مولانا مودودیؒ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی تھے‘جن وجوہ سے وہ اسے انسانیت کی خیروفلاح کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے‘اور اس کے لیے جو طریق کار ان کی نگاہ میں درست تھا‘اس کی پوری تفصیل ان کے چھوڑے ہوئے تحریری و تقریری سرمایے میں محفوظ ہے۔ اس کا جائزہ لے کر کوئی بھی بآسانی جان سکتا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مولانا مودودیؒ کا وژن کیا تھا۔
عین عالم جوانی سے وہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی اور اس کے لیے جس طریق کار کے علم بردار بن کر اٹھے تھے‘زندگی کے آخری لمحات تک اس حوالے سے ان کی فکر میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ان کے تحریری کام اور عملی جدوجہد کا سلسلہ اگرچہ نصف صدی سے زیادہ مدت پر پھیلا ہوا ہے‘اس کے باوجود اس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے پہلے رائج الوقت افکار و نظریات اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کیا‘ اور پھر خوب سوچ سمجھ کر اپنے مقصد زندگی کی بنیاد کاملاً قرآن و سنت پر رکھی اور اس میں کسی ملاوٹ اور مداہنت سے قطعی مجتنب رہے۔ چنانچہ جو کچھ انھوں نے ۳۵سال کی عمر میں لکھا ‘۷۰ سال کی عمر میں بھی انھیں اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کے کسی دور کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ ان کی بنیادی فکر میں مکمل یکسانیت ملے گی۔
ذیل میں ان کے افکارکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں جس تبدیلی کی جدوجہد انھوں نے شروع کی تھی ‘ اس کی تفصیلات ان کی نگاہ میں کیا تھیں۔
اس کے بعد کہتے ہیں:’’میں صرف غیرمسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے‘بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آؤ اس ظلم اور طغیان کو ختم کردیںجو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹادیں‘‘۔(تحریک ِآزادیٔ ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۲۴-۲۵)
’’انسان پر سے انسان کی خدائی کا خاتمہ اور قرآن کی بنیاد پر ظلم اور بے انصافی سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر‘‘---یہ ہے وہ تبدیلی جس کی دعوت لے کر مولانا مودودیؒ اٹھے تھے۔
ہندستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مسلمان قائدین اس بنیادی کام کے بجاے جن مسائل میں الجھے ہوئے تھے‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلۂ تحریر میں مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں: ’’مغربی طرز کے لیڈروں پر تو چنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی ہے‘ مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علماے کرام پر جن کا رات دن کا مشغلہ ہی ’قال اﷲ و قال الرسول‘ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ قرآن کو کس نظر سے پڑھتے ہیں کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی انھیں اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمانوں کے لیے اصولی طور پر مقرر کردی گئی ہے۔جن مسائل کوانھوں نے اہم اور اقدم قرار دے رکھا ہے‘ قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا نشان بھی نہیں ملتا۔برعکس اس کے قرآن میںہم دیکھتے ہیں کہ نبی پر نبی آتا ہے اور ایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے: یٰقَوْمِ اعْبُدُوْاﷲ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗخواہ بابل کی سرزمین ہو یا ارضِ سدوم‘ یا ملک مدین‘ یا حجر کا علاقہ‘ یا نیل کی وادی‘ خواہ وہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو یا بیسویں یا دسویں‘ خواہ وہ غلام قوم ہویا آزاد‘ خستہ و درماندہ ہو یا تمدنی وسیاسی حیثیت سے بام عروج پر۔ ہر جگہ‘ ہردور میں‘ ہر قوم میں‘ اﷲ کی طرف سے آنے والے رہنماؤں نے انسان کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی‘ اور وہ یہ تھی کہ: اﷲ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اسی سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے‘ سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے‘ نہ جانتے تھے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدم اور کون سی مؤخر ہونی چاہیے‘ اور انھیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں۔یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اِس دور میں جو حضرات اسلام کے نمایندے اور مسلمانوں کے قائد و رہنما بنے ہوئے ہیں‘ وہ جزئیات شرع پر کتنا ہی عبور رکھتے ہوں‘ بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۶)
یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند ‘یا ایک اشتراکی اس کو دیکھتا ہے۔جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘انھی کی زبان میں باتیں کریں گے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تواپنی وقعت کو ہم خودہی خاک میں ملادیں گے… تعداد کی بنا پر اکثریت و اقلیت کے نوحے‘ یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ و پکار--- یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں …] حالانکہ[ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں… اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶-۱۰۸)
ان اقتباسات سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ دنیا میں اسی معاشرتی تبدیلی کی دعوت لے کراٹھے تھے‘ جس کے لیے انبیاکرام دنیا میں بھیجے گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ اسی تبدیلی کی جدوجہد دنیا میں ان کا مشن ہے اور اس کا طریق کار وہی ہے جو اﷲ کے رسولوں نے اپنے ادوار میں اختیار کیا‘ اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہر زمانے کے لیے اسی نہج پر پھیلانا اور تبدیلی لانے کی کوشش کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔
’’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے جولائی ۱۹۴۰ء کے شمارے میں چھپنے والے اس مضمون میں جو اَب تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے دوسرے حصے میں موجود ہے ‘ اس نکتے کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے‘ اکیلا ہی آیا ہے۔ اقلیت و اکثریت کا کیا سوال‘ وہاں سرے سے کوئی ’’مسلمان قوم‘‘ ہی موجود نہ تھی۔ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اٹھتا ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔چند گنے چنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں‘ اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت‘ حکومت الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے… بارہا وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا‘ اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں اس تحریک کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔مگر اس کے باوجود جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے تھے اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا‘ انھوں نے آخری سانس تک بس اسی مقصد کے لیے کام کیا‘ اور کسی ایک نے بھی اکثریت کا یا حکومت کا رنگ دیکھ کر‘ یا وقتی اور مقامی مشکلات کا خیال کرکے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔
پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کو اٹھانے اور چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی سازگاری کی ضرورت ہے۔جس سامان اورجس سازگار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے نہ کبھی فراہم ہوگا۔دراصل خارج میں نہیںبلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے کہ یہی مقصد حق ہے‘ اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ میرا جینا اور مرنااسی مقصد کے لیے ہے۔یہ ایمان‘ یہ شہادت‘ یہ عزم موجود ہو تو دنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۱-۱۱۲)
دراصل ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر چھاجانے کی قوت اگر ہے تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے جو انسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہو‘اور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔قومیت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔ قومیت کے حصار‘ نسلوں کے تعصبات‘قومی ریاستوں کے مضبوط بند‘ کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہرطرف‘ ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروؤں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ایک اکیلا آدمی اس کو اٹھانے کے لیے کافی ہے۔پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔وہ اپنے دشمنوں میں سے دوست پیدا کرتی ہے۔سب قوموں کے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں‘ ان پر وہ اپنے اصولوں کے تیر بھی چلاتی ہے۔خون کے پیاسے دشمنوں میں سے وہ اپنے سرگرم حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ سپاہی‘ جنرل‘ ماہرین فنون‘سرمایہ دار‘ صناع اور کاریگر‘ سب انھی میں سے اس کو مل جاتے ہیں‘ اور بے سروسامانی میں ہرقسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔ قومیتیں اس کے سیلاب کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھیرسکتیں۔بڑے بڑے پہاڑ اس کے سامنے آتے ہیں اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آب ِرواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے اقلیت و اکثریت کے سارے سوالات بے معنی ہیں۔وہ اس کی ہرگز محتاج نہیں ہوتی کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔وہ قومی حکومت قائم کرنے نہیں اٹھتی کہ قومیں اس کی مزاحمت کرسکیں۔اسے تو ایک ایسے اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے جو سب قوموں کے لوگوں کی فطرت کو اپیل کرتا ہو۔جاہلی تعصبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں مگر جب فطرتِ انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے تو وہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف
بامید آنکہ روزے بہ شکارخواہی آمد
]صحرا کے تمام ہرن اپنے سر ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں‘ اس امید پر کہ کسی دن وہ شکار کرنے تو آئے گا۔[
اس وضاحت کے بعد کہ پوری انسانیت کی فلاح کی علم بردارایک عالم گیر اصولی تحریک کے داعیوں کی حیثیت سے مسلمانوںکا دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ مادّی مفادات کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ اس حیثیت کے عملی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد اور اغراض کو بھول جائیں‘ تمام تعصبات سے بالاتر ہوجائیں‘اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظر ہٹالیں جن سے ہمارے حقیر دُنیوی فوائد کا تعلق ہے… اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصب میںمبتلا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔ اگر ہم ]نام کی مسلم[ ریاستوں کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے ] حکمران[ مسلمان ہیں اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے‘ تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی یہ باور کرلے گا کہ ہم اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں اور واقعی حکومت الٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۸)
ان تحریکوں کی نظر صرف ] مقامی[ مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلادی۔مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے ’’مسلم قوم‘‘ میں شامل ہیں‘ اور ان کی دل چسپیاں بھی انھی مسائل تک محدود رہیں‘ جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے‘ جو غیرمسلموں کواپیل کرنے والی ہو‘ بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سدراہ بن گئی ہیں۔لیکن ہمارے لیے چونکہ خوداسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے ‘ لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے‘ بلکہ پوری نوع انسانی اور سارے کرۂ زمین پر وسیع ہے۔تمام انسانوں کے مسائل زندگی ہمارے مسائل زندگی ہیں‘ اور اﷲ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے ہم ان مسائل زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں‘جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ (روداد جماعت اسلامی‘ حصہ اول‘ ص ۱۱)
یہ جماعت کوئی قوم پرست یا وطن پرست جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانیت کی فلاح اس کے پیش نظر ہے‘ مگر وہ یقین رکھتی ہے کہ جب تک ہم خود اپنے ملک کو اسلامی نظام کا مثالی نمونہ نہ بنادیں‘ اور جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جس حق و صداقت پر ہم ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں‘ اور جب تک ہم یہ نہ دکھادیں کہ اس پر عمل کرنے کے کیسے بہتر نتائج ہمارے ملک میں برآمد ہوئے ہیں‘ اس وقت تک ہم دنیا کو اس کے حق اور صداقت ہونے کا قائل نہیں کرسکتے۔
اسی مقصد کے لیے جماعت نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر اسلامی ریاست قرار پاجانے کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے کا اصل مقصد اس ذریعے سے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانا تھا اور مقصودیہ تھا کہ مسلسل انتخابی عمل بالآخر لوگوں میں بھلے برے کا شعور پیدا کردے گا اور معاشرہ اس تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجائے گا جو جماعت اسلامی کو مطلوب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عملمیں انتخابی سیاست میں شرکت کی یہی حکمت بتائی ہے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے‘ اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی نسبت زیادہ خراب۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے‘ لوگوں کے خیالات بدلیے‘اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا‘ اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔
جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی‘ جھوٹ نے شکست دی ہے۔جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔ لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسرعام گالیاں نہیں دیں۔اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں‘‘۔کچھ لوگ ]مجھ سے[ کہہ رہے تھے کہ:’’کچھ نہ کچھ آپ کوبھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیے۔کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمہ داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کے اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ‘ گالی گلوچ اور دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔جو ذمہ داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے ‘اس کے مطابق کام کریں۔آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک کے اندر ضرورہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔اسلامی نظام کا قیام تو اﷲ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے‘ اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے‘ جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے‘ یا ان کو تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھارہی ہے۔آپ کاکام اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے‘ جان کھپانا ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریںگے توماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔(تصریحات‘ص ۲۷۷-۲۷۸)
مولانا مودودیؒ کے ہاں سے جو رہنمائی ملتی ہے اس کی رو سے دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت کے خاتمے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حاکمیت کے قیام کا یہ کام‘ عالمی سطح پر ایک علمی و فکری انقلاب برپا کرکے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:’’اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکراسلام سے منحرف ہورہے ہیں‘ اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی و فکری دبدبہ اور تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے‘ اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیںکہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہوگا‘ جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے…… اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کوڈھادیں جن پر مغربی ]لادینی[ تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیںجو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ایک نئی حکمت طبیعی(نیچرل سائنس) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکرو تحقیق کی اساس قائم کریںاور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پرچھاجائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو‘‘۔ (تنقیحات‘ص:۱۹-۲۰)
اس کام کو شروع کرنے کے لیے اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ مسلمان پہلے سائنس اور ٹکنالوجی میں جدید مادّہ پرست قوتوں کے ہم پلہ ہوجائیں‘صنعت و حرفت میں ان کی برابری کرنے لگیں اورفوجی طاقت میں ان کی ٹکر پر آجائیں۔مولانا مودودیؒ کے بقول اس کام کا آغاز تمام وسائل سے محروم پوری دنیا میں ایک اکیلا شخص بھی کرسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت کی نمرودی اور فرعونی تہذیبوں کو چیلنج کرنے کا یہ کام ہمیشہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام جیسے ظاہری دنیاوی وسائل سے سراسر محروم انسانوں ہی نے کیا ہے۔البتہ آج کی اسلامی تحریکوں کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو عملاً محض مسلمانوں کے قومی مفادات کی وکالت اور اس سلسلے میں دوسری اقوام کے ساتھ ان کے تنازعات میں جانبداری سے بالاتر ہونا پڑے گا۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم’’وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیں‘‘۔اس حوالے سے اپنے مشہور مقالے اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ میں وہ کہتے ہیں:
اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں‘ صرف انسان ہیں۔ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ ’اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی فلاح ہے‘اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ‘ زبان‘ افعال اور حرکات‘ ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کواپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا‘پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہورہی ہیں‘جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیادہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں‘ ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑوں سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۱۶۶)
اس کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بنادیا ہے۔ ٹیلی وژن کے سٹیلائٹ چینل اور انٹر نیٹ جیسی ایجادات نے ہر ایک کے لیے پوری دنیا تک بیک وقت اپنا پیغام پہنچانے کی سہولت مہیا کردی ہے۔ان حالات میں یہ بات واضح ہے کہ اب دنیا میں جو تبدیلی بھی آئے گی‘ عالمی سطح ہی پر آئے گی۔ افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں سے دنیا کا کوئی گوشہ اثرپذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جس کا پیغام زیادہ موثر اور جان دار ہوگا بالآخر وہی جدید انسان کے ذہن کو مسخر کرنے اور اس کا دل جیتنے میں کامیاب رہے گا۔آج اگر مغرب اپنے پروپیگنڈے کی طاقت سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دوسرا نام ہے‘ تو انھی جدید ذرائع سے لوگوں تک اسلام کی صحیح دعوت پہنچاکر کل صورت حال یکسر بدلی بھی جاسکتی ہے‘کیونکہ اسلام بہرحال حق ہے اوریہ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روشنی کے سامنے اندھیرا کبھی نہیں ٹھیرتا۔ جاء الحق وزھق الباطل‘ انّ الباطل کان زھوقا۔دنیا کی یہ کیفیت اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ جو نبی ؐ پوری انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور جس کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اس کی امت کے سپرد کی گئی ہے‘ اس نبیؐ کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔
دور حاضر میں اسلامی تحریک کو اپنی حکمت عملی وقت کے اس تقاضے کے مطابق ترتیب دینی چاہیے۔ مقامی طور پر نفاذ اسلام کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی ؒکے افکار کے مطابق عالمی محاذ پرعلمی و فکری کام کے لیے بھی اسے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا معقول حصہ وقف کرنا چاہیے‘ اور ان کاوشوں کو جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا تک پورے اہتمام کے ساتھ پہنچاناچاہیے۔ان کوششوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ نفاذ اسلام کا سلسلہ کسی مسلمان ملک کے بجاے کسی ایسے غیر مسلم ملک سے شروع ہوجائے جس کے بارے میں ابھی سوچابھی نہ جاسکتا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اﷲ کے نبیؐ کی دعوت مکہ میں اس کے ہم وطنوں سے پہلے حبش کے بادشاہ اور مدینہ کے اجنبیوں نے قبول کی ۔ داس کیپی ٹال جس ملک میںلکھی گئی اس کی بنیاد پر انقلاب اس ملک سے ہزاروں میل دور زاروں کی سرزمین اور چیانگ کائی شیک کے وطن میں برپا ہوا۔ ابوجہل اور ابولہب کی صفوں سے اگر ڈیڑھ ہزار برس پہلے لشکر اسلام کو عمرؓ بن خطاب اور خالدؓ بن ولید جیسے مردانِ کار دستیاب ہوسکتے تھے توآخرآج کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں کیوں میسر نہیں آسکتے ؟پھر جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے انتظار میں بندگیِ رب کی دعوت دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے سے رکے رہنے کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے۔ اس دعوت کا تعلق صرف اجتماعی معاملات سے نہیں‘ ہر فرد کی انفرادی فلاح و نجات سے بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونے والا ہر شخص رب کائنات کے حضور یہ شکایت کرنے میں بالکل حق بجانب ہوگا کہ جن لوگوں کوآپ نے اپنے آخری پیغام کا امین اورپوری دنیا کے لیے اس حق کا گواہ بنایا تھا‘وسائل موجود ہونے کے باوجودانھوں نے یہ پیغام ہم تک نہیں پہنچایا‘ اس لیے ہمارے دوزخ میں جانے کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔
آج غیروں کی زیادتیوں کے ردعمل میںچلنے والی احتجاجی تحریکوں پرمسلمانوں کے جو وسائل صرف ہورہے ہیں اور جتنی جانی قربانیاں ان تحریکوں کے وابستگان دے رہے ہیں ‘اگر یہ مالی وسائل اور یہ انسانی توانائیاں دنیا تک اسلام کے پیغام کو قومی حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتررہتے ہوئے پوری انسانیت کے لیے خیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ پہنچانے پر صرف کی جائیں‘ تو یقینی طور دنیا میں اسلام کی مقبولیت کے حوالے سے کہیں بہتر نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا پراﷲ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مولانا مودودی ؒنے اسی راستے کی نشان دہی کی ہے‘ اورانسانی معاشرے میں مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق تبدیلی برپا کرنے کے لیے اسی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔