چودھری محمد اسلم سلیمی


قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۝ (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘۔

حُسنِ اخلاق کے بارے فرمانِ رسولؐ

۱- عَنْ مَالِکٍ اَنَّہٗ قَدْ بَلَغَہٗ  اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ قَالَ: بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ (موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۷) امام مالکؒ سے روایت ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق‘ سے مراد وہ بہترین اخلاقی تصورات، اصول اور اوصاف ہیں، جن پر ایک پاکیزہ انسانی زندگی اور ایک صالح انسانی معاشرے کی بنیاد قائم ہو۔
۲- دوسری روایت:  اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ [السنن الکبرٰی، البیہقی، حدیث: ۱۹۳۳۱]’’مجھے تمام اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق کی تکمیل‘ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاؑاور ان کے صالح پیروکار مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اخلاقی فضائل کے مختلف پہلوئوں کو اپنی تعلیم سے نمایاں کرتے رہے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے بہترین نمونے بھی پیش کرتے رہے، مگر کوئی ایسی جامع شخصیت اس وقت تک نہ آئی تھی کہ جس نے انسانی زندگی کے  تمام پہلوئوں سے متعلق اخلاق کے صحیح اصولوں کو مکمل طور پر بیان کیا ہو۔پھر ایک طرف خوداپنی زندگی میں ان کو برت کردکھایا ہو اور دوسری طرف ایک سوسائٹی اور ریاست کا نظام بھی انھی اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہو اور چلا کر دکھایا ہو ۔ یہ کام باقی تھا جسے انجام دینے ہی کے لیے حضور نبی آخرالزماں  محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خود مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا اصل مقصد قرار دیا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ضمنی کام نہیں تھا کہ آپؐ کا مشن تو کچھ اور ہو اور ضمناًآپؐ نے یہ کام بھی کردیا ہو، بلکہ دراصل یہ وہ اہم کام ہے جس کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایاتھا۔ ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہؓنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنُ  ، یعنی حضوؐرکا اخلاق قرآن تھا۔[مسنداحمد، حدیث: ۲۴۰۷۵]

ایمان اور اخلاق کا باہمی تعلق

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ: اَکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا [ابوداؤد ، حدیث: ۴۰۸۳] ’’بروایت ابوہریرہؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں میںسے کامل تروہ ہے جو ان میں سے اخلاق میں بہتر ہے ‘‘۔ ایک اور حدیث کا ترجمہ  یہ ہے :’’سب سے وزنی چیز جوقیامت کے دن مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا   حُسنِ اخلاق ہوگا‘‘۔ [ترمذی، حدیث: ۱۹۷۵]
اس حدیث میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کو کمال ایمان کا مدار قراردیا ہے۔ اس سے بھی اخلاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہے: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ  اَخْلَاقًا [بخاری، حدیث: ۳۳۸۷  ]’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہیں‘‘۔

اخلاق حسنہ کی نصیحت

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ (یمن کی طرف) پابہ رکاب ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے آخری وصیت یہ فرمائی تھی کہ : اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ [موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۱] ’’اے معاذؓ!لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا‘‘۔حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ آخری نصیحت فرمائی۔

مکارم اخلاق کی بنیادیں

۱- تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیںپاسکتا تا وقتیکہ وہ   ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر )کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ ) ہے‘‘۔[ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقویٰ، حدیث: ۴۲۱۳]
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
۲-متقیانہ زندگی کا اصول:ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت عائشہؓنے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، حدیث: ۴۲۴۱]
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظرآتاہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتاہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔اگر خداے بزرگ و برتر اورمالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میںرہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
۳- وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ     ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی شخص بھی خدا کے مقر ر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ج۲،ص۴۵۲)
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسا ن کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
 یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دُنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے ،لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے ۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے ،پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازاجائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے ( اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ [مسنداحمد، حدیث: ۳۵۶۶]
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
۴-علامت تقویٰ : ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑکر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۲)
۵-توکّل: ترمذی  کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔(ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۱)
ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک اور حدیث جس کی روایت حضرت عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے ) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب التوکل والیقین، حدیث: ۴۱۶۲]
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
۶-شکر: مسنداحمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے‘‘ [مسنداحمد، حدیث: ۷۶۲۹]۔یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتاہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تم میں سے ( مال ، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے)فروتر ہیں ،ان کو دیکھو ۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘[صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق، باب الفقر، حدیث:۷۱۳]۔ ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے توچاہیے کہ اسے دیکھے جو ( اس لحاظ سے ) فروتر ہے‘‘۔ [مسلم، کتاب الزہد، والرقائق، حدیث:۵۳۷۵]
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
۷- صبر:مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تویہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تویہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہرحال میں خیر ہی سمیٹتاہے‘‘۔[مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث:۵۴۲۹]
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جوایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔آپؐ نے فرمایا :’’اللہ کا تقویٰ اختیار کراور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانتے ہوئے کہا :اپنی راہ لو ،میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے تووہ دوڑی ہوئی آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ایک اور حدیث ہے کہ :’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔[بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور ، حدیث: ۱۲۳۶]

انفرادی اخلاق 

۱- ضبط نفس: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو (حریف کو میدان میں )پچھاڑ دے ، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میںرکھے ‘‘۔(مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۸۳۰)
حضر ت ابوہریرہؓنے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا :’’غصہ نہ کرو‘‘۔ یہ بات آپؐ نے بار بار فرمائی:  لَا تَغْضَبْ(غصہ نہ کرو )۔[بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۷۱]
۲-عفو و حلم:حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ کی حرمت (شعائر اللہ یا حدوداللہ) پامال ہوتیں توآپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ [بخاری ، کتاب الحدود، حدیث: ۶۴۱۶]
حضرت انسؓ دس سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔     وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے نہیں ڈانٹا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوںنہیں کیا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا۔[مسلم، کتاب الفضائل، حدیث: ۴۳۷۰]
۳- وسعتِ ظرف:ابوالاحوص جشمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:اگر میں کسی شخص کے پاس سے گزروں اور وہ میری ضیافت و مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور کچھ عرصے کے بعد اس شخص کا گزر میرے پاس سے ہوتوکیا میں اس کی مہمانی کا حق اداکروں یا اس کی (بے مروتی اور روکھے پن )کا بدلہ لے لوں؟ توآپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔(صحیح ابن حبان، حدیث:۵۴۹۳) 
۴-حیا: ۱-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاایمان ہی کی ایک شاخ ہے‘‘۔(مسنداحمد، حدیث: ۹۵۱۸]
 حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برہنہ ہونے سے بچو، کیونکہ تمھارے ساتھ وہ ہیں جو تم سے کبھی جدانہیں ہوتے اِلا یہ کہ رفع حاجت یا صنفی تعلق (میاں بیوی کے فرائض زوجیت)قائم کرنے کا موقع ہو۔ ان (فرشتوں ) سے شرمائو اور ان کا احترام کرو‘‘۔[ترمذی، الذبائح، ابواب الادب عن رسول اللہ، حدیث: ۲۷۹۵]
موطا، امام مالکؒ کی ایک حدیث ہے:’’ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتاہے۔ اسلام کا بنیادی وصف حیا ہے‘‘۔[شعب الایمان للبیہقی ،  فصل فی التواضع، حدیث: ۷۸۹۵]
۵-تواضع و انکساری:حضرت عمرؓ نے ایک بار منبر پر سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!تواضع وانکساری اختیار کرو۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ’’جو اللہ کے لیے جھکتا ہے، اللہ اسے بلند کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے، حالانکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہے۔ اور جس نے تکبر کیا، اسے اللہ تعالیٰ گرادیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا ہے، حالاںکہ وہ خود اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے ،یہاں تک وہ ان کے سامنے کتے اور سؤر سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے او رنہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپؐ کے پیچھے دو آدمی چلتے ہوئے دیکھے گئے ہوں (ابو داؤد، مشکوٰۃ)۔یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا حال تھا۔
۶- شہرت سے پرہیز:حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ [مسلم، کتاب الزہدوالرقاق، حدیث: ۵۳۷۸] ’’اللہ تعالیٰ متقی،غنی اور گمنام بندے کوپسند کرتاہے‘‘۔
اس حدیث میں غنی کے معنی خود دار اور قناعت پسند کے بھی لیے جاسکتے ہیں اور اس کے معنی خوشحال کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ الخفی سے مراد ایسا شخص ہے جو شہرت اور ناموری کا بھوکا نہ ہو۔
۷-قناعت:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق روزی میسر آگئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دی ہوئی روزی پر قناعت کی توفیق بخشی تو وہ فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہوگیا‘‘۔[مسلم،مشکوٰۃ ،روایت عبداللہ بن عمرؓ ]
۸- میانہ روی:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُہَا ۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’حسن سیرت، بردباری اور میانہ روی ،نبوت کے اجزا میں سے چوبیسواں حصہ ہے‘‘۔ (ترمذی)۔ایک اور حدیث ہے: ’’اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے‘‘۔ [شعب الایمان، البیہقی، باب الاقتصاد فی النفقۃ، حدیث: ۶۲۸۱]
۹-مستقل مزاجی: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین کے کاموں میں سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر کرنے والا پابندی کرے اور مستقل مزاجی دکھائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘[مسلم، حدیث: ۱۳۴۵]۔ استقلال کے ساتھ تھوڑا کام نتائج کے لحاظ سے بہتر ہے کہ وقتی جوش کے تحت ہنگامی کام کرڈالے اور پھر خاموش ہوجائے‘‘۔
۱۰-فیاضی: حضرت عبداللہ بن زبیرؓسے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓاور حضرت اسماؓ بنت ابوبکر سے بڑھ کر فیاض عورتیں نہیں دیکھیں۔
۱۱- امانت و دیانت: ۱-حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دُنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں ہے: (۱)امانت کی حفاظت(۲) راست گفتاری (۳)خوش خلقی اور (۴) روزی میں پاکیزگی‘‘۔ [مسند احمد، حدیث: ۶۴۸۲]
۱۲- حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو تمھارے پاس امانت رکھے، اسے اس کی امانت ادا کردو، اور جوتم سے خیانت کرے، تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔[ترمذی، ابواب البیوع عن رسولؐ اللہ، حدیث: ۱۲۲۲]
اللہ تعالیٰ ہمیں حُسنِ اخلاق کی اہمیت کو سمجھنے،مکارم اخلاق کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں بہترین انفرادی اخلاق کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدید دور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو اچھی طرح سے ثابت کر دیا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی‘ بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظام رحمت کو  جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی ریاست کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے اعتماد‘ یقین‘ مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے عصرِحاضر کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر اپنی اجتہادی بصیرت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اسلام کے اصول حکمرانی‘ اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ‘ اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ‘ اسلامی قانون کے ماخذ اورعصرحاضر میں اسلامی قوانین کے قابل نفاذ ہونے کے امور پر بحث کی اور واضح لائحہ عمل دیا۔ ان امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر‘ مضامین اور کتب میں پورے شرح وبسط کے ساتھ کی۔

اس تحریر میں قانون اور سیاست سے متعلق چند یادداشتیں قلم بند کر رہا ہوں:

  • اسلامی کلو کیم میں مقالہ: حکومت پاکستان اور پنجاب یونی ورسٹی لاہور      نے مشترکہ طور پر ۶ تا ۱۶ جمادی الثانی ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۸ جنوری ۱۹۵۸ء  الندوہ العالمیہ للاسلامیات منعقد کرایا تھا‘ جس میں دنیاے اسلام کے نامور مفکرین‘ ممتاز علما و مشائخ اور اساتذہ کرام کے علاوہ یورپ اور امریکہ سمیت کل ۳۳ ممالک کے بعض ممتاز اسکالروں اور مشہور مستشرقین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مولانا مودودیؒ کو ۱۶ رکنی انٹرنیشنل کلوکیم کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اس کلوکیم کے موضوعات طے کیے‘ اور اس کی پوری منصوبہ بندی کی تھی۔

میں ان دنوں قصور میں وکالت کرتا تھا۔ اس کلوکیم کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر میں نے عالم اسلام کے نامور اسکالروں کے بلند پایہ مقالات سے استفادہ کیا تھا۔

دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلسِ مذاکرہ میں مولانا مودودیؒ نے ۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو ’’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا تھا‘ جو بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما نے بہت داد دی تھی۔

اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے‘ اس علمی تحقیق اور عقلی کاوش کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزادانہ اجتہاد کی بھی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں‘ وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے‘ وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔

اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف بیان کیے جن کے مطابق مجتہد میں:

  • شریعت کے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ
  • عربی زبان و ادب سے اچھی واقفیت
  • قرآن و سنت کا گہرا علم
  • پچھلے ادوار کے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت
  • عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت
  • اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار ہونا چاہیے۔

مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ بھی تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یہ چار صورتیں بیان کیں: l یہ کہ تمام امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہو۔ l یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے۔ l یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے۔ l چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔

  • یونی ورسٹی لا کالج میں خطاب: میں ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۷ء تک پنجاب     یونی ورسٹی لا کالج کا طالب علم رہا۔ اس دوران میں لا کالج اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مسعود ملک یونین کے صدر اور امین ملک جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ یونین نے لاکالج میں خطاب کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کا جو وفد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔ ہم نے مولانا سے خطاب کی درخواست کی تو مولانا نے شفقت سے دعوت قبول کر لی‘ اور فرمایا: ’’آپ کس موضوع پر میری تقریر کرانا چاہتے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’لا کالج کے طلبہ دو نکات پر آپ سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ ایک تو آپ اسلامی قانون کے ماخذ بیان کریں‘ جن میں سنت کے ماخذِقانون ہونے کی کھل کر وضاحت کی جائے۔ کیونکہ فتنہ انکارِ سنت نے سنت کی حجیت کے بارے میں بعض ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے ہیں۔ دوسرے یہ ‘سوال بعض طلبہ کے ذہن میں موجود ہے کہ کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابل نفاذ ہیں اور پاکستان میں کیوں اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہییں۔ اس سوال کی وضاحت بھی مطلوب ہے۔ آپ اس سوال کا جواب دے کر طلبہ کو مطمئن فرمائیں‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے اسٹوڈنٹس یونین لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو امور کی اچھی طرح وضاحت تک مرکوز رکھا۔ اور فرمایا: ’’اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے‘ جو انھی الفاظ میں محفوظ ہے‘ جن میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (latest edition) ہے۔ مسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے‘‘۔

اسلامی قانون میں سنت کے مقام و مرتبے کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے وضاحت فرمائی: ’’اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ سنت رسولؐ ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا۔ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی اور اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا۔ اس طرح سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایا: ’’افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ سنت کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کر کے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے سنت کے حجت ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم‘ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی ہیں‘ جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اﷲ ہیں۔ اس بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح آنحضوؐرکے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا‘ اس کے نظائر اور روایات سے حدیث‘ تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جاسکتا ہے‘‘۔

چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’یہ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں‘ جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں‘‘۔

اسلامی قانون کے چاروں ماخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور ریاست کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔

مولانا مودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا۔ بعض لوگوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ قیام پاکستان کے چند ماہ بعدہی مولانا مودودیؒ‘ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے‘ تب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انھیں یونی ورسٹی لا کالج میں اسلامی قانون کے حوالے سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت‘ اس کی روح‘ اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول وضاحت سے بیان کیے تھے۔ اس کے بعد ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ’’پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر یونی ورسٹی لا کالج لاہور میں ایک اور لیکچر دیا تھا۔

آخر میں‘میں مولانا مودودیؒ کی ایک اہم ملاقاتوں کے بارے میں عرض کروں گا:

دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ: میں ملاقات کے لیے آپ کے ہاں آنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ‘ بھٹو صاحب سے گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں ملاقات کر لیں۔ اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ عالم اسلام کے نام ور عالمِ دین ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلب گار ہوں‘ کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’بھٹو صاحب‘ آپ نے عام انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پھر معروف سوشلسٹ اور دین سے بے زار افراد آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں‘ ہم کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟‘‘