظام حکومت خراب نہ ہو‘‘(ماہ نامہ نگار‘ اکتوبر ۱۹۲۴ئ)۔ اس مضمون میں انھوں نے ہم وطنوں کی اقتصادی بدحالی کا مفصل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر محض ۲۱ برس تھی مگر اس مضمون میں انھوں نے ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصادیات کی سی پختہ فکر کے ساتھ خرابی کی اصل جڑ کی نشان دہی کی ہے۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں انھوں نے زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ مشہور جملہ لکھا:’’حکومت کی خرابی‘ تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیدمودودیؒ سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے۔
اسی زمانے کی شاہکار تصنیف الجہاد فی الاسلام ان کی علمیت‘ پُرزور استدلال اور توازنِ فکر کی دلیل ہے۔ اسی کتاب کی تصنیف کے دوران انھوں نے عملی صحافت کا میدان چھوڑ دیا۔ صحافت میں موضوع کا کینوس اور دائرہ تخاطب بالعموم محدود ہوتا ہے اور فطری طور پر اس میں وقتی ردعمل اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے مزاج کی مناسبت سے اس میں اپنا مستقبل نہیں دیکھا۔ وہ دل و دماغ کے اس امتزاج کی طرف جانا چاہتے تھے کہ جہاں قلب حرکت‘ جدوجہد اور ترغیب کا کام تو انجام دے‘ لیکن عقل اور فکر جس طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ کسی حیثیت سے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے یا اس کے اوپر کوئی پرچھائیں یا سایہ نہ پڑجائے۔ اس زمانے کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نظرآتا ہے کہ وہ ایک کش مکش سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتے تھے اور بالآخر انھوں نے ریل کا کانٹا بدلا اور جس پٹڑی پر چاہتے تھے‘ اسی پر وہ آگئے اور ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کو بھی لے آئے۔ اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن اقدام ان کی صحافتی زندگی میں ہمیں نمایاں نظر آتا ہے‘ جس کے تحت وہ ضمیر کی بیداری‘ خودداری اور حریت کو اولیت دیتے ہیں۔ گویا صحافی‘ صحافت کو محض قلم کاری نہ سمجھے بلکہ قلم کوفکر اور علم کی ترویج اور فروغ کے لیے ایک ایسا ہتھیار خیال کرے‘ جو دیانت کے ساتھ استعمال ہو تاکہ وہ دوسروں کی چاکری اور کاسہ لیسی کا آلۂ کار نہ بنے۔
جمعیت العلما‘ مسلمان علما کی ایک ایسی قابلِ قدر جماعت تھی‘ جو اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کوئی علمی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک عوامی تحریک تھی‘ جس کی قیادت چند جیّد علما کے پاس تھی۔ تاہم یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آہستہ آہستہ جمعیت کی اس وقت کی قیادت کا ایک بڑا حصہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہندستان میں مسلمان اُمت کو جو بنیادی مخمصہ (dilemma)درپیش تھا‘ اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور ان کے حقیقی کارنامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ جمعیت العلماء کی قیادت کے بڑے حصے نے وہ راستہ اختیار کرلیا‘ جس میں اسلام کی جگہ آزادی کو اولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں اس چیلنج کو سمجھنا چاہیے جو اس وقت اُمت مسلمہ کو درپیش تھا ‘اور تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پیش آتا رہا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی سے ہم علامہ اقبال اور سید مودودی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور برعظیم کے سیاسی منظرنامے ہی کو نہیں‘ بیسویں صدی کی پوری مسلم اُمت کی فکر اور سیاست کا بہتر فہم حاصل کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب اکیسویں صدی میں جن حالات‘ مسائل اور چیلنجوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ان کا صحیح ادراک اور ان کے مقابلے کے خطوط کار متعین کرنے میں بھی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔
اس میں پہلا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ وہ یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک‘ اسلام کا تہذیبی‘تاریخی اور عالمی کردار درحقیقت ایک تاریخ ساز اور عالمی طاقت کا کردار رہا ہے جس میں ایک طرف قلب کی اصلاح اور کردار کی تطہیر اور تزکیہ ہے‘ دوسری طرف معاشرے اور تاریخ و تہذیب کی تبدیلی کا عمل۔ اسلام کا مزاج پہلے دن ہی سے یہی رہا ہے کہ اس نے طاقت کو محض سیاسی اقتدار سے عبارت نہیں کیا‘تاہم سیاسی اقتدار‘ اس کی طاقت کا ایک اہم عنصر ضرور رہا ہے۔ اسلام نے ایمان‘ دین اور طاقت کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ اس تعلق کا اظہار صرف سیاسی طاقت ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے سارے اداروں میں ہوا‘چنانچہ خاندان سے لے کر ریاست تک‘ یعنی نظامِ قانون‘ نظامِ قضا اور نظامِ معیشت‘ سب کو اس کا حصہ بنایا۔
خلافت راشدہؓ کے فوراً بعد مسلمانوں کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ قوت تو اسلام کے پاس موجود تھی‘ لیکن اس کے لیے جو نظام اور جو ڈھانچا اسلام نے بنایا تھا‘ وہ متاثر ہونے لگا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اقتدار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون‘ اور فقہ کی تشکیل میں بھی بڑی محنت کی۔ فکرمودودی کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ فقہ کی تدوین اور نظام قضا پر علما کی دسترس‘ملوکیت کی انحرافی رو (deviationist wave) کے مدمقابل معاشرے میں ایک ایسے خودکار نظام کو فروغ دینا ایسا تاریخی کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں معاشرے اور تہذیب و تمدن پر اسلام غالب رہا اور ریاست بھی اسلام کی گرفت میں رہی۔ سید مودودیؒ نے اس تاریخی کارنامے کو خلافت و ملوکیت میں پیش کیا ہے اور اس میں ہماری تاریخ اور تدوین فقہ کی تحریک کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا ہے جسے مورخین اور مفکرین نے بالعموم نظرانداز کر دیا تھا۔ بلاشبہہ بارہ سو سالہ اس دور میں اتارچڑھائو بھی آتے رہے تھے ‘ لیکن اٹھارہویں کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی قیادت میں اب مسلمانوں کا کردار مضمحل بلکہ ختم ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان کا یہ کردار کم ہو کر بالکل نچلی سطح کو چھونے لگا۔
اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ صورت پیدا ہوئی کہ مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر بے وقعت ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر قوت کے طور پر عالمی سیاست کی بساط سے یکسر باہر ہوگئے۔ گویا اقتدار پر ان کی گرفت ختم ہوگئی اور عالمی قیادت میں ان کا مقام اور وقار سرنگوں ہوگیا۔ جب ترکوں نے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا‘ تو علامتی سطح پر بھی ان کی رہی سہی حیثیت کا خاتمہ ہوگیا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حضرات جذباتی ردعمل رکھتے تھے‘ ان کی ساری توجہ خلافت کو بچانے اور ساری قوت خلافت کو بحال کرنے میں صرف ہوئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور اسلامی تحریکات کی فکر کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے خلافت کے احیا کو اصل ایشو نہیں بنایا‘ بلکہ اسلام کے احیا‘ اسلامی سوسائٹی کے قیام‘ اور اسلامی ریاست کے حصول و قیام کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس طرح انھوں نے رسمی خلافت کے بجاے خلافت کے جوہر (essence) اور اس کے حقیقی مقصد اور ہدف کو اپنی منزل قرار دیا۔
اب ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قوت کے چھن جانے کے نتیجے میں مسلمان دوسروں کے غلام ہوگئے اور ایک دوسری تہذیب ان پر غالب ہوگئی۔ یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار تھی وہ اسلامی بنیادوں کی ضد تھی۔ اس طرح ایک تہذیبی کش مکش شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے تصورجہاں‘ اقدارِحیات‘ سماجی ادارات‘ انفرادی کیرکٹر اور اجتماعی مزاج کو متاثر کررہی تھی۔ اس تہذیبی کش مکش سے نکلنے کے لیے صرف جذباتی ردعمل کافی نہیں تھا‘ بلکہ ٹھوس فکر اور سوچے سمجھے انداز میں ایک متبادل لائحہ عمل‘ واضح نشانِ منزل اور ایک منظم و مربوط جدوجہد درکار تھی۔ ایک طبقے کے نزدیک اولین ہدف غیرملکی استعمارسے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس طبقے نے اصل ہدف سیاسی آزادی کو قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی احیا کے داعیوں کی سوچ یہ تھی کہ غیرملکی استعمار سے نجات کے لیے جتنی ضروری سیاسی جدوجہد اور آزادی ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے فکری اور تہذیبی غلبے کے خلاف پیکار ایک لازمی مرحلہ ہے۔ اوراگر استعمار کے اس فکری اور تہذیبی غلبے کو نظرانداز کیا گیا تو سیاسی جدوجہد بالآخر غیرموثر رہے گی۔ اس لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ اُمت کو دین حق کی بنیاد پر اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اسی جدوجہد کو استعمار کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔
اس سیاسی‘ تہذیبی اور فکری پس منظر میں برعظیم کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ برطانیہ نے چونکہ اقتدار ہم سے لیا ہے‘ اس لیے آزادی کے بعد بھی اقتدار ہمارا حق ہے۔ تحریک مجاہدین سے لے کر ہجرت اور ترکِ موالات کی تحریک تک اور جمعیت علماے ہند سے دیگر انگریز مخالف تحریکوں تک کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس تھی‘ اور وہی ان میں فعال اور فیصلہ کن حصہ لے رہے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دماغ میں یہی چیز تھی کہ آزادی ملنے پر فطری طور پر ہم اقتدار کے وارث ہوں گے۔ لیکن وہ اس جوہری فرق کو نظرانداز کر رہے تھے جو جمہوریت کے تصور پر مبنی اداروں کے قائم ہونے سے یہاں ووٹ کی قوت کے باعث متعارف ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو اس کھیل کو بڑی کامیابی سے کھیل رہا تھا۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے جمعیت العلماء نے جدوجہد آزادی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہی سمجھا کہ آزادی کا حصول ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے۔
دوسری جانب مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر یہ تھی کہ فقط مسلمانوں کی آزادی نہیں بلکہ اسلام کی آزادی اصل مسئلہ ہے‘ اور مسلمانوں کو آزادی اگر اسلام کی آزادی کے بغیر ملتی ہے تووہ غلامی ہی کی دوسری شکل ہوگی۔ اس لیے اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کی آزادی دو ہی طرح ممکن ہے۔ یا تو مسلمان اتنے قوی ہوں کہ پورے برعظیم کی باگ ڈور سنبھال سکیں‘ جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ پھر انھیں کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں وہ اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھ سکیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین کی منشا اور اپنی ثقافت کے تحفظ کا بھی ٹھیک ٹھیک حق ادا کر سکیں۔ جس بات کو عرفِ عام میں ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے‘ اس کی فکری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو جداگانہ نظریہ ہاے حیات کے علم بردار ہیں‘ اور آزادی کا وہی مفہوم انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے‘ جس میں ہر نظریے اور تہذیب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے سیاسی‘ قانونی‘ ثقافتی‘ غرض ہر میدان میں ایک نئے دروبست کی ضرورت ہوگی۔
مولانا مودودیؒ کی اس زمانے کی تحریروں میں آزادی‘ مسلمان اُمت اور ہندستان کے متعلق مسائل و معاملات پر مباحث ملتے ہیں۔ مولانا کا زاویۂ نگاہ اس وقت بھی بڑا واضح تھا کہ اسلام کی آزادی اور مسلمان اُمت کی آزادی اسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ اسلامی تشخص سے وابستگی کو شرط اول قرار دے۔ اس تشخص کی وضاحت اور اس کے حصول کے لیے مولانا ہرلمحے سرگرداں اور پریشان نظرآتے ہیں۔ برعظیم ان کی توجہ کا اولین مرکز ہے لیکن اس مرکز کا بیرونی حلقہ (circumference) بڑا وسیع اوردنیابھر کے مسلمانوں پر محیط ہے‘ چاہے وسط ایشیا میں کمیونسٹ زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے المناک واقعات ہوں‘ یا افریقی ممالک میں ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو‘ یا ہندستان میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کاشیطانی کھیل ہو‘ وہ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مغربی استعمار کے حلیف مسلمانوں کی فکری اور عملی حماقتوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن سے بھی زیادہ بدتر کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں جمعیت کانگرس کے ساتھ مل کر اس راستے کو اختیار کرچکی تھی جسے وہ ’سوراج‘ کہتے تھے۔ نتیجتاً علاقائی یا وطنی قوم پرستی ان کی نگاہ میں گوہرِمطلوب بن گیا تھا۔ بالکل یہی سوچ غیرمسلموں کی بھی تھی‘ اور مسلمان آزادی کی اس جدوجہد میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ وہ کش مکش تھی جس میں مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کی صحافت کا چوتھا امتیازی پہلو تھا۔
بحیثیت صحافی یہ امور مولانا مودودیؒ کے زمانۂ صحافت میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بھی اگرچہ مولاناؒ ان معنوں میں تو صحافی رہے کہ ایک ماہنامے کے مدیر تھے اور ایک ماہ نامے کا مدیر بھی صحافی ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو صحافی کہتے تھے‘ تاہم اب ان کی تحریر‘ ان کی سوچ‘ اور ان کے انداز میں ایک تبدیلی آئی اور ان کے اہداف‘ اب صحافت کے دائرے سے نکل کر ایک زیادہ اہم‘ مشکل اور کٹھن میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ میدان تھادین کی صحیح تعبیر‘ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور عالمی استعماری تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے کردار کی بازیافت کا۔ انسان سازی اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے جن عناصر اور قوتوں کی ضرورت ہے‘ ان کے لیے فکرمندی مولانا مودودیؒ کے طرزفکر اور اسلوبِ زندگی کا ایک مستقل حصہ بن گئی۔ اب وہ ایک مفکر‘مصلح‘ مدبر اور قائد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
مولانا کی نگارشات میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور کہیں کہیں ادب کی یہ جولانیاں شاعرانہ اسلوب کی حدوں کو بھی چھوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقیات اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ پر بھی لکھا۔ اسی زمانے میں مشہور مصری دانش ور مصطفی کامل پاشا کی کتاب المسئلۃ الشرقیہ کا ترجمہ کیا۔
ان تمام تحریروں میں وہ اپنے مزاج اور موضوع کی مناسبت سے ادبیت اور مقصدیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ابتدائی زمانے ہی سے ادب کی مٹھاس‘ صحتِ زبان‘ حسنِ بیان اور رعنائی خیال کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے‘ جو ان کے طرزِ نگارش کو ایک انفرادی آہنگ عطا کرتا ہے۔ اولین دور میں مولانا مودودی کے ہاں دو زیریں لہریں (under currents)ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نبردآزما بھی نظر آتی ہیں: ایک شبلی کا اسلوب تحریر‘ دوسرا ابوالکلام آزاد کا انداز نگارش۔ ایک کی خصوصیت گنگا جمنا کی میدانی علاقوں میں پُرسکون روانی ہے‘ اور دوسرے میں پہاڑی آبشار اور پتھروں کو بہا لے جانے والے پانی کے پُرشور دھاروں کا جوش و خروش۔ ان دونوں اسالیب سے مولانا نے استفادہ کیا ہے۔ دونوں کے کچھ نہ کچھ اثرات مولانا کے اسلوب پر نظرآتے ہیں۔ لیکن مولانا نے دونوں میں سے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ کسی ایک کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے خود نیا رنگ لیا‘‘۔ ان کا یہ اسلوب‘ دورصحافت میں تشکیل پا چکا تھا۔ اس لیے میری نگاہ میں الجھاد فی الاسلام مولانا مودودی کے بنیادی فکر ہی کا آئینہ ہے‘ بلکہ اس کتاب میں مولانا کے اندازِ تحریر اور اسلوبِ نگارش کی امتیازی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ الجھاد فی الاسلام کے لیے تحقیق اور اس کی تحریر وتسوید مولانا مودودی ؒکی زندگی میں ایک کلیدی موڑ اور امکانات کے وسیع افق روشن کرنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف تو انھیں اسلام کے تصورِ کائنات کو بالکل واضح حقیقت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقع ملا۔ دوسری طرف جو معذرت خواہانہ روایت مسلمانوں کی فکر میں جڑ پکڑ چکی تھی‘ اس کو انھوں نے بالکل ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا اور پوری متکلمانہ شان کے ساتھ اسلام پر اعتراضات کا دفاع کیا‘ان کا جواب دیا اور اس سے بڑھ کر مثبت طور پر اسلام کی ایک جامع تصویر پیش کی۔ اس عمل میں انھوں نے ایک نیا اسلوب بھی اختیار کیا۔ اس علمِ کلام کی اصل خود اسلام میں موجود ہے۔ الجھاد فی الاسلام‘ مولانا مودودی ؒکی زندگی کے رخ کو متعین کرنے والی کتاب ہے‘ اور یہ حسب ذیل تین حوالوں سے ہے:
اول: اسلام کے صحیح تصورِ حیات و کائنات کی بازیافت۔
دوم: یہ نکتہ کہ یہ تصورِ حیات فکری طور پر حق و باطل کی ایک عالم گیر کش مکش کی طرف لے جاتا ہے‘ جس میں اسلام کا تاریخی‘ بنیادی اور فطری کردار ہے۔ اس سے اسلام کا تحریکی تصور اُبھرتا ہے جو بالآخر بیسویں صدی میں اسلامی تحریکات کی صورت گری کا ذریعہ بنا ہے۔
سوم: یہ کہ اس تقاضاے دین کی بجاآوری اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ پر طاقت کے استعمال کا ایک متعین کردارہے‘ وہیں صرف طاقت یا جنگ اس کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ناگزیر پہلو ہے‘ لیکن ہر دور کے مسائل‘ معاملات اور زمینی حقائق کی روشنی میں غلبۂ اسلام کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنا ضروری ہے‘ جو اس مقصد کے لیے مددگار ثابت ہو اور اس میں مداہنت و پسپائی یا رخصت و دل شکنی کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ مکی دور میں بھی غلبۂ اسلام مقصود تھا‘لیکن یہ دور تیاری کا دور تھا۔ جس کی تکمیل اور تنفیذ ہجرت اور اس کے بعد ہوئی لیکن مکہ اور مدینہ دونوں اس تحریک کے لازمی مرحلے ہیں ‘جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ حرا سے لے کر شعب ابی طالب تک‘ معراج سے ہجرت تک‘ بدر سے حنین تک‘ حدیبیہ سے فتح مکہ تک‘ سب اس وسیع تر حکمت عملی کے پہلو ہیں اور اس نمونے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں حسبِ ضرورت ایک نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا دور ہی اصل اسلامی مثالیہ (paradigm )ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ زمانۂ خلافت کے بعد غلبۂ اسلام کی کیا حکمت عملی ہو؟ یہ کیسے ہونا چاہیے؟ کیونکر ہونا چاہیے؟ گو‘ اس پہلو کو مولانا مودودی ؒکتاب میں لے آئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت مولانا مودودیؒ پر یہ پوری طرح واضح نہیں تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے؟ ۱۹۲۸ء سے ۳۹-۱۹۳۸ء تک کا زمانہ مولانا کے فکر کے نکھار کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مستقبل کے لیے اُمت کے سامنے ایک حکمت عملی پیش کی اور پھر اسے بروے کار لانے کا آغاز کیا۔ ان سنگ ہاے میل اور پیش آمدہ چیلنجوں کے خدوخال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس دور کے بھی کئی حصے ہیں۔ ابتدائی چار سال تک تو انھوں نے خاموشی سے‘ مگر جم کر اور پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ اس عرصے میں کچھ کتابیں بھی لکھیں‘ اورمستقبل کے منصوبے بھی بنائے۔ ان کے اپنے عزائم کو پختگی حاصل ہوئی اور رجحانات کی واضح صورت گری ہوئی۔ پھر ۳۳-۱۹۳۲ء میں یکسو ہو کر وہ اپنی زندگی کے اصل مشن کے لیے جہاد زندگانی کے وسیع میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ میری نگاہ میں اس جہادِزندگانی کے شروعات کا بہترین اظہار ترجمان القرآن کے پہلے سات برسوں کے ’اشارات‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اظہار مولانا کی شخصیت‘ وژن اور فکرکے ارتقا اور مولانا کے مستقبل کے تاریخی کردار کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمان کی ادارت سنبھالتے ہی انھوں نے جو پہلی چیز لکھی وہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مضامین ہیں۔بعدازاں تنقیحات‘ سود‘ پردہ‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ تفہیمات کے مباحث ہیں۔مولانا کے دوسرے دورِ حیات تک کی یہ مختصر سی جھلک ہے۔
۱۹۳۰ء کے عشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلامی‘ الٰہیاتی اور سائنسی موضوعات پر کلام کرتے ہوئے وہ مضبوط منطقی استدلال اختیار کرتے ہیں‘ لیکن جب معاملہ آتا ہے احساسات کو اُبھارنے کا‘ تو بعض تحریروں میں انھوں نے جھنجھوڑنے والا انداز بھی اختیار کیا۔ اس زمانے کی تحریروں میں مولانا کے ہاں انگریزی اور عربی کے الفاظ نسبتاً زیادہ ملتے ہیں‘ لیکن ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ان کے اسلوب میں آسان زبان اور عام فہم انداز فروغ پذیرہوتا ہے۔ اس سادہ نویسی کا شاہکار تفہیم القرآن اور خطبات ہیں۔ پھر آخری زمانے تک مولانا کا یہی انداز رہا ہے۔ گویا کہ ادیب کی حیثیت سے بھی مولانا کے ہاں ہمیں ایک ارتقا نظر آتا ہے۔ زمانۂ صحافت میں انھوں نے دوسروں کے کچھ اثرات بھی قبول کیے‘ اور یہ بالکل فطری بات تھی‘ لیکن پھر ان کا اپنا طرزِنگارش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کے طرزِنگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برٹرینڈرسل ہے۔ اس کے ہاں بھی الٰہیاتی‘ سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے‘ جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی نثر میں پیش کرتا ہے‘ اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے ۔ بحیثیت ادیب‘ مولانا کی یہ بڑی قابلِ قدر خدمت ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو علمی‘ دینی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشرتی موضوعات سے مالا مال کرتے ہوئے اظہار کی ایک شان دار روایت قائم کی۔ ادب صرف افسانہ نگاری اور شاعری تک محدود نہیں‘ بلکہ وہ زندگی کے سارے سنجیدہ موضوعات کو مختلف ادبی پیرایہ ہاے اسالیب میں زیربحث لاتا ہے۔ مقالے اور الٰہیاتی مضامین بھی ادب کے دائرے میں آتے ہیں۔
مولانا مودودی لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب میں کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ وہ اپنی توجہ موضوع پر مرکوز کرتے ہیں‘ الفاظ خود بخود موزوں ہو جاتے ہیں۔ دینی فکر اور معاشرتی علوم کو انھوں نے نہایت خوب صورت زبان میں پیش کیا ہے۔ وہ صنائع اور بدائع کے استعمال میں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نثرکا تجزیہ کیا جائے تو وہ کلاسیکی زمرے میں آتی ہے۔ یہ چیزیں تو اظہرمن الشمس ہیں‘ اس کے ساتھ جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے قرآنی اصطلاحات‘ قرآنی محاورے اور قرآنی پیغامات کو اُردو زبان میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ یہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
مولانا مودودیؒ کی فکری اور ادبی تخلیقات روایتی مذہبی تحریروں سے بڑی مختلف ہیں۔ ان میںفکر کے عمق کے ساتھ زندگی کی حرارت اور ادب کی چاشنی ہے‘ جس نے ان تخلیقات کو بولتی ہوئی تحریریں بنا دیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان میں دعوت کی روح اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ وہ حرکت کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ وہ خود بھی بیدار ہیں اور دوسروں کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر عمل اور حرکت پر اکساتا ہے۔ مولانا نے طنزاور مزاح کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے‘ ان کی تحریر میں بلا کی شوخی ہے جو ان کی خوش ذوقی ہی کا ثبوت نہیں‘ بلکہ ادبی صنعت کاری کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔
آج کل مغرب کے زیراثر ’’اسلام کی اصلاح‘‘کرنے والوں کے لیے ترکی کے مصطفی کمال پاشا کا نام ایک رول ماڈل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۰ء میں اتاترک پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’]کتاب اتاترک کے[ مصنف نے ازراہ انکسار اس کتاب کو اتاترک کی سوانح عمری قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے ’’قصیدۂ نعتیہ درشانِ اتاترک علیہ السلام‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ترکی میں ایک نبی مبعوث ہوا تھا… یہ مبالغہ جس شخص کے حق میں کیا گیا ہے اسے مرے ہوئے ابھی کچھ بہت زیادہ دن بھی نہیں گزرے کہ ماضی کے دھندلکے سے فائدہ اُٹھا کر اسے دیوتا بنا ڈالا جائے۔ پرانے زمانے کے مچھر کو آج ہاتھی بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ہم عصروں کی آنکھوں میں کہاں تک خاک جھونکیں گے... ]کتاب کے مصنف کے بقول‘ اتاترک[ نے مذہب ]اسلام[ کی اصلی روح کو برقرار رکھتے ہوئے درویشوں اور مولویوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ مذہب اسلام میں دنیاوی ترقیوں کا ساتھ دینے کی پوری پوری صلاحیت ہے‘ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ درویشوں اور مولویوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت ترکی کی سرزمین کو اتاترک نے ملائوں کے وجود سے پاک کیا‘ اور فی الحقیقت اتاترک کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی اصلاح کی تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی--- بے معنی الفاظ کا کتنا عجیب مجموعہ ہے۔ ان لوگوں کے ’’لچک دار اسلام‘‘کی کیا تعریف کی جائے‘ ] ان کے نزدیک[ اس کم بخت میں اس غضب کی لچک موجود ہے کہ دنیاوی ’’ترقیوں‘‘ کی خاطر قرآن کا قانون منسوخ کردینے تک کی گنجایش اس میں نکل آتی ہے۔ اور اس ’’مذہب اسلام کی اصل روح‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ ملا اور درویش کو سامنے رکھ کر اس طرح ڈائنامائیٹ سے اڑایئے کہ قرآن و سنت بھی ساتھ ساتھ اڑ جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کا نام ’خالص روحِ اسلام‘ ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ مئی-جون ۱۹۴۰ئ‘ ص ۳۲۲-۳۲۷)
مولانا مودودیؒ مقصد سے لگن رکھنے والے ایک ایسے ادیب اور مفکر ہیں جنھیں اپنے مخاطبین کے دل میں پیغام اتارنے اور ان کی شخصیت کو بدلنے سے غرض ہے۔ مگر وہ اس غرض کے لیے زور زبردستی کا ویسا رویہ اختیار نہیں کرتے‘ جو عموماً سیاسی یا مذہبی عناصر کے طرزِ تخاطب کی پہچان اور ان کا عیب ہوتا ہے۔
ادب نام ہے اثرانگیزی کا اور یہ اثرانگیزی مولانا کی تحریر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروع کے دینی ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے علما نے تفسیر‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ اور تاریخ پر بڑی گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ لیکن ان کے اسلوب کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق اس دنیا سے نہیں ہے‘ جسے وہ مخاطب کر رہے ہیں۔ بعض مستثنیات کے سوا ان کی زبان اتنی ادق اور محاورے اتنے بوجھل اور مثالیں ایسی ہوش ربا ہیں کہ آپ ان میں سے کچھ مواعظ کو تو محفل میں بیٹھ کر بآواز بلند پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن اُس زمانے میں دینی کتابوں کا کلچر یہی تھا۔ تاریخ پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کتاب بڑی عمدہ ہے‘ لیکن اگر آپ جملے کی طوالت دیکھیں تواندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔ یہی صورت دوسرے علما کی تحریروں کی ہے حتیٰ کہ مولانا مناظراحسن گیلانی ؒتک کا طرزِ تحریر اس روایت سے جان نہ چھڑا سکا۔ اس فضا میں مولانا نے دینی موضوعات پر تحریر و نگارش کا اسلوب بدل کر رکھ دیا۔ صاف نظر آتا ہے کہ دینی ادب کی زبان اور اسلوبِ بیان پر مولانا مودودیؒ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور بحیثیت مجموعی علماے دین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوبِ تحریر میں ایک واضح تغیر واقع ہوا ہے‘ مثلاً تفسیر میں مولانا عبدالحقؒ کی تفسیرحقانی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجیے‘ اور پھر پیر کرم شاہ صاحبؒ کی ضیاء القرآن دیکھیے‘ ان کے اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس اسلوب نگارش اور اندازِ تحریر کو جس شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ بحیثیت ادیب مولانا کا یہ بڑا منفرد پہلو ہے‘ جس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اگر انصاف سے کوئی نقاد تحقیق و تجزیہ کرے تو وہ دواور دو چار کی طرح دکھا سکتا ہے کہ کیا فرق واقع ہوا ہے۔
ایک مفکر(thinker)‘ مصلح (reformer) اور مدبّر (statesman) کی حیثیت سے مولانا مودودی ؒکی شخصیت کو زیربحث لانا ایک اہم موضوع ہے۔
جب اسلامی فکریات کے وسیع ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی فکرپر سب سے زیادہ جس شخص نے نہایت گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہ مولانا مودودی ؒہیں۔ ان کی اثرپذیری کا دائرہ اپنی وسعت اور عمق کے اعتبار سے‘ اور اپنی اصابت فکر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔
بلاشبہہ دوسرے مفکرین اور خادمانِ دین نے بھی بیسویں صدی میں اسلامی فکر کو مالا مال (enrich) کرنے کے لیے بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور ان کی حیثیت کہکشاں کے روشن ستاروں کی سی ہے اور اس میں ان کے ہاں ایک دوسرے سے اثرپذیری بھی نظرآتی ہے ۔ تاہم میری نگاہ میں مولانا مودودیؒ کو جس بنا پر منفرد مقام حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ انھوں نے وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک اس وقت کے حالات کی روشنی میں اسلامی فکریات کے قائدین نے انجام دیا تھا۔(ملاحظہ ہو‘ میرا مضمون ’’دینی ادب‘‘ مشمولہ: تاریخ ادبیات پاک و ہند‘ ج ۱۰‘ ص ۲۶۱-۳۷۶‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور)
اس کی ایک مثال اسلام کے لیے ’تحریک‘ کے لفظ کا استعمال ہے‘ جو بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی علامت اور پہچان بن گیا۔ اس اصطلاح کی کچھ وہی حیثیت ہے جو دوسری صدی اور اس کے بعد کے زمانے میں ’شریعت‘ کی اصطلاح سارے دینی لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ قرآن پاک میں لفظ ’شریعت‘ راستے اور طریقے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ہماری فکری تاریخ میں لفظ ’شریعت‘ دوسری صدی میں داخل ہوتا ہے‘ جب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے پھیلائو اور نئے تہذیبی مسائل میں اسلام کی اُبھرتی ہوئی قوت کو پیش آمدہ مسائل کا کیسے جواب دینا ہے؟ اسلامی دعوت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی سوسائٹی‘ اسلامی اداروں کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی نظامِ زندگی کیسے پیش کیا جائے؟ اصول فقہ اور فقہ دونوں کی نشوونما‘ ترقی اور ارتقا دراصل اس ضرورت کو پورا کرنے کی بروقت‘ مؤثر اور کامیاب کوشش تھی۔ اس عظیم کارنامے نے اگلے ۱۲۰۰ برسوں میں اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت اور خود دین اسلام‘ اور اسلام کے سیاسی نظام کو ایک ایسا بنیادی ڈھانچا عطا کیا‘ جس سے وہ ہر طوفانی تھپیڑے اور ہر سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکا اور اس کے ذریعے وہ ہردور میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ کرسکا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ شریعت بحیثیت اصطلاح‘ اسلام کے فکری اثاثے میں شامل ہوئی۔
فقہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عبادات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلاشبہہ عبادات اس کا اولین موضوع ہیں‘پھر خاندان اور عائلی زندگی وغیرہ کے معاملات۔ یہ دونوں موضوعات فقہی کتب کے تقریباً دو تہائی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فقہ میں مالی معاملات‘ معاشی احکام‘ تجارتی احکام‘ پھر قانون صلح و جنگ‘معاہدات‘ سزائیں‘ تعزیر‘ حد اور سیر کے ابواب ہیں۔ سیر (قانون بین الاقوام) کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کس طرح معاملہ کریں اور غیرمسلموں کے حقوق کی کیا صورت ہے؟ یہ تمام ابواب فقہ کے ہیں اور فقہ کا یہ نشوونما اور شریعت کا یہ وسیع تر نظام‘ دراصل قرآن و سنت کی دعوت کا فطری مظہر تھا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت پیش کی گئی تھی‘ جس نے ایک سوسائٹی‘ ایک تحریک‘ ایک ریاست اور ایک تاریخی رو کو پروان چڑھایا تھا‘ اس چیلنج کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ قانونی اور اداراتی سطح پر ایک ہیکل اساسی (infra-structure)کی ضرورت تھی۔ ان فقہا نے اسے دو اور دو چار کی طرح واضح کیا تاکہ آنے والے کل کے مراحل کو طے کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہت کے باوجود قانون بادشاہوں کی مرضی کے تابع نہیں تھا بلکہ شریعت کا قانون تھا ۔ کم و بیش ہر بادشاہ شریعت کے قانون اور قاضی کے حکم کے تابع تھا۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تحریک ایک حقیقت تھی تو اس کے ماحصل کو محفوظ و مستحکم کرنے کے لیے فقہ اور شریعت کی تدوین کی ضرورت تھی اور اس تاریخی عمل نے شریعت کی مرکزیت کو برگ و بار عطا کیے۔
پہلی اور دوسری صدی میں درپیش حالات کی طرح کا چیلنج اُمت مسلمہ کو دوبارہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے شروع میں بڑی شدت کے ساتھ پیش آیا‘ لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ تب فقہ توموجود تھی لیکن وہ نظام باقی نہیں رہا جس کو چلانے کے لیے وہ فقہ مدون کی گئی تھی۔ شریعت کا وہ ڈھانچا تو موجود تھا لیکن شریعت کہیں بھی قانون ارضی (law of land) کے طور پر موجود نہیں تھی۔ مغربی سامراج نے مسلم ممالک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ممالک پر ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی‘ سیاسی نظام پر بھی‘ عدالتی نظام پر بھی‘ اجتماعی نظام پر بھی‘ معاشی نظام پر بھی‘ تعلیم پر بھی‘ حتیٰ کہ خاندان اور فرد پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس منظرنامے میں یہ ایک ادھوری بات تھی کہ بس ’’خلافت بحال کر دو‘‘۔ جو شخص بھی اسلام کے مزاج کو سمجھتا تھا اور وقت کے بحران اور اس کی اصلاح کا صحیح نقشۂ کار اس کے سامنے واضح تھا‘ اسے یہ بات بڑی سطحی اور غیرفطری لگتی تھی۔ ہم یہ دیکھتے ہیںاس موقع پر اُمت کے لیے ایک نقشۂ کار اور ایک واضح حکمتِ عملی متعین کرنے کا جو کام مولانا مودودیؒ نے کیا‘ وہ کم و بیش اسی نوعیت کا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ تب ہم ایک نئی اصطلاح سے روشناس ہوئے اور وہ ہے لفظ ’تحریک‘۔
جس طرح اولین دور میں لفظ ’شریعت‘ نہیں تھا لیکن اسلام کے منشا کو بیان کرنے کے لیے ’شریعت‘ کا جامع لفظ آیا۔ آج اگر کوئی سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟ تو اس کا فوراً جواب ملے گا ’’شریعت ِاسلامی‘‘۔ گویا شریعت‘ اسلام کے نظام کار کی مجسم کی صورت میں اس زمانے میں آئی‘ جب اسلام ایک غالب اور ایک تاریخ ساز قوت تھا۔ وہ قوت‘ اپنی اخلاقی اور تہذیبی برکت کے ساتھ دنیا کے شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب میں کارفرما نظر آرہی تھی۔ اس زمانے میں اس کی حرکت کے پہلو کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب حرکت اور پھیلائو کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ اور اُمت جمود ہی کا شکار نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے ایک دوسری تہذیب کے سانچے میں ڈھل جانے کی نوبت آگئی‘ تو نئی ضرورتیں اُبھریں۔ اب اسلام صرف اقتدار ہی سے محروم نہ تھا‘بلکہ وہ ادارے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت اور ریاست کے ستون تھے اور اس کی پوری عمارت کو تھامے ہوئے تھے‘ ایک ایک کر کے منہدم ہوگئے‘ اور ان کی جگہ ایک دوسری تہذیب سے درآمد شدہ اداروں کو مسلمانوں کی سرزمین پر مسلط کر دیا گیا تو ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اب شریعت کو دوبارہ زندگی کی رہنما قوت بنانے کے لیے ایک نئے وژن اور نئی اجتماعی تحریک اور نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کا صحیح وژن‘ایمانی دانش اور متوازن بصیرت کے ساتھ بیان کیا جائے‘ اس بصیرت کی وسعتیںاس کے اہداف کے ساتھ آشکارا کی جائیں ‘ اس کو بروے کار لانے کے لیے قوت عمل‘ اس کے نظامِ کار کی منہج اور اس کے لوازمات کی فکر کی جائے۔ اور پھر عملاً وہ جدوجہد برپا کی جائے جو دین کی اقامت کا ذریعہ بن سکے۔
یہی وہ چیز تھی جس کے اظہار کے لیے مولانا مودودی ؒنے دین و دعوت اور نظامِ زندگی اور قانونِ حیات کے تصورات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔ انھوں نے قوی دلائل کے ساتھ اسلام کا جو انقلابی تصور پیش کیا وہ ’تحریک‘ کے لفظ میں ڈھل گیا۔ ان کے فکر کا اصل آہنگ یہ پیغام ہے کہ: اسلام ایک دین‘ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون‘ ثقافت‘ طرزِمعاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسلام محض ایک نظری فلسفہ نہیں‘ بلکہ عقیدہ‘ اخلاق‘ قانون‘ معاشرت‘ تہذیب و تمدن اور اقدارحیات کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا صورت گر بھی ہے اور اس طرح وہ ایک تاریخی قوت ہے‘ جس کے داخلی وجود میں یہ صلاحیت کار ہے کہ وہ اپنے کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دے‘ انھیں متحرک اور منظم کر کے ایک جدوجہد کا موج در موج حصہ بنا دے۔ دوسرے یہ کہ اسلام‘ دین کے ساتھ ساتھ‘ ایک پیغام‘ ایک دعوت‘ ایک تبدیلی کا عمل ہے۔ جب دین کی ان تینوں جہتوں کے ساتھ‘ عقیدہ‘ عبادت‘ نظامِ زندگی اور قانون اور معاشرت اور پھر پیغام‘ دعوت‘ جدوجہد اور نفاذ کی منظم کوشش کی جائے تو سب مل کر اسلام کی حقیقی منشا بن جاتی ہے‘ جسے ’تحریک‘ کی اصطلاح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔
بعض علما نے مولانا مودودیؒ کی اس پکار کو ’بدعت‘ قرار دے کر ناگواری کا اظہار کیا‘کچھ نے بالکل ہی مسترد کر دیا‘ مگر ان افراد کے نامناسب ردعمل نے بہت جلد اپنی اپیل کھو دی۔ آج اُن پیشوائوں کے ارادت مند بھی انھی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں‘ جنھیں وہ کل مذموم قرار دے کر مولانا مودودیؒ کے خلاف فتووں کی بارش کر رہے تھے۔ گویا وقت اور حالات کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے اسلام کے اصل پیغام کو اس کے جوہر سے جوڑنے‘ بیان کرنے اور دل و دماغ اور قول و عمل میں انقلاب برپا کر کے اس کو ایک زندہ تحریک بنانے کا کام کیا۔ مولانا مودودی ؒاور اس دور میں احیائی فکر کے علم بردار مفکرین کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری میں اس وقت اُمت کے قائدین نے انجام دیا تھا۔ اس وقت ایک چلتے ہوئے نظام کو مستحکم کرنے اور انحراف کی یورش کے مقابلے کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ضابطے اور قانون کا پابند کرنا اصل ضرورت تھی‘ اور اب قانون اور ضابطے کا ایک مثالیہ تو موجود تھا مگر وہ قوتِ قاہرہ مفقود تھی‘ کہ جس کے ذریعے نظریات نظامِ حیات بن جاتے ہیں۔
اب اگر آپ اس کی تہ میں جانا چاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ خلافت و اسلامی ریاست دراصل اس تحریک ‘ اس جدوجہد اور تبدیلی کا نتیجہ ہوگی۔ اس کے لیے فکر کی تبدیلی‘ فکر کے ساتھ کردار کی تبدیلی اور کردار کے ذریعے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اس مقصدکے لیے منظم جدوجہد کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں‘ جو بالآخر اسلامی معاشرے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی ریاست اور حکومت الٰہیہ کے قیام پر منتج ہوگی۔ دیکھیے کہ خلافت کی اصطلاح جس نے ۱۹۲۴ء میں ایک خاص انداز میں پوری اُمت کو صدمے سے دوچار کیا تھا‘ اس کے زیادہ جان دار متبادل کے طور پر حکومت الٰہیہ‘اقامت دین‘ اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ اور پیاس اپنے نئے روپ اور نئے وژن کے ساتھ کس طرح اس مقام تک آپہنچی ہے۔
علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ کے سامنے دراصل یہ بنیادی ایشو تھا۔ علامہ نے اپنے انداز و اسلوب اور اپنے دائرے میں اور اشاروں میں اور مولانا مودودیؒ نے تفصیل‘ وضاحت اور تسلسل کے ساتھ اس کا جواب دیا۔مولانا مودودیؒ کی نگاہ میں اصل مسئلہ خلافت کے کسی روایتی ادارے یا symbolکا قائم ہوجانا نہیں‘بلکہ خلافت تو اس وژن اور اس نئے عمل اور اس تہذیب کی سرتاج ہے جس کے لیے ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے‘ یعنی استخلاف فی الارض کی ذمے داری کو پورے شعور کے ساتھ ادا کرنا۔
آج کے دور اور حالات میں خلافت اور اقامت دین کے لیے مطلوب بنیادوں اور لائحہ عمل کے جو خدوخال سیدمودودی ؒنے پیش کیے ہیں‘ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز فکر اور فکرمیں بھی اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ وقت کی غالب فکر پر گرفت‘ تنقید و تنقیح اور ایک نئے انسان کو تیار کرنا ہے۔ ایساانسان جس کا وژن‘ اخلاق‘ کردار‘ صلاحیت کار‘ تعلیم‘ وسائل اور اوقات کار کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے بعد دوسری چیز ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے۔ چونکہ یہ کام محض انفرادی طور پر انجام نہیں پاسکتا‘ اس کے لیے ایک منظم اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔ ایسے تمام اچھے انسانوں کو منظم کر کے اجتماعی جدوجہد میں لگا دینا‘ تاکہ اسلام وقت کی غالب قوت بن کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا سکے۔ اس مطلوبہ قوت کا جو وژن سامنے آتا ہے وہ ہے تبدیل شدہ انسان اور اس کے ذریعے ایک اچھے معاشرے کا قیام۔ اس کے ادارات میں تعلیم‘ معاشرت‘ معیشت شامل ہے اور جس کا موثر ترین پہلو انقلاب قیادت اور اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ صرف ایک خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسلام کو ایک کارفرما اور قائد کی حیثیت سے سامنے لانا ہے۔
سید مودودی کے علمی کارنامے کا احاطہ اور جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ مگر اس جائزے کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا بڑا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کسی قدر غوروفکر اور مزید تحقیق و تحلیل (analysis) کے طور پر چند نکات مرتب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:
سید مودودیؒ کے علمی کارنامے کی صحیح تفہیم کے لیے دو بنیادی باتوں کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے: اول یہ کہ ہماری تاریخ کی پہلی پانچ صدیاں اسلامی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی صورت گری اور استحکام اور ترقی کے باب میں اسلام کی اجتہادی اور انقلابی قوت کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج اور تاریخی کردار کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم عرض کریں گے کہ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ نہ صرف اسلام کے معیاری ادوار ہیں‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اسلامی مثالیے کے خدوخال متعین کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد کے ساڑھے چار سو سال کے سیاسی نشیب و فراز سے اگر صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ دور علوم اسلامی کی تدوین کا زریں زمانہ ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ تصوف‘ ان سب کے لیے یہ تعمیری اور تشکیلی دور ہے۔ اور امام غزالی ؒ
کی ذات اور کام میں اس دور کا حاصل دیکھا جا سکتا ہے۔
امام غزالی ؒنے فقہ‘ کلام اور تصوف کے تینوں دھاروں کو اپنے وقت کے فکری اور تہذیبی چیلنجوں کی روشنی میں اپنی مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ایک نامیاتی اکائی (organic whole)میں مرتب اور منضبط کرنے کی بڑی راہ کشا اور کامیاب کوشش کی۔ پھر ایسی ہی ایک کوشش بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ مرحوم و مغفور کے کام میں نظر آتی ہے۔
سید مودودیؒ کے کام کو بیسویں صدی کے فکری اور تہذیبی چیلنج کے پس منظرہی میں سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ فکری اعتبار سے ان کا کام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے کام کا تسلسل اور اس علمی روایت کے بیسویں صدی میں احیا کی ایک شان دار مثال ہے۔
دوسری چیز وہ فکری اور تہذیبی ماحول ہے جس میں سید مودودی ؒنے یہ کام انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ۲۰۰ سال کا فکری جمود‘ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(renaissance)‘ روشن خیالی (enlightenment) اور لبرل اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ‘ صنعتی انقلاب‘ مغربی استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار پوری دنیا بشمول مسلم دنیا پر ان تسلط تھا۔ اس پس منظر میں شروع شروع میں مسلمانوں میں دو رجحان رونما ہوئے۔ ایک تحفظ اور اپنی میراث کو بچانے کے لیے قدامت پسندی اور جدید سے عدمِ تعاون اور اجتناب کا رویہ تھا‘ اور دوسری جانب اپنے تشخص اور روایت سے بے نیاز ہوکر غالب قوت سے ہم آہنگی اور ہم رنگی اختیار کرنے اور لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر عملاً مغربی تہذیب‘ طرزفکروعمل‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں سے نئی ٹکنالوجی اور طرزمعیشت کو بلاتفریق وامتیاز (indiscriminately)اختیار کرنے کا۔
روایتی مذہبی طبقات پہلے راستے میں نجات دیکھ رہے تھے‘ اور جدید تعلیم یافتہ اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات دوسرے کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک وسیع خلیج تھی جسے پُر کرنے کے لیے کئی موثر کوششیں ہوئیں‘ جن میں سب سے اہم اسلام اور مسلم تہذیب و تاریخ پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی وہ کاوش تھی‘ جو سید امیرعلی‘ شبلی نعمانی اور ندوۃ العلما اور دارالمصنفین نے انجام دی۔
اس پس منظر کے ساتھ برعظیم پاک و ہند میں دو آوازیں اُبھریں جو اپنی تازگی‘ وسعت اور انفرادیت (originality) کے اعتبار سے بظاہر اپنے ماحول میں اجنبی‘ لیکن دراصل اسلام کے پہلے ۵۰۰سال کی روایت کے احیا کی نقیب تھیں---ایک‘ اقبال اور دوسرے ابوالکلام آزاد۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اسلام کی راہ وسط کو اجاگر کیا اور قدیم اور جدید کے درمیان راہِ صواب کی نشان دہی کی۔ لیکن صرف اس حد تک کہ جمود پر ضرب لگائی‘ مغربیت کے طلسم کو چیلنج کیا اور اسلام کے حقیقی پیغام اور مشن کی طرف مراجعت کی دعوت دی--- جس شخص نے اس نقشے میں رنگ بھرا اور اس دعوت کو فکروعمل دونوں میدانوں میں ایک حقیقی اور موثر تحریک بنانے کے لیے شب و رز وقف کر دیے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ جنھوں نے یہ کام روایت سے بغاوت کے ذریعے نہیں بلکہ روایت کو تجدید کے عمل کا حصہ بناکر‘ اور جدید کو نظرانداز کر کے نہیں‘ بلکہ جدید کو اپنی تہذیبی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر اور خذما صفا ودع ما کدر (جودرست ہے اس کو قبول کرلو اور جو نادرست ہے اس کو رد کر دو) کے اصول کے مطابق انجام دیا۔ ان کے اس کام کے تین اہم پہلو ہیں:
۱- فکر اسلامی کی تشکیلِ نو
۲- اُمت کی کمزوری اور زوال کے اسباب کی تعین و تشخیص اور اصلاح احوال کے خطوطِ کار کی نشان دہی۔
۳- اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرنو کی جدوجہد کا عملی آغاز
یہی وہ تین کام ہیں جس کے باعث بیسویں صدی کی تاریخ میں سید مودودیؒ ایک مفکر‘ ایک مصلح اور ایک مدبر کی حیثیت سے بڑا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں اپنی تصنیفی زندگی کے ۶۰برسوں میں سیدمودودیؒ نے تقریباً ڈیڑھ سوکتب کی تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت انجام دی۔ انھوں نے تفسیرقرآن‘ تشریح احادیث‘ تعلیم فقہ کے ساتھ اجتہادی بصیرت سے دورِحاضر کے جملہ اہم علوم اور مسائل کے بارے میں اسلامی فکر کے اساسی اصول پیش کیے۔ ان کے اجتہادی کام کا دائرہ چند گنے چنے مسائل تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اصل ماخذ اور تاریخی روایت کے ساتھ‘ پوری فکرِاسلامی کی روشنی اور تسلسل میں تعمیر اور تشکیلِ نو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس کام کی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق ہوگی اور اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔
اس سلسلے میں سید مودودیؒ کا سب سے بنیادی کام عقیدے کی تشریح اور توضیح ہے۔ سیدصاحبؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے سب سے کلیدی تصور‘ توحید کے عقیدے کی تشریح اور اس کے تقاضوں کی تعلیم ہے۔ قرآن نے الٰہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے‘ اس دور میں اس کی واضح ترین تعلیم سید مودودی ؒکا سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے۔ توحید کے تصور کو شرک کی تمام آلایشوں سے پاک کرنا اور اللہ کو الٰہ ماننے کے مضمرات کو جس طرح سیدمودودیؒ نے بیان کیا ہے‘ وہ اظہارمدعا کی دنیا میں ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اللہ صرف خالق اور پالنہار ہی نہیں ہے‘ بلکہ وہ حاکم‘ آقا‘ مطاع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کے معنی ایک طرف اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے دامن میں پناہ لینا ہے تو دوسری طرف اس سے عہداطاعت کرنا ہے کہ پھر زندگی کے ہر شعبے میں اس کی رضا کا حصول‘ اس کے احکام اور ہدایت کی اطاعت اپنے آپ کو اور اپنے پورے معاشرے کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لینا ہی کمال ترقی و کامیابی ہے۔
یہ تصور ایک طرف روایتی مذہبی جمود کو پارہ پارہ کر دیتا ہے تو دوسری طرف زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے اور الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر محض عقل‘ تاریخ اور تجربے کے سہارے زندگی گزارنے والے تمام طریقوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ عبادت صرف مخصوص اسلامی مظاہر (rituals) کا نام نہیں‘ بلکہ پوری زندگی کو منصوص عبادات کی ادایگی اور ان کی رمزیت اور اثرانگیزی کی قوت سے اللہ کی بندگی میں دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور اسلام ہے ہی وہ دین جو ایک طرف انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کو خالق کائنات کی مرضی سے ہم آہنگ (harmonize)کرنے کا وہ طریقہ ہے جس پر پوری کائنات عامل ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مسلم ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل پیرا ہے۔ جب انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو کر اللہ کے قانون کی اپنے ارادے سے پابندی کرتا ہے تو وہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے اسے حقیقی امن و سلامتی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے رب‘ اپنی ذات اور فطرت‘ اور پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اطمینان کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ اسلام کے معنی یہی سپردگی ہے جو اطمینان‘ امن اور سلامتی پر منتج ہوتی ہے (اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o الرعد ۱۳:۲۸)۔
توحید کے اس تصور کی وضاحت کے بعد سیدمودودیؒ اسی توحید کی بنیاد پر پوری انسانی فکر اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ قرآن و سنت اور اسوئہ رسولؐ سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرشعبے کے لیے کافی و شافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے ہرایک پہلو کو انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کیا نقشۂ کار ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتا ہے‘ اور ایک متوازن فکرانسانی اور علوم عمرانی کی تشکیلِ نو کس طرح ان بنیادوں کے اوپر انجام دی جا سکتی ہے۔ قانون‘ سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ تعلیم‘ حقوقِ انسانی‘ عالمی نظام‘ غرض ہر پہلو پر انھوں نے اخلاقی دیانت‘ اجتہادی بصیرت اور عمیق تحقیق کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی خدمت انجام دی ہے۔ فردِواحد نے وہ کام کردکھایا‘ جو بڑے بڑے ادارے اور محققین کی بڑی بڑی جماعتیں بھی بمشکل انجام دے پاتی ہیں۔
سید مودودیؒ نے تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کی تصویرکشی کے ذریعے انسانی زندگی کے اصل ایشوز کو مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ آفرینش کے آغاز سے تاریخ دو ہی قوتوں کی پیکار کی آماجگاہ ہے‘ ایک اسلام ہے اور دوسری جاہلیت (یعنی اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کا نقشہ بنانے کی کوشش خواہ اس کا نام اور آہنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو)۔ یہی وہ کش مکش ہے جس میں انسان کو استخلاف فی الارض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ جو اُمت مسلمہ کا مشن‘ یعنی شہادت حق اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور جس کے لیے نفس سے جنگ سے لے کر کارزارحیات میں شر‘ ظلم اور فساد کے خلاف جہاد ہی اللہ کے بندوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ تزکیہ نفس سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک‘ یہ سب اس نقشۂ راہ کے مراحل ہیں۔ حق کے غلبے کی جدوجہد ہی ایمان کا اصل تقاضا اور ثمرہے۔
سید مودودیؒ نے اسلام کے اس وژن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کام کیا‘ اس کے تجزیے سے ان کے علم الکلام کے خدوخال مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے اولین دور میں وژن کی صحت اور جدوجہد کی قوت کا سرچشمہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی اور سنت رسولؐ پر مضبوطی سے قائم رہنا تھا۔ بڑھتی ہوئی اسلامی قلمرو اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے پھیل جانے سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین اجتہاد اور اجتہادی فیصلوں کی تنفیذ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ فکر‘ تعلیم اور معاملات کا کچھ ایسا آہنگ بن گیا کہ فقہ اور روایت کو اولیت حاصل ہوگئی اور قرآن و سنت سے بلاواسطہ ربط و رہنمائی میں اضمحلال آگیا۔ جن نام نہاد مصلحین نے فقہ اور روایت سے بغاوت کی بات کی‘ وہ اسلام کی روح اور اس کے مشن سے ناواقف تھے۔ لیکن فقہ اور روایت سے رہنمائی اور تعلق کو منقطع کیے بغیر احیاے اسلام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت سے رشتہ استوار کیا جائے اور نئے حالات میں رہنمائی کے لیے ترتیب وہی قائم کی جائے جو دورِاول میں تھی--- یعنی قرآن‘ پھر سنت اور پھر اجتہاد۔ جس میں سلف کے اجتہاد اور اس کے نتیجے میں ظہورمیں آنے والی فقہ سے اصولوں کے مطابق استفادہ ہے۔ پھر جس طرح اصولین نے اپنے زمانے میں اپنے وقت کے علوم اور مسائل کو سامنے رکھ کر اسلام کی رہنمائی کو متعین کیا‘ اسی طرح آج کا ماحول اس پورے علمی اثاثے کو سامنے رکھ کر لیکن جدید علوم اور عصری مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے سائنس‘ عمرانی علوم اور دورِ جدید کے اس ’عرف‘ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے‘ جو مقاصد شریعت سے ہم آہنگ اور احکام اسلام سے متصادم نہ ہو۔
تحقیق‘تجزیے ‘ استنباط اور اطلاق کی یہ وہ حکمت عملی ہے جو سیدمودودیؒ نے اختیار کی۔ اسی طرح ان کے علم الکلام میں دورِ جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اسلامی علوم و افکار کی تشکیل جدید ہی نہیں بلکہ فکرِانسانی کی تشکیلِ نو کے اس عمل کو انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے خطوطِ کار کا تعین اور اس کے استعمال سے حاصل شدہ نتائج کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ گویا فکر اور فکری عمل کو آگے بڑھانے کے راستے اور طریقے بتاکر‘ ان دونوں میدانوں میں بھی سیدمودودی نے نئے چراغ روشن کیے اور مستقبل میں کام کرنے والوں کے لیے تابندہ نقوشِ راہ چھوڑے۔ ان کے سارے کام کا ہدف اللہ سے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا اور ان کے اندر اپنے رب سے مغفرت کی طلب بڑھانا تھا۔ لیکن فرد کی اصلاح‘ فکر کی تشکیلِ نو‘ وقت کے فتنوں اور چیلنجوں کا جواب‘ اسلامی زندگی‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست اور اسلام کے عالمی نظام کے خدوخال کی وضاحت کے ساتھ ان کی توجہ ایک اور کلیدی نکتے پر مرکوز رہی‘ اور وہ یہ کہ اچھے انسانوں کی تیاری کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ذریعے انقلابِ قیادت کا معرکہ کیونکر سر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملاً مربوط و منظم جدوجہد کی کہ دین کے قیام‘ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام اور ہرسطح پر قیادت کی تبدیلی اور فاسد قیادت سے زمامِ کار‘ صالح قیادت کی طرف منتقل کرکے انسانیت کی قیادت اہلِ خیر کے ہاتھوں میں لائی جاسکے۔ سیدمودودیؒ کی فکر کا مرکزی نکتہ توحید کے تصور کی وضاحت ہی نہیں ہے بلکہ توحید کے تصور کی بنیاد پر انسان سازی اور زمانہ سازی کا عمل ہے۔ یہ کام انھوں نے فکر کے میدان میں بھی انجام دیا اور پھر ایک مصلح کی حیثیت سے عملاً اس جدوجہد کو برپا کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ ایک دیدہ ور مفکر تھے‘ جن کے ہاں فکری ارتقا جاری رہا۔ وہ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر اپنی آرا پر نظرثانی کے لیے کھلا دل اور ضروری لچک رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ابتدا میں پہلے تحدید ملکیت زمین کے بارے میں مولانا کا کم و بیش وہی نقطۂ نظر تھا‘ جس پر فقہا عامل تھے۔ تاہم‘ جماعت اسلامی کا منشور تیار کرنے کے مختلف مراحل (۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ئ) میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لامحدود ملکیت زمین ظلم اور انسانی سماج میں شدید عدم توازن کا باعث بن جائے توزمین کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اس میں ناجائز ملکیتی زمینوں کو بحقِ سرکار ضبط کر کے ضرورت مند کاشت کاروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور جائز ملکیتوں میں زرعی اور بارانی زمینوں کو ایک حد سے زیادہ کی صورت میں‘ ریاست خرید کر مستحق افراد کو دے سکتی ہے۔ ان کے ہاں یہ تحدید کمیونسٹوں کے قومیانے والے تصور سے بالکل مختلف اور عدل پر مبنی ہے۔
مولانا مودودی کے ہاں جمود نہیں ہے‘ وہ سوچ کر رائے قائم کرتے تھے لیکن اپنی رائے پر قفل نہیں لگاتے تھے۔ شوریٰ میں تو میں نے دیکھا کہ مولانا نے لوگوں کو گھنٹوں بحث کرنے کا موقع بھی دیا ہے اور اپنی آرا کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ہم سب ان کے شاگردوں اور خوردوں میں سے ہیں لیکن وہ ہماری رائے کو بھی پوری توجہ سے سنتے تھے‘ نوٹس لیتے تھے‘ جواب میں دلیل دیتے تھے اور پھر قائل کرنے اور قائل ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایسے بلندپایہ انسان کا ایسے کھلے انداز میں شورائی آداب پر عمل کرنا‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ہی کا حصہ تھا۔
زندگی کے نئے مسائل اور نئی اُلجھنوں پر جب بھی سوچنے کا مرحلہ آتا تو مولانا اس پر ازسرنو غور کرتے تھے۔ جس چیز کے ایک سے زیادہ حل ہو سکتے تھے‘ ان میں ترجیح قائم کرتے تھے۔ مجھے مرکزی شوریٰ میں دو دن تک جاری رہنے والی وہ بحث اچھی طرح یاد ہے جس میں جداگانہ انتخابات کے مسئلے پر بات ہوئی تھی۔ یہ بحث محض نظریاتی نہیں تھی‘ بلکہ یہ اخلاقی اور اصولی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کے گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ اس پر شوریٰ میں دو آرا موجود تھیں۔ مولانا نے ایسے امور کو بڑی نزاکت سے نبھایا اور شوریٰ میں بالآخر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے (near consensus) کی کیفیت پیدا کی۔
مولانا مودودیؒ ایک مصلح کی حیثیت سے محض ایک نظریہ ساز (theorist) نہیں ہیں‘ بلکہ ایک عملی مصلح (active reformer) کی حیثیت سے ان کی نگاہیں ہمیشہ زمینی حقائق پر مرکوز رہتی ہیں۔ ایک ہمدرد معالج کے طور پر وہ مریض کو صحت یاب دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں اور مریض کی حالت کے مطابق نسخے میں ترمیم و تبدیلی بھی کرتے ہیں۔
عملیت پسند مولانا مودودیؒ میں خوداعتمادی تو بلا کی تھی‘ مگر خودپسندی کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی میں نہ تھا۔ وہ نئے حالات میں‘ دین کی روشنی میں‘ نئے تجربات اور نئے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور پورے عالمِ اسلام کی اصلاح کا انھوں نے بیڑا اٹھایا ‘اور اس عملی جدوجہد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے اور قیادت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جتنا بڑا کارنامہ انھوں نے فکری حیثیت میں انجام دیا‘ اتنا ہی بڑا کارنامہ انھوں نے عملی سطح پر بھی انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جماعت بنائی مگر جماعت اسلامی کا قیام بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے مترادف ثابت ہوا۔ جوں ہی انھوں نے جماعت بناکر دعوتِ عام دی تو وہ لوگ بھی جو ان کو ’ترجمانِ اسلام‘ کہتے تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے‘ بلکہ ان کے ناقد بن گئے۔ مولانا نے نئے حالات میں اسلامی فکر کے احیا اور تشکیلِ نو تک اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا‘ بلکہ دنیا کو بدلنے کی‘ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی‘ اُمت کو شہداء علی الناس کا کردار ادا کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھانے اور اقامت دین کی ذمے داری اٹھانے کے لیے سرگرم کر دیا۔ ان کی ذات میں مفکر اور مصلح‘ داعی اور منتظم‘ قائد اور مدبر کی صلاحیتوں کا اجتماع تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ان کے کردار کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔
l جدید خطوط پر تنظیم سازی :مولانا مودودیؒ نے اپنے عہدکی سرکردہ تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں اور نظاموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو ایک انقلابی تحریک کی ضرورت ہے جو محض ایک سیاسی تنظیم نہ ہو۔ اس تناظرمیں جماعت اسلامی کا وجود دراصل ایک نظریاتی تحریک کا روپ ہے۔ بنیادی پہلو یہ ہے کہ مولانا نے جماعت کے دستور میں پہلے ہی دن سے جو بنیادی چیز رکھی ہے‘ وہ اس کا وژن ہے‘ جس میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللہ کا تصور‘ اور اس کے تقاضے جماعت اسلامی کا محور ہیں۔ جماعت کے دستور کا سب سے اہم حصہ یہی ہے۔ اس میں پہلی بنیادی چیز اللہ کی حاکمیت‘ دین کی اقامت‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے پورے نظام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ازسرنو مرتب کرنے کا عزم اور سرگرم جدوجہد کا عہدہے۔ اس میں دوسری بنیادی چیزیہ ہے کہ ہرانسان قابلِ احترام ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معیارِ حق نہیں۔ اصل کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اسی میزان پر پرکھا جائے گا اور جو جتنا اس معیار سے قریب ہوگا ‘وہ اتنا ہی محترم ہوگا۔ جماعت کے قیام میں یہ اصول بھی کارفرما رہا کہ اس کی رکنیت بلاامتیاز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔ لیکن رکن وہ بنے گا جو شعوری طور پر اس ذمہ داری کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد کرے۔
مسلم تاریخ میں بیعت‘ امیر کے ہاتھ پر ہوتی تھی اور امیر کے مرجانے کے بعد دوسرے فرد سے بیعت ہوتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے نظامِ تنظیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: دعوت نہ تو امیر کی طرف ہے اور نہ بیعتِ امیر کی طرف‘ بلکہ دعوت بھی جماعت میں متعین کردہ نصب العین کی طرف ہے اور بیعت بھی جماعت کے ساتھ ہے‘ جسے حلفِ رکنیت کی شکل دی گئی۔ امیر پر نظام کو چلانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس کی قیادت تو کرے گا‘ اور بحیثیت امیر‘ نظام جماعت کے تحت اس کی اطاعت فی المعروف بھی ضروری ہے‘ لیکن امیر بھی اسی طرح دستور کا پابند ہے جس طرح ایک رکن۔ اسی طرح اطاعت نظام امر کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعوت امیر کی طرف نہیں‘ جماعت اوراس کے مشن کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا نظام معروف میں اطاعت اور منکر میں احتساب سے عبارت ہے۔ یہ جماعت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ میرے علم کی حد تک مسلمانوں کی اجتماعیت کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ نے پہلی مرتبہ تحریری دستور کے اندر احتساب کے حق کو حق ہی نہیں‘ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ہر رکن‘ شوریٰ اور پورا نظام امر‘ احتساب کے عمل میں شامل ہے۔ ہر رکن یہ عہد کرتا ہے کہ میں جہاں کہیں کوئی برائی دیکھوں گا ‘اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ مراد یہ ہے کہ رکنیت کے وجود میں احتساب کا حق ہی نہیں فرض بھی شامل ہے۔ دستور میں شوریٰ کے منصبی فرائض میں بھی احتساب شامل ہے۔ یہ اصول تو بڑی جمہوری پارٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے نظام کار کا جائزہ لیجیے‘ تو نظر آتا ہے کہ یا تو وراثت کا نظام کارفرما ہے‘ یا جس فرد کا وراثت‘ دولت اور اقتدار کے بل پر پارٹی پہ قبضہ ہے‘ وہی حرف اول ہے اور وہی حکم آخر۔
اس کے بعد ہے اختلاف راے کا حق۔ مولانا مودودیؒ نے اسے بھی ایک دستوری حق قرار دیا ہے‘ یعنی آپ پالیسی سے اختلاف رکھ سکتے ہیں‘ عقیدے سے نہیں۔ امیر سے اختلاف رکھ کر بھی آپ جماعت کے رکن رہ سکتے ہیں اور ایک وقت کی طے شدہ پالیسی کو بدلنے کے لیے افہام و تفہیم اور معروف شورائی ذرائع سے کوشش کرسکتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں بھی شورائی نظام کا ارتقا ہوا ہے‘ اورایک تدریجی عمل سے گزر کر جماعت نے ایک طرف امیر کو قیادت اور رہنمائی کا اختیار دیا ہے تو دوسری طرف پالیسی کو شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا ہے‘جب کہ آخری فیصلہ شوریٰ یا اجتماع ارکان کا استحقاق ہے۔ اس عمل سے شوریٰ کی برتری زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔
l نظام کی تبدیلی کا طریق کار اور حکمت عملی: مولانا مودودیؒ نے ملکی نظام میں تبدیلی کا جو طریق کار پیش کیا ہے‘ وہ افکار کی تبدیلی‘ کردار کی تعمیراور راے عامہ کی ہمواری کے لیے جمہوری‘ قانونی اور دستوری طریقے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں اس طریق کار کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا اور عملاً ملک کی سیاست میں دستوریت (constitutionalism) اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کی جدوجہد کی مثال قائم کی گئی۔ وہ سختی سے اس راستے پر کاربند رہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا: خفیہ جماعتوں کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں چونکہ یہ رجحان گڈمڈ تھا‘ اسی لیے عرب نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ میں آپ کوتلقین کرتا ہوں کہ آپ ان طریقوں کو اختیار نہ کریں جو فساد فی الارض کا ذریعہ بنتے ہیں۔ البتہ مسلمان جہاں پر محکوم ہیں اور غیروں کی غلامی میں ہیں‘ اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ جہادکی راہ اختیار کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ لیکن جن معاشروں میں آزادی ہے اور تبدیلی کے کچھ بھی جمہوری ذرائع موجود ہیں‘ وہاں آئینی اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا ہی مولانا کی نگاہ میں اور جماعت کے دستور کے تحت تبدیلی کا صحیح طریقہ ہے۔
یہاں ہمیں مولانا مودودیؒ مرحوم کی فکر کا یہ بڑا اہم نکتہ ملتا ہے‘ جسے علم السیاست میں ارتقائی عمل اور انقلابی عمل کہا جاتا ہے۔ مولانا نے بالکل ایک بیچ کا راستہ نکالا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ان کے تمام مقاصد تو انقلابی (revolutionary) ہیں‘ لیکن ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار ارتقائی (evolutionary) ہے۔ اسلامی انقلاب ہمارا مطلوب ہے‘ لیکن اس انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut)نہیں ہے اور نہ جبر کا کوئی طریقہ اس منزل کے حصول کے لیے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ذہنوں‘ معاشرے اور کردار کی تیاری کے ذریعے راے عامہ کو قائل کرتے اور اس طرح قیادت کی تبدیلی کا راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: قیادت کی تبدیلی کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ پہلے مولانا کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہییں۔ لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ اگر سیاسی پارٹیاں ان حدود کی پابندی کریں‘ جو شریعت نے اجتماعی زندگی کے لیے مرتب کی ہیں تو وہ اس ریاست کے نظام کار کو چلانے کے لیے نہ صرف معاون بلکہ ضروری ہیں۔ خاص طور پر سیاسی آزادی اور اختلاف راے کو اداراتی اور منظم شکل دینے کے لیے اس کو قبول کیا۔ اسی طرح ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص طرز پر جماعت کو تبدیلی کا صورت گربنایا۔ پھر انھوں نے جماعت کے ساتھ‘ معاشرے کے ہر طبقے کو فعال طور پر ساتھ لے کرچلنے کے لیے برادر تنظیموں کا ایک وسیع نظامِ کار وضع کیا۔
ایک اور مثال ہے‘ ان کا لیکچر : اسلام کا نظریۂ سیاسی ‘جو تقسیم ہند سے ۱۰برس قبل شائع ہوا تھا۔ اس میں مولانا نے امیر کے لیے زندگی بھر مامور رہنے اور شوریٰ کے مقابلے میں حق استرداد کو خلافت راشدہ کے تعامل سے لیا تھا۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ مولانا کے ہاں ہمیں دیانت اور علمی توسُّع کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بات کو ہمیشہ دلیل اور اعتماد سے پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی افہام و تفہیم اور دلیل سے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایسے ہر مشاہدے سے مولانا کی عظمت کا نقش گہرا ہوا ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین کا مرحلہ آیا اور میں نے مولانا کی اسلامی قانون کی تدوین والی تقریر کو Islamic Law & Constitution میں شامل کر کے اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کام شروع کیا تو اس موقع پر مولانا ظفراحمد انصاری‘ چودھری غلام محمد اور غلام حسین عباسی صاحب کے ہمراہ‘ مولانا مودودیؒ سے ان معاملات پر گفتگوئیں ہوئیں۔ مولانا بہت کھلے دل سے ہماری گزارشات پر غور فرمایا اور اس مکالمے کے نتیجے میں متعدد امور میں انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کی۔ مثال کے طور پر‘ امیر کے سلسلے میں مولانا نے رائے تبدیل کی اور کہا کہ دورِ امارت مقید ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خلفاے راشدینؓ توتقویٰ ‘ کردار اور اپنی خدمات کے اعتبار سے بہت اونچے مقام پر تھے‘ پھر وہ محض منتخب سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ستون اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور افضل ترین حضرات تھے‘ اس لیے ان کے اوپر یہ بھروسا کیا جا سکتا تھا لیکن‘ اگر آج ایک آدمی اختیار اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے ہٹانے کا راستہ کیا ہوگا۔
اسی طرح امیر یا لیڈر کو بھی شوریٰ کی رائے کا پابند ہونا چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کے ہاں اس میں بھی ایک ارتقا ہے‘ جس کا نقطۂ عروج تفہیم القرآن میں سورہ شوریٰ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص ( ۴۲:۳۸)پر تفسیری نوٹ ہے‘ جو پورے تفسیری لٹریچر میں منفرد شان کا حامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا ہے: ’’مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے‘ اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے… جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو‘ اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کر ڈالنا‘ اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظرانداز کر دینا زیادتی ہے… اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمدعلیہ نمایندوں کو شریک مشورہ کیا جائے… جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو‘ ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو‘ اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی‘ کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جوخدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں… اسلامی طرزِزندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انھیں بھی شریک مشورہ کیا جائے… خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راے لی جائے… ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے… اگروہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں‘ اور اصلاح نہ ہوتی دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے‘ اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر‘ اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۰۸-۵۰۹)۔ یہی چیز امیر اور لیڈر کے لیے ہے۔ اکثریت کی راے کو قبول کرنا اور اجماع پسندیدہ امر ہے۔ یہ آثار اپنے ارتقا کے ساتھ ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔
پھر جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے دستور کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں امیر کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم نے دستور میں سربراہ حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت تجویز کی تھی‘ جسے مولانا نے قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح جماعت کے پہلے دستور میں شوریٰ کا ادارہ موجود تھا‘ لیکن ان ارکان شوریٰ کو امیران افراد کی قابلیت‘ بصیرت‘ خدمات اور تقویٰ کی بنیاد پر نامزد کرتا تھا۔ اس کے بعد شوریٰ کو منتخب کرنے کا ضابطہ بنایا گیا۔ شوریٰ منتخب کرنے کے لیے بھی دو نوعیت کے حلقے بنائے گئے۔ ایک کل پاکستان سطح پر انتخاب رکھا گیا‘ جس میں پانچ افراد کا انتخاب تھا اور باقی تمام ارکان شوریٰ کو علاقائی حلقوں کی بنیاد پر منتخب کرنے کا ضابطہ مقرر کیا گیا تھا۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستورِ جماعت میں کل پاکستان بنیاد پر انتخاب کی الگ سے شق ختم کر دی گئی اور تمام علاقوں سے منتخب ارکان کی شوریٰ مقرر کی گئی۔ پھر۱۹۵۲ء کے دستور میں شوریٰ کے بارے میں یہ شق تھی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے۔ لیکن اگر شوریٰ اور امیر میں نزاع ہو تو کچھ امور میںشوریٰ‘ امیر کی رائے مان لے گی خصوصیت سے جن کا تعلق نصوص کی تعبیر سے ہو‘ اور کچھ امور میں امیر‘ شوریٰ کی رائے کو فوقیت دے گا خصوصاً انتظامی معاملات کے بارے میں۔ لیکن جب معاملات میں شوریٰ امیر کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر معاملہ ارکان میں بھیجا جائے گا اور اگر ارکان جماعت‘ شوریٰ کی رائے کو مان لیں تو پھر امیرمستعفی ہوجائے گا‘ اور اگر ارکان امیر کی رائے کو مان لیں توشوریٰ مستعفی ہوجائے گی۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستور جماعت میں یہ بات لائی گئی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے لیکن اگر اختلاف ہو تو امیر کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایک سیشن کے لیے فیصلے کو موخر کر دے‘ اور اگلے سیشن میں شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے اسے امیر مان لے۔ یہاں بھی وہی مشاورت‘ افہام و تفہیم اور شوریٰ کی بالادستی کا ارتقا ہے۔
اسی طرح مولانا کی رائے تھی کہ عورتوں کی شوریٰ الگ ہونی چاہیے اور مردوں کی الگ۔ لیکن جب عملی مشکلات اور بعض مختلف فیہ امور پر افہام و تفہیم کے پہلو پر مولانا سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورتیں بھی شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلموں کے بارے میں مولانا کی پہلے رائے یہ تھی کہ انھیں انتظامی امور میں مشورے میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی شوریٰ الگ بنائی جائے۔ لیکن جب مولانا سے اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی تو اس میں مولانا نے غوروفکر کے لیے خاصا وقت لیا۔ بالآخر وہ خود اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف نہ ہو‘ اور اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو ایسی صورت میں غیرمسلم بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں جہاں وہ سارے معاملات میں رائے دیں گے اور راے دہی میں بھی شریک ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
اُمت کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒؒ نے وسعت اور کشادہ روی کا انقلابی‘ جمہوری اور شورائی راستہ دکھایا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ایک ملک میں تبدیلی آنی چاہیے ‘پھر وہی ملک دوسرے ممالک میں تبدیلی لانے کے لیے ماڈل بنے گا۔ ان کی دعوت کا اولین ہدف اپنا وطن ہے‘ لیکن روے سخن پوری دنیا کی طرف ہے۔ عربی اور انگریزی میں اہم تصانیف اور تحریروں کے تراجم کا کام مولانا نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی شروع کروا دیا تھا۔ جماعت کی رودادوں میں ایک لمبی فہرست ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی بات اور اپنی آواز دنیا کے مختلف خطّوں اور علاقوں تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے گویا کہ پورا عالم (global reach) ابتدا ہی سے ان کے پیش نظر رہا ہے۔
اس طرح تحریک وتنظیم کے مابین ایک فرق بھی ہمارے سامنے آیا کہ اسلامی انقلاب کے لیے تحریکات تو ساری دنیا میں برپا ہوں‘ لیکن تنظیم ہر جگہ وہاں کے حالات کے مطابق الگ‘ آزاد اور اپنے قول و فعل کے لیے خود جواب دہ ہو۔ دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں گویا کہ وسیع ترعالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے نظم کا اور قانونی اور دستوری تعلق (link) نہیں ہے۔ آج بھارت‘ کشمیر‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جماعت کے نام سے کام ہو رہا ہے‘ فکر کی یکسانیت بھی ہے‘ لیکن طریق کار‘ حالات‘ ضروریات‘ دستور اور قیادت ہر مقام نے اپنے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ یہ مولانا کی عملیت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مولانا مودودیؒ ہی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغازکیا۔ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ئ) کے وقت بلاشبہہ مولانا مودودیؒ، سنٹرل جیل ملتان میں تھے‘ لیکن اگر مولانا نے اسلامی قانون کے موضوع پر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج‘ میں تقریر نہ کی ہوتی‘ اور وہ چار نکاتی پروگرام پوری قوم کے سامنے پیش نہ کیاہوتا تو قرارداد مقاصدکبھی پاس نہ ہوتی۔ یہ مولانا کی فکر‘ وژن اور جدوجہد تھی‘ جسے قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم‘ مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کی کوشش سے ’قرارداد مقاصد‘ کا جو مسودہ پہلی دستورساز اسمبلی نے منظور کیا‘ یہ مسودہ اسمبلی میں پاس ہونے سے قبل ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کو دکھایا گیا اور ان کی رضامندی کے بعد ہی وہ اسمبلی کے فلور پر پیش اور پھر منظور ہوا تھا۔
۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری کے تاریخی لمحات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس سلسلے میں علما کی جو نشست ہو رہی تھی‘ اس میں راجہبھائی ]ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری[ ‘خرم بھائی اور میں ان بزرگوں کے خادم کی حیثیت سے شریک تھے۔ جب پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ مگر کسی کے سامنے یہ بات واضح نہیں تھی کہ ہم نتیجے پر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ان دھواں دھار تقاریر کے آخر میں مولانا ظفراحمد انصاری صاحب نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ اس طرح کی تقریروں میں تو ہم کئی دن صرف کر دیں گے اور کچھ نتیجہ نہیںنکل سکے گا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس اجلاس کو موخر کردیتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا میں سے ہر شخص تحریر کر دے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے سربراہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒہوں‘ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے میں ان تجاویز کی روشنی میں ایک مسودہ تیار کرلیتا ہوں‘ اور پھر اس مسودے پر بحث کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل کو منظور کرلیں گے‘‘۔ سب نے اس تجویز کو بڑا پسند کیا۔
ہر ایک عالم دین کو سادہ کاغذدے دیے گئے‘ بیش ترنے لکھا۔ سب سے طویل مضمون مولانا راغب احسن مرحوم نے لکھا‘ لیکن وہ مضمون لفاظی اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ ان سب کے برعکس مولانا مودودیؒ نے پنسل سے فل اسکیپ کا ڈیڑھ صفحہ لکھا‘ جس میں انھوں نے منطقی ربط کے ساتھ‘ بڑے اختصار اور جامعیت سے بھرپور نکات بنا کر دیے کہ یہ اور یہ چیزیں ہونی چاہییں۔ چنانچہ علما کے ۲۲نکات کی بنیاد وہی مسودہ بنا‘ تاہم آخری مسودہ مولانا ظفراحمد انصاریؒ نے اپنے قلم سے لکھا۔ مولانا انصاری مرحوم کا مسودہ کم و بیش مولانا مودودیؒ کی تحریرہی پر مبنی تھا۔ اس دوران مولانا سلیمان ندویؒ استراحت فرما رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انھوں نے دوتین جگہ جزوی ترمیم و اضافہ کیا۔ پھر اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں سب سے پہلے اس کو پورا پڑھا گیا‘ پھر ایک ایک نکتے کی خواندگی ہوئی اور بالکل جس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے سربراہوں کو حجراسود اٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب کرنے میں شریک کر لیا تھا‘ اس طرح اس شرکت سے الحمدللہ یہ نکات متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی مولانا مودودیؒ اور مولانا انصاریؒکا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
جب علما کی دستوری ترامیم اور سفارشات آئیں تو اس میں متفقہ طورپر جو چیزیں مرتب ہوئیں ان میں بھی مولانا مودودیؒ کا سب سے زیادہ تعمیری اور تحریری حصہ تھا‘ تاہم اس میں دو‘تین اختلافی نوٹ بھی تھے اور وہ بہت معمولی نوعیت کے تھے۔ پھر جب ۱۹۶۱ء میں فیلڈمارشل صدر ایوب خاں کے زمانے میں متنازع فیہ عائلی قوانین کا آرڈی ننس (MFLO) آیا تو مولانا مودودیؒؒ ہی نے اس پر تنقید لکھی اور اس تنقید پر علما نے دستخط کیے‘ اور سب کی طرف سے وہ تنقید قوم کے سامنے آئی۔ اسی طرح ایوب خان کے دستوری کمیشن کے سوال نامے کا جواب بھی مولانا مودودیؒ نے لکھا‘ اور پھر تمام علما اور سیاست دانوں نے اس کو دیکھا اور اس کو اپنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی صلاحیت دی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کے مختلف سنگ میل ہیں اور ان میں سے ہرسنگ میل پر مولانا مودودیؒ کا نام اور کام ثبت ہے۔
اس کے بعد دستور میں درج مستقل نظام کے تحت متعین وقت پر انتخاب امیر کے لیے انتخابات منعقد کرائے۔ پھر جب ۱۹۷۲ء میں انھوں نے محسوس کیا کہ اب صحت اس ذمے داری کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی توانھوں نے رفقا ے جماعت سے کہا: اب آپ میری زندگی میں اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں جماعت نئے امیر پر مجتمع ہوجائے‘‘۔ یہ ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ جس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی جاگیر قائم کرنا چاہتا ہو‘ گدی قائم کرنا چاہتا ہو‘ یا سیاست میں اس کا کوئی ذاتی مشن ہو‘ وہ کبھی ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتا۔ سچی بات ہے کہ جماعت کے لیے زندگی‘ تطہیر‘ قیادت‘ شورائیت اور صحیح راستے پر قائم رہنے کے لیے اس مثال میں بڑی عظیم رہنمائی موجود ہے جسے سید مودودیؒکی تاریخ ساز اور عہدآفریں شخصیت نے پیش کیا۔
علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مولانا مودودیؒ بھی اس میں بہت گہرائی تک گئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے عصری تجربات‘ خصوصیت سے پارلیمنٹ کے وجود‘ انتخابی عمل‘ دستوری انداز‘ قانون سازی کے اسلوب‘ عدلیہ کی آزادی اور افراد کی آزادی اور حقوق--- غرض ان تمام چیزوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر اسلامی راسخ العقیدگی اور قرآن و سنت سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے نہ صرف دوسروں کو ان پر کاربند ہونے کا نہ صرف راستہ دکھایا‘ بلکہ خود بھی انھیں قبول کر کے دکھایا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا یہ حرکی اور لچک دار رویہ‘ عصرحاضرکے مسائل و معاملات میں ہوا کا تازہ جھونکا اور فکرودانش کے گلستان کا بہار آفریں منظر پیش کرتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایک منفرد علم الکلام دیا ہے۔ اسی ذیل میں مولانا مودودیؒ نے مسلم تاریخ کا محاکمہ (critique) لکھا ہے جو محض محاکمہ نہیں ہے‘ بلکہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک منفرد اسلوب اور زاویہ ہے۔ مولانا مودودیؒ تجدید و احیاے دین‘ خلافت و ملوکیت‘ سلاجقہ اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے علاوہ تفہیم القرآن کے اوراق میں ہمیں رہنمائی دیتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کو کیسے دیکھنا چاہیے اور ہم اس کی تعبیر کیسے کریں؟ ہم محبت یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہونے کے بجاے اپنے اندر عدل کی حس کو بیدار کریں۔ تاریخ کے اوراق اور ادوار میں تعمیروتخریب‘ اطاعت و انحراف‘ ظلم اور عدل‘ سنت اور بدعت کی موجودگی ہمیں نظرآئے‘ تاکہ ہر موقع پر کھلے ذہن کے ساتھ قوسِ قزح کے سب رنگ دیکھے جا سکیں۔ جہاں کہیں بنیادی اصول میں کوئی ایسا انحراف نظرآئے جو محل نظر ہو‘ یا قرآن و سنت کے مزاج سے مناسبت نہ رکھتا ہو‘ تو پھر اس پر تنقید بھی ہوسکے اور اس کی تصحیح بھی۔ اس کو مولانا مودودیؒ کے علم الکلام کا ایک حصہ تصور کیا جائے‘ یااپنی جگہ ایک مستقل علمی کارنامہ‘ بہرحال یہ بھی مولانا کی ایک بڑی شان دار اور ناقابلِ فراموش خدمت ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فکر بھی دی اور فکر کے ساتھ سوچنے کا اسلوبِ بھی دیا۔انھوں نے اُمت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کا مشن متعین کیا‘ اس کے لیے اسے بیدار کیا اور آگاہ کیا کہ ہم محض معاشی ترقی حاصل کرنے والی ایک قوم نہیں ہیں‘ بلکہ ہم ایک صاحبِ مشن اور صاحب شریعت قوم ہیں۔ اس صاحبِ مشن قوم کو ملکی اور پھر عالم گیر سطح پر کامیاب کرانے کے لیے حکمت کاراور حکمتِ عملی کو پیش کیا۔ اسی حکمت کار کا ایک حصہ جماعت اسلامی کا قیام ہے جس میں فکر ہے‘ اور عمل کا وسیع دائرہ ہے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کا بالکل نیا ماڈل دیا‘ اور نہ صرف ماڈل دیا‘ بلکہ اس کے اوپر عمل کرکے بھی دکھایا۔
مولانا کے علمی کام میں سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن ہے۔ تجدید و احیاے دین کے تصور میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات خود مولانا نے مجھ سے فرمائی ہے: ’’جب جماعت قائم ہوئی تو اس کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس جماعت کا تعلق قرآن سے قائم کروں اور جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا ہے‘ اسے اس طریقے سے بیان کروں کہ جماعت اور پوری قوم قرآن کی روشنی کے دائرے میں آجائے‘ اور وہ قرآن سے تعلق قائم کرکے اس میں شریک ہو سکے‘ تاکہ جو تبدیلی میرے پیشِ نظر ہے اور جس کا ماخذ‘ جڑ اور بنیاد قرآن ہے اس تک رسائی حاصل کی جاسکے‘‘۔ یہ وہی کام ہے جو شاہ ولی اللہ مرحوم نے اپنے دور میں کیا۔ اس طرح مولانا کی احیائی فکر کے اندر تفہیم ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیم کی شکل میں جتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کے ذریعے اس دور میں اس اُمت کو دی ہے‘ اس پر اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ تفہیم القرآنمولانا کے فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدابہار کارنامہ (ever-lasting) ہے۔ یہ مولانا کے علم الکلام کا بھی بہترین مرقع ہے۔ اس میں مولانا کی چند اوّلیات بھی ہیں جن میں ترجمے کی جگہ ترجمانی‘ ہر سورہ کا مقدمہ اور پھر ترجمے میں پیراگراف بندی قابلِ ذکر ہیں۔۱؎
مولانا کے فکری اور علمی اثاثے میں ایک اور چیز ان کے ہاں پائی جانے والی تازگی اور تخلیقیت (originality) ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اور ماضی کے لکھنے والوں سے بھی استفادہ کیا‘ لیکن وہ دوسروں کے خیالات کے اسیر نہیں بنے‘ بلکہ جس طرح ایک صحت مند انسانی جسم‘ غذا کو ہضم کر کے نیا خون بناتا ہے‘اسی طرح اپنے دور اور ماقبل کے افکار سے استفادہ کر کے انھوں نے قرآن و سنت کے فہم کی روشنی میں خود تشکیلِ نو کا کام انجام دیا ہے۔
اس سلسلے میں ان کا ایک اور منفرد کارنامہ اسلام اور جاہلیت کے مابین فرق کو واضح کرنا ہے جس کے آئینے میں وہ انسانیت کی پوری تاریخ میں برپا معرکے کو پرکھتے ہیں۔ دورحاضر میں جن مفکرین نے بھی ’جاہلیت‘ کے تصور پر کلام کیا ہے‘ انھوں نے یہ کام مولانا مودودیؒ ہی کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں کیا ہے۔ مولانا کی فکر میں جاہلیت ‘علم کے معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسانی زندگی--- فکروعمل کو منظم و مرتب کرنے کے مثالیہ(paradigm) سے عبارت ہے۔ اسلامی فکر کی تفہیم اور حق و باطل کی تاریخی کش مکش کو سمجھنے کے لیے مولانا کا یہ تصور ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ان کی ایک نہایت بنیادی کتاب ہے جس میں انھوں نے قرآن کی بنیادی اصطلاحات الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین کا صحیح مفہوم اخذ اور متعین کرکے ایک قسم کی شاہ کلید فراہم کردی ہے‘ جس سے پوری اسلامی فکر کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ہمیں قرآن فہمی کے لیے ایک روشن اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کے بارے میں بھی بڑا متوازن رویہ اختیار کیا۔ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں اگر ایک طرف مغرب کے مکمل استرداد (rejection) کا رویہ پایا جاتا تھا تو دوسری جانب عملاً آنکھیں بند کر کے سپرڈالنے اور معذرت خواہانہ انداز میں دین کی توجیہہ کرنے والے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب‘ اس کے اصولوں‘ اس کی بنیادوں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا اور تقلید یورپ اور اندھی غلامانہ ذہنیت کو مسترد کر دیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ مغرب میں ہر چیز غلط نہیں اور اس کی ترقی کے کچھ حقیقی (genuine) اسباب ہیں۔ ان اسباب سے صرفِ نظر کر کے محض اندھی مخالفت کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ مغرب سے مرعوبیت‘ اس کی فکری بنیادوں کو بلاتنقید قبول کر لینا اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا رویہ نہ عادلانہ ہے اور نہ عاقلانہ۔ مولانا مودودیؒ نے درمیان کا راستہ نکالا۔ دیگر علما اور مولانا مودودیؒ میں یہی بنیادی فرق ہے۔
مولانا کے ہاں جو بالغ نظری‘ مغربی تہذیب کا فہم اور حقیقت پسندانہ طریق کار ہے‘ اسی وجہ سے عصرِحاضر میں تحریک اسلامی نے مسائل کو حل کرنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ رویہ صرف مغربی تہذیب کے بارے میں اختیار نہیں کیا‘ بلکہ مسلمانوں کی فکریات کے بارے میں بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی انھوں نے حنفی مکتب فکر کو ترجیح دی اور قبول کیا ہے۔ عبادات میں اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ معاملات کی حد تک ان کا ذہن یہی تھا کہ چاروں مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور خصوصیت کے ساتھ جدید معاملات اور مسائل کا حل نکالنے کے لیے ان کے دائرے کے اندر جو رہنمائی جہاں سے بھی میسر آئے‘ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ان مسلمہ مکاتب فکر میں سے کسی کو مسترد یا باطل قرار نہیں دیا‘ بلکہ اِن کے ہاں اس علمی اور عملی اختلاف راے کو محترم تصور کرنے کا رویہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے شیعہ مکتب فکر سے بھی تہذیبی حد تک ربط رکھا اور اُمت کی وحدت کے لیے کوشاں رہے۔
اسی تسلسل میں اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے ان کے ہاں ایک خاص انداز فکر پایا جاتا ہے‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد بہرحال اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کے مفادات کی بنیاد پر اگر آپ یہ کوشش کریں گے توکامیابی محال ہے۔ مفادات کا ایک جائز مقام ہے‘ لیکن مفادات‘ اسلامی مفاد اور تشخص کے تابع ہونے چاہییں۔ اس اتحادکی کوئی ایک لگی بندھی شکل نہیں ہے۔ جیساکہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ایک قسم کی مسلم دولت مشترکہ ہوسکتی ہے جس میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھتا رہے اور بالآخر کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم چیز بن سکے۔ اس سلسلے میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم کی ’تضامن اسلامی‘ کی تحریک اور پہلے مسلم سربراہی اجتماع ]رباط‘مراکش -۱۹۶۹ئ[ کے موقع پر اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جو نقشۂ کار انھوں نے پیش کیا‘ وہ ایک تاریخی دستاویزہے‘ جس میں نظریاتی اتحاد اور عملی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے موثر تدابیر اور انتظامات کی نشان دہی کی گئی۔
اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے‘ بلکہ عملی اور فکری سطح پر اُن کی نگاہ‘ بلاتخصیصِ رنگ و نسل اور بلاتفریق مشرق و مغرب‘ تمام انسانوںپر رہی ہے۔ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے‘ تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے اور دنیا بھر کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جہانی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تہذیبی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر مولانا مودودیؒ کے مثالی اسلوبِ کار کا تجزیہ کریں تو اسے عالم گیریت یا آفاقیت پر مبنی اسلوبِ کار کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی فوزوفلاح‘ بہبود اور ان کی نجات ہے۔ اسی طرح اللہ سے انسانوں کے رشتے کو جوڑنا اور انسانوں کے درمیان انصاف اور اخوت کی بنیاد پر معاشرتی‘ معاشی اور بین الاقوامی معاملات کوحل کرنا ہے۔ جو افراد مولانا مودودیؒ کے افکار کے صرف کسی ایک جزو کو لیتے ہیں‘ تو ان کے ہاں الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر مولانا کی پوری فکر کو لیا جائے تواس کی حیثیت ایک ایسے گلدستے کی سی ہے جس کے سارے پھول اپنے اپنے مقام پر ہیں‘ اور اس گلدستے کی تصویر اُبھرتی ہی اس کے مجموعی (macro) وجود سے ہے۔
مولانا مودودیؒؒ بہرحال ایک انسان تھے اور ماسوا انبیاے کرام‘ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒؒ نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس زعم میں رہے کہ ان کی راے ہی صحیح ہے۔ اس کے برعکس ہمیشہ انھوں نے مکالمے اور بحث کو پسند کیا‘ اختلاف کو دبایا نہیں۔ اس بات کا نہ صرف اظہار کیا‘ بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا۔ کسی موقع پر اگر ان کی کسی غلطی یا دلیل کی کوئی کمزوری سامنے لائی گئی تو انھوں نے کھلے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا۔ ان کی کتاب رسائل و مسائلکا مطالعہ کریں تو اس میں ایک نہیں‘ دسیوں مقامات ہیں جہاں مولانا نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ کسی صاحبِ علم کے متوجہ کرنے پر انھوں نے مسئلے یا معاملے کو چھپایا نہیں‘اس کی تصحیح کی ہے اور اس تبدیلی کو خود ریکارڈ کیا ہے۔
مولانا مودودیؒ اپنے فکری ارتقا میں‘ دورِصحافت سے دورِ تصنیف کی طرف اور پھر دورِ اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے‘ جن کی مناسبت سے انھوں نے غورو فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر‘ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت‘ علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی کی بنا پر‘ برسوں نہیں‘ صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی---!
اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو شرفِ قبولیت اور فیضانِ عام بخشے اور ہمیں ان کے مشن کو صحیح خطوط پر آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین!