ایک ’غزہ‘ کا مقتل ساری دُنیا کے سامنے ہے، دوسرے ’غزہ‘ کے بارے میں خود اس کے ہمسائے میں بسنے والے بھی بے خبر، لاتعلق یا مجرمانہ غفلت کاشکار ہیں۔ اس غزہ سے مرادہے مقبوضہ جموں و کشمیر پر ٹوٹنے والی قیامت اور لمحہ بہ لمحہ مسلط کی جانے والی برہمنی توسیع پسندانہ درندگی!
دُنیا بھر میں عام لوگ بجاطور پر اہل غزہ کے غم کی ٹیسیں روح کی گہرائیوں تک محسوس کررہے ہیں، جو انسانی دردمندی کا ایک قیمتی پہلو ہے، جب کہ انھی قوموں کے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے حکمران، سنگ دلی کے عنوان اور ہرجگہ ظلم کے معاون ہیں۔ برہمنی سامراج نے دُنیا کے سامنے جھوٹ، دھوکے اور مادی مفادات کے لالچ پھیلا کر ان حکمرانوں پر اندھا پن مسلط کررکھا ہے۔ دوسری طرف قلم اور کیمرے نے بھی اپنی گواہی پیش کرنے کے بجائے اس سفاکیت کو بیان کرنے سے رخصت لے رکھی ہے۔ انڈیا نے ہمیشہ عالمی بحرانی حالات میں اپنےایجنڈے کے حصول کی کوشش کی ہے۔ نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد، جب امریکی سربراہی میں دُنیا کی ریاستی قیادتیں، مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں تو انڈیا نے ایک طرف کشمیر میں حُریت اور آزادی کی جدوجہد کو کچلنے میں شدت برتی، تو دوسری طرف خود انڈیا کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف ’ہندوتوا گردی‘ کی درندگی کو پروان چڑھایا۔
اس تحریر میں جموں و کشمیر میں ایک خاص انداز سے انڈین حکومت اور فوج کی اس پالیسی کو دیکھنے کے لیے کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں، جو گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ میں اخبارات اور ابلاغ کے دیگر ذرائع سے سامنے آئیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہی کچھ روا رکھا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ محض چندمثالیں ہیں۔ ان اطلاعات اور خبروں کو چند لفظوں کا مجموعہ سمجھ کر نظرانداز کرکے، سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھ جانا انتہائی غفلت اور سنگ دلی ہوگی۔ کاش! پڑھنے اور جاننے والے، ان مظلوم کشمیری بھائیوں کے روز افزوں دُکھ کو محسوس کرسکیں۔
ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس انداز سے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے صبح و شام گزر رہے ہیں:
۱۶ جون: ضلع کپواڑہ (ماور بالاقلم آباد) میں انڈین انتظامیہ نے کشمیری حُریت رہنما عبدالحمید لون کی چار کنال پر آبائی زرعی اراضی ضبط کرلی، جنھوں نے انڈین مظالم سے تنگ آکر ۹۰کے عشرے میں آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کی تھی۔
۱۷ جون: ضلع سرینگر (بادامی باغ) میں انڈین فوج کے ایک نائیک پی کمار نےاپنے کیمپ میں خودکشی کر لی۔ اس طرح گذشتہ چند برسوں کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذہنی دبائو کا شکار ہوکر خودکشی کرنے والے انڈین فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعداد ۶۳۰ ہو گئی ہے۔
۲۱ جون: ضلع بانڈی پورہ (کیتسن بنلی پورہ) میں ایک ناکے پر ایک عام شہری بشیر احمدکو گرفتارکرلیا ۔پہلگام میں دونوجوانوں پرویز احمد جوتھراور بشیر احمد جوتھر کو پہلگام فالس فلیگ میں ملوث کرکے گرفتارکرلیا۔ پہلگام فالس فلیگ کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں اب تک ۴ہزار سے زیادہ نوجوان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ضلع سانبہ (گائوں بڑودی) میں ایک خاتون سمیت چارافراد گرفتار کرلیے۔
۲۳ جون: انڈین فوج نے ضلع اودھمپور (بسنت گڑھ) کے رہائشی محمد شفیق کی آبائی زرعی اراضی ضبط کرلی، جب کہ محمد شفیق کو گذشتہ برس جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیاہے۔
۲۴ جون: سرینگر کےزیڈ بل میںامام بارگاہ کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر اسرائیلی پرچم کی گریفٹی بنانے پر تین نو عمر بچیوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی، بُری طرح ڈرایا دھمکایا اور مستقبل میں اسرائیل کے خلاف احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا۔
۲۵جون: ضلع کپواڑہ (ہندواڑہ بگٹ پورہ نیو کالونی) میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن محمد امین شاہ کے گھر میں گھس کر پولیس نے جائیداد کی دستاویزات ، دینی کتب، موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے۔ جموں میں پولیس نے ایک مسلمان کو جوتوں کے ہار پہنا کر پولیس گاڑی کے بونٹ پر بٹھاکر سڑکوں پہ گشت کرتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کی۔
۲۶ جون: ضلع ادھمپور (بسنت گڑھ) میں ایک جعلی مقابلے میں انڈین فوجیوںنے ایک کشمیری نوجوان کو شہید کر دیاہے۔
۲۷ جون: ضلع بارہمولہ کے علاقے سوپور میں تین کشمیری نوجوانوں عرفان محی الدین ڈار، محمد آصف خان اور گوہر مقبول راتھر کو گرفتار کرکے جموں، کوٹ بھلوال جیل میں ڈال دیا۔
۲۹ جون: انڈین افواج نے ضلع سرینگر میں ۳۲مختلف مقامات پر انسانی حقوق کے کارکنوںاور آزادی پسندوں کے گھروں پہ چھاپے مارے۔ ضلع سرینگر کے باہر ۱۶۵ مقامات پر چھاپے مارے اور بڑی تعداد میں جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔
۳۰ جون: ضلع راجوری (کیری) میں انڈین فوج نے دو کشمیری نوجوانوں کو شہید اور ایک کو گرفتار کر لیا۔ضلع پلوامہ (پامپور) میں محمد مقبول وانی نظربند کارکن کے گھر پر چھاپہ مارا اور موبائل فون، کمپیوٹر سمیت اہم دستاویزات اپنے قبضے میں لے لیں، اور گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کی۔
یکم جولائی: سرینگر ( لال چوک) میں لوگوں نے انڈین اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں کشمیری نوجوانوں کی طویل نظربندیوں کے خلاف مظاہرہ کیا تو پولیس نے متعددمظاہرین کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا، مقدمے قائم کیے۔ اسی طرح ضلع پلوامہ (ترال) میں تلاشی آپریشن کے دوران دو نوجوان گرفتار کر لیے ہیں۔ ضلع کولگام میں جغرافیہ کے پروفیسر اور معروف سماجی کارکن ڈاکٹر باری نائیک کو حراست میں لے لیا۔
۹ جولائی : ضلع کپواڑہ ( لولاب) میںایک کشمیری حریت راہنما غلام رسول شاہ کی ۵کنال ۳مرلے پر مشتمل زرعی اراضی کو ضبط کرلیا ہے ۔ضلع پونچھ کے ڈسٹرکٹ جیل میں انڈین پولیس نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے کشمیری سیاسی قیدیوں کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ پونچھ ڈسٹرکٹ جیل میں کشمیری نظربندوں کو زبردستی داڑھیاں منڈوانے کا حکم دیاگیا اور جیل میں قرآن پاک کی تلاوت پربھی پابندی عائد ہے۔
۱۰ جولائی : ضلع پلوامہ سے ۵۴سالہ سجاد احمد شاہ ساکن کپواڑہ پنزگام کی لاش پُراسرار حالت میں کدل بل پامپورسے ملی ہے۔
۱۱ جولائی: میر واعظ عمر فاروق کو جامع مسجد سرینگرمیں نماز جمعہ اداکرنے کی اجازت نہیں دی اور گھر پہ نظربند کردیا۔ میرواعظ عمرفاروق، جامع مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے میں ۱۳جولائی ۱۹۳۱ءکے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔
۱۲ جولائی : ضلع بانڈی پورہ (پتو شاہی) میں کشمیری مسلمان حاشر رفیق پرے نامی شہری کی ایک کنال اور ۱۸ مرلے سے زائد اراضی اور ایک رہائشی مکان ضبط کر لیا ہے ۔ جائیداد کی مالیت ساڑھے تین کروڑ ۵۹لاکھ (یعنی ساڑھے دس کروڑ پاکستانی روپے) ہے۔
۱۶ جولائی: ضلع بڈگام (ہروانی ، چیوہ اورکھاگ) منظور احمد چوپان کا دو منزلہ رہائشی مکان، محمد یوسف ملک کا دومنزلہ مکان اور۵ کنال۱۳مرلہ اراضی اور بلال احمد وانی کی ۱۹مرلہ زرعی اراضی سمیت تین جائیدادیںضبط کرلی گئی ہیں۔ضلع بانڈی پورہ میں بی جے پی سے وابستہ ایک سرپنچ کی مسلمانوں کے خلاف غنڈا گردی کے خلاف لوگوں نے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔
۱۷ جولائی : ضلع بانڈی پورہ ( سنبل) میں انڈین فوجی نے ایک پی ایچ ڈی اسکالر محمدزبیرکی گاڑی کو بلاجواز ٹکر ماردی، جس کے نتیجے میں وہ شدیدزخمی ہوگئے، اور زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔
۱۸ جولائی : ضلع بارہمولہ (سوپور)، کرال ٹینگ میں عرفان احمد انتوکی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا ۔عرفان احمد انتو غیر قانونی طورپر جیل میں قید ہیں۔ انھیں آزادی پسند تنظیم مسلم لیگ کا رکن قرار دیتے ہوئے چھاپے کے دوران گھر سے کاغذات، موبائل فون اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیے۔
۲۰ جولائی: انڈین فوج نے مختلف اضلاع سرینگر، بڈگام، پلوامہ اور گاندر بل میں حریت پسند کشمیریوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران دو درجن سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ گرفتارشدگان پر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے رکھنے کا الزام ہے ۔
۲۱ جولائی: ضلع اسلام آباد (گنشی بل) سے منیب مشتاق شیخ کو چہرے کی شناخت کے نظام (FRS)کی مدد سے گرفتارکیا۔اسی طرح محمد طاہر اور حفیظ اللہ کو گرفتارکرکے کٹھوعہ ڈسٹرکٹ جیل اور بھدرواہ جیل منتقل کردیا گیا ۔
۲۳ جولائی : ضلع بانڈی پورہ کے علاقے گڈورہ میں انڈین فوج نےطارق احمد، بلال احمد اور مدثر احمد کو گرفتار کرلیا۔
۲۵جولائی: ضلع پونچھ (کرشناگھاٹی) میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں انڈین فوج کا ایک اہلکارللت کمار ہلاک،جب کہ ایک آفیسر(جے سی او) سمیت دو اہلکار زخمی ہو گئے۔ ضلع بارہمولہ (ربن سوپور) میں انڈین پولیس نے جاوید احمد ڈار کی تین کنال اور تین مرلہ اراضی اور رہائشی مکان ضبط کر لیا ہے۔ضلع کپواڑہ (بٹہ پورہ ہیہامہ) میں متوالی پسوال کی دوکنال ۱۴مرلہ اراضی، کپواڑہ ضلع (کرناہ) میں عبدالحمید شیخ کی تین کنال ۶ مرلہ ، خوشحال پٹھان کی ۱۸مرلہ،اور اسی ضلع کے علاقے نواگبرا میں منظور احمد شیخ کی دوکنال اور ۹مرلہ اراضی پر قبضہ کرلیا۔ ضلع جموں انڈین پولیس نے ۲۱سالہ کشمیری نوجوان محمدپرویز احمد کو ضلع کے نواحی علاقے سورے چک میں تلاشی کی کارروائی کے دوران جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔پرویز کو اس وقت شہید کیا، جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ستواری میں موٹر سائیکل پر جارہاتھا۔
۲۸ جولائی : ضلع کپواڑہ (کرال پورہ) میں انڈین فوج نے ایک نوجوان ولی محمدمیرکو گرفتار کرلیا ۔ ضلع سرینگرکے علاقے داچھی گام علاقے میںمجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان ایک معرکے میں تین مجاہدین کمانڈر سلیمان شاہ، ابوحمزہ اورجبران بھائی نے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ سرینگر کے ایک پہاڑی علاقےڈھگون میں انڈین فوجیوں نے خانہ بدوش گوجر قبائلیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔راجوری کے محمد لیاقت، محمد اعظم، شوکت احمد اور عبدالقادر کوایک فوجی کیمپ میں درجن بھر اہلکاروں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تینوں افراد نہایت تشویش ناک حالت میں زخمی پائے گئے۔
۳۰ جولائی : ضلع پونچھ (کسیلیان) میں جھڑپ کے دوران انڈین افواج نے دومجاہدین کو شہید دیا۔
یکم اگست : ضلع شوپیاں (علیال پور) سے ایک ۴۰سالہ شخص ریاض احمدلون کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ ایک تلاشی مہم کے دوران ضلع راجوری میں ایک سرکاری سکول ٹیچر سمیت چار افراد کو گرفتار کرلیا ہے، ضلع کولگام (دیوسر) میں جیل میں قید کشمیری محمداشرف کی منقولہ جائیداد، ایک کار اور دیگر املاک ضبط کرلیں۔
۲؍ اگست : ضلع کپواڑہ (ہائی ہامہ) میں ایک ۱۸ سالہ نوجوان محمد اسلم خان کی تشدد شدہ لاش قریبی جنگل میں پائی گئی۔
۳؍ اگست: انڈین فوج کے کرنل نے سرینگر ہوائی اڈے پر ہوائی کمپنی اسپائس جیٹ کے ملازمین کو بہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا اور ایک ملازم کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی، جب کہ دوسرے ملازم کے جبڑے توڑ دیے گئے۔ یہ واقعہ سری نگر سے دہلی جانے والی پرواز کے بورڈنگ عمل کے دوران پیش آیا۔ ضلع اسلام آباد میں انڈین پولیس نے ایک کشمیری نوجوان منظور احمد کو، جوتین بہنوں کا اکلوتا بھائی اور اپنے بزرگ والدین کا سہاراتھا، دورانِ حراست شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا۔ یہ واقعہ ضلع کی جیل میں دورانِ حراست پیش آیا۔مسلسل تین دن تک تشویشناک حالت میں رہنے کے باوجود جیل حکام نےمنظور احمدکو بروقت طبی امداد فراہم نہیں کی، جس کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔
۶؍ اگست : انڈین دارلحکومت نئی دلی میںانڈین پولیس کے ’کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر‘ نے دوکشمیریوں محمد ایوب بٹ اور محمد رفیق شاہ نامی تاجروں کو لاجپت نگر سے گرفتار کیا۔ انڈین پولیس نے سرینگرکے عید گاہ علاقے میں ایک کشمیری نوجوان ریاض احمد کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا۔ نوجوان کےاس حراستی قتل پر علاقے کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اورانھوں نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا۔ ضلع کٹھوعہ (بنی کے) کے رہائشی محمد اشرف کی ۵مرلہ غیر منقولہ جائیداد ضبط کرلی۔ کٹھوعہ ، ادھم پوراورسانبہ اضلاع میں حُریت پسندکشمیریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قابض حکام نے انڈین فوج کی ۲۵مزید کمپنیوں اور ’کوبرا‘ کمانڈوز کے دو یونٹ تعینات کر دیئے ہیں۔ جموں کی ایک خصوصی عدالت نے جماعت اسلامی کی فلاحی سرگرمیوں کے لیے فعال تین افراد کو گرفتار کرلیا، اور راجوری کے ایک ٹرسٹ کے خلاف فرد جرم عائد کردی ہے، اور پھر امیر محمد شمسی، عبدالحمید گنائی اور مشتاق احمد میر اور ’الہدیٰ ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کے خلاف خصوصی عدالتی حکم سنایا۔
۸؍ اگست: انڈین انتظامیہ نے ۲۵کتب پر پابندی عائدکردی۔
۱۱؍ اگست: ضلع کٹھوعہ کے سرحدی علاقے میں انڈین فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک پاکستانی باشندے کو شہید کردیا ہے۔
۱۲؍اگست: ضلعی مجسٹریٹ سانبہ، آیوشی سوان نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان بین الاقوامی جنگ بندی لائن سے ملحق دوکلومیٹر کے فاصلے پر دوماہ کے لیے رات کا کرفیو نافذ کردیا ہے، جو رات ۱۰ بجے سے صبح ۵بجے تک مؤثر رہے گا۔ (بحوالہ ہندستان سماچار)
۱۳؍ اگست: ضلع بانڈی پورہ میں تین کشمیریوںاشفاق احمد بٹ ،جمیل احمد خان اور منظور احمد ڈار کی دو کنال اور ۱۲مرلے پر مشتمل اراضی ضبط کر لی، جس کی مالیت دوکروڑ۱۱ لاکھ انڈین روپے ہے ۔پولیس نے تینوںافراد کو آزادی پسندسرگرمیوں سے وابستہ قرار دیا۔ ضلع بارہمولہ (اوڑی) میں فوجی آپریشن کے دوران مجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں ایک انڈین فوجی ہلاک، جب کہ دیگر تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ انڈین فوج نے آپریشن کے دوران گھروںمیں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوںکو سخت ہراساں کیا اور قیمتی گھریلو اشیاءکی توڑ پھوڑ کی۔
۱۴؍ اگست: ضلع کپواڑہ (وجھہامہ اور گلگام) کے جنگلاتی علاقوں میں تلاشی آپریشن میں انڈین افواج نے تین نوجوانوں کو مجاہد تنظیم کے کارندے قرار دے کر گرفتار کرلیا۔ ضلع کولگام کی تحصیل دمہال ہانجی پورہ کے دیوسر اکہال کے جنگلاتی علاقے میںمجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان ایک خونی معرکہ ہوا جو بارہ دن تک جاری رہا۔معرکے کے نتیجے میں مجاہد حارث نذیر ڈار ولدنذیر احمد ڈار ساکن راجپورہ ضلع پلوامہ، ذاکر احمد گنائی ولد غلام محی الدین ساکن متالہامہ کولگام اور عادل رحمان ڈینٹوولد عبد الرحمان ساکن گلاب باغ آرم پورہ سوپورسمیت چار مجاہدین نےمردانہ وار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ جھڑپ کے دوران انڈین فوج کے دو اہلکارلانس نائیک پرتپال سنگھ اور کانسٹیبل ہرمندرسنگھ ہلاک، اور ایک درجن سے زائد فوجی زخمی ہوئے۔ اس کارروائی میں انڈین فوج نے ڈرونز، ہیلی کاپٹر اور ایلیٹ اسپیشل فورسز کو بھی استعمال کیا ۔
۱۵؍ اگست: ضلع بانڈی پورہ کے گائوں کوئل مقام کے رہائشی ۵۵سالہ بشیر احمد گوجر کی لاش ایک باغ سے ملی ہے ۔وادی کے طول و عرض میں لوگوں نے انڈیا کے یومِ آزادی کو ’یومِ غلامی‘ اور ’یومِ سیاہ‘ کے طور پر منایا۔ انڈین فوج نے کپواڑہ، بانڈی پورہ، بارہمولا کے اضلاع میں بڑے پیمانے پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کیں۔دس اضلاع میں سے خاص طور پر راجوری، پونچھ، کشتواڑ، ڈوڈہ، ادھمپور، کٹھوعہ میں سخت پابندیاں نافذ کرکے تلاشیاں لی گئیں اور راستوں میں مسافروں ہی کو نہیں بلکہ گھروں میں مقیم شہریوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کیا، جس پر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا: ’’پہلگام فالس فلیگ کو جواز بنا کر جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہ کرنا انتہائی افسوس ناک ہے‘‘۔
۱۶؍اگست: حکومت نے ۹۱ سرکاری ویب سائٹس بند کردی ہیں، تاکہ شہری براہِ راست دفاتر میں پہنچ کر خوار ہوں (۲۵؍اگست تک ان غیرفعال، سرکاری ویب سائٹس کی تعداد ۱۵۰ تک پہنچ گئی)۔
۲۰؍اگست: بارہمولا (بنڈی پائین) کے آصف مقبول ڈار کے باغات اور مکانات ضبط کرلیے گئے۔ بجیہاڑ(گری) کے عادل حسین ٹھوکر کی غیرمنقولہ جائیداد ضبط کرلی گئی اور محاصرہ کرکے چھ افراد کو گرفتار کرلیا، وغیرہ وغیرہ۔
اسکولوں پر قبضہ
۲۲؍اگست ۲۰۲۵ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا:
’’چونکہ وزارتِ داخلہ، حکومتِ ہند نے ۲۸ فروری ۲۰۱۹ء اور بعدازاں ۲۷فروری ۲۰۲۴ء کے تحت جماعتِ اسلامی ، جموں و کشمیر کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا تھا۔ چونکہ ایجنسیوں نے ایسے متعدد اسکولوں کی نشان دہی کی جو براہِ راست یا بالواسطہ جماعت ِ اسلامی / ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے منسلک پائے گئے، اور چونکہ ان ۲۱۵؍ اسکولوں کی انتظامی کمیٹیوں کے بارے ایجنسیوں کی جانب سے ان پر منفی رپورٹ دی گئی ہے۔جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ: ان ۲۱۵؍ اسکولوں کی انتظامی کمیٹیاں، متعلقہ ضلع مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر کے زیرانتظام لی جائیں۔ متعلقہ ضلع مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر، ان اسکولوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں‘‘۔
نسل پرست انڈین حکومت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، رفاہی سلسلوں اور اخباروں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ انھیں تباہ کرنے اور قبضے میں لینے کے لیے جارحیت کا ارتکاب کر رہی ہے، اور اسرائیل کے ماڈل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔ مذکورہ بالا حکم نامے میں جن تعلیمی اداروں پر قبضہ جمانے کا اعلان کیا گیا ہے، یہ تعلیمی ادارے عام لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کیے ہیں اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب کوئی خفیہ کتابوں پر مشتمل نہیں۔ ان کے معیاری تعلیمی، تربیتی اور تدریسی ماحول سے یہاں کے لوگ خوش بھی ہیں اور اعتماد بھی کرتے ہیں۔ لیکن انڈین حکومت ہرسطح پر اور ہردرجے میں کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کے لیے، ایک کے بعد دوسرا قدم اُٹھاتی چلی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حالیہ فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں غم و غصے کی لہردوڑ گئی ہے۔
پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کی سربراہ، سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے: ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے ۲۱۵؍اسکولوں پر قبضے کا حکم فوری طور پر واپس لیا جائے۔ یہ قدم بدترین ظلم کی ایک شکل ہے، جس کا مقصد کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو سبوتاژ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ زمین، وسائل اور ملازمتوں پر من مانی کرنے کے بعد اب اہل کشمیر کی تعلیم کو نشانہ بنانے سے ہمارے مستقبل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ ان اداروں میں ۵۱ہزار سے زیادہ معصوم بچوں کا مستقبل اور تعلیمی ترقی خطرے میں پڑگئے ہیں۔ حکومت اپنا یہ انتقامی فیصلہ فوری طور پر منسوخ کرے اور ٹرسٹ کو بغیر کسی مداخلت کے دوبارہ تعلیمی انتظام سنبھالنے اور تدریسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے‘‘۔
جموں و کشمیر میں ’اپنی پارٹی‘ کے سربراہ الطاف بخاری نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جماعت اسلامی سے کسی کا سیاسی اور نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ اسکولوں نے کئی عشروں کے دوران تعلیم کے شعبے میں مثبت اور قابلِ ستائش کردارادا کیا ہے، اس لیےموجودہ بلاجواز قدم کو واپس لیا جائے اور بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے‘‘۔
’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ فرنٹ‘ نے اس قدم کو ’انتظامی زیادتی، انتقامی کارروائی اور عوامی اعتماد کی پامالی‘ قرار دیا۔ ’عوامی اتحاد پارٹی‘ کے لیڈر انعام النبی نے الزام لگایا: ’حکومت ۵۱ہزار سے زیادہ بچوں کے تعلیمی اور سماجی مستقبل سے کھیل رہی ہے‘‘۔ ’عوامی کانفرنس‘ کے صدر سجاد لون نے ان تعلیمی اداروں کو ’غریب طلبہ کے خدمت گار اور معیاری ادارے‘ قرار دیتے ہوئے، ان کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران جن واقعات کی مختصر تصویر مضمون کے پہلے حصے میں پیش کی گئی ہے، اسے مقبوضہ جموں و کشمیر کے زمینی حقائق کا ایک معمولی حصہ سمجھاجائے کہ جو کسی نہ کسی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔ ورنہ سلسلہ وار طریقے سے پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ ظالمانہ واقعات نہایت تسلسل، بڑی تیزی سے اور وسیع پیمانے پر،سخت بے رحمی سے ہورہے ہیں۔ جن سے دُنیا بھی بے خبر ہے، اور ’بیس کیمپ‘ (آزاد کشمیر) اور پاکستان بھی مجموعی طور پر احساسِ ذمہ داری کے معاملے میں بے حسی کی صورت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ریاست پاکستان اور آزاد کشمیر کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ظلم و زیادتی کے بارے میں عوامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر، ابلاغی، سفارتی اور رفاہی سرگرمیوں میں اپنا قرارِواقعی کردار ادا کریں۔ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے اور دفاعی نظام پر بہرصورت یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار پوری قوت اور مکمل احساسِ ذمہ داری سے ادا کریں۔ یہی ذمہ داری تمام سیاسی اور دینی پارٹیوں کو ادا کرنی چاہیے۔ ابلاغِ عامہ کے اداروں اور یونی ورسٹیوں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے عوام جس طرح اُمت مسلمہ کے ہرملّی مسئلے پر تڑپتے اور اپنی آواز بلند کرتے ہیں، اسی طرح پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر مظلوم اہلِ کشمیر کا ساتھ دیں۔یہ نہ ہو کہ ’دوسرا غزہ‘ تڑپتا رہ جائے اور راوی اپنی اپنی جگہ سُکھ، چین، فتح کے شادیانے بجاتا رہے۔