اب ہم ہندستان میں تاریخ دعوتِ اسلام کے جس مقام کا تذکرہ کرنے لگے ہیں، یہ ہماری تاریخ کا نہایت اہم موڑ ہے۔ یعنی مملکت ِہند کا دو آزاد و خود مختار مملکتوں: انڈیا اور پاکستان میں تبدیل ہو جانا___ یہ آزادی اور خود مختاری بڑی آسانی اور سکون سے حاصل نہیں ہوسکی جیسا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی اور وہ اس کے لیے دلائل بھی دیتے تھے۔ آزادی کا یہ حصول اور برصغیر ہند میں مسلمانوں کو ایک چھوٹے سے خطۂ زمین پر اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع مل جانا ایک خوفناک تباہی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد ممکن ہوا۔
تقسیمِ ہند کے موقع پر ایسی تباہی اور قتل عام ہوا کہ انسانی تاریخ نے اس کی مثال نہ دیکھی اور سنی ہوگی، حتیٰ کہ انسانیت نے اپنی تاریخ کے ظالمانہ اَدوار، بدترین ظلم و جہالت اور بے رحمی و درندگی کے زمانوں میں بھی ایسی مثال کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا۔ ایسا قتل عام جس میں پانچ لاکھ فرزندانِ اسلام کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مرد و عورت، بچّے بوڑھے اور لاغر و نحیف مریض کو بخشا گیا نہ دودھ پیتے بچے کو چھوڑا گیا۔ عزتوں اور آبروؤں کی ایسی بے حُرمتی کی گئی کہ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر دیے گئے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ عزت و آبرو کی بے حرمتی کے ان گھناؤنے حملوں میں کتنی جانیں مر مر کر زندہ ہوئیں۔ ایسے دل دوز واقعات پیش آئے کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ جائے اور دل ریزہ ریزہ ہوجائے۔ بے شرمی اور بے حیائی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملے کہ لحاظ و مروت کی پیشانی جھک جائے اور انسانیت کا چہرہ شرم سے سرخ ہوجائے۔
خوفناک تباہی اور بے مثال ظلم و ستم کا یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب عام مسلمان اس سے بالکل غافل تھے۔ وہ اپنی سیاسی قیادت پر بھروسا کیے بیٹھے تھے، جب کہ ان کی قیادت یعنی مسلم لیگ کے ممبران و ارکان جن کو نئی مملکت کی زمامِ اقتدار سونپی جانا تھی، اپنی قوم کے اس خوفناک انجام سے بے پروا تھے۔ وہ ان تقریبات اور پارٹیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے جو ملک کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ وہ بس آزادی کی خوشی اور حکومت کی کنجیاں حوالے کیے جانے کی خوشی میں نڈھال تھے۔ اسی دوران مشرقی پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں مسلمان خواتین کی حرمتیں پامال کی جا رہی تھیں، مساجد شہید اور قرآن مجید جلائے اور پاؤں تلے روندے جارہے تھے۔ پاکستان کی طرف آنے والے مہاجرین کے دَل کے دَل دوران سفر راہ میں ایسی المناک مصیبتوں اور مشکلات سے دوچار کیے جا رہے تھے کہ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھیں اور جسم ٹھٹھر جائیں۔
قتل و غارت اور بے آبرو گردی کا یہ سلسلہ تقسیم ملک سے ایک ماہ قبل ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن قوم اس سے بے خبر تھی۔ ان کو حکمرانی کے نشے نے مدہوش اور اقتدار کے تکبر نے بے خود کررکھا تھا،جب کہ اقتدار کی کنجیاں عملی طور پر ابھی انھیں سپرد نہیں کی گئی تھیں ۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داری سے غافل رہے اور خطرے کو محسوس کرنے اور اس سے ہوشیار رہنے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، حالانکہ یہ وہ حالات تھے جب دشمنوں کی ناپاک سازشیں اور فرزندانِ اسلام کے خلاف ان کی ملعون کارروائیاں طشت اَزبام ہو چکی تھیں ۔ افسوس کہ ملکی قیادت نے ایک طویل عرصہ ان خطرناک حالات سے بے اعتنائی برتی۔
قوم کی بات کریں تو اس نے اپنی غفلت و لاپروائی کا خمیازہ بھگت لیا اور اسے یہ بھی یقین ہو گیا کہ جن لوگوں کو اس نے اپنے اپنے مقام پر راہ نما بنایا تھا، ان میں سے ایک بڑی تعداد کا مقصد حکومتی منصبوں اور ایوانوں تک رسائی اور حقیر دنیاوی دولت اور جاہ کا حصول تھا۔پھر جب ان لوگوں نے اپنی طلب و تلاش کا سامان حکومتی وزارتوں اور مناصب کی شکل میں پا لیا تو ان کا مقصد پورا ہو گیا جس کے لیے وہ دوڑ دھوپ کرتے رہے تھے۔ مناصب اور عہدوں پر براجمان ہوتے ہی یہ قوم کے مسائل سے بے پروا ہو گئے۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ قوم کس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ انھوں نے ان جھوٹے وعدوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جووہ قوم سے کر چکے تھے۔
اس وقت ہندستان میں مسلمان قوم کی صورتِ حال کیا تھی ؟ ان کو جس طرح کے خطرات اور مصائب و مشکلات: دینی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر درپیش تھیں، ان کی سنگینی اور شدت کا کچھ نہ پوچھیے۔ ان کی مثال ان یتیموں جیسی تھی جو کمینوں کے دسترخوان پر بیٹھ جائیں اور کمینہ صفت انسان ان کے اوپر کوئی ترس کھائیں نہ انھیں انسانیت کا کوئی خیال آئے، وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف رہیں۔ ان کا مقصد بھی حکومتی مناصب اور قانون ساز مجالس کی نشستوں کا حصول تھا یا پھر کسی یورپی ملک میں سفارت کاری کے مزے لوٹنا تھا۔ ان لوگوں کی بزدلی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزماں بھی ہندستان میں قیام کرنے کا حوصلہ نہ رکھ پائے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے ہمراہ ان مشکلات و مصائب کا سامنا کرتے۔ وہ تقسیم ملک کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہاں سے نکل آئے۔وہ اپنے ان ساتھیوں اور پیروکاروں کو خطرات جھیلنے اور ہندوؤں کے تیروں تلواروں کے وار سہنے کے لیے وہیں چھوڑ آئے جنھوں نے ان کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔
پاکستان کی طرف ہجرت کرآنے والے مسلمانوں کے علاوہ جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے تھے، وہ بڑی آزمائش میں گھر گئے۔ مسلمانوں کا سیاسی اور تنظیمی وجود ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ اس صورتِ حال میں وہاں پر جماعت اسلامی ہند نے تنکا تنکا اکٹھا کر کے، بے سروسامانی کے عالم میں دعوت، تنظیم، حوصلے اور تربیت کے لیے قدم اُٹھایا۔ جماعت اسلامی کا یہ عمل ان سچے اور مخلص مسلم مجاہدین کی پیروی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے، جنھوں نے ہر حال میں اپنی ذمہ داری کو نبھانے اور پورا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خطرات اور مظالم کی ذرا پروا نہ کی خواہ وہ کتنے ہی سخت اور ہولناک کیوں نہ تھے۔ ان لوگوں کا طریق کار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے طریقِ کار کی پیروی پر مشتمل تھا۔ اس راہ میں وہ انھی خطوط پر عمل پیرا تھے جو رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے۔ وہ انسانیت تک اپنی دعوت پہنچانے کے لیے آپؐ کے سیدھے راستے اور آپؐ کی صاف سیدھی سنت پر چلنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندستان میں کارکنانِ جماعت کے سامنے راستہ بہت خراب، مشکل اور خطرات سے گھرا ہوا تھا۔ ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی قدرت تھی کہ اس نے اپنے ان بندوں کو اس طرح کے بدترین حالات میں اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائی۔ لہٰذا، اسی ذاتِ باری تعالیٰ نے ان کو اپنے راستے پر ثابت قدمی اور طریقۂ کار پر استقامت عطا فرمائی اور اسی نے انھیں دشمن کے شر اور زمانے کے مصائب سے محفوظ رکھا۔
یہاں یہ امر بھی اختصار کے ساتھ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر ہند میں دعوتِ اسلام کو لے کر اٹھنے والی جماعت اسلامی بھی تقسیم ہند کے بعد دو مستقل اور الگ الگ جماعتوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہندستان کی جماعت اسلامی اپنے پروگرام اور لائحہ عمل میں بالکل آزاد تھی۔ لہٰذا ہندستان میں مقیم رہ جانے والے ارکانِ جماعت نے دعوتِ دین کی ذمہ داری کو اپنے طور پر اپنے کندھوں پر لے لیا اور پھر مسلسل اسی طرح اس کو ادا کرتے رہے۔ انھوں نے رام پور شہر میں اپنا مرکز قائم کیا اور مولانا ابو اللیث اصلاحی کو اپنا امیر منتخب کیا۔ مولانا ابواللیث اصلاحی قرآنی علوم و معارف اور وقت کے تقاضوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اس بے نظیر خوبی کے ساتھ وہ ان مخلص باعمل لوگوں میں سے تھے جن کی مثال اس تاریک دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔
یہاں یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ تنظیمی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا تنظیمی ڈھانچا اور مستقل نظام ہے۔ ہاں، نظریہ و عقیدہ، طریقِ کار اور طرزِ عمل میں تمام مسلمان جس طرح متحد ہیں اسی طرح وہ اسلام کی دعوت کو انسانیت تک پہنچانے میں بھی ایک ہو سکتے اور ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات رکھ سکتے ہیں خواہ وہ مصر کے رہنے والے ہوں یا انڈونیشیا اور پاک و ہند کے باشندے ہوں۔
یہ ا س جد و جہد کا مختصر تذکرہ ہے جو جماعت اسلامی نے ہندستان میں کی اور ان شاءاللہ کرتی رہے گی۔ اب ہم پاکستان میں جماعت اسلامی کی دعوت سے متعلق بات کی طرف آتے ہیں۔
قبل اَز تقسیم ہند جماعت اسلامی کے طریقِ دعوت اور لائحہ عمل اور تقسیم کے بعد ہندستان کے جو حالات پیدا ہوئے ان کا ذکر اُوپر گزر چکا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان جماعت اسلامی کا مرکز قرار پایا۔
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ تحریک پاکستان میں اور ہندستان سے اس خطۂ زمین کی آزادی کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا گیا تھا اور عام مسلمانوں نے اپنے جان و مال اور قوتوں اور صلاحیتوں کی قربانی صرف اور صرف اسی غرض کے لیے دی تھی کہ یہاں اسلام کا کلمہ بلند ہو اور اللہ کے قانون کی حکمرانی قائم ہو۔
پاکستان میں حاکم جماعت، تحریک پاکستان کے دوران ہر جلسے، تقریب اور اجتماع میں یہ اعلان کرتے رہے کہ آزادیِ ملک کی اس تحریک کی منزل یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھیں۔ اس کے قوانین اور طریقۂ کار کو مرتب کرنے میں کتاب و سنت کے چشمۂ صافی سے رہنمائی لیں مگر بدقسمتی سے جونہی انھوں نے نوزائیدہ مملکت کے مناصب کو سنبھالا اور اس خطۂ زمین پر آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اسلام سے لاتعلقی ظاہر کرنا شروع کر دی۔ اس سلسلے میں حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ ٹال مٹول اور پہلوتہی کی روش اختیار کر لی۔ انھیں اس بارے میں جب بھی کچھ کہا جاتا تو وہ اس کے جواب میں کہتے کہ یہ ابھی نئی نئی مملکت ہے، اس کی اسلامیت کو ظاہر کرکے کیوں اس کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہو؟ لفظ ’اسلام‘ ہمسایوں کو دشمن اور طاقت ور عالمی قوتوں کو ہمارا مخالف بنا دے گا۔
ہم نے جب بھی انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ خیالات اور توہمات اپنے کہنے والوں کے دلی امراض، کمزور عقائد اور اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ڈگمگاتے ایمان کی چغلی کھاتے ہیں۔ تو یہ سن کر وہ اپنے سر جھکا لیتے اور اپنے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں پر اصرار کرنے لگتے۔ حالانکہ سیدھی سادی اور صاف اسلامی شریعت جس کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے گمان قائم کر لیے تھے اور اس کی طرف اپنے انتساب کو لمحہ بہ لمحہ تازہ کرتے بھی رہتے تھے اور اس پر مضبوطی سے کاربند ہونے کی دعوت بھی دیتے تھے، بخدا اگر یہ اس شریعت پر عمل پیرا ہو جاتے، امور و معاملات کو اس کے تقاضوں اور مطالبات کے مطابق چلایا جاتا، تو اس کی عظمت کے سامنے بڑے بڑے جابر اور سرکش بھی گردنیں جھکا دیتے اور غرور و تکبر کے نشے میں مدہوش بھی اس کے واضح دلائل اور صاف ستھرے نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ۔
مگر اسلام تو اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی ہو کر رہ گیا ہے۔ اپنے ہی پیروکاروں میں حیران کھڑا ہے، جو اس کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن پھر اس کو ناپسند بھی کرتے ہیں، اس کے حکم کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں، زمانے کی گردش کے اس کے خلاف جانے کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس قوم کی چند ماہ کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ، متروکہ املاک پر جعلی قبضوں اور خود ان کے قول و فعل کے درمیان بدترین تضاد اور نیتوں کے فساد نے قوم کی اکثریت کو یہ باور کرنے پر مجبور کر دیا کہ یہ لوگ دین کے ساتھ کچھ برا ہی کریں گے۔ قوم کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ یہ لوگ امریکا و برطانیہ کے دساتیر سے انتخاب کر کے ملک کا دستور بنائیں گے۔ البتہ وہ اس بات کے علی الاعلان اظہار کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ رائے عام سے ڈرتے ہیں جس نے آزادی کی دعوت پر محض اس لیے لبیک کہا تھا اور جہاد کا راستہ اس لیے چُنا تھا اور اپنی جان و مال کی قربانی اس لیے دی تھی کہ انھیں اسلام کے کلمے کی سربلندی محبوب تھی۔ زمین کے ایسے ٹکڑے کو حاصل کرنے کا شوق تھا جس کے اوپر عادلانہ اسلامی حکومت کا پرچم لہرائے۔
جب معاملہ اصل میں یہ تھا تو دیدہ بینا رکھنے والوں کے سامنے جب صورت حال کھلی تو قوم کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں ۔چھوٹے بڑے معاملات میں ان کے نزدیک دین کا حکم کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ بس اپنی شہوات و خواہشات کے سمندر میں غرق ہیں ۔ لہٰذا اگر انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا تو وہ معاملے ہی کو خراب کر کے رکھ دیں گے۔
ان حالات میں جماعت اسلامی فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھی اور میدان عمل میں اُتری۔ پورے ملک کو جگایا اور متحرک کیا۔ امورِ سلطنت پر اختیار رکھنے والوں پر زور دیا کہ وہ مجلسِ تاسیسی میں قرارداد مقاصد پیش کریں جو مملکتِ جدید کی حیثیت (status) اور اس کے دستور کو واضح کرے۔ یہ لوگ مجلس تاسیسی کو حتمی طور پر حکم دیں کہ وہ ملک کا شریعت اسلامیہ پر مبنی دستور تیار کرے اور اس کے قوانین کتاب و سنت کے سرچشموں سے ماخوذ ہوں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ واضح الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ مملکت مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور زمین پر حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور یہ کہ نیا دستور ان حدود سے باہر نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کے باقی مشتملات بھی ان مطالبات میں شامل ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ سب کچھ ایک ہی دن میں اور بغیر کسی جدوجہد اور کش مکش کے حاصل نہیں ہو گیا تھا۔ اس جد و جہد کی مختصر داستان یہاں بیان کی جاتی ہے:
ملک کو ماہِ رمضان ۱۳۶۶ھ/ اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل ہوئی تو جماعت اسلامی قیامِ پاکستان کے اوّل روز ہی سے مصروف عمل ہو گئی۔ جماعت نے اس کا خاص اہتمام کیا تھا اور وہ یہ کہ ان زخم خوردہ اور لُٹے پُٹے مہاجرین کی مدد کا ذمہ لیا جن کو ہندستان میں مسلسل قتل و غارت نے وہاں سے ہجرت کرکے حدودِ پاکستان کے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت صورتِ حال کیا تھی؟ اس کی ہر شخص کو بخوبی خبر ہے، لہٰذا یہاں دُہرانے کی ضرورت نہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ مہاجرین کا مسئلہ، ان کی مدد، ان کی آباد کاری، ان کے امور و مسائل کی دیکھ بھال اور ان کی طرح طرح کی ضرورتوں کے بارے میں باخبر رہنا، آزادی کے ابتدائی کئی ماہ تک جماعت اسلامی کا یہی ایک کام تھا۔ اس دوران جماعت کی بہترین جانچ ہوئی۔ ان حالات میں جماعت کے ارکان و مددگار اپنے کام میں ثابت قدمی اور حسن اخلاق کا مظہر بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے اور امانت و دیانت سے لوگوں کے کام آنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ان کے بدترین دشمن بھی ان کی تعریف کرنے اور اس ضمن میں ان کے پہل کرنے کی گواہی دینے پر مجبور ہو گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت کے ذمہ داران اور بڑے افسران نے بھی یہ اعتراف کیا کہ اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی اور امداد و تعاون کی مسلسل عملی جدوجہد نہ ہوتی تو یہ ممکن نہ تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنا فرض ادا کر سکتی۔
پاکستان میں پناہ لینے والے مہاجرین کا بوجھ کچھ کم ہوا تو جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے ارکان و کارکنان اس کٹھن مرحلے سے سرفراز ہو کر نکلے۔ جماعت کو مصیبت زدہ زخمیوں اور بے بس و لاچار لوگوں کی خدمت کے دوران بہت سے تجربات ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر جماعت نے اپنے اصلی میدان میں قدم رکھا اور ایک بہت بڑی تحریک کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ اور مملکت جدید کے لیے قرآن و سنت کی اساس پر مبنی دستور کی تشکیل کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جماعت نے پہلے ان مطالبات کو مرتب کر کے ملک کے طول و عرض میں ہر ممکن ذریعے: اخبارات و مجلات، جلسوں اور کانفرنسوں اور خطبات مساجد میں عام کیا۔ یہ مطالبات پلے کارڈز، بینرز اور وال چاکنگ کے ذریعے بھی شائع کیے گئے، یہاں تک کہ مطالبات کی آواز پورے ملک میں گونج اُٹھی اور کراچی میں حکومتی ایوان کے دروازوں پر بھی دستک دینے اور انھیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے لگی۔ عوام نے ملک کے کونے کونے میں لاکھوں کی تعداد میں جلسوں اور کانفرنسوں میں ان مطالبات کے حق میں قراردادیں پاس کیں۔ پھر قائدین تحریک نے قومی محضرنامہ بھی حکومت کو پیش کر دیا جس کے اُوپر تمام طبقات کے دستخط موجود تھے۔ اس بھرپور جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ امور حکومت چلانے والے مجبور ہو گئے کہ اس مسئلے کا جائزہ لیں اور اس کے بارے میں باہمی صلاح مشورہ کریں تاکہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ مل جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان نے جو مطالبات حکومت کو پیش کیے اور پوری قوم بھی اس سلسلے میں جماعت سے متفق تھی وہ مطالبات حسب ذیل تھے:
جب پاکستان کے باشندوں کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں پر ایمان رکھتی ہے اور مسلمانوں نے اس کی خاطر عظیم قربانیاں دی ہیں، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ان کے اُمورِ زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے جائیں۔ اب، جب کہ پاکستان کی تشکیل کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ہر پاکستانی مسلمان کا یہ مطالبہ ہے کہ تاسیسی اسمبلی یہ اعلان کرے کہ:
۱- پاکستان میں حاکمیت ایک اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے۔ حکومت ِپاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے مالک کی منشا و مرضی کو اس کی زمین پر پورا کرے اور اسی کی پیروی کرے۔
۲- اسلامی شریعت ہی پاکستان کا اساسی قانون ہوگا۔
۳- ملک میں نافذ جتنے قوانین اسلامی شریعت سے متصادم ہوں وہ کالعدم قرار پائیں گے اور اس کے بعد بھی کوئی قانون شریعت کے خلاف نافذ نہیں کیا جائے گا۔
۴- حکومت ِپاکستان اُمورِ حکومت میں شریعت کی طے کردہ حدود میں رہ کر ہی کوئی کام کرسکتی ہے۔
یہ چار مطالبات تھے جن کی بنیاد پر پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ان مطالبات نے غفلت کی نیند سونے والوں کو جگا دیا اور قوم کی آنکھیں کھول دیں کہ اسے کس چیز کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنا ہے اور کس چیز کے منوانے پر حکومت کو مجبور کرنا ہے۔
ان مطالبات نے جہاں پوری قوم کو کھڑا کر دیا تھا، وہیں کراچی میں حکومتی ذمہ داران بھی راہِ راست کی طرف لوٹنے لگے۔ دراصل اس بھرپور قومی تحریک نے ان کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں اور انھیں اس معاملے سے متعلق غور و فکر اور سوچ بچار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود کہ انھیں اس قومی مطالبے کی شدت کا کچھ احساس ہو چلا تھا وہ آسانی اور خوش دلی کے ساتھ کہاں اس سے نصیحت پکڑنے والے تھے، لہٰذا یہ ان مطالبات کی آواز کو دبانے کی غرض سے پابندیوں اور سختیوں پر اُتر آئے۔ اخبارات و رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بند کرنے لگے۔ اس معاملے میں ان کا سب سے پہلا قدم ملک کے نامور عالم دین، امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں سے قیم جماعت میاں طفیل محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ان لوگوں کو کسی عدالت میں پیش کرنے اور کوئی فردِ جرم عائد کیے بغیر جیل میں ڈال دیا۔ یہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے بعدازاں ملک کی شمال مغربی سرحدوں اور مغربی پنجاب کے علاقوں سے جماعت اسلامی کے بہت سے ارکان کو بھی پس دیوار زندان پہنچا دیا گیا۔ یہ دراصل دعوت اسلامی اور اس کو لے کر اُٹھنے والوں کے خلاف ذمہ داران حکومت کے دلوں میں جلتی آگ اور دشمنی تھی۔ اسی طرح حکومت نے ان لوگوں کی ڈاک اور خط کتابت پر بھی سخت نگرانی کے پہرے بٹھا دیے۔ خفیہ پولیس کے آدمی سفر و حضر میں ارکانِ جماعت کے ساتھ چمٹے رہتے۔
لیکن یہ سختیاں اور پابندیاں دعوت کو لے کر اٹھنے والوں کی توجہ کو اس سے ہٹانہ سکیں۔ نہ ان کی سرگرمیوں اور مطالبہ نفاذِ اسلامی کی جدوجہد میں کوئی کمی لا سکیں، بلکہ یہاں تو معاملہ اُلٹ دکھائی دیا کہ تحریک کی سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی۔ ان کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا۔ خود ارکان جماعت اور وابستگانِ جماعت کی رفتارِ کار، نصب العین سے وابستگی اور عقیدے کی مضبوطی میں اضافہ ہوا۔
شب و روز کی اس مسلسل اور اہم جدوجہد کا نتیجہ چھ ماہ بعد سامنے آیا، جب کہ امیر جماعت سیدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر قائدین و ارکانِ جماعت ابھی جیل میں ہی تھے کہ تخت حکمرانی پر براجمان ظالموں نے قوم کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور معمولی تبدیلی و ترمیم کے بعد ان کو قبول کر کے تاسیسی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے ان مطالبات کو ایک جامع قرارداد کی شکل میں ڈھالا اور پھر پوری قوم کے اس عزم و ارادے کا اعلان کیا کہ نیا دستور قرآن و سنت کے اصولوں اور اسلامی شریعت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جائے۔
یہاں اس تاریخی قرارداد کے ابتدائی جز کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو تاسیسی اسمبلی نے اپنے ارکان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء/۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۸ھ کو جاری کی۔ یہ’ قرارداد مقاصد‘ (Objectives Resolution) کے نام سے مشہور ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ ان اصولوں اور بنیادوں کو بیان کرتی ہے جو تاسیسی اسمبلی کے اوپر لازم کرتے ہیں کہ وہ دستور کی تشکیل و تشریح میں ان بنیادوں کے دائرے سے باہر نہ نکلے۔ قرارداد ملاحظہ کیجیے:
اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے، آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ ( آئین پاکستان مجریہ ۱۹۷۳ء: ابتدائیہ، ص ۳، دفعہ نمبر۲، اور ضمیمہ دفعہ نمبر ۲، مطبوعہ ۳۱ جولائی ۲۰۰۴ء، اسلام آباد، پاکستان)
قرارداد کا یہ وہ جز ہے جو دستور پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو صراحت سے بیان کرتا ہے اور لازم کرتا ہے کہ وہ دستور کی تشکیل اور تدوین میں اسلامی شریعت کے اصول و قواعد سے باہر نہ جائے، جب کہ اس سے متصل دیگر اجزاء غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق دستور کا موقف واضح کرتے اور نظام کی تشکیل، عدلیہ کے قیام اور حقوقِ عامہ وغیرہ کے متعلق تشریح کرتے ہیں جن کا ذکر مقدمۂ دستور (Preamble) میں لازمی تھا تاکہ دستور کی تدوین میں ان سے رہنمائی لی جاسکے۔
اُوپر مذکور دفعات دستور کا وہ حصہ ہے جو اس تاریخی قرارداد کی اہمیت کو پیش کرتا ہے۔ مجلس تاسیسی کا اس قرارداد کو جاری کرنا، اس مسلمان قوم کی شاندار کامیابی اور واضح فتح تھی جس قوم نے اپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنے اور اپنے اس حق کا مطالبہ ڈٹ کر کیا تھا، یعنی اللہ کی زمین میں اس کے بندوں پر اسی کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ! (جاری(