مسلمانوں کی تمام تر زبوں حالی کے باوجود ایک طرف ترقی یافتہ اقوام میں اسلام کی مقبولیت، دین فطرت کے اپنے اوصاف کی بنیاد پر مسلسل بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب اللہ کے اس پیغام کو تمام دنیا کے انسانوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیے جانے والے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں،جن کے بارے میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں کو خود ان کی مذہبی کتابوں میں کھلی خوش خبریاں دی جاچکی ہیں۔ اس بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان کے لیے ہرگز اجنبی نہیں بشرطے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں کی ان گواہیوںسے پوری طرح واقف ہوں۔ ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ یہ حالات دنیا کے مسلمانوں کو کیا مواقع مہیا کررہے ہیں اور ان میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
آج دنیا میں انسانی تاریخ کے تمام گذشتہ ادوار کی نسبت ہدایت الٰہی کی قبولیت کے لیے فضا سب سے زیادہ سازگار ہے۔ ماضی میں انبیا علیہم السلام کی دعوت کی قبولیت میں جو اسباب بنیادی طور پر رکاوٹ بنتے تھے، جدید ترقی یافتہ دنیا میں ان میں سے کوئی باقی نہیںرہا ہے بلکہ سائنسی تحقیق کے ابتدائی دور میں انکار خدا کا جو رجحان ابھرا تھا،جدید سائنسی تحقیقات نے اسے غلط ثابت کرکے اللہ کے وجود اور اس کی ہدایت کو تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار کردی ہے۔
انبیائے کرام کی دعوت کی قبولیت میںرکاوٹ بننے والا ایک بہت بڑا سبب توہم پرستی اور دیوی دیوتاؤں کو کائناتی اختیارات کا مالک سمجھنا تھا۔ توہمات کا یہ دور اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ آج کا انسان سائنٹفک عہد کا انسان ہے۔اب نہ وہ زمانہ نوحؑ کی طرح یغوث، یعوق اور نسر جیسے خودساختہ خداؤں کے فریب میں مبتلا ہے ، نہ لات و منات اور ہبل و عزیٰ کو خدائی اقتدار کا حامل سمجھنے کی حماقت کا شکار۔جادو ٹونے پر اعتقاد کی باتیں بھی پرانی ہوئیں اور شجر و حجر، آگ پانی، سورج چاند اور دوسرے مظاہر کائنات کی پرستش کا دور بھی لد چکا۔ آج کا انسان پیکرِ محسوس کا اتنا خوگر بھی نہیں رہا کہ موسٰی کے نظر نہ آنے والے خدا پر ، سامری کے دکھائی دینے والے بچھڑے کو ترجیح دینے لگے۔ انسان پر انسان کی براہ راست خدائی بھی اب ماضی کی بات ہے۔آج کا انسان نمرود اور فرعون ہی کی نہیں، اسٹالن اور ماؤزے تنگ کی خدائی کو بھی مسترد کرچکا ہے۔
انبیا ؑ کے راستے میں دوسری بڑی رکاوٹ باپ داد ا کی اندھی تقلید کی روش بنتی تھی۔ دعوتِ حق کے جواب میں ان میں سے سبھی کو اپنی قوم کے لوگوں سے یہ جواب سننے کو ملتا تھا کہ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَـا عَلَیْہِ اٰبَـآ ئَ نَـا ط (المائدہ ۵: ۱۰۴)،یعنی ’’ہمارے لیے تو وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ‘‘۔ رسولوں کے تمام دلائل رَدّ کرنے کے لیے ان کے نزدیک بس یہ حجت کافی ہوا کرتی تھی کہ ہم نے تو اپنے بزرگوںکو جو کچھ کرتے دیکھا ہے وہی ہم کررہے ہیں۔
قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ انبیا ؑکے راستے کی اصل رکاوٹ آباواجداد کی اندھی تقلید کا یہی روگ تھا، لیکن آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔روایت سے بغاوت کا ایک زبردست اور طاقت وَر رجحان عہد حاضر کا ایک نمایاں وصف ہے۔ یہ بظاہر ایک منفی جذبہ نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبولِ حق کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ دُور ہوگئی ہے۔اس طرح اشاعت ِاسلام کے لیے یہ رجحان ایک ایسی نعمت بن گیا ہے، جس کا ماضی کے ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
گذشتہ زمانوں میں رسولوں کی دعوت کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ معاشرتی جبر تھا۔ ماضی کے ان اَدوار میں کسی شخص کے لیے آبائی عقائد ترک کرکے انبیا ؑ کے پیش کردہ دین کو اپنالینے کا مطلب اپنے گردوپیش کو اپنے خون کا پیاسا بنالینا تھا۔اس ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے تپتی ریت یا دہکتے انگاروں کا بستر ہوتا تھا۔ لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں عقیدے کی تبدیلی ایسی کسی انتہائی صورت حال سے سابقے کا سبب نہیں بنتی۔امریکا، کنیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک سمیت جاپان اور کوریا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی قبولِ اسلام کے واقعات روز کا معمول ہیں، لیکن اس کی بنا پر عام طور سے کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بننا پڑتا۔آج کی دنیا میں انسانی اور جمہوری حقوق کی شکل میں جو آزادیاں لوگوں کو حاصل ہیں، ان کے باعث دعوت الی اللہ کے فروغ کے لیے ایسی حوصلہ افزا صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ کے گذشتہ اَدوار میں ڈھونڈی نہیں جاسکتی۔
عہد حاضر اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میںانسان نے اپنی پوری تاریخ میں پہلی بار خدا اور خدائی ہدایت کی ضرورت سے کلی انکار کرتے ہوئے ، خالص الحاد و دہریت کی بنیاد پر زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنے کا تجربہ کمیونزم کی شکل میں کیا۔ لیکن اس تجربے کی ناکامی پوری دنیا پر اس شان سے ثابت ہوئی کہ کمیونزم صرف ۷۰ برس کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوگیا، اور جس سرزمین پر اس کی پرورش و پرداخت ہوئی، آج وہی اس کا مدفن ہے۔ اس کی چتا کو آگ لگانے کے سارے لوازمات بھی اپنوں ہی کے ہاتھوں پورے ہوئے، لیکن ان میں سے کسی کی آنکھ بھی اس کی موت پر اَشک بار نہیں ہوئی۔ خدا اور خدائی ہدایت سے انکار پر مبنی اس نظام کی کھلی ناکامی سے بھی یقینا دعوت الی اللہ کی قبولیت کے لیے ماحول کی سازگاری میں قابلِ لحاظ اضافہ ہوا ہے۔
انیسویں صدی میں سائنس انکار خدا کی علَم بردار تھی۔ اس لیے یورپ میں سائنسی تحقیق و ترقی کے عمل کو ابتداً کلیسا کی جانب سے اپنائی گئی انتہائی سفاکانہ جارحیت کے باعث سائنس داں روح فرسا مظالم کا نشانہ بنے۔ اس کے ردعمل میں سائنس مذہب سے باغی ہوکر الحاد کی علَم بردار بن گئی۔لیکن اس ظاہری شر سے جو بہت بڑا خیر برآمد ہوا وہ یہ کہ خالق و مخلوق کے بیچ سے پیرانِ کلیسا کے حائل کردہ پردے اُٹھ گئے۔مذہب کے نام پر اس طبقے نے اپنے مفادات کے لیے جو جو ڈھکوسلے ایجاد کیے اور بندے اور خدا کے درمیان جو جھوٹے واسطے گھڑ لیے تھے، لوگوں کا اُن پر سے اعتقاد و اعتبار ختم ہوگیا اور بندے کے لیے اپنے رب سے بلاواسطہ تعلق کی راہ کھل گئی۔ قوانینِ فطرت کے براہ راست مطالعے اور مشاہدے نے سائنس ہی کے ذریعے انسان کو خدا تک پہنچا دیا۔ چنانچہ وہی سائنس جو کبھی نام نہاد مذہبی طبقوں کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں دہریت کی وکیل بنی ہوئی تھی،آج تخلیق کائنات کے جواز کے لیے ایک خدا کے وجود کی پوری طرح قائل ہے۔
جدید سائنس کے مسلّمہ قائد آئن سٹائن، خدا کو ایک سائنسی صداقت تسلیم کرتے ہیں۔ جدید سائنسی نظریات کے موضوع پر معروف کتاب ماڈرن سائنٹفک تھاٹ میں سر جیمس جینز لکھتے ہیں:’’ جدید معلومات ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظر ثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کرلیے تھے،یعنی یہ کہ ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کا خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اب ہم نے دریافت کرلیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر طاقت کا ثبوت فراہم کررہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے‘‘۔
اس طرح آج پوری انسانیت اعتراف ِحق کی ٹھیک اُس منزل پر آپہنچی ہے، جس پر پوری انسانی تاریخ میں انبیا ؑ اس کو لانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن جس کی جانب وہ اپنے جاہلانہ عقائد، اوہام و خرافات، روایت پرستی، سیاسی و مذہبی طبقوں کے جبر ، اور آبا و اَجداد کی اندھی تقلید کے روگ کے سبب عالمی سطح پر اجتماعی حیثیت میں کبھی پیش قدمی نہ کرسکی۔مگر علمِ اشیا کی ترقی اور جدید تہذیب میں فکر کی آزادی نے آج انسان کو اِن تمام بیماریوں اور مجبوریوں سے نجات دلادی ہے، اور اب کائنات کے فطری حقائق کو مان لینا ، اس کے لیے انسانی تاریخ کے پچھلے تمام ادوار کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
آج کا انسان، خصوصاً ترقی یافتہ دنیا کے لوگ سائنٹفک سوچ سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں۔ اس صورت میں انھیں معروضی انداز میںحقائق و دلائل پیش کرکے قائل کیا جاسکتا ہے، اور اسلام کا اصل میدان ہی دلیل و برہان ہے۔خالق کی پہچان کے لیے مظاہر کائنات سے استدلا ل قرآنی طریقِ تفہیم ہے۔ مگر یہ بھی امرواقعہ ہے کہ بتوں اور انسانوں کی خدائی کو مسترد کرنے والے اسی انسان نے اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا رکھا ہے،اورقرآن کی رو سے یہ گمراہی کی انتہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد یا تو کامل تباہی ہونی چاہیے یا خدا کی جانب انسان کی واپسی کا آغاز۔
قرآن و حدیث کی واضح تصریحات کے مطابق بعثت محمدیؐ اور قیامت کے درمیان خدا پرستی کا ایک عالم گیر عہد مشیت الٰہی نے مقدر کررکھا ہے، جس میں دنیا کے اندر اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی جائے گی۔دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور تمام انسانیت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو متفقہ طور پر اپنا قائد اور رہبر تسلیم کرلے گی۔
انسانی دنیا جس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسی انسانی نسل کی تیاری کا عمل جاری ہے جو انفس و آفاق کی نشانیوں سے اپنے رب کو پہچان سکے، اور اس طرح اللہ کا وہ وعدہ پورا ہو جو اس نے صدیوں پہلے ان الفاظ میں کیا تھا :
عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی۔ یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟ آگاہ رہو، یہ لوگ اپنےربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔ سُن رکھو، وہ ہرچیز پر محیط ہے(حٰمٓ السجدہ ۴۱:۵۳)۔
فی الحقیقت دنیا کی موجودہ صورت حال زبان حال سے گواہی دے رہی ہے کہ آج کا انسان بندگیِ رب کی دعوت کو سننے اور سمجھنے کے لیے تاریخ کے پچھلے تمام ادوار سے زیادہ آمادہ ہے۔بندگی نفس کا جو روگ اسے لگا ہوا ہے،اللہ تعالیٰ کے انتباہی اقدامات نے اسے اس کے ہولناک نتائج سے پُرزور انداز میں خبردار کرنا شروع کردیا ہے۔
خاندانی نظام کا انتشار، مروجہ اقدار سے نئی نسل کی بے زاری، زندگی کے بے کیف ہونے کا بڑھتا ہوا احساس، ذہنی و نفسیاتی اور اعصابی امراض کی کثرت، فطرت سے انحراف کی سزا میں اس کی پیٹھ پر برسنے والا کوڑا، اور وبائی بیماریاں، غیرمنصفانہ اقتصادی نظام کے سبب معاشی عدم مساوات اور دوسرے متعدد عوامل، اسے اس کی بے راہ روی اور تعیش پسندی کے تباہ کن نتائج کا بھرپور انداز میں احساس دلارہے ہیں۔اس کے اندر اس صورت حال سے نجات پانے کی خواہش بھی بڑی شدت سے ابھر رہی ہے۔اس کی روح پیاسی ہے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ پیاس کیسے بجھے گی؟ اس لیے وہ ایک عالم اضطراب میں ہے۔البتہ جہاں جہاں حکمت کے ساتھ اس کے تمام مسائل حل کرنے والا، اس کے ربّ کا پیغام اس تک پہنچ رہا ہے، وہاں قبول اسلام کی رفتار حیرت انگیز ہے۔
دنیا کے یہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج کی دنیا اسلام کی طلب گار ہے اور آج کا انسان پچھلی پوری انسانی تاریخ کے مقابلے میں اپنے ربّ کو پہچاننے کا سب سے زیادہ اہل ہے۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کو خیر امت جس بنا پر قرار دیا گیا ہے، وہ ان کے سپرد کیا جانے والا یہ کام ہے کہ ’’تم لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے اٹھائے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو‘‘ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰)۔ اس ذمہ داری کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ ’’ اس طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر حق کے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ (البقرہ۲:۱۴۳)۔قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کسی خاص قوم کی طرف نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی حیثیت اقوامِ عالم میں وہی ہے جو ایک نبی کی ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہے، جن میں اسے مبعوث کیا جاتا ہے۔قرآن بتاتا ہے کہ نبی کا مقام داعی الی اللہ کا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے مخاطبین کو ہر نبی علیہ السلام نے جن الفاظ میں دعوت دی وہ یہ تھے کہ: يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ ۰ۭ (الاعراف ۷:۵۹)، یعنی’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو کیونکہ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔
ہر نبی اپنے مخاطبین کا بہترین خیرخواہ تھا۔انھیں دنیا اور آخرت کی بربادی سے بچالینے کی شدید فکر اسے لاحق رہتی تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کا بیان قرآن میں یوں ملتا ہے: ’’اے نبیؐ! تم شاید اس غم میں اپنی جان کھودوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘ (الشعراء۲۶:۳)۔ اپنے منصب کے لحاظ سے مسلمانوں پر اقوامِ عالم کے ساتھ خیرخواہی کا یہی رشتہ استوار کرنا لازم ہے۔
ہم مسلمان جس نبی کی امت ہیں، اسے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا ہے اور وہ نبی حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنا پیغام دوسرے انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اپنی امت کے سپرد کرگیا ہے۔ اس پیغام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک بلاکم وکاست پہنچادیا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وہ حشر کے دن اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیں گے کہ انھوں نے اللہ کے دین کو ہم تک پوری طرح پہنچادیا تھا اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس پر مکمل عمل درآمد کرکے ہمارے سامنے کامل عملی نمونہ پیش کردیا تھا۔ اس کے بعد خیر امت اور اُمتِ وسط کے قرآنی مناصب پر فائز انسانی گروہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں دنیا کی تمام اقوام پر اس حق کا گواہ بنایا جائے گا، جو نبی کریمؐ نے ہم تک پہنچایا ہے۔ ہماری جانب سے کوتاہی کی صورت میں دنیا کی دوسری قومیں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گی کہ جن لوگوں کو یہ امانت ہم تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انھوں نے اپنا فرض ادا ہی نہیں کیا، اس لیے ہماری گمراہی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ اس لیے یہ ایک نہایت سنجیدہ اور سنگین بات ہے، جس سے بہرحال ہر مسلمان کو سابقہ پیش آنا ہے۔
سورۂ عصر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات کسی ابہام کے بغیر بتادی ہے کہ دائمی خسارے اور تباہی سے بچنے کے لیے محض ایمان لانا اور ذاتی طور پر عمل کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ بھی لازمی ہے، یعنی جس حق پر ایمان لایا گیا ہے، دوسروں کو اس کی دعوت دینا اور اس کام میں پیش آنے والی مشکلات کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔
’گلوبلائزیشن‘(عالم گیریت) کا عمل بظاہر سرمایہ دارانہ نظام کی ضروریات کی تکمیل کے لیے شروع کیا گیا تھا تاکہ کثیرالقومی ادارے دنیا بھر میں اپنی کاروباری سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ تیزرفتاری سے جاری رکھ سکیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اطلاعات کی فراہمی کے برق رفتار نظام نے در حقیقت جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر امت مسلمہ کے لیے انسانوں اور کائنات کے خالق کا آفاقی پیغام تمام انسانوں تک پہنچانے کے ایسے مواقع کھول دیے ہیں، جن کا چند عشرے پہلے تک تصور بھی مشکل تھا۔ اس کے ذریعے ایک انسان دنیا کے کروڑوں انسانوں تک تقریباً کسی خرچ کے بغیراپنی بات پہنچانے کے قابل ہوگیا ہے۔
جس خدا نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اطلاعات رسانی کے انتہائی ناکافی وسائل کے دور میں اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم انسانی کے لیے مبعوث کیا تھا، ظاہر ہے اس مقصد کے لیے وسائل و ذرائع کی فراہمی بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھی۔ نبی اکرمؐ کی بعثت کے لیے آپؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نے ڈھائی ہزار سال بعد محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی صورت میں عملی شکل اختیار کی، تو ان کے آفاقی پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانے کے لیے برق رفتار ذرائع کی فراہمی اور اس پیغام کو سمجھنے کے لیے سائنٹفک ذہن کی حامل انسانی نسل کی تیاری میں ڈیڑھ ہزار سال کا وقت لگ جانا بھی کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ اللہ کے نظام کا ایک دن قرآن کی رو سے ہماری دنیا کے کم از کم ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔
اس عرصے میں انسان نے مختلف نظاموں اور نظریہ ہائے حیات کے جو تجربے کیے ، وہ سب انسان کو امن اور چین عطاکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کمیونزم کی ناکامی کا مشاہدہ پوری دنیا کرچکی ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام آکسیجن ٹینٹ میں آخری ہچکیاں لے رہا ہے، جب کہ اسلام ، مسلمانوں کی تمام تر پسماندگی کے باوجود اپنی قوت اور اپنی خوبیوں کی بنیاد پر دلوں کو فتح کررہا ہے۔ بالخصوص عورتوں کے حقوق کے جس حوالے سے دنیا کی غالب تہذیب نے اسلام کو سب سے زیادہ مطعون کرنے کی مہم برسوں سے چلارکھی ہے، اسلام کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب عورتوں کے حقوق کا وہی معاملہ بن رہاہے۔ مغرب کی عورت مغربی تہذیب میں ملنے والے حقوق کو فریب اور اسلام کے عطاکردہ حقوق کو حقیقت قرار دے رہی ہے۔ اسلام جو روزِ ازل سے انسان کے لیے اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ نے اپنی حتمی شکل میں انسانوں تک پہنچایا ، وہ آج بھی شاداب و توانا ہے۔ اسلام کی حقانیت کا ایک واضح مظہر ہے۔ مادّیت پرستی کی بنیاد پر بنائے ہوئے انسانی نظاموں کی ناکامی گذشتہ چند عشروں میں بالکل عیاں ہوگئی ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے اس بیان کے عین مطابق ہے : ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔اورایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں، جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیزانسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۷)
مسلمانوں کی جانب سے اجتماعی حیثیت میں شاہد حق، امت وسط اور خیر امت کے قرآنی مناصب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کوئی منظم کوشش نہ کیے جانے کے باوجود اسلام پوری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ قوموں میں جس حیرت انگیز رفتار سے پھیل رہا ہے،اس کے پیش نظر یہ بات یقینی ہے کہ اگر مسلمان شہادت حق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں حقیقی معنوں میں پوری کرنے لگیں، تو اس رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں سوچنا اور عمل کی راہیں تلاش کرنا، ہر مسلمان کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور بحیثیت امت دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری بھی۔
پاکستان کے سیکولر حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ سامنے آتا رہتاہے کہ بانیِ پاکستان اتاترک سے بہت متاثر تھے اور پاکستان میں بھی سیکولرازم کا وہی تجربہ کرنا چاہتے تھے جو اتاترک نے ترکی میں کیا تھا۔نیز یہ کہ کمال پاشا نے اپنے ملک میں سیکولرازم کے نفاذ کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا اور یہ حربے اس کے جانشین عصمت انونو سے لے کر طیب اردوگان سے پہلے تک کے حکمرانوں نے استعمال کرکے سیکولرازم کو بدنام کیا، جب کہ اتاترک نے سیکولرازم کا سہارا صرف اس بنا پرلیا تھا تاکہ ترکی میں مذہبی لوگوں کی پھیلائی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت پر قابو پایا جاسکے جس کی وجہ سے اس دور کے ترکی کے حالات موجودہ پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ مذہبی عناصر کی اسی جنگ کے سبب تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ مٹ گئی ۔ اتاترک کی جدوجہد کو ترکی ہی نہیں، برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ اس لیے اس پر سیکولرازم کے نفاذ کے حوالے سے نکتہ چینی درست نہیں۔
سیکولر حلقوں کے یہ دعوے تاریخی حقائق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ترکی میں آج بھی ۸ء۹۹ فی صد آبادی حنفی مسلک کے سنی مسلمانوں کی ہے اور پہلے بھی یہی صورت تھی، لہٰذا وہاں فرقہ واریت کا کوئی مسئلہ نہ مصطفی کمال پاشا کے دور میں تھا، نہ اس سے پہلے، نہ بعد۔ چنانچہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اتاترک کے دور میں مذہبی لوگوں نے فرقہ واریت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ کھلی حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے کمزور ہونے کا بنیادی سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی طرف سے جرمنی کا ساتھ دیا جانا تھا جس میں جرمنی اور اس کے حلیفوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں جنگ کے اختتام پر ۱۹۱۸ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا۔کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے تحت ترکی کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے بلاشبہہ عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ یہی دور تھا جب وہ خلافت اسلامیہ کے محافظ کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں اور پوری مسلم دنیا خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے۔ یہی دور تھا جب ہندستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی ۔ جوہر برادران [مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر] اور دوسرے مسلمان رہنماؤں نے اسے ہندستان کے چپے چپے تک پھیلا دیا اور یہ سلوگن ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا کہ ’’بولیں امّاں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔
۱۹۲۳ء میں اتاترک کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور پھر اسلامی تہذیب و روایات کی جگہ جبراً مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کے اقدامات کا عمل میں آنا، مسلمانانِ ہند کے نزدیک ایک عظیم المیہ تھا۔ کمال پاشا کو وہ عظیم مسلمان غازی اور مجاہد سمجھتے تھے اور امید رکھتے تھے ان کے ذریعے خلافت اسلامیہ ازسرنو بام عروج پر پہنچے گی اور مسلم دنیا کے درمیان اتحاد ویگانگت کے رشتوںکو مضبوط کرنے کا سبب بنے گی۔ خلافت کے خاتمے اور ترکی کے محض ایک قومی ریاست بن جانے کے المیے پر، مسلمانوں کو ’’ بُتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا، نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی‘‘ کا درس دینے والے علامہ اقبال نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ؎
چاک کردی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور ’’ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی، ہوس کی امیری ،ہوس کی وزیری‘‘ جیسے بلیغ کلام کے ذریعے اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کردینے والے حکیم الامت علامہ اقبال کو مصطفی کمال اور شاہ ایران رضا شاہ کے سیکولر اقدامات سے جو مایوسی ہوئی اس کا اظہار اُن کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نُمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی کو جبراً ایک ایسی سیکولر قومی ریاست بنادیا جس میں اذان اور اللہ کا نام تک عربی ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار پایااور اس کی جگہ ترکی کے لفظ Tanri کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔ عورتوں کے لیے حجاب کے قرآنی احکام پر عمل ممنوع ٹھیرا اور مردوں کے لیے مغربی لباس لازمی قرار دیا گیا تو ترکی میں بھی، محض مولویوں کی طرف سے نہیں، عام مسلمانوں کی جانب سے بھی اس اقدام کے خلاف شدید مزاحمت کی گئی جسے کمال پاشا نے نہایت سختی سے کچل دیا۔
اسلام کے بارے میں کمال پاشا کے حقیقی خیالات کیا تھے؟ ان کے ایک سوانح نگار ایچ سی آرمسٹرانگ کی کتاب گرے وولف میں دی گئی کمال پاشا کی ایک تقریر کے ان الفاظ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
تقریباً پانچ سو سال تک ایک عرب شیخ کے یہ قوانین و نظریات اور کاہل و ناکارہ علماء کی جانب سے کی گئی اِن کی تشریحات ترکی کے شہری اور فوجداری قانون کی صورت گری کرتے رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی نوعیت، ہر ترک باشندے کی زندگی کی تفصیلات، اس کی غذا، سونے جاگنے کے اوقات، اس کے لباس کی ہیئت ، اس دایہ کے معمولات جس کے ہاتھوں اس کے بچوں کی ولادت ہوتی ہے،وہ سب کچھ جو وہ اپنی درس گاہوں میں سیکھتا ہے،اس کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ اس کی بالکل ذاتی عادات تک کا تعین یہی اصول و ضوابط کرتے چلے آئے ہیں۔اسلام، ایک۔۔۔۔۔[ناقابل تحریر لفظ]۔۔۔۔۔ عرب کا مذہب، ایک مردہ چیز ہے۔ممکن ہے ریگستان کے قبائل کے لیے یہ مناسب ہو ، لیکن کسی جدید ترقی پسند ریاست کے لیے یہ کسی کام کا نہیں ۔اللہ کی جانب سے وحی؟ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صرف وہ زنجیریں ہیں جن میں مذہبی رہنما اور برے حکمران لوگوں کو جکڑتے ہیں۔ جس لیڈر کو مذہب کی ضرورت ہو،وہ کمزور ہے، اور کسی کمزور کو حکومت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ (گرے وولف، ص ۱۹۹-۲۰۰)
واضح رہے کہ بعض سیکولر قلم کاروں کے بقول قائد اعظم نے بھی اس کتاب کی تعریف کی تھی اور اس بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اتاترک کے مداح تھے اور پاکستان میں ویسا ہی نظام لانا چاہتے تھے جیسا ترکی کا یہ لیڈر اپنے ملک میں لایا تھا۔
اب رہ گئی یہ خوش گمانی کہ کمال پاشا نے اپنے سیکولر نظریات اپنے ہم وطنوں پر مسلط کرنے کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا ، یہ سب اتاترک کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے آنے والے حکمرانوں نے کیا ، تواسے بھی واقعاتی حقائق کی روشنی میں دیکھ لیجیے۔ ایچ سی آرمسٹرانگ کے مطابق کمال پاشا کے لیے اپنی کسی راے سے اختلاف ناقابل برداشت تھا۔ گرے وولف کا مصنف لکھتا ہے ’’وہ اپنی راے کے خلاف کسی کی بات نہیں سنتا تھا۔وہ ہر اس شخص کی توہین کرتا تھا جو اس سے اختلاف کی جرأت کرے۔ وہ تمام اقدامات کو حقیر ترین ذاتی مفاد کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔وہ انتہائی حاسد تھا۔اس کے نزدیک ہوشیار اور لائق لوگ ایسا خطرہ تھے جن سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ دوسروں کی صلاحیتوں پر وہ شدید نکتہ چینی کیاکرتا تھا‘‘۔(ص ۲۱۳)۔ اس مزاجی کیفیت کے ساتھ کمال پاشا نے ترکی میں کیا ’اصلاحات‘ نافذ کیں اور کس طرح کیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے دور جدید کے ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب اسلام اور سیکولرازم میں لکھتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں اسلام اور سیکولرازم کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کو مسلط کیا گیا۔اتاترک نے جبر اور تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع،تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرز حیات جاری و ساری کردیا، اور ترک قوم سے اس کی ثقافت، اس کی اقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے ‘‘۔
کمال پاشا نے ترکی میں اللہ کا نام لینے پر جس طرح پابندی عائد کی، ۹ جنوری۱۹۳۳ء کے ٹائم میگزین میں اس کی رپورٹ یوں شائع ہوئی : ’’ترکوں نے پچھلے ہفتے نیا چاند دیکھا جس کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔وہ مہینہ جس میں پیغمبر اسلام محمد ؐ پر قرآن نازل ہوا تھا۔اس سال نئے چاند کی پہلی جھلک کے ساتھ خوف کی بھی ایک خاص کیفیت لوگوں پر طاری تھی۔ترکوں کو ان کے سخت گیر آمر مصطفی کمال پاشا کی طرف سے، جس نے انھیں حجاب اورترکی ٹوپی چھوڑنے پر مجبور کیا (ٹائم، ۱۵ فروری ۱۹۲۶ء )،حکم دیا گیا تھا کہ اس رمضان کے آغاز کے بعد وہ کبھی خدا کو اس کے عربی نام’ اللہ ‘سے نہیں پکاریں گے ۔۔۔۔۔۔ آمر کمال کے ظالمانہ حد تک سخت فرمان کے ذریعے پچھلے ہفتے مؤذنوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ترکی کے میناروں سے مسلمانوں کو کسی بھی صورت ’اللہ اکبر‘ کے الفاظ سے نہیں بلائیں گے، اس کے بجاے نامانوس الفاظ "Tanri Uludur"استعمال کریں گے جس کے معنی ترکی زبان میں وہی ہیں۔ جب اماموں نے دھمکی دی کہ وہ مسجدوں میں خدمات انجام دینا بند کردیں گے ۔۔۔۔۔۔ توحکومت نے اعلان کیا کہ ان کی جگہ نئے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کردیا جائے گا جو ترکی زبان میں قرآن پڑھنا جانتے ہیں۔۔۔۔۔
رمضان کی آمد سے عین قبل محکمہ ثقافت (جس میں مذہب بھی شامل ہے) کے کچھ اہل کاروں نے ہمت جمع کی اور ترکی کے آمر کو بتایا کہ وہ ترکی کے خدا کا نام تبدیل نہیں کرسکتا، کم از کم اِس وقت۔ اسے بتایا گیا کہ متعدد مؤذنوں کے اس اصرار پر کہ وہ اللہ اکبر کہہ کر ہی اذان دیں گے، پہلے ہی جیل بھیجا جاچکا ہے۔ اس پر لوگوں کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ،اور صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ اکبر کہنے والے ان مؤذنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آمر کمال یکایک ایک نتیجے تک پہنچے اور بولے ’’انھیں عارضی طور پر اسی طرح نماز پڑھنے دو جیسے وہ چاہتے ہیں‘‘۔ یہ سننے کے بعد چاند نکلنے سے محض چند گھنٹے پہلے ان کا وزیر خوش ہو کر یہ اعلان کرنے کے لیے دوڑا کہ ’’مؤذنوں اور اماموں کی عمومی عدم تیاری کی وجہ سے اس رمضان کے دوران نمازوں کی ادایگی اور قرآن کی تلاوت عربی زبان میں کی جاسکتی ہے لیکن خطبہ لازماً ترکی زبان میں دیا جانا چاہیے‘‘۔اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائم کا رپورٹر کہتا ہے ’’رمضان میں تمام مسلمان خاص طور پر تند مزاج ہوتے ہیں کیونکہ دن کے اوقات میں وہ کچھ کھاتے پیتے نہیں، روزے ختم ہونے کے بعد ترک زیادہ نرم خو ہوجائیں گے،اور امید ہے کہ اپنے آمر کے حکم کے مطابق اپنے خدا کے لیے نیا نام قبول کرلیں گے‘‘۔
اتاترک کے پاکستانی وکیلوں کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوں پر کوئی زیادتی نہیں کی، گرے وولف کا مصنف ایچ سی آرمسٹرانگ بالکل مختلف کہانی سناتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ خفیہ پولیس نے اپنا کام کیا۔ ٹارچر، مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے پولیس کو حراست میں لیے جانے والے مخالف لیڈروں کو مجرم ٹھیرانے کے لیے خاطر خواہ ثبوت مہیا کرنے تھے۔ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک ٹریبونل نامزد کیا گیا۔کسی طریق کار اور شواہد کا تکلف کیے بغیر عدالت نے انھیں پھانسی کی سزا سنادی۔سزاے موت کے وارنٹ مصطفی کمال کو دستخط کے لیے ان کی رہایش گاہ ’خان کیا‘بھیجے گئے۔ان میں سے ایک وارنٹ کمال کے جگری دوست عارف کی سزاے موت کا بھی تھا جو مصطفی کمال سے جھگڑے کے بعد اپوزیشن میں چلا گیا تھا۔ عارف اس کا ایک ایسا دوست تھا جو جنگ آزادی کے تمام کٹھن دنوں میں اس کا وفادار رہا تھا۔وہ اکیلا شخص تھاجس کے سامنے کمال نے اپنادل کھول کر رکھ دیاتھا۔۔۔۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جب یہ وارنٹ سامنے آیا تو غازی کے چہرے پر کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔اس نے کوئی تبصرہ کیانہ ہچکچایا۔اس نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے کے کنارے رکھا، اور عارف کے موت کے پروانے پر اس طرح دستخط کردیے جیسے یہ روزمرہ معمول کا کوئی عام کاغذ ہو، اور دوسرے وارنٹ پر پہنچ گیا‘‘۔ آرمسٹرانگ نے اس کے بعد ایک محفل رقص و سرود اور ناؤ و نوش کی تفصیلات بیان کی ہیں جو آمر وقت کی خواہش کے مطابق اسی رات ’خان کیا ‘میں برپا ہوئی، جب کہ عین ان ہی لمحات میں اس عشرت کدے سے چار میل دور انقرہ کے گریٹ اسکوائر پر عارف سمیت پاشا سے اختلاف راے کرنے کے جرم میں ۱۱ ترک لیڈروں کو تختۂ دار پر لٹکایا جارہا تھا۔
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ اتاترک جنگ آزادی کے دوران بلاشبہہ ایک محبوب رہنما کی حیثیت سے اُبھرے لیکن خلافت کے خاتمے اور ترکی کو اسلامی اقدار و روایات سے دور کرنے کے اقدامات پر نہ صرف برعظیم اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی بلکہ ان اقدامات کی بھرپور مخالفت ان کے اپنے ملک میں بھی ہوئی جسے انھوں نے انتہائی بے رحمی سے کچل دیا۔ لہٰذایہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ جبر و ستم کا سلسلہ ان کے بعد کے حکمرانوں نے شروع کرکے اتاترک کے سیکولرازم کو بدنام کیا۔
یہ بات بھی تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ کمال پاشا کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے تک ترکی کے تمام حکمراں جبر و تشدد سے کام لیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتاترک کے جانشین عصمت انونو وغیرہ کے بعد ۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۰ء تک عدنان مندریس اور جلال بایار کے دور میں اتاترک کے غلط اقدامات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ، عربی میں اذان اور نماز کی اجازت دی گئی اور دوسرے اقدامات کیے گئے، لیکن ترک فوج نے جو خود کو اتاترک کے اسلام مخالف سیکولر اقدامات کا محافظ سمجھتی تھی، جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عدنان مندریس کو اتاترک کے اصولوں سے رُوگردانی کی پاداش میں پھانسی دے دی ۔ اس کے بعد سلیمان ڈیمرل اور نجم الدین اربکان وغیرہ کے ادوار حکومت میں بھی یہ کوششیں جاری رہیں لیکن فوجی مداخلت انھیں ناکام بناتی رہی۔ بالآخر نجم الدین اربکان کے ساتھی طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی حکمت عملی کامیاب رہی، اور ترک عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرکے انھوں نے ملک کو فوجی تسلط سے آزاد کرایا اور معاشی بحران سے نجات دلائی ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہ لوگ ترکی کی اسلامی تحریک کا حصہ ہیں لیکن ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جو اب تک برقرار ہیں۔
ترکی میں جس درجے اور جس قسم کا سیکولرازم نافذ کیا گیا تھا،اس کی ایک چشم کشا مثال ترکی میں مقیم ایک پاکستانی معلم اور کمال پاشا کے مداح نے اپنے ایک اخباری کالم میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق رمضان کے دنوں میں انقرہ یونی ورسٹی میں ان کی کلاس عین افطار کے وقت بھی جاری رہتی تھی۔ جو طلبہ و طالبات روزے سے ہوتے وہ کلاس کے دوران خاموشی سے چاکلیٹ وغیرہ سے روزہ افطار کرلیتے تھے اور نماز اور افطار کا کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا ۔کالم نگار کے مطابق رمضان اور روزے کا اس طرح اہتمام اصل اسلام کا حقیقی مظاہرہ ہے ۔ انھیں افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ حیرت ہے کہ سیکولر مغربی ملکوں میں کرسمس کی دس روزہ تعطیلات اور پُرجوش تقریبات ، شادیوں کا چرچ میں انعقاد، سیکولر بھارت میں ہولی دیوالی کے جشن، مغربی ملکوں میں ہفتہ وار تعطیل کے لیے عیسائیت میں مذہبی اہمیت رکھنے والے دن اتوار اور اسرائیل میں سنیچر، یعنی یومِ سبت کا انتخاب وغیرہ تو انھیں سیکولرازم سے متصادم نظر نہیں آتا، مگر تقریباً ۱۰۰ فی صد مسلمان آبادی والے ملک ترکی میں اسلام کی رو سے مقدس ترین مہینے رمضان میں افطار اور نمازِ مغرب کے لیے وقفہ نہ کرنے کو وہ سیکولرازم ہی کا نہیں اسلام کا بھی مثالی مظاہرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مثال کمال پاشا کی جبری سیکولر بلکہ اسلام مخالف ’اصلاحات‘ کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔اس ترکی کو قائد اعظم کا آئیڈیل قرار دینا اور اتاترک کو ان’ اصلاحات‘ کی بنا پر بانی پاکستان کا ممدوح ٹھیرانا قطعی ناقابل فہم ہے۔
کمال پاشا اور قائد اعظم ہر لحاظ سے مختلف تھے۔ ایک خود راے آمر تھا تو دوسرا سرتاپا جمہوریت پسند۔ ایک نے اپنی قوم پر انگریزی لباس اور تہذیب بالجبر مسلط کی تو دوسرے نے سربراہ مملکت بنتے ہی شیروانی اور قراقلی ٹوپی کی ایسی پابندی اختیار کی کہ کسی سرکاری تقریب میں اس کی خلاف ورزی نہ ہوئی۔ ایک نے عربی رسم الخط ختم کرکے رومن حروف تہجی زبردستی رائج کیے تو دوسرے نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ ایک کا معمول علماے اسلام کی تحقیر تھا تو دوسرے نے پہلے یوم آزادی کی تقریب پر پرچم کشائی کے لیے تحریکِ پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ممتاز عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا۔ ایک نے اپنے ہم وطنوں کو عالمی اسلامی برادری سے کاٹ پھینکنے کے اقدامات کیے تو دوسرا مسلمانانِ عالم کے اتحاد کا علَم بردار تھا۔ ایک کے نزدیک اسلام ریگستان کے قبائل کا دین اور کسی جدید ریاست میں قابل نفاذ نہیں تھا تو دوسرے نے اپنے درجنوں بیانات اور تقریروں میں واضح کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور قرآن و سنت میں اس کی مکمل صورت گری کردی گئی ہے۔ اس نے صاف طور پر کہا کہ’’ پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اسے دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جانا ہے‘‘۔
قیامِ پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری پیغام میں آئین پاکستان کے حوالے سے دوٹوک الفاظ میںواضح کیا کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں: ’’ مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کی یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیںاور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۱)۔ ایسے شخص کو اُس جیسا قرار دینا جس نے اپنی قوم کا رشتہ اسلام سے کاٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، بڑی نا انصافی اور حقائق کے یکسر منافی ہے۔
مولانا مودودیؒ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی تھے‘جن وجوہ سے وہ اسے انسانیت کی خیروفلاح کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے‘اور اس کے لیے جو طریق کار ان کی نگاہ میں درست تھا‘اس کی پوری تفصیل ان کے چھوڑے ہوئے تحریری و تقریری سرمایے میں محفوظ ہے۔ اس کا جائزہ لے کر کوئی بھی بآسانی جان سکتا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مولانا مودودیؒ کا وژن کیا تھا۔
عین عالم جوانی سے وہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی اور اس کے لیے جس طریق کار کے علم بردار بن کر اٹھے تھے‘زندگی کے آخری لمحات تک اس حوالے سے ان کی فکر میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ان کے تحریری کام اور عملی جدوجہد کا سلسلہ اگرچہ نصف صدی سے زیادہ مدت پر پھیلا ہوا ہے‘اس کے باوجود اس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے پہلے رائج الوقت افکار و نظریات اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کیا‘ اور پھر خوب سوچ سمجھ کر اپنے مقصد زندگی کی بنیاد کاملاً قرآن و سنت پر رکھی اور اس میں کسی ملاوٹ اور مداہنت سے قطعی مجتنب رہے۔ چنانچہ جو کچھ انھوں نے ۳۵سال کی عمر میں لکھا ‘۷۰ سال کی عمر میں بھی انھیں اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کے کسی دور کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ ان کی بنیادی فکر میں مکمل یکسانیت ملے گی۔
ذیل میں ان کے افکارکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں جس تبدیلی کی جدوجہد انھوں نے شروع کی تھی ‘ اس کی تفصیلات ان کی نگاہ میں کیا تھیں۔
اس کے بعد کہتے ہیں:’’میں صرف غیرمسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے‘بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آؤ اس ظلم اور طغیان کو ختم کردیںجو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹادیں‘‘۔(تحریک ِآزادیٔ ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۲۴-۲۵)
’’انسان پر سے انسان کی خدائی کا خاتمہ اور قرآن کی بنیاد پر ظلم اور بے انصافی سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر‘‘---یہ ہے وہ تبدیلی جس کی دعوت لے کر مولانا مودودیؒ اٹھے تھے۔
ہندستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مسلمان قائدین اس بنیادی کام کے بجاے جن مسائل میں الجھے ہوئے تھے‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلۂ تحریر میں مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں: ’’مغربی طرز کے لیڈروں پر تو چنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی ہے‘ مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علماے کرام پر جن کا رات دن کا مشغلہ ہی ’قال اﷲ و قال الرسول‘ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ قرآن کو کس نظر سے پڑھتے ہیں کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی انھیں اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمانوں کے لیے اصولی طور پر مقرر کردی گئی ہے۔جن مسائل کوانھوں نے اہم اور اقدم قرار دے رکھا ہے‘ قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا نشان بھی نہیں ملتا۔برعکس اس کے قرآن میںہم دیکھتے ہیں کہ نبی پر نبی آتا ہے اور ایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے: یٰقَوْمِ اعْبُدُوْاﷲ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗخواہ بابل کی سرزمین ہو یا ارضِ سدوم‘ یا ملک مدین‘ یا حجر کا علاقہ‘ یا نیل کی وادی‘ خواہ وہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو یا بیسویں یا دسویں‘ خواہ وہ غلام قوم ہویا آزاد‘ خستہ و درماندہ ہو یا تمدنی وسیاسی حیثیت سے بام عروج پر۔ ہر جگہ‘ ہردور میں‘ ہر قوم میں‘ اﷲ کی طرف سے آنے والے رہنماؤں نے انسان کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی‘ اور وہ یہ تھی کہ: اﷲ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اسی سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے‘ سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے‘ نہ جانتے تھے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدم اور کون سی مؤخر ہونی چاہیے‘ اور انھیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں۔یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اِس دور میں جو حضرات اسلام کے نمایندے اور مسلمانوں کے قائد و رہنما بنے ہوئے ہیں‘ وہ جزئیات شرع پر کتنا ہی عبور رکھتے ہوں‘ بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۶)
یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند ‘یا ایک اشتراکی اس کو دیکھتا ہے۔جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘انھی کی زبان میں باتیں کریں گے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تواپنی وقعت کو ہم خودہی خاک میں ملادیں گے… تعداد کی بنا پر اکثریت و اقلیت کے نوحے‘ یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ و پکار--- یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں …] حالانکہ[ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں… اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶-۱۰۸)
ان اقتباسات سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ دنیا میں اسی معاشرتی تبدیلی کی دعوت لے کراٹھے تھے‘ جس کے لیے انبیاکرام دنیا میں بھیجے گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ اسی تبدیلی کی جدوجہد دنیا میں ان کا مشن ہے اور اس کا طریق کار وہی ہے جو اﷲ کے رسولوں نے اپنے ادوار میں اختیار کیا‘ اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہر زمانے کے لیے اسی نہج پر پھیلانا اور تبدیلی لانے کی کوشش کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔
’’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے جولائی ۱۹۴۰ء کے شمارے میں چھپنے والے اس مضمون میں جو اَب تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے دوسرے حصے میں موجود ہے ‘ اس نکتے کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے‘ اکیلا ہی آیا ہے۔ اقلیت و اکثریت کا کیا سوال‘ وہاں سرے سے کوئی ’’مسلمان قوم‘‘ ہی موجود نہ تھی۔ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اٹھتا ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔چند گنے چنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں‘ اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت‘ حکومت الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے… بارہا وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا‘ اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں اس تحریک کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔مگر اس کے باوجود جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے تھے اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا‘ انھوں نے آخری سانس تک بس اسی مقصد کے لیے کام کیا‘ اور کسی ایک نے بھی اکثریت کا یا حکومت کا رنگ دیکھ کر‘ یا وقتی اور مقامی مشکلات کا خیال کرکے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔
پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کو اٹھانے اور چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی سازگاری کی ضرورت ہے۔جس سامان اورجس سازگار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے نہ کبھی فراہم ہوگا۔دراصل خارج میں نہیںبلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے کہ یہی مقصد حق ہے‘ اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ میرا جینا اور مرنااسی مقصد کے لیے ہے۔یہ ایمان‘ یہ شہادت‘ یہ عزم موجود ہو تو دنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۱-۱۱۲)
دراصل ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر چھاجانے کی قوت اگر ہے تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے جو انسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہو‘اور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔قومیت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔ قومیت کے حصار‘ نسلوں کے تعصبات‘قومی ریاستوں کے مضبوط بند‘ کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہرطرف‘ ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروؤں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ایک اکیلا آدمی اس کو اٹھانے کے لیے کافی ہے۔پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔وہ اپنے دشمنوں میں سے دوست پیدا کرتی ہے۔سب قوموں کے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں‘ ان پر وہ اپنے اصولوں کے تیر بھی چلاتی ہے۔خون کے پیاسے دشمنوں میں سے وہ اپنے سرگرم حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ سپاہی‘ جنرل‘ ماہرین فنون‘سرمایہ دار‘ صناع اور کاریگر‘ سب انھی میں سے اس کو مل جاتے ہیں‘ اور بے سروسامانی میں ہرقسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔ قومیتیں اس کے سیلاب کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھیرسکتیں۔بڑے بڑے پہاڑ اس کے سامنے آتے ہیں اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آب ِرواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے اقلیت و اکثریت کے سارے سوالات بے معنی ہیں۔وہ اس کی ہرگز محتاج نہیں ہوتی کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔وہ قومی حکومت قائم کرنے نہیں اٹھتی کہ قومیں اس کی مزاحمت کرسکیں۔اسے تو ایک ایسے اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے جو سب قوموں کے لوگوں کی فطرت کو اپیل کرتا ہو۔جاہلی تعصبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں مگر جب فطرتِ انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے تو وہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف
بامید آنکہ روزے بہ شکارخواہی آمد
]صحرا کے تمام ہرن اپنے سر ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں‘ اس امید پر کہ کسی دن وہ شکار کرنے تو آئے گا۔[
اس وضاحت کے بعد کہ پوری انسانیت کی فلاح کی علم بردارایک عالم گیر اصولی تحریک کے داعیوں کی حیثیت سے مسلمانوںکا دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ مادّی مفادات کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ اس حیثیت کے عملی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد اور اغراض کو بھول جائیں‘ تمام تعصبات سے بالاتر ہوجائیں‘اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظر ہٹالیں جن سے ہمارے حقیر دُنیوی فوائد کا تعلق ہے… اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصب میںمبتلا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔ اگر ہم ]نام کی مسلم[ ریاستوں کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے ] حکمران[ مسلمان ہیں اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے‘ تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی یہ باور کرلے گا کہ ہم اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں اور واقعی حکومت الٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۸)
ان تحریکوں کی نظر صرف ] مقامی[ مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلادی۔مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے ’’مسلم قوم‘‘ میں شامل ہیں‘ اور ان کی دل چسپیاں بھی انھی مسائل تک محدود رہیں‘ جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے‘ جو غیرمسلموں کواپیل کرنے والی ہو‘ بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سدراہ بن گئی ہیں۔لیکن ہمارے لیے چونکہ خوداسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے ‘ لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے‘ بلکہ پوری نوع انسانی اور سارے کرۂ زمین پر وسیع ہے۔تمام انسانوں کے مسائل زندگی ہمارے مسائل زندگی ہیں‘ اور اﷲ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے ہم ان مسائل زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں‘جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ (روداد جماعت اسلامی‘ حصہ اول‘ ص ۱۱)
یہ جماعت کوئی قوم پرست یا وطن پرست جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانیت کی فلاح اس کے پیش نظر ہے‘ مگر وہ یقین رکھتی ہے کہ جب تک ہم خود اپنے ملک کو اسلامی نظام کا مثالی نمونہ نہ بنادیں‘ اور جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جس حق و صداقت پر ہم ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں‘ اور جب تک ہم یہ نہ دکھادیں کہ اس پر عمل کرنے کے کیسے بہتر نتائج ہمارے ملک میں برآمد ہوئے ہیں‘ اس وقت تک ہم دنیا کو اس کے حق اور صداقت ہونے کا قائل نہیں کرسکتے۔
اسی مقصد کے لیے جماعت نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر اسلامی ریاست قرار پاجانے کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے کا اصل مقصد اس ذریعے سے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانا تھا اور مقصودیہ تھا کہ مسلسل انتخابی عمل بالآخر لوگوں میں بھلے برے کا شعور پیدا کردے گا اور معاشرہ اس تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجائے گا جو جماعت اسلامی کو مطلوب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عملمیں انتخابی سیاست میں شرکت کی یہی حکمت بتائی ہے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے‘ اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی نسبت زیادہ خراب۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے‘ لوگوں کے خیالات بدلیے‘اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا‘ اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔
جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی‘ جھوٹ نے شکست دی ہے۔جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔ لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسرعام گالیاں نہیں دیں۔اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں‘‘۔کچھ لوگ ]مجھ سے[ کہہ رہے تھے کہ:’’کچھ نہ کچھ آپ کوبھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیے۔کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمہ داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کے اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ‘ گالی گلوچ اور دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔جو ذمہ داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے ‘اس کے مطابق کام کریں۔آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک کے اندر ضرورہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔اسلامی نظام کا قیام تو اﷲ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے‘ اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے‘ جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے‘ یا ان کو تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھارہی ہے۔آپ کاکام اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے‘ جان کھپانا ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریںگے توماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔(تصریحات‘ص ۲۷۷-۲۷۸)
مولانا مودودیؒ کے ہاں سے جو رہنمائی ملتی ہے اس کی رو سے دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت کے خاتمے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حاکمیت کے قیام کا یہ کام‘ عالمی سطح پر ایک علمی و فکری انقلاب برپا کرکے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:’’اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکراسلام سے منحرف ہورہے ہیں‘ اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی و فکری دبدبہ اور تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے‘ اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیںکہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہوگا‘ جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے…… اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کوڈھادیں جن پر مغربی ]لادینی[ تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیںجو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ایک نئی حکمت طبیعی(نیچرل سائنس) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکرو تحقیق کی اساس قائم کریںاور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پرچھاجائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو‘‘۔ (تنقیحات‘ص:۱۹-۲۰)
اس کام کو شروع کرنے کے لیے اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ مسلمان پہلے سائنس اور ٹکنالوجی میں جدید مادّہ پرست قوتوں کے ہم پلہ ہوجائیں‘صنعت و حرفت میں ان کی برابری کرنے لگیں اورفوجی طاقت میں ان کی ٹکر پر آجائیں۔مولانا مودودیؒ کے بقول اس کام کا آغاز تمام وسائل سے محروم پوری دنیا میں ایک اکیلا شخص بھی کرسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت کی نمرودی اور فرعونی تہذیبوں کو چیلنج کرنے کا یہ کام ہمیشہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام جیسے ظاہری دنیاوی وسائل سے سراسر محروم انسانوں ہی نے کیا ہے۔البتہ آج کی اسلامی تحریکوں کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو عملاً محض مسلمانوں کے قومی مفادات کی وکالت اور اس سلسلے میں دوسری اقوام کے ساتھ ان کے تنازعات میں جانبداری سے بالاتر ہونا پڑے گا۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم’’وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیں‘‘۔اس حوالے سے اپنے مشہور مقالے اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ میں وہ کہتے ہیں:
اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں‘ صرف انسان ہیں۔ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ ’اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی فلاح ہے‘اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ‘ زبان‘ افعال اور حرکات‘ ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کواپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا‘پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہورہی ہیں‘جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیادہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں‘ ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑوں سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۱۶۶)
اس کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بنادیا ہے۔ ٹیلی وژن کے سٹیلائٹ چینل اور انٹر نیٹ جیسی ایجادات نے ہر ایک کے لیے پوری دنیا تک بیک وقت اپنا پیغام پہنچانے کی سہولت مہیا کردی ہے۔ان حالات میں یہ بات واضح ہے کہ اب دنیا میں جو تبدیلی بھی آئے گی‘ عالمی سطح ہی پر آئے گی۔ افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں سے دنیا کا کوئی گوشہ اثرپذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جس کا پیغام زیادہ موثر اور جان دار ہوگا بالآخر وہی جدید انسان کے ذہن کو مسخر کرنے اور اس کا دل جیتنے میں کامیاب رہے گا۔آج اگر مغرب اپنے پروپیگنڈے کی طاقت سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دوسرا نام ہے‘ تو انھی جدید ذرائع سے لوگوں تک اسلام کی صحیح دعوت پہنچاکر کل صورت حال یکسر بدلی بھی جاسکتی ہے‘کیونکہ اسلام بہرحال حق ہے اوریہ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روشنی کے سامنے اندھیرا کبھی نہیں ٹھیرتا۔ جاء الحق وزھق الباطل‘ انّ الباطل کان زھوقا۔دنیا کی یہ کیفیت اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ جو نبی ؐ پوری انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور جس کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اس کی امت کے سپرد کی گئی ہے‘ اس نبیؐ کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔
دور حاضر میں اسلامی تحریک کو اپنی حکمت عملی وقت کے اس تقاضے کے مطابق ترتیب دینی چاہیے۔ مقامی طور پر نفاذ اسلام کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی ؒکے افکار کے مطابق عالمی محاذ پرعلمی و فکری کام کے لیے بھی اسے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا معقول حصہ وقف کرنا چاہیے‘ اور ان کاوشوں کو جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا تک پورے اہتمام کے ساتھ پہنچاناچاہیے۔ان کوششوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ نفاذ اسلام کا سلسلہ کسی مسلمان ملک کے بجاے کسی ایسے غیر مسلم ملک سے شروع ہوجائے جس کے بارے میں ابھی سوچابھی نہ جاسکتا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اﷲ کے نبیؐ کی دعوت مکہ میں اس کے ہم وطنوں سے پہلے حبش کے بادشاہ اور مدینہ کے اجنبیوں نے قبول کی ۔ داس کیپی ٹال جس ملک میںلکھی گئی اس کی بنیاد پر انقلاب اس ملک سے ہزاروں میل دور زاروں کی سرزمین اور چیانگ کائی شیک کے وطن میں برپا ہوا۔ ابوجہل اور ابولہب کی صفوں سے اگر ڈیڑھ ہزار برس پہلے لشکر اسلام کو عمرؓ بن خطاب اور خالدؓ بن ولید جیسے مردانِ کار دستیاب ہوسکتے تھے توآخرآج کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں کیوں میسر نہیں آسکتے ؟پھر جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے انتظار میں بندگیِ رب کی دعوت دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے سے رکے رہنے کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے۔ اس دعوت کا تعلق صرف اجتماعی معاملات سے نہیں‘ ہر فرد کی انفرادی فلاح و نجات سے بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونے والا ہر شخص رب کائنات کے حضور یہ شکایت کرنے میں بالکل حق بجانب ہوگا کہ جن لوگوں کوآپ نے اپنے آخری پیغام کا امین اورپوری دنیا کے لیے اس حق کا گواہ بنایا تھا‘وسائل موجود ہونے کے باوجودانھوں نے یہ پیغام ہم تک نہیں پہنچایا‘ اس لیے ہمارے دوزخ میں جانے کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔
آج غیروں کی زیادتیوں کے ردعمل میںچلنے والی احتجاجی تحریکوں پرمسلمانوں کے جو وسائل صرف ہورہے ہیں اور جتنی جانی قربانیاں ان تحریکوں کے وابستگان دے رہے ہیں ‘اگر یہ مالی وسائل اور یہ انسانی توانائیاں دنیا تک اسلام کے پیغام کو قومی حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتررہتے ہوئے پوری انسانیت کے لیے خیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ پہنچانے پر صرف کی جائیں‘ تو یقینی طور دنیا میں اسلام کی مقبولیت کے حوالے سے کہیں بہتر نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا پراﷲ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مولانا مودودی ؒنے اسی راستے کی نشان دہی کی ہے‘ اورانسانی معاشرے میں مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق تبدیلی برپا کرنے کے لیے اسی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔