زندگی کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے، لیکن کامیابی کے اس سفر کی جب ابتداء ہوتی ہے تو کوئی متعین سمت نظر نہیں آتی، جہاں منزل کے واقع ہونے کا تصور کیا جاسکے۔ اسی سمت کا تعین ’ہدف‘ کا تعیین کہلاتا ہے۔ اہداف کا تعین ہی انسان کی رہنمائی کرتا ہے کہ اُسے کہاں جانا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ دنیا میں کامیاب انسان وہی گزرے ہیں یا تاریخ میں انھی کا نام زندہ ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے اہداف کا واضح تعین کیا۔ آپ کے اہداف آپ کو ، آپ کی توانائی، وقت اور وسائل کا درست استعمال سکھاتے ہیں۔ ’ہدف‘ کے لغوی معنی ’نشانہ‘ یا ’مقصد‘ کے ہوتے ہیں۔ ہدف وہ چیز ہے جسے نشانہ بنایا جائے یا کوئی ایسا مقصد جسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ’ہدف‘ کا لفظ مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوسکتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مطلب ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ یعنی ’ایک ایسی چیز یا مقام جس کی طرف توجہ مرکوز کی جائے‘۔
اہداف دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کے طے کرنے میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور وہ دنیا میں ہر انسان دانستہ اور نا دانستہ طے کر تا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کھانا کھاتا ہے، کھانا کھانے میں اس کا ہدف بھوک مٹانا ہوتا ہے۔ انسان سوتا ہے، سونے میں اس کا ہدف آرام کرکے اگلے دن کےلیے تر و تازہ ہونا ہوتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اہداف ہیں جنھیں انسان ہر حالت میں طے کرتاہے۔ انھیں ہم ’تکوینی اہداف‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں اور دوسرے اہداف کو ’اختیاری اہداف‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ عموماً دیکھا جائے تو دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنی زندگی میں ’اختیاری اہداف‘ کا تعین کرتے ہوں۔ اہداف کا تعین نہ کرنے کی بنیادی وجہ زندگی کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کا فقدان ہے۔ جو لوگ اپنے اہداف کا تعین نہیں کرتے، وہ زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ اہداف کا تعین نہ کرنے والے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی گاڑی پر سوار تو ہوگیا لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کہاں اترناہے اور اس گاڑی کو کہاں جاناہے؟ ایسا شخص راستے میں کہیں بھی اتر سکتاہے یا پھر گاڑی اپنی آخری منزل پر اسے خود بخود ضرور اُتار دے گی۔ بغیر تیاری اور ہدف کے سفر کا انجام ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے۔ بقولِ شاعر ؎
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سُراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’بے مقصدیت موت ہوا کرتی ہے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ؓ اور سلف کو دیکھیں تو ان کی زندگی اہداف سے کہیں خالی نظر نہیں آتی۔
دُنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے ٹھوس مقاصد کا ہونا اور اس کے لیے واضح اہداف کا مقرر کیا جانا نہایت ضروری ہے ۔ یاد رکھیے زندگی میں سب سے مشکل کام اہداف کا وضع کرنا اور پھر ان کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر ہم نے ابھی تک زندگی کا کوئی مقصد نہیں بنایا اور اپنے اہداف مقرر نہیں کیے تو پریشان نہ ہوں کیونکہ زندگی کی ڈور ابھی تک آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا باقی ماندہ زندگی کےلیے آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں گے اور ان مقاصد کے حصول کےلیے اپنے اہداف کا تعین کریں گے۔ یہ اہداف انفرادی اُمور کا احاطہ بھی کریں گے، گھریلو زندگی کےلیے بھی ہوں گے، کاروباری، تجارتی اور دفتری سرگرمیوں سے متعلق بھی ہوں گے۔ سماجی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنے سے بھی ان کا تعلق ہوگا اور محلّے سے لے کر ملکی سطح کے معاملات بھی ان کے تحت آئیں گے۔ جب ہم ان اہداف کا تعین کرلیں گے تو پھر ان کا حصول ہمیں جدوجہد پر اُبھارے گا کیونکہ ہم ان تک پہنچنا چاہیں گے، نشانِ منزل ہمارے سامنے ہوگا۔
کچھ بین الاقوامی یونی ورسٹیوں کی تحقیقات کی روشنی میں اہداف کے تعین اور اُن کے حصول کے لیے کچھ لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوازمات قارئین کی دلچسپی اور عمل درآمد کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔
جو بھی ہدف طے کریں وہ واضح اور متعین ہو، مجہول نہ ہو۔ خواہ یہ ہدف انفرادی ہو یا عائلی، کاروباری ہو یا دفتری، سماجی ہو یا معاشرتی، تنظیمی ہو یا کوئی اور۔ مثال کے طور آپ ایک سماجی، اصلاحی و فلاحی تنظیم کے کارکن ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تنظیم میں زیادہ سے زیادہ افراد شامل ہوجائیں۔ اگر اس کی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی کہ کتنے لوگ ممبر بن جائیں، اور کیسے بنیں؟ وغیرہ تو آپ الل ٹپ دوڑ لگا کر خود کو تھکاتے رہیں گے اور آپ کی کامیابی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ لیکن اسی کام کے لیے یہ طے کرلیں کہ میں ایک سال میں کم از کم ۱۰ افراد کو اپنی تنظیم کا کارکن بناؤں گا۔ تو آپ کے لیے ۱۰؍افراد کا تعاقب کرنا، ان سے راہ و رسم بڑھانا، ان سے اپنی تنظیم کا تعارف کرانا اور جو کام آپ کررہے ہیں وہ کرنے پر اُنھیں آمادہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ اسی طرح دیگر اہداف کو بھی اسی انداز میں متعین اور واضح رکھیں تو ان کی جانب پیش قدمی میں تیزی لائی جاسکتی ہے اور منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔
آپ کا ہدف ایسا ہو جو آپ کے لیے چیلنج ہو۔ اس طرح آپ کے اندر کام کرنے کا زیادہ جذبہ پیدا ہوگا۔ کچھ حاصل کرنے کی تحریک پیدا ہوگی، آپ کی سستی دور ہوگی ، اعتماد میں اضافہ ہوگا اور آپ مایوسی کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ یاد رکھیے سامنے پڑی ہوئی چیز اُٹھا لینا بہت آسان ہوتا ہے لیکن نظروں سے اوجھل کسی چیز کو حاصل کرنے کےلیے جدوجہد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ کسی اصلاحی و تعمیری تنظیم سے وابستہ ہیں اور اس تنظیم کا مشن ہے کہ وہ معاشرے کو ہر قسم کے خرافات اور تباہ کاریوں سے پاک کردے گی۔ یہ ایک مشکل ترین اور چیلنج سے بھرپور ہدف ہے۔ اِس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے لیے معاشرے میں نکلنا ہوگا، افراد سے ملنا ہوگا، انھیں درست اور غلط کا فرق بتانا ہوگا، انھیں قائل کرنا ہوگا اور تبدیلی کےلیے اُبھارنا ہوگا۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ افراد آپ کا دست و بازو بنیں گے اور قافلہ کے ہم رکاب ہوں گے۔ اس طرح مدت طویل تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک ایسا چیلنج سے بھرپور ہدف ہوگا کہ جو آپ کو مکمل طور پر متحرک رکھے گا اور سست پڑنے نہیں دے گا۔
اپنے اہداف کو طے کرتے ہوئے ایک بات خصوصی طور پر پیشِ نظر رہے کہ آپ کے اہداف حقیقت پسندانہ ہوں۔ صرف خیالی باتیں ، محض خواہشات نہ ہوں۔ اہداف ایسے ہوںجن کا امکان موجود ہو، جو قابلِ عمل اور قابلِ حصول ہوں۔مثال کے طور پر آپ کسی مغربی معاشرے میں قیام پذیر ہیں۔ آپ وہاں آج کے مادر پدر آزادی اور میڈیا کے دور میں اپنی اولاد کی اسلامی اُصولوں کے مطابق تربیت کو اپنا ہدف بناسکتے ہیں۔ ایسی تربیت جس میں وہ اسلامی اقدار کی مکمل پابندی کرنے والی بھی ہو، معاشرے میں اپنی خصوصی شناخت بھی رکھے، اپنے وطن سے محبت بھی رکھے، معزز بھی ہو اور معاشی طور پر مستحکم بھی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایک ایسا ہدف ہے جو موجودہ دور میں مشکل تو ضرور ہے لیکن اسے ناممکن یا غیر حقیقت پسندانہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح دیگر بہت سے مسائل ہوسکتے ہیں جن کے اہداف طے کرتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں، ان کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
کسی بھی کام کی جانچ کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اُس کی وقت پر تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے ۔ اس کی مثال تلاوتِ قرآنِ پاک سے لے لیں۔ اگر آپ اس کی تلاوت محض ثواب کی نیت سے کرتے رہیں، جس طرح ہمارے معاشرے میں رواج ہے، تو اُس پر ثواب ضرور ملے گا لیکن قرآن سے جو کچھ ایک مومن حاصل کرسکتا ہے ، اُس کے لیے محض ثواب اُس کی ایک ادنیٰ سی اکائی ہے۔ اس کے برعکس آپ حقیقی فائدہ حاصل کرنے کےلیے اپنا ہدف یہ طے کریں کہ میں قرآن کی اس کے مضامین کی مناسبت سے تلاوت بھی کروں گا، ترجمہ سے آگاہی بھی حاصل کروں گا اور اس پر مزید تحقیق کی غرض سے مختلف علمائے کرام کی تفاسیر کا مطالعہ کروں گا، اور اپنے علم کی حد تک خود تحقیق کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ آپ نے جس موضوع کو اپنا ہدف بنایا اُس کی جانب پیش قدمی شروع کی ، تو دیکھیں گے کہ اُس مضمون سے متعلق بہت سی آیات مختلف حالات و واقعات کے تناظر میں آپ کے سامنے ہوں گی، بہت سے راز آشکار ہوں گے اور قرآن سے حقیقی انداز میں مستفید ہوسکیں گے۔ گویا کہ موضوع کا انتخاب آپ کے ہدف کا پیمانہ قرار پایا۔
اب آپ اپنے ہدف کو اسی پیمانے کی مدد سے جانچ سکتے ہیں۔ اس کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ میرا ہدف کتنے فی صد حاصل ہوا؟ کتنے فی صد باقی ہے؟ مزید توجہ، محنت اور سعی کی کتنی ضرورت ہے؟ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اپنے طے شدہ ہدف کو حاصل کرنے میں آپ کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
تحقیقات کے مطابق جو لوگ اپنے اہداف لکھ لیتے ہیں، ان کے اہداف پورے ہونے کے امکانات ۴۲ فی صد زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے اہداف صرف ذہن میں رکھنے کے بجائے انھیں تحریر میں لائیں، دیوار پر آویزاں کرلیں یا ڈائری میں محفوظ کرلیں، پھر گاہے بگاہے اُس پر نظر ڈالتے رہیں، یہ پریکٹس آپ کو درست سمت میں رواں رکھے گی۔ ہدف کو لکھنا اسے ٹھوس، قابلِ پیمائش اور ٹریک کرنا آسان بنا دیتا ہے۔ جب اہداف صرف آپ کے ذہن میں رہتے ہیں، تو وہ مبہم رہ سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ توجہ کھو سکتے ہیں۔ انھیں تحریری شکل میں لا کر، آپ ایک واضح روڈمیپ پر رہنے کے لیے خود اپنے لیے ایک یاد دہانی بناتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ دن کے آغاز کے ساتھ مطلوبہ اہداف کی فہرست مرتب کریں اور دن کے اختتام کے ساتھ ان پر تنقیدی نگاہ ڈالیں۔ اس سے آپ شعوری اور لاشعوری طور پر اپنی منزل کو پانے کے لیے متحرک رہیں گے۔ کاغذ پر تحریر کردہ ہدف کی تفصیلات کی مثال نقشے کی سی ہے۔ جس طرح نقشہ آپ کو درپیش سفر کے لیے مدد فراہم کرتا ہے، بالکل اسی طرح یہ مشق آپ کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کا بغور تجزیہ کریں تو دیکھیں گے کہ بچپن میں جو ہماری ترجیح تھی وہ جوانی میں بہت معصوم نظر آئی۔ جوانی میں جس ترجیح کا تعین ہم نے اپنے لیے کیا، ادھیڑ پن میں وہ جذباتی محسوس ہوئی، اور اسی طرح جو افراد بڑھاپے تک پہنچ گئے انھیں ادھیڑ پن کی ترجیحات کچھ اور طرح کی محسوس ہورہی ہوں گی۔
اپنی زندگی کے ہر شعبے کے لیے اور اگر کسی تنظیم سے وابستہ ہوں تو اُس تنظیم سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ جو بھی اہداف طے کریں اُن کی ترجیحات کا تعین ضرور کرلیں تاکہ اُن اہداف کو حاصل کرلینے میں آسانی ہو۔ بہتر ہوگا کہ قابلِ حصول اہداف کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں اور اپنی تر جیحات کے مطابق ان کی فہرست بنائیں۔ ان میں سے پہلے تین ، پہلے پانچ یا اپنی سہولت کے مطابق ایک ہدف کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں اور اس کے حصول کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔ تب ہی آپ اپنے اہداف کو کامیابی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔اگر بے شمار اہداف کو بیک وقت حاصل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہیں گے، تو ان میں سے کوئی اہم اور کوئی غیراہم یا کوئی فوری نوعیت کا اور کوئی آخری نوعیت کا کام کسی ترتیب سے انجام نہیں پائے گا۔ ہرکام کو اس کی ترجیح کے مطابق پہلے یا بعد میں انجام دیا جائے۔
ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جن اہداف کا تعین ہم کرتے ہیں اگر اُن کو حاصل کرنے کےلیے وقت کا تعین نہیں کرتے تو پھر اُن کے حاصل کرنے کی کوششوں میں ٹال مٹول ہوتی رہتی ہے اور ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ ہم اپنے ہدف تک کب پہنچیں گے؟ البتہ اُن تک پہنچنے کی خواہش ضرور ہمارے اندر موجود رہتی ہے، اور بعض اوقات اس خواہش پر محض ہماری سستی کی وجہ سے عمل نہیں ہوپاتا۔ گویا کہ وقت کا تعین اور اہداف کا حصول ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کسی اہم موضوع پر کوئی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مطالعے کو مکمل کرنے کےلیے اگر آپ وقت کی پابندی اپنے اوپر نہیں عائد کریں گے تو اس کے مطالعے میں کافی وقت لگ سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ دیگر مصروفیات کی بنا پر اسے پڑھ ہی نہ سکیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ اُس کے وقت کا تعین کریں کہ موجودہ ماہ کے آخر تک میں اس کتاب کا مطالعہ مکمل کرلوں گا۔ اب آپ اس کتاب کے کل صفحات کو روزانہ کی بنیاد پر ایک ماہ میں تقسیم کرکے یا اگر اس میں مختلف مضامین یا شہ سُرخیاں ہیں تو اُن کی تقسیم کے مطابق بآسانی مطالعہ مکمل کرکے اپنے ہدف کو حاصل کرسکتے ہیں۔
دُنیا میں کوئی بھی کام منصوبہ بندی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کسی بھی ہدف کا حصول بہتر منصوبہ بندی کے بغیر نا ممکن ہے۔ لہٰذا بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اپنے ہدف کی نوعیت کے لحاظ سے ایک منصوبہ تیار کرلیں کہ اسے حاصل کرنے کےلیے آپ کو کون کون سے اقدامات کرنے ہوں گے، کون سے وسائل درکار ہوں گے، یہ وسائل کہاں سے حاصل کیے جائیں گے؟
اب اس منصوبہ بندی کے مطابق عمل کیجیے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ تفریح کا پروگرام بنائیں۔ سب سے پہلے آپ کو جگہ کا تعین کرنا ہے کہ آپ جانا کہاں چاہتے ہیں؟ یہ فیصلہ آپ اپنے وسائل، ضرورت اور حالات کے مطابق کریں گے۔ جگہ کے تعین کے بعد آپ سفر کا سامان تیار کریں گے۔ اس سفر میں پیش آنے والے متوقع حالات کے مطابق تیاری اور Backup پلان بھی شامل کریں گے۔ یہ سب کرنے کے بعد سفر آسان بھی ہوگا اور خوب صورت بھی۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ زندگی میں کسی بھی کام کو کرنے کےلیے مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کا ہونا نہایت ضروری ہے، یعنی مقصد کے حصول اور کامیاب ہونے پر سو فی صد یقین ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کوئی بھی کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ظاہر ہے اگر کوئی فرد خود اپنا ہدف طے کرے اور اُس کے حاصل کرنے میں سنجیدہ نہ ہو، تو وہ اپنے ہدف کو خود ایک مذاق بنا دے گا۔ مثال کے طور پر ہم ایک ایسے ساتھی کو جانتے ہیں جو اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں ، جس کے لیے وہ اپنی ٹیم کے ساتھ یوٹیوب چینل، ویب سائٹ، فیس بک اور دیگر ذرائع کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے ایک مشکل ترین ہدف طے کیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک انتہائی مختصر دورانیہ کا درس (Short Dars) جو تین منٹ سے زیادہ کا نہ ہو، تیار کرکے اسے اپنے چینلوں سے نشر کریں گے۔ بہت سے دوستوں نے انھیں سمجھایا کہ اس ہدف کا حصول بہت مشکل ہے، مدرسین نہیں ملیں گے، روزانہ موضوعات کا ملنا مشکل ہے وغیرہ وغیرہ ، لہٰذا اس سے رجوع کرلیں۔ لیکن وہ ساتھی اپنے ہدف پر قائم رہے اور نہ صرف قائم رہے بلکہ مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کے ساتھ آج تقریباً ۱۳ سال سے اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ قارئین یو ٹیوب اور فیس بک پر Daroosquran کو وزٹ کرکے ان دروس کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھ سکتے ہیں۔
لہٰذا اگر کسی ہدف کو طے کرکے اُس تک پہنچنے کےلیے مستقل مزاجی اور خود اعتمادی ہو تو اُس ہدف کو بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کےلیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی، خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا، کام کو روزانہ کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا اور ساتھ ہی خود متحرک رہیں تو مشکل ترین ہدف کا حصول بھی نا ممکن نہیں۔
دُنیا میں آنے والا ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ، خواندہ ہو یا ناخواندہ، سب کسی نہ کسی کی مدد کے طلب گار ہیں۔ لہٰذا ہر انسان کی زندگی میں طے کیے جانے والے کچھ اہداف ایسے ہوتے ہیں جو کسی دوسرے کی مدد حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ اور اگر ممکن بھی ہوں تب بھی کسی کی رہنمائی، تعاون، یا مہارت، سفر کو تیز، آسان اور زیادہ مؤثر بناسکتی ہے۔ صحیح مدد نئے آئیڈیاز فراہم کر سکتی ہے، مسائل کو حل کر سکتی ہے اور آپ کو متحرک رکھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ بہت ذہین ہیں اور بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدے کےلیے مقابلے کا امتحان پاس کرنا آپ کا ہدف ہے، تو اس میں آپ کی ذہانت اور مہارت اپنی جگہ لیکن اگر کسی ایسی اکیڈمی میں داخلہ لے لیں جو ایسے طالب علموں کو اس امتحان کی تیاری کراتی ہے یا کوئی ایسا اُستاد ہے جو اس امتحان کی تیاری کرانے میں مہارت رکھتا ہو، تو آپ کو اُس اکیڈمی میں داخلہ لینا ہوگا یا اُس ماہر اُستاد کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی تاکہ ان کی مدد آپ کو غلطیوں سے بچنے اور اعتماد کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے میں مدد دے سکے۔
اگر ایسا ہدف طے کیا جائے، جس میں کسی کی مدد درکار ہو تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کسی مناسب اور متعلقہ فرد سے مدد طلب کرنی چاہیے، تاکہ اپنے ہدف کو وقت پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
انسان کی زندگی میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر نہیں ہوا کرتی۔ لہٰذا اپنے اہداف کے حصول کی پیش رفت کا مستقلاً جائزہ لیتے رہیں۔ اس سے آپ کو اپنے کام کی رفتار کا اندازہ ہوسکے گا اور ہدف کے حصول میں اگر کوئی چیز مانع ہو رہی ہو گی تو اس کا بروقت ازالہ کر سکیں گے۔ اس کی بہترین مثال بچوں کے اسکولوں میں ہونے والے ماہانہ اور سہ ماہی ٹیسٹ کا نظام ہے جس میں اساتذہ طالب علم کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتےہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ سال کے آخر میں یہ طالبِ عالم اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے گا۔ اسی طرح ہم ایک مثال کسی سماجی، اصلاحی و فلاحی تنظیم کی لے سکتے ہیں کہ ایک اچھی تنظیم اپنے کارکنان سے دیے گئے ہدف کی بابت ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی، اور سالانہ بنیادوں پر ان کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیتی رہتی ہے۔ اس سے انھیں اپنے کام کی رفتارِ کار کا درست اندازہ لگانے میں کامیابی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر ہدف کے حصول کی رفتار سست روی کا شکار نظر آئے تو اس کے حصول کی منصوبہ بندی میں تبدیل لاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے ہر قسم کے اہداف کے حصول کی پیش رفت کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کسی وجہ سے اس کا حصول سُست روی کا شکار ہو رہا ہو یا اس کے حصول کی راہ میں مشکلات کا سامنا ہو، تو بروقت اپنی منصوبہ بندی میں تبدیلی لائی جاسکے اور اسے ممکنہ طور پر حاصل کیا جاسکے۔
اگر ہم نے ابھی تک اپنی زندگی کا کوئی مقصد نہیں بنایا اور اپنے چھوٹے بڑے اہداف مقرر نہیں کیے، تو آئیے آج سے ہم یہ کام شروع کریں کہ اب سے اپنی زندگی کو بامقصد گزاریں گے۔ ہم آج سے طے کرلیں کہ ہم نے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ اپنے لیے ایک مقصد کا تعین کریں، پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ میں لگ جائیں، اور روزانہ اس مقصد کے حصول کےلیے کوشش کرتے رہیں۔ یہاں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کوشش سے مراد سخت محنت ہے، جس کے بغیر اپنے ہدف تک پہنچنا بہت ہی مشکل اور ناممکن ہے۔ اپنے اس اہم اور بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں وہ تمام راستے اپنانے ہوں گے اور وہ تمام کام کرنے ہوں گے جو ہمیں روز بروز اپنے ہدف اور مقصد کے قریب لے جائیں۔
یہ بات پیشِ نظر رکھیں کہ اہداف محض الفاظ یا تعداد کا گورکھ دھندا نہیں ہوتے —بلکہ یہ آپ کے عزم، آپ کی صلاحیتوں اور آپ کے خوابوں کا عملی اظہار ہوتے ہیں۔ ہرہدف ایک موقع ہے خود کو ثابت کرنے کا، ایک سیڑھی ہے ترقی کی جانب، اور ایک چراغ ہے جو راستے کو روشن کرتا ہے، خصوصاً اُس وقت جب آپ کچھ بڑا کرنے کے لیے پُر عزم ہوں۔ اگر ہم نے اب تک اپنی زندگی میں اہداف کا تعین نہیں کیا اور بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں تو پھر ذہنی دباؤ، معاشی پریشانیاں اور مختلف رکاوٹیں ہماری منتظر ہیں ۔ جو افراد زندگی کو بامقصد نہیں گزارتے، زندگی بھی انھیں اس مسافر کی طرح بھٹکا دیتی ہے جو سواری پرسوار تو ہوچکا ہو لیکن اُسے اپنی منزل کا پتا نہ ہو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ منزل تک پہنچنے کا وہی راستہ محفوظ اور کامیابی کا ضامن ہے جس میں ربّ کی نافرمانی نہ ہو بلکہ وہ راہ اُس کی رضا کی ضامن ہو، کیونکہ سارے اقدامات کے باوجود آپ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کرسکتے اگر آپ کے حقیقی مالک کے حضور اس ہدف کی تکمیل منظور نہ ہو ۔