مسعودعالم ندوی


اب ہم ہندستان میں تاریخ دعوتِ اسلام کے جس مقام کا تذکرہ کرنے لگے ہیں، یہ ہماری تاریخ کا نہایت اہم موڑ ہے۔ یعنی مملکت ِہند کا دو آزاد و خود مختار مملکتوں: انڈیا اور پاکستان میں تبدیل ہو جانا___ یہ آزادی اور خود مختاری بڑی آسانی اور سکون سے حاصل نہیں ہوسکی جیسا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی اور وہ اس کے لیے دلائل بھی دیتے تھے۔ آزادی کا یہ حصول اور برصغیر ہند میں مسلمانوں کو ایک چھوٹے سے خطۂ زمین پر اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع مل جانا ایک خوفناک تباہی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد ممکن ہوا۔  

تقسیم ہند اور اس کی مشکلات  

تقسیمِ ہند کے موقع پر ایسی تباہی اور قتل عام ہوا کہ انسانی تاریخ نے اس کی مثال نہ دیکھی اور سنی ہوگی، حتیٰ کہ انسانیت نے اپنی تاریخ کے ظالمانہ اَدوار، بدترین ظلم و جہالت اور بے رحمی و درندگی کے زمانوں میں بھی ایسی مثال کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا۔ ایسا قتل عام جس میں پانچ لاکھ فرزندانِ اسلام کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مرد و عورت، بچّے بوڑھے اور لاغر و نحیف مریض کو بخشا گیا نہ دودھ پیتے بچے کو چھوڑا گیا۔ عزتوں اور آبروؤں کی ایسی بے حُرمتی کی گئی کہ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر دیے گئے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ عزت و آبرو کی بے حرمتی کے ان گھناؤنے حملوں میں کتنی جانیں مر مر کر زندہ ہوئیں۔ ایسے دل دوز واقعات پیش آئے کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ جائے اور دل ریزہ ریزہ ہوجائے۔ بے شرمی اور بے حیائی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملے کہ لحاظ و مروت کی پیشانی جھک جائے اور انسانیت کا چہرہ شرم سے سرخ ہوجائے۔  

خوفناک تباہی اور بے مثال ظلم و ستم کا یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب عام مسلمان اس سے بالکل غافل تھے۔ وہ اپنی سیاسی قیادت پر بھروسا کیے بیٹھے تھے، جب کہ ان کی قیادت یعنی مسلم لیگ کے ممبران و ارکان جن کو نئی مملکت کی زمامِ اقتدار سونپی جانا تھی، اپنی قوم کے اس خوفناک انجام سے بے پروا تھے۔ وہ ان تقریبات اور پارٹیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے جو ملک کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ وہ بس آزادی کی خوشی اور حکومت کی کنجیاں حوالے کیے جانے کی خوشی میں نڈھال تھے۔ اسی دوران مشرقی پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں مسلمان خواتین کی حرمتیں پامال کی جا رہی تھیں، مساجد شہید اور قرآن مجید جلائے اور پاؤں تلے روندے جارہے تھے۔ پاکستان کی طرف آنے والے مہاجرین کے دَل کے دَل دوران سفر راہ میں ایسی المناک مصیبتوں اور مشکلات سے دوچار کیے جا رہے تھے کہ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھیں اور جسم ٹھٹھر جائیں۔ 

قتل و غارت اور بے آبرو گردی کا یہ سلسلہ تقسیم ملک سے ایک ماہ قبل ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن قوم اس سے بے خبر تھی۔ ان کو حکمرانی کے نشے نے مدہوش اور اقتدار کے تکبر نے بے خود کررکھا تھا،جب کہ اقتدار کی کنجیاں عملی طور پر ابھی انھیں سپرد نہیں کی گئی تھیں ۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داری سے غافل رہے اور خطرے کو محسوس کرنے اور اس سے ہوشیار رہنے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، حالانکہ یہ وہ حالات تھے جب دشمنوں کی ناپاک سازشیں اور فرزندانِ اسلام کے خلاف ان کی ملعون کارروائیاں طشت اَزبام ہو چکی تھیں ۔ افسوس کہ ملکی قیادت نے ایک طویل عرصہ ان خطرناک حالات سے بے اعتنائی برتی۔ 

قوم کی بات کریں تو اس نے اپنی غفلت و لاپروائی کا خمیازہ بھگت لیا اور اسے یہ بھی یقین ہو گیا کہ جن لوگوں کو اس نے اپنے اپنے مقام پر راہ نما بنایا تھا، ان میں سے ایک بڑی تعداد کا مقصد حکومتی منصبوں اور ایوانوں تک رسائی اور حقیر دنیاوی دولت اور جاہ کا حصول تھا۔پھر جب ان لوگوں نے اپنی طلب و تلاش کا سامان حکومتی وزارتوں اور مناصب کی شکل میں پا لیا تو ان کا مقصد پورا ہو گیا جس کے لیے وہ دوڑ دھوپ کرتے رہے تھے۔ مناصب اور عہدوں پر براجمان ہوتے ہی یہ قوم کے مسائل سے بے پروا ہو گئے۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ قوم کس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ انھوں نے ان جھوٹے وعدوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جووہ قوم سے کر چکے تھے۔  

اس وقت ہندستان میں مسلمان قوم کی صورتِ حال کیا تھی ؟ ان کو جس طرح کے خطرات اور  مصائب و مشکلات: دینی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر درپیش تھیں، ان کی سنگینی اور شدت کا کچھ نہ پوچھیے۔ ان کی مثال ان یتیموں جیسی تھی جو کمینوں کے دسترخوان پر بیٹھ جائیں اور کمینہ صفت انسان ان کے اوپر کوئی ترس کھائیں نہ انھیں انسانیت کا کوئی خیال آئے، وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف رہیں۔ ان کا مقصد بھی حکومتی مناصب اور قانون ساز مجالس کی نشستوں کا حصول تھا یا پھر کسی یورپی ملک میں سفارت کاری کے مزے لوٹنا تھا۔ ان لوگوں کی بزدلی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزماں بھی ہندستان میں قیام کرنے کا حوصلہ نہ رکھ پائے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے ہمراہ ان مشکلات و مصائب کا سامنا کرتے۔ وہ تقسیم ملک کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہاں سے نکل آئے۔وہ اپنے ان ساتھیوں اور پیروکاروں کو خطرات جھیلنے اور ہندوؤں کے تیروں تلواروں کے وار سہنے کے لیے وہیں چھوڑ آئے جنھوں نے ان کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔  

جماعت اسلامی ہند اور اس کی دعوت  

پاکستان کی طرف ہجرت کرآنے والے مسلمانوں کے علاوہ جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے تھے، وہ بڑی آزمائش میں گھر گئے۔ مسلمانوں کا سیاسی اور تنظیمی وجود ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ اس صورتِ حال میں وہاں پر جماعت اسلامی ہند نے تنکا تنکا اکٹھا کر کے، بے سروسامانی کے عالم میں دعوت، تنظیم، حوصلے اور تربیت کے لیے قدم اُٹھایا۔ جماعت اسلامی کا یہ عمل ان سچے اور مخلص مسلم مجاہدین کی پیروی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے، جنھوں نے ہر حال میں اپنی ذمہ داری کو نبھانے اور پورا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خطرات اور مظالم کی ذرا پروا نہ کی خواہ وہ کتنے ہی سخت اور ہولناک کیوں نہ تھے۔ ان لوگوں کا طریق کار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے طریقِ کار کی پیروی پر مشتمل تھا۔ اس راہ میں وہ انھی خطوط پر عمل پیرا تھے جو رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے۔ وہ انسانیت تک اپنی دعوت پہنچانے کے لیے آپؐ کے سیدھے راستے اور آپؐ کی صاف سیدھی سنت پر چلنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندستان میں کارکنانِ جماعت کے سامنے راستہ بہت خراب، مشکل اور خطرات سے گھرا ہوا تھا۔ ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی قدرت تھی کہ اس نے اپنے ان بندوں کو اس طرح کے بدترین حالات میں اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائی۔ لہٰذا، اسی ذاتِ باری تعالیٰ نے ان کو اپنے راستے پر ثابت قدمی اور طریقۂ کار پر استقامت عطا فرمائی اور اسی نے انھیں دشمن کے شر اور زمانے کے مصائب سے محفوظ رکھا۔ 

یہاں یہ امر بھی اختصار کے ساتھ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر ہند میں دعوتِ اسلام کو لے کر اٹھنے والی جماعت اسلامی بھی تقسیم ہند کے بعد دو مستقل اور الگ الگ جماعتوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہندستان کی جماعت اسلامی اپنے پروگرام اور لائحہ عمل میں بالکل آزاد تھی۔ لہٰذا ہندستان میں مقیم رہ جانے والے ارکانِ جماعت نے دعوتِ دین کی ذمہ داری کو اپنے طور پر اپنے کندھوں پر لے لیا اور پھر مسلسل اسی طرح اس کو ادا کرتے رہے۔ انھوں نے رام پور شہر میں اپنا مرکز قائم کیا اور مولانا ابو اللیث اصلاحی کو اپنا امیر منتخب کیا۔ مولانا ابواللیث اصلاحی قرآنی علوم و معارف اور وقت کے تقاضوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اس بے نظیر خوبی کے ساتھ وہ ان مخلص باعمل لوگوں میں سے تھے جن کی مثال اس تاریک دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔ 

 یہاں یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ تنظیمی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا تنظیمی ڈھانچا اور مستقل نظام ہے۔ ہاں، نظریہ و عقیدہ، طریقِ کار اور طرزِ عمل میں تمام مسلمان جس طرح متحد ہیں اسی طرح وہ اسلام کی دعوت کو انسانیت تک پہنچانے میں بھی ایک ہو سکتے اور ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات رکھ سکتے ہیں خواہ وہ مصر کے رہنے والے ہوں یا انڈونیشیا اور پاک و ہند کے باشندے ہوں۔ 

یہ ا س جد و جہد کا مختصر تذکرہ ہے جو جماعت اسلامی نے ہندستان میں کی اور ان شاءاللہ کرتی رہے گی۔ اب ہم پاکستان میں جماعت اسلامی کی دعوت سے متعلق بات کی طرف آتے ہیں۔ 

جماعت اسلامی پاکستان کی جدوجہد  

قبل اَز تقسیم ہند جماعت اسلامی کے طریقِ دعوت اور لائحہ عمل اور تقسیم کے بعد ہندستان کے جو حالات پیدا ہوئے ان کا ذکر اُوپر گزر چکا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان جماعت اسلامی کا مرکز قرار پایا۔  

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ تحریک پاکستان میں اور ہندستان سے اس خطۂ زمین کی آزادی کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا گیا تھا اور عام مسلمانوں نے اپنے جان و مال اور قوتوں اور صلاحیتوں کی قربانی صرف اور صرف اسی غرض کے لیے دی تھی کہ یہاں اسلام کا کلمہ بلند ہو اور اللہ کے قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ 

پاکستان میں حاکم جماعت، تحریک پاکستان کے دوران ہر جلسے، تقریب اور اجتماع میں یہ اعلان کرتے رہے کہ آزادیِ ملک کی اس تحریک کی منزل یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھیں۔ اس کے قوانین اور طریقۂ کار کو مرتب کرنے میں کتاب و سنت کے چشمۂ صافی سے رہنمائی لیں مگر بدقسمتی سے جونہی انھوں نے نوزائیدہ مملکت کے مناصب کو سنبھالا اور اس خطۂ زمین پر آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اسلام سے لاتعلقی ظاہر کرنا شروع کر دی۔ اس سلسلے میں حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ ٹال مٹول اور پہلوتہی کی روش اختیار کر لی۔ انھیں اس بارے میں جب بھی کچھ کہا جاتا تو وہ اس کے جواب میں کہتے کہ یہ ابھی نئی نئی مملکت ہے، اس کی اسلامیت کو ظاہر کرکے کیوں اس کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہو؟  لفظ ’اسلام‘ ہمسایوں کو دشمن اور طاقت ور عالمی قوتوں کو ہمارا مخالف بنا دے گا۔ 

ہم نے جب بھی انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ خیالات اور توہمات اپنے کہنے والوں کے دلی امراض، کمزور عقائد اور اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ڈگمگاتے ایمان کی چغلی کھاتے ہیں۔ تو یہ سن کر وہ اپنے سر جھکا لیتے اور اپنے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں پر اصرار کرنے لگتے۔ حالانکہ سیدھی سادی اور صاف اسلامی شریعت جس کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے گمان قائم کر لیے تھے اور اس کی طرف اپنے انتساب کو لمحہ بہ لمحہ تازہ کرتے بھی رہتے تھے اور اس پر مضبوطی سے کاربند ہونے کی دعوت بھی دیتے تھے، بخدا اگر یہ اس شریعت پر عمل پیرا ہو جاتے، امور و معاملات کو اس کے تقاضوں اور مطالبات کے مطابق چلایا جاتا، تو اس کی عظمت کے سامنے بڑے بڑے جابر اور سرکش بھی گردنیں جھکا دیتے اور غرور و تکبر کے نشے میں مدہوش بھی اس کے واضح دلائل اور صاف ستھرے نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ۔ 

مگر اسلام تو اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی ہو کر رہ گیا ہے۔ اپنے ہی پیروکاروں میں حیران کھڑا ہے، جو اس کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن پھر اس کو ناپسند بھی کرتے ہیں، اس کے حکم کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں، زمانے کی گردش کے اس کے خلاف جانے کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس قوم کی چند ماہ کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ، متروکہ املاک پر جعلی قبضوں اور خود ان کے قول و فعل کے درمیان بدترین تضاد اور نیتوں کے فساد نے قوم کی اکثریت کو یہ باور کرنے پر مجبور کر دیا کہ یہ لوگ دین کے ساتھ کچھ برا ہی کریں گے۔ قوم کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ یہ لوگ امریکا و برطانیہ کے دساتیر سے انتخاب کر کے ملک کا دستور بنائیں گے۔ البتہ وہ اس بات کے علی الاعلان اظہار کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ رائے عام سے ڈرتے ہیں جس نے آزادی کی دعوت پر محض اس لیے لبیک کہا تھا اور جہاد کا راستہ اس لیے چُنا تھا اور اپنی جان و مال کی قربانی اس لیے دی تھی کہ انھیں اسلام کے کلمے کی سربلندی محبوب تھی۔ زمین کے ایسے ٹکڑے کو حاصل کرنے کا شوق تھا جس کے اوپر عادلانہ اسلامی حکومت کا پرچم لہرائے۔ 

جب معاملہ اصل میں یہ تھا تو دیدہ بینا رکھنے والوں کے سامنے جب صورت حال کھلی تو قوم کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں ۔چھوٹے بڑے معاملات میں ان کے نزدیک دین کا حکم کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ بس اپنی شہوات و خواہشات کے سمندر میں غرق ہیں ۔ لہٰذا اگر انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا تو وہ معاملے ہی کو خراب کر کے رکھ دیں گے۔ 

 ان حالات میں جماعت اسلامی فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھی اور میدان عمل میں اُتری۔ پورے ملک کو جگایا اور متحرک کیا۔ امورِ سلطنت پر اختیار رکھنے والوں پر زور دیا کہ وہ مجلسِ تاسیسی میں قرارداد مقاصد پیش کریں جو مملکتِ جدید کی حیثیت (status) اور اس کے دستور کو واضح کرے۔ یہ لوگ مجلس تاسیسی کو حتمی طور پر حکم دیں کہ وہ ملک کا شریعت اسلامیہ پر مبنی دستور تیار کرے اور اس کے قوانین کتاب و سنت کے سرچشموں سے ماخوذ ہوں۔ 

سب سے بڑھ کر یہ کہ واضح الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ مملکت مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور زمین پر حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور یہ کہ نیا دستور ان حدود سے باہر نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کے باقی مشتملات بھی ان مطالبات میں شامل ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ سب کچھ ایک ہی دن میں اور بغیر کسی جدوجہد اور کش مکش کے حاصل نہیں ہو گیا تھا۔ اس جد و جہد کی مختصر داستان یہاں بیان کی جاتی ہے: 

ملک کو ماہِ رمضان ۱۳۶۶ھ/ اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل ہوئی تو جماعت اسلامی قیامِ پاکستان کے اوّل روز ہی سے مصروف عمل ہو گئی۔ جماعت نے اس کا خاص اہتمام کیا تھا اور وہ یہ کہ ان زخم خوردہ اور لُٹے پُٹے مہاجرین کی مدد کا ذمہ لیا جن کو ہندستان میں مسلسل قتل و غارت نے وہاں سے ہجرت کرکے حدودِ پاکستان کے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت صورتِ حال کیا تھی؟ اس کی ہر شخص کو بخوبی خبر ہے، لہٰذا یہاں دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ مہاجرین کا مسئلہ، ان کی مدد، ان کی آباد کاری، ان کے امور و مسائل کی دیکھ بھال اور ان کی طرح طرح کی ضرورتوں کے بارے میں باخبر رہنا، آزادی کے ابتدائی کئی ماہ تک جماعت اسلامی کا یہی ایک کام تھا۔ اس دوران جماعت کی بہترین جانچ ہوئی۔ ان حالات میں جماعت کے ارکان و مددگار اپنے کام میں ثابت قدمی اور حسن اخلاق کا مظہر بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے اور امانت و دیانت سے لوگوں کے کام آنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ان کے بدترین دشمن بھی ان کی تعریف کرنے اور اس ضمن میں ان کے پہل کرنے کی گواہی دینے پر مجبور ہو گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت کے ذمہ داران اور بڑے افسران نے بھی یہ اعتراف کیا کہ اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی اور امداد و تعاون کی مسلسل عملی جدوجہد نہ ہوتی تو یہ ممکن نہ تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنا فرض ادا کر سکتی۔ 

مطالبہ نفاذِ اسلام 

پاکستان میں پناہ لینے والے مہاجرین کا بوجھ کچھ کم ہوا تو جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے ارکان و کارکنان اس کٹھن مرحلے سے سرفراز ہو کر نکلے۔ جماعت کو مصیبت زدہ زخمیوں اور بے بس و لاچار لوگوں کی خدمت کے دوران بہت سے تجربات ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر جماعت نے اپنے اصلی میدان میں قدم رکھا اور ایک بہت بڑی تحریک کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ اور مملکت جدید کے لیے قرآن و سنت کی اساس پر مبنی دستور کی تشکیل کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جماعت نے پہلے ان مطالبات کو مرتب کر کے ملک کے طول و عرض میں ہر ممکن ذریعے: اخبارات و مجلات، جلسوں اور کانفرنسوں اور خطبات مساجد میں عام کیا۔ یہ مطالبات پلے کارڈز، بینرز اور وال چاکنگ کے ذریعے بھی شائع کیے گئے، یہاں تک کہ مطالبات کی آواز پورے ملک میں گونج اُٹھی اور کراچی میں حکومتی ایوان کے دروازوں پر بھی دستک دینے اور انھیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے لگی۔ عوام نے ملک کے کونے کونے میں لاکھوں کی تعداد میں جلسوں اور کانفرنسوں میں ان مطالبات کے حق میں قراردادیں پاس کیں۔ پھر قائدین تحریک نے قومی محضرنامہ بھی حکومت کو پیش کر دیا جس کے اُوپر تمام طبقات کے دستخط موجود تھے۔ اس بھرپور جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ امور حکومت چلانے والے مجبور ہو گئے کہ اس مسئلے کا جائزہ لیں اور اس کے بارے میں باہمی صلاح مشورہ کریں تاکہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ مل جائے۔ 

جماعت اسلامی پاکستان نے جو مطالبات حکومت کو پیش کیے اور پوری قوم بھی اس سلسلے میں جماعت سے متفق تھی وہ مطالبات حسب ذیل تھے: 

جب پاکستان کے باشندوں کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں پر ایمان رکھتی ہے اور مسلمانوں نے اس کی خاطر عظیم قربانیاں دی ہیں، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ان کے اُمورِ زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے جائیں۔ اب، جب کہ پاکستان کی تشکیل کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ہر پاکستانی مسلمان کا یہ مطالبہ ہے کہ تاسیسی اسمبلی یہ اعلان کرے کہ: 

۱- پاکستان میں حاکمیت ایک اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے۔ حکومت ِپاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے مالک کی منشا و مرضی کو اس کی زمین پر پورا کرے اور اسی کی پیروی کرے۔ 

۲- اسلامی شریعت ہی پاکستان کا اساسی قانون ہوگا۔ 

۳- ملک میں نافذ جتنے قوانین اسلامی شریعت سے متصادم ہوں وہ کالعدم قرار پائیں گے اور اس کے بعد بھی کوئی قانون شریعت کے خلاف نافذ نہیں کیا جائے گا۔ 

۴- حکومت ِپاکستان اُمورِ حکومت میں شریعت کی طے کردہ حدود میں رہ کر ہی کوئی کام کرسکتی ہے۔ 

یہ چار مطالبات تھے جن کی بنیاد پر پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ان مطالبات نے غفلت کی نیند سونے والوں کو جگا دیا اور قوم کی آنکھیں کھول دیں کہ اسے کس چیز کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنا ہے اور کس چیز کے منوانے پر حکومت کو مجبور کرنا ہے۔ 

ان مطالبات نے جہاں پوری قوم کو کھڑا کر دیا تھا، وہیں کراچی میں حکومتی ذمہ داران بھی راہِ راست کی طرف لوٹنے لگے۔ دراصل اس بھرپور قومی تحریک نے ان کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں اور انھیں اس معاملے سے متعلق غور و فکر اور سوچ بچار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود کہ انھیں اس قومی مطالبے کی شدت کا کچھ احساس ہو چلا تھا وہ آسانی اور خوش دلی کے ساتھ کہاں اس سے نصیحت پکڑنے والے تھے، لہٰذا یہ ان مطالبات کی آواز کو دبانے کی غرض سے پابندیوں اور سختیوں پر اُتر آئے۔ اخبارات و رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بند کرنے لگے۔ اس معاملے میں ان کا سب سے پہلا قدم ملک کے نامور عالم دین، امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں سے قیم جماعت میاں طفیل محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ان لوگوں کو کسی عدالت میں پیش کرنے اور کوئی فردِ جرم عائد کیے بغیر جیل میں ڈال دیا۔ یہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے بعدازاں ملک کی شمال مغربی سرحدوں اور مغربی پنجاب کے علاقوں سے جماعت اسلامی کے بہت سے ارکان کو بھی پس دیوار زندان پہنچا دیا گیا۔ یہ دراصل دعوت اسلامی اور اس کو لے کر اُٹھنے والوں کے خلاف ذمہ داران حکومت کے دلوں میں جلتی آگ اور دشمنی تھی۔ اسی طرح حکومت نے ان لوگوں کی ڈاک اور خط کتابت پر بھی سخت نگرانی کے پہرے بٹھا دیے۔ خفیہ پولیس کے آدمی سفر و حضر میں ارکانِ جماعت کے ساتھ چمٹے رہتے۔  

لیکن یہ سختیاں اور پابندیاں دعوت کو لے کر اٹھنے والوں کی توجہ کو اس سے ہٹانہ سکیں۔ نہ ان کی سرگرمیوں اور مطالبہ نفاذِ اسلامی کی جدوجہد میں کوئی کمی لا سکیں، بلکہ یہاں تو معاملہ اُلٹ دکھائی دیا کہ تحریک کی سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی۔ ان کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا۔ خود ارکان جماعت اور وابستگانِ جماعت کی رفتارِ کار، نصب العین سے وابستگی اور عقیدے کی مضبوطی میں اضافہ ہوا۔ 

شب و روز کی اس مسلسل اور اہم جدوجہد کا نتیجہ چھ ماہ بعد سامنے آیا، جب کہ امیر جماعت سیدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر قائدین و ارکانِ جماعت ابھی جیل میں ہی تھے کہ تخت حکمرانی پر براجمان ظالموں نے قوم کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور معمولی تبدیلی و ترمیم کے بعد ان کو قبول کر کے تاسیسی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے ان مطالبات کو ایک جامع قرارداد کی شکل میں ڈھالا اور پھر پوری قوم کے اس عزم و ارادے کا اعلان کیا کہ نیا دستور قرآن و سنت کے اصولوں اور اسلامی شریعت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جائے۔  

یہاں اس تاریخی قرارداد کے ابتدائی جز کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو تاسیسی اسمبلی نے اپنے ارکان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء/۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۸ھ کو جاری کی۔ یہ’ قرارداد مقاصد‘ (Objectives Resolution) کے نام سے مشہور ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ ان اصولوں اور بنیادوں کو بیان کرتی ہے جو تاسیسی اسمبلی کے اوپر لازم کرتے ہیں کہ وہ دستور کی تشکیل و تشریح میں ان بنیادوں کے دائرے سے باہر نہ نکلے۔ قرارداد ملاحظہ کیجیے: 

اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے، آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ ( آئین پاکستان مجریہ ۱۹۷۳ء: ابتدائیہ، ص ۳، دفعہ نمبر۲، اور ضمیمہ دفعہ نمبر ۲، مطبوعہ ۳۱ جولائی ۲۰۰۴ء، اسلام آباد، پاکستان) 

قرارداد کا یہ وہ جز ہے جو دستور پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو صراحت سے بیان کرتا ہے اور لازم کرتا ہے کہ وہ دستور کی تشکیل اور تدوین میں اسلامی شریعت کے اصول و قواعد سے باہر نہ جائے، جب کہ اس سے متصل دیگر اجزاء غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق دستور کا موقف واضح کرتے اور نظام کی تشکیل، عدلیہ کے قیام اور حقوقِ عامہ وغیرہ کے متعلق تشریح کرتے ہیں جن کا ذکر مقدمۂ دستور (Preamble) میں لازمی تھا تاکہ دستور کی تدوین میں ان سے رہنمائی لی جاسکے۔ 

اُوپر مذکور دفعات دستور کا وہ حصہ ہے جو اس تاریخی قرارداد کی اہمیت کو پیش کرتا ہے۔ مجلس تاسیسی کا اس قرارداد کو جاری کرنا، اس مسلمان قوم کی شاندار کامیابی اور واضح فتح تھی جس قوم نے اپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنے اور اپنے اس حق کا مطالبہ ڈٹ کر کیا تھا، یعنی اللہ کی زمین میں اس کے بندوں پر اسی کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ! (جاری( 

جماعت اسلامی کی دعوت کے تین بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ قیادت کی تبدیلی ہے۔  

قیادت میں تبدیلی 

ہماری دعو ت تمام اہل ارض (تمام انسانیت) کو یہ ہے کہ وہ عصر حاضر کے اصولِ حکمرانی میں ایک عمومی انقلاب برپا کریں، جس کی بنیاد پر اللہ کے باغیوں اور سرکشوں نے حکومتوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور زمین کو فساد سے بھر رکھا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت و سلطنت کی اس عملی و فکری قیادت کو اللہ سے پھرے ہوئے ان ظالموں کے ہاتھوں سے لے کر اللہ ورسولؐ پر حقیقی ایمان رکھنے اور ان کی حقیقی فرماںبرداری کرنے والے اُن لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کردی جائے جو غلط اور باطل نظریات و افکار کو اپنا دین نہیں مانتے، بلکہ اللہ کے نازل کردہ دین حق کو اپنا طریق زندگی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ زمین پرظلم و ستم اور فتنہ و فساد نہیں چاہتے بلکہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ 

کامل بندگی، دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور اپنی زندگی کو نفاق اور عمل کو تضاد سے پاک کرنے کے مفہوم کا فطری تقاضا یہی ہے۔ یہ بات کسی سمجھ دار سے مخفی نہیں کہ یہ کام موجودہ نظامِ حیات میں تغیر اور انقلاب کے بغیر ممکن نہیں جو کفر و الحاد، فسق و فجور اور ظلم وستم پرمبنی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اللہ ورسولؐ سے برگشتہ، اللہ کی بندگی سے بے نیاز اور اللہ کی زمین میں ناحق غرور و تکبر میں مبتلا ہیں۔ 

دنیا کی قیادت و سیادت اور حکومت و سلطنت کی باگیں، علوم و آداب، سائنس اور آرٹ، قانون سازی اور نفاذ قانون، ملی و بین الاقوامی تعلقات اور تجارت و صنعت کے مسائل جب تک ان لوگوں کے اشاروں اور ہدایات سے چلتے رہیں گے، کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک سچے مسلمان کی طرح ،اسلام کے اصولوں کو اختیار کر کے، شریعت الٰہیہ کے قوانین کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے۔ ناممکن ہے کہ  کوئی مسلمان ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں شریعت کے برعکس قانون رائج ہو، اللہ کا پسندیدہ طریقہ رائج نہ ہو، تو وہ مسلمان کامل دین الٰہی کی کماحقہٗ پیروی کر سکے، جو اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی اولاد کو دینِ الٰہی کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تعلیم وتربیت دے سکے اور اسلامی آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کے مطابق اُن کی پرورش کر سکے ___ اس لیے کہ کفر والحاد کے جس نظام اور ماحول میں وہ جی رہا ہے، وہ اس پر اسلامی تربیت کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ یہ نظام تو یہی چاہتا اور اسی کی اجازت دیتا اور ماحول فراہم کرتا ہے کہ مسلمان بھی وہی باطل اخلاق اپنالے اور اپنے دین واخلاق کے تمام اصولوں اور تعلیمات سے رفتہ رفتہ لاتعلق اور بیگانہ ہوجائے۔ 

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان جو اپنے دین (پورے طریق زندگی) کو اللہ کے لیے خالص رکھنا چاہتا ہے، اس کی ذمہ داری اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ صرف عبادت کی چند رسوم ادا کرلے، بلکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری اور فرض یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد اور بغاوت و سرکشی سے پاک کرے، اور اس کی جگہ اصلاح و فلاح پر مبنی عادلانہ نظام قائم کرے___ظاہر ہے کہ یہ اعلیٰ مقصد اور بلند ہدف سرکشوں، باغیوں اور مفسدین کے برسرِاقتدار رہتے حاصل نہیں ہو سکتا۔ 

تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین پر تکبر کا ناحق مظاہرہ کرنے والے اور اپنے قول و فعل میں ظلم و سرکشی دکھانے والے ہی نظام عدل و صلاح کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر یقین، دلیل اور مشاہدے سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک اللہ کے یہ باغی اور سرکش اُمورِ مملکت اپنے ہاتھوں میں لیے رہیں گے، چھوٹے بڑے معاملات حکمرانی پر انھی کا حکم چلتا رہے گا، تو ایسی حکمرانی میں دنیا کی صلاح وفلاح کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا، اسلام اور اللہ کی خالص بندگی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم ائمہ کفر و ضلال کی سیادت و قیادت اور امامت و حکمرانی اور باطل نظام کو جڑوں سے اکھاڑ دینے کے لیے اپنی صلاحیت کی آخری حد تک مسلسل اور بھرپور جدوجہد کریں۔ 

حکومت و امامت کی یہ تبدیلی کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی اور انقلاب محض چاہنے، خواہش کرنے اور خواب دیکھنے سے نہیں آئے گی۔ انسانوں پر حکمرانی کے لیے کچھ بنیادی قوانینِ قدرت ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ زندگی کا نظام چلانے کے لیے بہرحال کچھ مردانِ سیاست ضروری ہیںاور اس سیاست و تدبیر کے لیے کچھ صفات و اخلاق درکار ہیں۔ ان اوصاف سے آراستہ ہونا ہر اس فرد اور گروہ کے لیے ناگزیر ہے جو دنیا کے امور کا نظم و انتظام سنبھالنا چاہے۔ یہ بات بھی قوانینِ فطرت میں شامل ہے کہ اگر زمین پر ان صفات و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کا انتظام غیر مومن و غیر صالح لوگوں میں سے جن کو چاہے سپرد کردے لیکن جب امور مملکت اور مسائل حیات کو چلانے کے لیے ان لازمی اوصاف و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ نہ صرف موجود ہو، بلکہ ان ظالموں اور متکبروں سے فائق تر ہو تومشیت ربانی اور قانونِ الٰہی ایسا ظلم پسند نہیں کرتا کہ پھر بھی امور حکمرانی ظالموں اور مفسدوں کے ہاتھ میں رہیں، اور وہ جیسے چاہیں اس کو چلاتے رہیں۔ 

ہماری یہ دعوت صرف امید، تمنا اور دعا تک محدود نہیں ہے کہ ہم اللہ سے گریہ و زاری  کرتے رہیں کہ اللہ ظلم وجور اور فتنہ و فساد کو جڑ بنیاد سے ختم کر کے امور دنیا صالح مومنوں کے ہاتھوں میں دے دے۔ بلکہ ہماری دعوت پوری دنیا اور انسانیت کے لیے ہے کہ ایک اجتماعیت کو منظم کریں جو اللہ ورسولؐ پر ایمان رکھنے والے، اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہوں۔ بلند عادات و خصائل سے متصف اوران قابلیتوں اور اہلیتوں سے نہ صرف آراستہ ہوں، بلکہ کفر و ضلال اور اُن کے حمایتیوں اور مددگاروں سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر یہ صفات رکھتے ہوں، جو اُمورِ دنیا کو چلانے والوں کے اندر لازمی موجود ہونی چاہییں اور حکومت و سلطنت کی بھاری ذمہ داری کواٹھانے اور ادا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 

یہ ہے وہ خالص دینی دعوت جو مائل بہ انحراف و انتہا پسند مسلح قومی تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں ظہور پذیر ہوئی۔ 

ظہور دعوت 

اس دینی دعوت کا ظہور چودھویں صدی ہجری کے چھٹے عشرے (۱۳۶۰ھ) کے پہلے دوبرس میں ہوا۔ یعنی بیسویں صدی عیسوی کے چوتھے عشرے (۱۹۴۱ء )میں۔ اس کی ابتدا ماہنامہ ترجمان القرآن کے اجرا سے ہوئی، جس کے مدیر ه سیّد ابوالا علیٰ مودودی تھے۔ وہ ایک نوخیز نوجوان تھے جن کی عمر ۳۰ برس سے زیادہ نہ تھی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ اس مقصد کے حصول اور اسلام کے نظریہ و فکر کو میدان عمل میں لانے اور لوگوں کے سامنے واضح اور مستند شکل میں پیش کرنے کی غرض سے جاری کیا۔ افکار و آراء کو تقلید وجمود کی گرد سے صاف کرنا اور الحادواباحیت کی آلائشوں سے پاک صاف کرنا بھی اُن کے پیش نظر تھا۔ 

اپنی تحریروں اور کتابوں میں صاحبِ ترجمان القرآن نے سب سے پہلے جس چیزپر توجہ مرکوز کی وہ افکار و نظریات کی تنقیح اور پختہ و صحیح آراء کی غذا فراہم کرنا تھا۔ وہ کئی برس تک پوری یکسوئی کے ساتھ اسی طرز پر کام کرتے رہے۔ وہ افکار و نظریات اور حالات و واقعات کے بھرپور مطالعے کے بعد اپنی رائے قائم کرتے اور پھر اپنی معروضات کو شائع کرتے۔ 

اس مدت میں انھوں نے اپنی پوری توجہ اسلام کے اصلی و صافی مصادر کے مطالعے پر مرکوز رکھی۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو ایسے عصری اسلوب میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے جو اہل زمانہ کے ذوق اور طبائع سے ہم آہنگ تھا۔ اسی طرح انھوں نے خاص طور پر اُن زندیقوں اور ملحدوں کو بے نقاب کیا،جن کو مغرب کی محبت گھٹی میں ملی تھی اور وہ اسی کے عشق میں پلے بڑھے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا متحرک قلم، منکرین حدیث و منحرفین سنت عناصر کے محاکمے کے لیے بھی وقف رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں جمود کے خوگر علماء، فروع میں اُلجھے فقہاء اور بے سروپا مسائل میں پھنسے جہلاء کی لغزشوں اور کج فہمیوں کے محاکمے سے بھی صرفِ نظر نہ کیا گیا۔ 

مختصر یہ کہ ماہ نامہ ترجمان القرآن کے ابتدائی چند برس تصورِ دین کی اشاعت اور دعوت کے اصول و مبادی کو ذہن نشین کرانے کا دور تھا۔ صاحبِ تحریر نے اس کے لیے زمین اور راستہ ہموار کیا اور اُس کامل دینی تحریک کے لیے اسباب مہیا کیے جس کو وہ شروع کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان برسوں میں اُن کی تمام تر جدوجہد اس خالص اسلامی تحریک کا بیج بونے کے مترادف تھیں، جو تحریک ماہ نامہ ترجمان القرآن کے اجرا کے نوبرس بعد ظہور میں آئی۔  

عین اسی دوران جب صاحبِ ترجمان القرآن  اپنے اصول وافکار کی نشرو اشاعت میں مصروف تھے، اور قرآن و سنت سے ما خوذ ومستنبط آدابِ معاشرت، اصولِ مملکت اور مبادیاتِ معیشت کو کھول کھول کر اور نکھار نکھار کر پیش کررہے تھے، قریب تھا کہ لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگتے، اُن کی تحریروں سے متاثر ہو کر ان کی آراء و افکار سے فیض یاب ہوتے کہ، اچانک ۱۹۳۷ء/۱۳۵۶ھ کے سال ہندستان کی سیاست میں ایک نہایت اہم انقلاب رُونما ہو گیا۔ اور صوبوں میں حکومت چلانے کا جزوی اختیار مقامی باشندوں کے پاس چلاگیا اور سات صوبوں میں وزارت و حکومت کے مناصب پر مقامی نمایندے مسند نشین ہوگئے۔ میں اس واقعے کو آتش فشانی کے واقعے کا نام دیتا ہوں، کیونکہ صوبوں میں مقامی باشندوں کو انتقالِ اقتداراور اُن کے نمائندوں اور لیڈروں کا حکومتی مناصب پر فائز ہو جانا حقیقتاً ایک لاوے کا پھٹ جانا تھا۔ یہی چیز قوم پرست اور وطنیت پسند ہندوئوں کے چہروں سے نقاب ہٹانے اور ان کا اصلی چہرہ دکھانے کا باعث بنی۔ اُن کے ناپاک عزائم سامنے آگئے، اور وہ سب طشت اَزبام ہو گیا، جو مسلمانوں کے خلاف وہ اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے تھے۔ 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی لمحے اس لاوے کے خطرناک نتائج اور خوں ریز حادثات سے خبردار کیا۔ مسلمانوں کو ان کی تباہ کن غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنے قلم کو متحرک کیا اور تسلسل کے ساتھ اُس درست راستے کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، جوانھیں اس دنیا میں مہلک حالات سے بچا سکتا تھا اور روزِ قیامت اللہ کے سامنے سرخرو کر سکتا ہے۔ 

مولانا مودودی نے ایک کے بعد دوسرا مضمون اس موضوع پر لکھا اور مضامین کا ایک طویل سلسلہ اس ضمن میں قلم بند کیا۔ ان مضامین میں ہندستان میں مسلمانوں کے ماضی و حال پر گفتگو کی گئی۔ خالص دین کی دعوت کے لیے جدوجہد اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ مسلمانوں کو وطنیت و قومیت دونوں طرح کی غلط سیاست سے بچنے کی تاکید کی گئی۔ ان مضامین کی تحریرواشاعت میں مسلسل تین برس صرف ہوئے۔ اس دوران کوئی دوسری شے انھیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی، نہ کسی کی مخالفت اور دشمنی اس کام سے روک سکی۔ 

 مولانا مودودی کا یہ علمی کام تین اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 

  • پہلا دور: اس میں انھوں نے مسلمانوں کو فریضۂ دعوت اور شہادت حق کی ادائیگی میں کوتاہی کے بارے میں خبردار کیا۔ اس کے نتیجے میں آنے والے وبال اور زوال کو بیان کیا۔  ان کے سامنے ایک مثالی طریقۂ کار پیش کیا، جس کو اختیار کرنا اور اس پر چلنا بہرحال اُن پر فرض تھا۔ 

یوں انھوں نے مسلمانوں کو غلط راستے اور بُرے انجام سے بچانے کی سعی کی، جس سے وہ انڈین نیشنل کانگرس کی ٹیڑھی سیاست کو قبول کرنے کی صورت میں دو چار ہو سکتے تھے۔ 

  • دوسرا دور: اس دور میں مولانا مودودی نے انڈین نیشنل کانگرس، ہندی قومیت پرمبنی اس کی سیاست اور مغربی قومیت اور متحدہ ہندی قومیت کے نظریات کا محاکمہ کیا۔ ان نظریات اور سیاسیات کے خلاف کھل کر لکھا اور ان کی نا معقولیت کو کھول کر بیان کیا۔ ان ہندو عزائم کو بے نقاب کیا، جو انھوں نے آزادی و واحد قومیت کے فریب کن پردوں میں چھپا رکھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے نسلی قومیت اور جغرافیائی قومیت کی غلطیوں کو واضح کرنے کے لیے دلائل و شواہد سے مالامال سلسلۂ مضامین شروع کیا۔ مولانا مودودی کی بات کو جس چیز نے سب سے زیادہ تاثیر و طاقت بخشی، و ہ قدیم و جدید دونوں ماخذوں سے استفادہ، عصری و اسلامی دونوں تہذیبوں پر گہری نظر اور فلسفہ و علوم اور معیشت و سیاست حاضرہ کا وسیع مطالعہ تھا۔ اس طرزِ تحریر نے ان کے دلائل اور موقف میں بلا کی قوت پیدا کر دی تھی۔ اس کے علاوہ انھیں قرآن و سنت پر گہری نظر، اسرارِ شریعت میں گہری بصیرت اور مزاجِ دین کے کامل فہم کی صلاحیت بھی قدرتِ حق سے عطا ہوئی تھی۔ 

اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں کیوں لوگ نے اُن کے افکار و نظریات کا رَد نہ کرسکے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ خاموشی گویا اُن کا مولانا مودودی کے لہجے کی صداقت، دلیل کی قوت اور منہج کی وضاحت کا کھلا اعتراف تھا۔ اس بات کی شہادت افکارِ مودودی کے معتقدین اور ناقدین سب دیتے ہیں کہ مولانا کے یہ مضامین ہی تھے، جنھوں نے ہندی قومیت کے تصور کی کمرتوڑی اور اُس کے اوپر تمام دروازے اور راستے بند کر دیے، جہاں سے وہ لوگوں کے دل و دماغ میں داخل ہو سکتا تھا۔ اگر مولانا کا یہ قلمی و فکری جہاد نہ ہوتا تو مسلم قومی تنظیموں کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ ہندی قومیت کے اس سیلاب کو روک سکتے یا اس دیو کو قابو کر سکتے۔ تحریرِ مضامین کے اس دورثانی میں انڈین نیشنل کانگرس کے فریب میں آنے والے وطنیت پرست مسلمانوں اور مولانا مودودی کے درمیان معرکہ جاری تھا کہ دوسری طرف مسلم رابطہ عوام تحریک نے مسلم قومیت اور جغرافیائی اسلام کے پرچار کا راستہ اپنا لیا۔  

مولانا مودودی نے جب دیکھا کہ دین کے نام پر نسلی قومیت کو بطورِ متبادل پیش کیا جارہا ہے تو ان کا محاکمہ کرتے ہوئے خبردار کیا اور محض نعروں سے حصولِ منزل کے دھندلے نقوش واضح کیے۔ 

  •  تیسرا دور: ان کے سلسلۂ مضامین کے تیسرے دور نے قیام پاکستان میں کردار ادا کیا۔ اس موقعے پر مسلمانوں کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ان مضامین نے مسلم لیڈر شپ کو اپنے طریق کار اور مستقبل کے لائحہ عمل پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیا۔ 

یہ سلسلۂ مضامین تین برسوں (۱۳۵۶ھ- ۱۳۵۹ھ) میں لکھا گیا اور ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ بعد ازاں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش  اور مسئلہ قومیت  کے عنوان سے چار جلدوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اس کتاب کے مشمولات روزنامہ اخبارات اور ہفت روزہ رسائل میں بھی طبع مکرر کی صورت میں شائع ہوتے رہے۔ ہندستان میں کوئی پڑھا لکھا گھرانہ ایسا نہ تھا، جہاں اس سلسلۂ مضامین کا کوئی نہ کوئی حصہ پہنچا اور پڑھا نہ گیا ہو۔ 

جماعت اسلامی کا قیام 

ان مضامین اور اس فکری انقلاب کا جو بیج نوجوان طلبہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کے دل ودماغ میں ڈال دیا گیا تھا، اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا تھا کہ لوگ اس مصنف کے گرد جمع ہونے لگتے اوراس کی فکر سے مستفید ہوتے۔ لہٰذا انھوں نے مصنف سے کہنا شروع کر دیا اور اصرار کرنے لگے کہ وہ اس دعوت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیں اور اس راستے کی جدوجہد میں ان کی قیادت کریں۔  

تاہم، مولانا مودودی نے کسی جلد بازی سے کام نہ لیا بلکہ پہلے تو مسلمان جماعتوں اور تنظیموں کو دعوت دی کہ وہ اس دعوت پر لبیک کہیں، اس کو قبول کریں اور باطل نظریات کے مقابل اس کو پیش کریں۔ نسلی و علاقائی نعروں کے بجائے اقامت دین اور شہادت حق کی جدوجہد اور کوشش میں اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو صرف کریں۔ سید مودودی نے ملک کے طول و عرض میں ایسے تمام لوگوں کو اس طرف بلایا اور انھیں دعوت دی کہ وہ ہر قسم کی عصبیت کو چھوڑ کر اللہ بزرگ وبرتر کے سامنے جھک جائیں اور اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو اسلام کی دعوت اور اس کو اَزسرنو زندہ کرنےمیں صرف کردیں۔ 

اس طرح سیّد مودودی نے مسلمان زعماء، تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہوں اور سیاسی تحریکوں کے لیڈروں کو اس دعوت سے صرفِ نظر کرتے اور فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق کی ادائیگی سے غافل دیکھا، تو اس ذمہ داری کو نبھانے کا عزم کیا۔ اس دعوت کو قائم کرنے کی ٹھان لی اور اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا عہد کر لیا۔ 

پھر سیّد مودودی نے اس بنیادی نکتے سے اتفاق کرنے والوں اور اپنے دل و دماغ میں اس کی استعداد وقدرت رکھنے والوں کو اس اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔ انھیں اس راہ میں پیش آنے والے خطرات اور تکلیفوں سے آگاہ کیا۔ اس طرح کی دعوتی تحریکیں شخصیت پرستی سے انکار اور طاغوت و سرکش لوگوں کو نہ ماننے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، لہٰذا تکلیفوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ناگزیر ہے۔ ایسی تحریکیں طاقت و اختیار اور جبروجبروت کے حقیقی حق دار خدائے واحد اور معبودِ مطلق اللہ کی کامل اطاعت و بندگی اور اس کے احکام و قوانین کے سامنے سر جھکانے کی بنیاد پر وجود میں آتی اور قائم ہوتی ہیں۔  

سیّد مودودی کی اس دعوت پر یکم شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۵؍اگست۱۹۴۱ء کو ۴۲کروڑ آبادی پر مشتمل ہندستان کے طول و عرض سے صرف ۷۵آدمی لاہور میں جمع ہوئے، جنھوں نے اس معاملے پر باہمی غوروخوض اور صلاح مشورہ کیا۔ گہرے غوروخوض اور ہر پہلو سے بحث و تمحیص کے بعد شرکاء اس رائے پر متفق ہوئے کہ ایک جماعت قائم کی جائے، جو اس دعوت کی انجام دہی کا فریضہ ادا کرے ___ یعنی اقامتِ دین کی دعوت اور اس کے لوازمات و تقاضوں میں سے زمین پر قانونِ الٰہی کی تنفیذ، حکومت و معاشرت اور اقتصادیات و اجتماعیت کا نظام، عدلِ اجتماعی اور خوفِ خدا کی بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد اور اس کی دعوت ___یعنی وہ نظام جو اسلام نے پیش کیا اور پوری دنیا کو اس کی پیروی کی دعوت دی۔ یوں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا اور اس روز تک اس دعوت کے تنہا داعی سیّدمودودی اس جماعت کے متفقہ طور پر امیر منتخب کیے گئے۔  

حاضرین نے دستور جماعت کی منظوری دی، جس میں یہ بنیادی شرائط درج کیں کہ جماعت اپنا پروگرام، قواعد و ضوابط، اپنا طریق کار اور سرگرمیاں خالص اسلام کی بنیادوں کے مطابق تشکیل دے گی اور اسی کے مطابق چلائے گی۔ موجودہ جمہوریت یا آمریت، یا موروثی و شخصی مسلمان بادشاہتوں کا شائبہ تک اس میں نہ تھا۔ جماعت کے تاسیسی حاضرین اجتماع کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی نظام کے قیام اور خالص اسلامی قانون کے نفاذ کی داعی جماعت اپنے داخلی ڈھانچے اور سرگرمیوں میں پہلے ہی دن سے خالص اسلامی طریق کار پر چل پڑے۔ 

ارکان کی تربیت اور دعوت کی اشاعت 

جماعت نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز شعبان ۱۳۶۰ھ ہی میں کر دیا اور اسلام کی دعوت اور اس کے خالص اور شفاف اصولوں کی نشرو تبلیغ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں شروع کر دی۔ جماعت دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور حق کی شہادت قولی و فعلی طور پر ادا کرنے کی عام لوگوں کو دعوت دیتی۔ دین کے احکام کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنانے اور لازم کرنے کی تلقین کرتی۔ اس دعوت کولے کر غیرت و حمیت سے سرشار مخلص مسلمانوں کی جو جماعت اٹھی تھی، ان لوگوں نے اپنے ضمیروں کو نفاق اور اعمال و افعال کو تناقض سے پاک صاف کر لیا۔ انھوں نے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے اور رہنے کے عزم کا اعلان کیا۔ جونہی یہ دعوت، دین کے ساتھ مخلص نوجوانوں میں  پھیلی تو وہ کافر حکومت کے مناصب و ملازمتوں سے مستعفی ہونے لگے۔ انھوں نے ظلم و زیادتی کی بنیادوں پر قائم عدالتوں میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے غلط اور ظالمانہ کاروباری معاہدوں کو ختم کر دیا۔ سودی معاملات سے ہاتھ کھینچ لیے۔ 

اس میں سب سے بڑا فیصلہ تو اقامت دین کی راہ میں پیش آنے والے خطرات اور سختیوں کو خوش دلی سے برداشت کرنے کا عزم تھا۔ اس دعوت کے ظہور پذیر ہوتے ہی ان لوگوں نے اپنے قیمتی کاروباروں، مناصب و ملازمتوں اور مالی مفادات کی عظیم قربانی پیش کی۔ پھر ہر جگہ دعوت کا بول بالا ہونے لگا، تو وطنیت و قومیت پسند مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اپنے حجروں اور گوشوں میں بیٹھے مشائخ بھڑک اٹھے۔ دینی مدارس اور عصری جامعات میں تدریس و تصنیف پر اکتفا کرنے والے علماء کے اندر ایک بھونچال آگیا۔ انھوں نے اس دعوت کو لے کر اٹھنے والوں اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں پر ہلاکت و نفرت سے لتھڑے فتوے لگانے شروع کر دیے اور بعض نے ان کو خارجی تک کہنے سے بھی گریز نہ کیا۔ 

اُن ناقدین کے خیال میں اسلام بہت نرم اور سادہ ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو بے دین اور ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے سے منع نہیں کرتا۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سیدنا یوسفؑ نے بھی تو کافر حکومت کا منصبِ وزارت قبول کیا تھا___ تاہم ادھر کچھ ایسے بھی تھے، جنھوں نے اس دعوت کی صداقت کا اعتراف کیا۔ البتہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، لہٰذا اس بات کا امکان و اُمید نہیں ہے کہ خلافتِ راشدہ کی روح کا حامل دور واپس آ سکے۔کچھ ایسے بھی تھے جو کافرانہ عدالتوں، سرکاری ملازمتوں، اور نظام باطل میں بڑے بڑے عہدوں سے استعفا دینے والے مخلص نوجوانوں کے معاشی مستقبل پر رو رہے تھے کہ فقروفاقہ اور تنگ دستی سے ان کا بُرا حال ہو جائے گا۔ 

یہاں تک کہ ایسے بعض نوجوانوں کے والدین نے بیٹوں پر سختی شروع کر دی کہ انھوں نے اللہ و رسولؐ کی اس دعوت پر لبیک کیوں کہا ہے اور جماعت میں شامل کیوں ہو گئے ہیں؟ ان کو گھروں سے نکال دیا گیا، تاکہ وہ کلمۂ حق کہنے اور اس کی دعوت دینے سے باز آجائیں اور اسی جاہلانہ اور غفلت بھری زندگی کی طرف واپس لوٹ جائیں جو وہ پہلے گزار رہے تھے۔ 

کئی سال تک صورت حال اسی طرح رہی، لیکن دعوت روز بروز نشوونما پاتی رہی۔ ارکانِ جماعت اپنے دین کے باعث آزمائے جاتے رہے۔ اس دعوت سے وابستہ افراد کو ابتلا و آزمائش سے گزارا جاتا رہا۔ انھیں مختلف طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا جاتا رہا___ لیکن یہ آزمائش و ابتلا اور آلام و مصائب توان کارکنانِ دعوت کے لیے اللہ کی رحمت تھے۔ اس کے ذریعے ان کے دلوں کا آئینہ شفاف تر ہوتا جا رہا تھا اور ان کے قلب و ضمیر میں ایمان کی چنگاری شعلہ بنتی جا رہی تھی۔ 

مختصر یہ کہ جماعت نے اپنی تاریخ کے ابتدائی برسوں میں دعوت کی نشرواشاعت اور اپنی آواز کوملک کے کونے کونے میں پھیلایا اور شہادت حق کو قولی طور پر احسن طریقے سے انجام دیا۔ اسی طرح جماعت نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا کہ شہادتِ حق عملی طور پر بھی ادا ہو۔ جماعت نے اپنے ارکان کے لیے لازم کیا کہ وہ اپنے اخلاق و معاملات اور تمام اعمال وافعال میں باوقار اور روشن کردار کا مظاہرہ کریں، جو لوگوں کے سامنے اسلام کی بولتی دلیل قرار پائے۔ انھیں جب ان کی دکانوںاور بازاروں میں دیکھا جائے، ان سے کوئی معاملہ کیا جائے، یا مدارس و مجالس میں ان کو آزمایا اور پرکھا جائے، تو ان کا کردار نکھر کر سامنے آجائے۔ انھیں دیکھنے والے کہہ اٹھیں کہ دین جب اپنا پھل دیتا ہے تو اپنے معاملات میں ان جیسے صادقین و صالحین وجود میں آتے ہیں۔ یقینا اس طرح کے کردار پیدا کرنے والا اور ہر دور میں اس طرح کا معاشرہ قائم کرنے والا اللہ کا دین ہی ہو سکتا ہے۔  

اسی لیے جماعت نے اپنے ارکان کی تربیت اور اسلامی آداب و اخلاق فاضلہ پر ان کو تیار کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا۔ اس کے لیے مختلف اور مفید طریقے اور سرگرمیاں اختیار کی گئیں۔ ان میں سے ایک سرگرمی یہ تھی کہ جماعت نے انسانی آبادی اور شہری ہنگامے سے دُور ایک مقام پٹھان کوٹ، مشرقی پنجاب میں اپنا مرکز قائم کیا۔ جماعت نے یہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی بسائی جہاں اس کے دفتری ارکان و کارکنان اور قائدین و ذمہ داران قیام پذیر تھے۔ اس بستی کا نام ’دارالاسلام‘ رکھا گیا۔ 

ارکان جماعت، اس کے معاونین اور اس دعوت کے متاثرین ملک کے ہر کونے گوشے سے آتے اور ایک عرصہ یہاں گزارتے۔ وہ یہاں امیر جماعت اوران کے دیگر ساتھیوں سے علم و عمل کا درس لیتے، دعوت و ارشاد کے طریقوں کی تربیت پاتے۔ یہاں تک کہ جب اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاتے تو علم و تقویٰ کی دولت سے لیس ہوتے، علم و فکر سے سرشار ہوتے اور اللہ کی راہ میں دعوت و جہاد کی راہوں کے متلاشی رہتے۔ 

یوں جماعت اپنے اس طریق کار پر گامزن رہی، جو اس نے اپنے لیے طے کیا تھا۔ تسلسل کے ساتھ اس پر قائم رہی، نہایت وقار کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی کہ کوئی روکنے والا اس کو روک سکتا تھا، اور نہ یہ اظہارِ حق میں کسی ملامت کی پروا کرتے تھے ___ دعوت و تحریک کے اُمور ومسائل اسی طرح جاری و ساری تھے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور مشرقی پنجاب میں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر بڑا قتل عام شروع ہو گیا۔ جماعت کا مرکز چونکہ مشرقی پنجاب میں تھا،لہٰذا اس کے ارکان بھی یہاں بُری طرح اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ہر جگہ سے آکر لوگ ان کے پاس پناہ لے رہے تھے۔ لیکن یہاں کے ارکان جماعت سچے مجاہدین کی طرح کھڑے رہے۔ انھوں نے کوئی کمزوری دکھائی اور نہ اپنی جگہ سے ہلے۔ اللہ تعالیٰ نے حالات کو پلٹا اور امن وسلامتی کے ساتھ لاہور پہنچنے کے لیے سبیل پیدا کی۔ 

یہ تھی قیامِ پاکستان تک جماعت اسلامی کی مختصر تاریخ ___ اسلام کی خالص، کامل اور جامع دعوت لے کر اُٹھنے والی جماعت کی تاریخ۔ (جاری(