مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒبیسویں صدی کی ایک نابغۂ روز گار شخصیت تھے ۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدیددور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے ۔ انھوں نے مغربی تہذیب کی چکا چوند سے مرعوب ہوئے بغیر اس پر مؤثر تنقید کی اور پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو واضح کیا۔ انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظامِ رحمت و برکت کو آج کے جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جاسکتا ہے اور ایک جدید ریاست کے تمام اداروں کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے ایک جماعت بھی قائم کی تھی۔
اسلامی ریاست کے تصور کے تمام پہلوئوں اور اس کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے جس اعتماد،یقین، مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا، بیسویں صدی میں اس کی کوئی اور مثال اسلامی دنیا میں نہیں ملتی۔ انھوں نے دور جدید کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل کے ساتھ اور اپنی اجتہادی بصیرت اور خدادادقابلیت اور صلاحیت سے پیش کیاہے ۔ اسلام کے اصول حکمرانی، اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ، اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ، اسلامی قانون کے مآخذاور کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابلِ نفاذ ہیں؟ ان سب امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر، مضامین اور مقالات میں اس قدر شرح و بسط کے ساتھ کردی ہے کہ میری نظر میں یہی ان کا امتیازی کارنامہ ہے ۔ اگرچہ تفسیر قرآن، حدیث کی تشریح اور وضاحت،سنت کی حجیت اور فقہ کی تدوین جدید کے سلسلے میں ان کے کارہائے نمایاں کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے، تاہم میں اس مضمون میں مولانا مودودیؒ کا تذکرہ بطور ایک ماہرقانون اسلامی کرنا چاہتا ہوں ۔ اس سلسلے میں اپنی یادداشتوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر چند معلومات پیش ہیں۔
میں ان دنوں قصور شہر میں وکالت کر رہا تھا ۔ میں نے اس کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر عالم اسلام کے بعض نامور اسکالروں کے بلند پایہ خطابات او رمقالات سے استفادہ کیا تھا۔ خاص طور پر مولانا مودودیؒ کے پیش کردہ مقالہ کو بڑے غور سے سنا اور پلے باندھ لیا بلکہ عربی محاورے کے مطابق دانتوں سے پکڑ لیا تھا ۔
دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلس مذاکرہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۳جنوری ۱۹۵۸ء کو ’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا جو بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما و مشائخ نے بہت داد دی۔ مولانا مودودیؒ کے مقالے کا عربی اور انگریزی ترجمہ پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور وہ غیر ملکی اسکالروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
مولانا نے مزید فرمایا کہ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں، وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے، جن میں وہ استعمالِ رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے، وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں:
۱- شریعت پر پختہ ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین، اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اورقانون کے مقاصد، اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
۲- عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت۔
۳- قرآن و سنت کا گہرا علم جس سے آدمی شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔
۴- پچھلے اَدوار کے مجتہدینِ امت کے کام سے واقفیت۔ قانونی ارتقا کے تسلسل کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت، کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا ہے۔
۶- اسلامی معیارِ اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار، کیونکہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہو سکتااور نہ اس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبۂ احترام پیدا ہو سکتا ہے، جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشو و نما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں، جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے حامل اہل علم تیار کرنے لگے۔
۱- ایک یہ کہ تمام امت کے اہلِ علم کا اس پر اجماع ہو۔
۲- دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہو جائے اور لوگ خود بخود اس کی پیروی شروع کر دیں جس طرح فقہ حنفی و شافعی و مالکی وحنبلی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ہے۔
۳- تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے، جیسے ترکی کی عثمانی سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانونِ ملکی قرار دیا تھا۔
۴- چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔ایسے ادارے میں مجتہد کی صفات رکھنے والے لوگ شامل ہوں۔
اپنے مقالے کے آخر میں مولانا مودودی ؒنے واضح کیا کہ اسلامی نظامِ قانون میں قاضیوں کے فیصلے ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں، جن میں وہ کسی عدالت نے کیے ہوں اور انھیں نظائر (Precedents) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے، لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے۔ اسلامی نظامِ قانون میں قاضیوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made Law) کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔
مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق اسلامی نظامِ قانون میںاس طرح کے فیصلے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مولانامودودیؒ نے طلبہ اسٹوڈنٹس لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو اُمور کی اچھی طرح وضاحت تک محدود رکھا۔
مولانامودودیؒ نے فرمایا کہ اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے جواُنھی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے۔ وہ سراسر حق ہے اور اول تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس کے اندر کلام الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہو سکی ہے۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (Latest edition)ہے ۔ ہرمسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے۔
اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے زیادہ کھل کر وضاحت فرمائی کہ وہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا؟ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی؟اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا؟ سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے۔
مولانا مودودی ؒنے فرمایا کہ افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ اس کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار برپا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی ؒنے سنت کے حجت ہونے پر خوب روشنی ڈالی۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلم بھی تھے، جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اللہ تھے۔ اسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سُنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔
اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآنی آیات کی روشنی میں تفصیل سے بتایا کہ رسول اکرمؐ بحیثیت شارح کتاب اللہ، بحیثیت پیشوا و نمونۂ تقلید، بحیثیت شارع، بحیثیت قاضی اور بحیثیت حاکم و فرماں روا ہمارے لیے قیامت تک واجب الاتباع ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کے اجماع کی تفصیل بھی بیان کی۔
مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا، اس کے نظائر سے، روایات سے، حدیث، تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جا سکتا ہے۔
چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ یہ مجتہدینِ اُمت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں صادر کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
اسلامی قانون کے چاروں مآخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانامودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور سٹیٹ کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔
مولانامودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا اور بعض لوگوں نے یہ ریمارک بھی دیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے۔ جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔
مولانا مودودی ؒنے کمال شان بے نیازی اور بڑی جرأت سے فرمایا کہ ’’بھٹو صاحب آپ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ آپ کے ارد گرد نامی گرامی سوشلسٹ، ملحد اور لبرل افراد جمع ہیں اورحکومت میںشامل ہیں۔ان لوگوں کی موجودگی میں، مَیں یا جماعت اسلامی کے لوگ آپ سے کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟
دوسری ملاقات ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک نظامِ مصطفےٰ کے دوران میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ سے ان کے گھر۵-اے ذیلدار پارک اچھرہ آ کر کی تھی۔ اس ملاقات کی خبر جب منصورہ پہنچی تو مولانا جان محمد عباسی مرحوم جو اس وقت قائمقام امیرجماعت تھے، اچھرہ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بھٹو صاحب مل کر جارہے تھے ۔مولانا عباسی مرحوم نے مولانا مودودیؒ سے عرض کیا کہ بھٹو سے آپ کی ملاقات کی خبر سے تحریک پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ابھی پریس کانفرنس میں بھٹو سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بتا دیں تاکہ ملاقات کی خبر کے ساتھ ہی کل کے اخبارات میں وہ گفتگو بھی لوگوں کے سامنے آجائے جو آپ نے بھٹو سے کی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی ؒرضا مند ہو گئے اور اسی وقت ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں مولانا مودودیؒ نے ملکی اور بین الاقوامی پریس کو بتادیا کہ بھٹو صاحب میرے پاس آئے تھے تو میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بھٹو صاحب! اب تو تحریک اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ لوگ آپ کے سر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ وزارت عظمیٰ سے استعفا دے کر نئے سرے سے شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونے دیں، تاکہ قوم اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرکے پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور ان کے حوالے کردے۔ اسی صورت میں ملک میں امن و امان بھی قائم ہو سکتا ہے اور آپ کی جان بھی بچ سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ بھٹو نے مولانا مودودیؒ کے اس مخلصانہ مشورے پر عمل نہ کیا۔