یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے کہ ایک ماہرِ قانون نے ’آئین پاکستان‘ اور آزادکشمیر کے ’عبوری آئین کی فراہمی کے لیے مجھ سے تقاضا کیا۔ میری اہلیہ ان دنوں ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کتابوں کو خرید کر ساتھ لیتی آئیں۔ واپسی پر جب وہ واہگہ -اٹاری سرحد پر پہنچیں تو ان کا فون آیا: ’کسٹم افسران نے ان دونوں کتابوں کو ضبط کرلیا ہے‘۔ میں نے مذکورہ افسر سے بات کی ، تو بڑی مشکل سے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد اس نے ’آئین پاکستان‘ کی کاپی ساتھ لے جانے کی اجازت تودے دی، مگر آزاد کشمیر کے عبوری آئین کو ضبط کرکے اس کی رسید تھما دی۔ یہ واقعہ تو یہاں تمام ہوا، ازاں بعد مذکورہ ماہرِ قانون نے بھی اس کتاب کو بارڈر سے لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کتابوں پر پابندیاں لگانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر جمہوری ممالک کی صف میں انڈیا اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے میں بازی لے رہاہے۔ اگست ۲۰۲۵ء میں جس طرح زیرک اور معروف دانشوروں کی پچیس کتابوں پر تھوک کے حساب سے جموں و کشمیر میں پابندی عائد کی گئی اور پھر اگلے ہی روز کتابوں کی دکانوں کی تلاشیاں لی گئیں، اس سے دانش ور طبقہ میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ماضی میں جائیں تو آزادی کے بعد پہلی بار ۱۹۵۰ءمیں تین کتابوں پر پابندی لگائی گئی، وہ حمید انور کی پاکستان پس منظر، آغا بابر کی سیز فائر اور نسیم حجازی کا ناول خاک و خون تھا۔ اس کے دوسال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول معرکہ سومنات پر پابندی لگا دی گئی۔ اسٹانلے وولپرٹ کی Nine Hours to Rama پر ۱۹۶۲ءمیں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈرسل کی Unarmed Victory ممنوع قرار دی گئی۔ اسی طرح وی ایس نیپال کی An Area of Darkness، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی Ramayana: A True Reading بھی اس فہرست میں ہے۔ ۱۹۸۳ءمیں امریکی تفتیشی صحافی کی کتاب سیمور ہرش، ۱۹۸۹ء میں زوہیر کشمیری اور برائن میک انڈریو کی کتابSoft Target: How the Indian Intelligence Services Penetrated Canada? پر پابندی لگائی گئی۔ اسی قبیل میں آخری پابندی ۲۰۱۴ءمیں سنت سوریہ تکا رام اور لوک ساکا دنیشور پر لکھی گئی کتاب پر لگائی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں ایچ ایس شیکھر کی قبائلیوں پر لکھی ایک کتاب پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر جلد ہی یہ واپس لے لی گئی۔
اگرچہ ہر سال ریاستی سطح پر اکا دکا ایسی پابندیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر اس بڑے پیمانے پر ایک ہی ساتھ ۲۵تحقیقی کتابوں کو ممنوع قرار دینا پہلا واقعہ ہے۔ ان کتب میں بوکر انعام یافتہ ارون دھتی رائے کی آزادی، معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور سوگاتا بوس کی کتاب Kashmir and the Future of South Asia، معروف قانون دان اور کالم نویس اے جی نورانی کی دو جلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Untold Story of Kashmir after Article 370، محقق سمنترا بوس کی دو کتابیں، امریکا یونی ورسٹی کے پروفیسر اطہر ضیا اور حفصہ کنجوال کی کتابوں کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی مجاہد کی اذان اور کئی دیگر کتابیںشامل ہیں۔ اگر کسی کو کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر یہ مہم سر کرنا ناممکن ہے، مگر حکومت نے تقابلی مطالعے کا یہ باب ہی بند کردیا ہے۔
اس پابندی کی خبر پڑھ کر یہ لگا کہ محکمۂ داخلہ میں کسی وسیع المطالعہ شخص کا تقرر ہوا ہے، جس نے ارون دھتی رائے ، اے جی نورانی،سوگتابوس وغیرہ سبھی کو پڑھا ہے۔ مگر جب میں نے دوبارہ فہرست پر نظر ڈالی، تو اس میں معروف رضا اور ڈیوڈ دیوداس کی کتابیں بھی نظر آگئیں، تواس چیز سے یہ محسوس ہوا کہ اس افسر نے تو صرف کتابوں کے سرورق دیکھ کر پابندی کا حکم نامہ صادر کر دیا ہے۔ یہ دونوں مصنّفین انتہائی حد تک بھارت کا موقف تیار کرنے اور اس کی تشہیر کے لیے معروف ہیں۔ ڈیوڈ دیوداس کی کتاب In Search of a Future، سابق عسکریت پسندوں اور بھارت و کشمیر کے اہم سیاست دانوں کے انٹرویوز اور خفیہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق: ’’کشمیری آزادی حاصل کرکے بھارت اور پاکستان کے وسائل نچوڑنا چاہتے ہیں۔ حقِ خودارادیت کا مطالبہ ’دوغلا‘ہے۔ کشمیری خود بھی واضح نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جدید دور میں حقِ خودارادیت ناقابلِ قبول ہے۔ ۱۹۸۹ء میں عسکریت کی ابتدا کا محرک سرحد پار سے آنے والی تحریک ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس طرح موصوف نے کشمیر کے مسئلہ پر خوب بحث کی ہے۔ اسی طرح ڈیوڈ نے مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دیگر جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مرحوم اے جی نورانی کی دوجلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012 ہے۔ میں نے ان کی جن پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا ہے، ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے لیے دستاویزات ڈھونڈنے کی وجہ سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل کی تھی۔یہ کتاب دستاویزات پر مشتمل ہے، جو پہلے ہی انڈین نیشنل آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اب کیا ان کو بھی تلف کیا جائے گا؟ اس کی دوسری جلد مصنف کے مضامین کا مجموعہ ہے جو گذشتہ پانچ عشروں کے دوران مختلف روزناموں، جرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے ہیں جن کو موضوعاتی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں نایاب دستاویزات کے متن شامل ہیں، جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم جارحیت معاہدے کے مسودے جو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔
کشمیر پر مختلف برطانوی اور امریکی دستاویزات، کشمیر کی تقسیم کی امریکی تجویز، مصنف کا اگست ۲۰۰۶ء میں پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف سے کیا گیا انٹرویو، ان کے منصوبے کی تفصیلات، انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو بدلنے کے لیے نئے آرٹیکل کا مسودہ (جو انڈیا کے زیرقبضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے)، اور قائدین — جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نرائن اور رادھا کرشنن — کے درمیان خط کتابت کے ساتھ ساتھ اب تک غیر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے متن بھی شامل ہیں۔
پچھلے سال ۲۹؍ اگست کو ممبئی میں جب اے جی نورانی کا انتقال ہوا، تو اس سے پندرہ روز قبل انھوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ’’ان پر دو کتابوں کا قرض ہے‘‘۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا۔ اس سلسلے میں سبھی دستاویزات میرے پاس آچکی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی کتاب انڈین آرمی اور کشمیر مکمل کرکے مَیں کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’ناشرین میری کتاب انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب مزید لکھنا اور تحقیق کرنا میری دسترس سے باہر ہے‘‘۔
امریکی ریاست پنسلوینیا کی یونی ورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی کتاب Colonizing Kashmir: State-Building under Indian Occuption بھی اس خطے کی تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔اس پر کیسے کوئی پابندی لگا سکتا ہے،سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کا عہدہ ہوتا تھا) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈاور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر انڈین یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔
کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ءمیں ہی وہ انڈین حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجاکے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء تک انڈین لیڈروں بشمول شیخ عبداللہ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ عبداللہ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپردکردی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاؤ اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور امتیازی رہا ہے۔
پابندی کی اس لسٹ میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Story of Kashmir after Article 370بھی شامل ہے۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ءکی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے میں جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئی‘‘۔ بارہ ابواب پر مشتمل ۴۰۰صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔
مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا تھا، اس کا اندازہ بھی اسی کتاب سے ہوتا ہے۔
کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دُور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے سرپنچ کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ آخرکار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر ۲۰۱۹ءکو راجوری تحصیل آفس پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔
اندازہ کیجیے کہ ایک طالب علم اور محقق کے لیے یہ کتابیں قیمتی معلومات اور تجزیات کا خزانہ ہیں۔اس سے قبل سال کے اوائل میں ہی کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً ۶۶۸کتابیں ضبط کیں۔ حکام نے ان چھاپوں کو قابلِ اعتماد خفیہ اطلاع کی بنیاد پر جائز قرار دیا کہ ایک ممنوعہ تنظیم (جماعت اسلامی) کے نظریات کو فروغ دینے والا لٹریچر خفیہ طور پر بیچا جارہا تھا۔ ۲۰۲۳ء میں، کشمیر کی یونی ورسٹیوں نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ معروف شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔
ایسا کرنے سے آخر انڈین حکومت کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ معروف صحافی فرینی منیکشا عسکریت کے سماجی اثرات سمجھنے کے لیے ایک عرصہ قبل کشمیر کے قریہ قریہ گئی تھیں۔انھوں نے بتایا: پتا چلا کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے ہلاک شدہ بیٹے کی تصویر فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا رکھی تھی۔ جب بھی علاقے میں سیکورٹی فورسز تلاشی لیتی تھیں، تو اس گھر کی دیوار پر اس تصویر کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا اور اس معمر خاتون سمیت سبھی اہل خانہ کو ہراساں و پریشان کرتے تھے۔ آئے دن کی اس طرح کی وارداتوں کے بعد اس بوڑھی عورت نے بیٹے کی تصویر دیوار سے اتار کر اس کو کسی بکس میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پر پہاڑوں کے خوب صورت منظر کی تصویر لگا دی۔ اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا کہ اس کو اپنے بیٹے کو یاد کرنے کے لیے تصویر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ میں رچا ہوا ہے، اور اس کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی۔ حکام اور سیکورٹی فورسز کی ناراضی اس کو کھرچ نہیں سکتی۔
موجودہ پابندیاں ان یادداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی عشروں سے جاری ہے، اگرچہ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ عمل بے حد بڑھ گیا ہے۔یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ جیسے انڈیا کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ۲۰۱۴ء میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی ۲۰۱۹ءمیں نصیب ہوئی۔ لہٰذا، اس سے قبل کے دور کو دور غلامی یا ’تاریک دور‘ کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کردیے گئے ہیں۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں اس خطے پر کیا کیا قیامت برپا ہوئی؟ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشن میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور دہشت گردانہ ہیرو ازم کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔’شکایت اور مظلومیت ‘بیان کر نا اب جرم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے دُکھ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، نہ اپنے آپ کو مظلوم کہہ سکتے ہیں۔ یادداشتوں کو کھرچنے کے عمل کا ایک حصہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔ یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور ۲۰۱۹ء تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیر اعلیٰ کو بندگیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔
سری نگرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (APDP) کے اراکین تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا کر ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے تھے۔۲۰۱۹ء کے بعد اس عمل کو روک دیا گیا، اور اب پروفیسر اطہر ضیا کی کتاب Resisting Disappearance: Military Occupation & Women' Activism in Kashmir پر پابندی لگا کر یادداشت غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب APDP پر مبنی ایک نسلیاتی مطالعہ ہے، جو یہ تجزیہ کرتی ہے کہ سیاسی تشدد خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کشمیری خواتین اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا سوگ اور یاد کس طرح مناتی ہیں۔
اس پورے قضیہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کے لبرل طبقے نے بھی اس پر آنکھیں موند لیں اور اس پر قابلِ قدر رد عمل نہیں دیا۔ فرینی منیکشا کے مطابق شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کشمیر کی جماعت اسلامی کو صرف مذہب کے ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب کشمیر سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بھی نہیں بنا تھا، تب جماعت اسلامی ہی کے لوگ وہ تواریخ محفوظ کر رہے تھے، جنھیں کوئی اور چھونے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔
انورادھا بھسین نے بھی انڈیا کے سیکولر اور لبرل طبقے کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی انڈیا کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے‘‘۔اگرچہ لوگ سوشل میڈیا پر ان ممنوعہ کتابوں کے گوگل ڈرائیو لنکس شیئر کر رہے ہیں، لیکن اہل کشمیر کے لیے یہ معمولی سا سہارا ہے۔
ایک صحت مند جمہوریت، بحث سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ جبری خاموشی سے۔ جیسا کہ انورادھا بھسین، لکھتی ہیں: 'جب آپ کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی جوابی دلیل نہیں ہے۔ آپ سچائی کا سامنا کرنے کے بجائے اس اقدام سے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پابندی ایک مایوس کن عمل ہے۔ یہ عمل ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو ایک باخبر شہری سے خوف زدہ ہے۔ لیکن تاریخ پوشیدہ نسخوں میں زندہ رہتی ہے۔