ستمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اسلام ،زندگی کا تسلسل اور اجتہاد

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ستمبر ۲۰۲۵ | رسائل ومسائل

Responsive image Responsive image

سوال:  زندگی مسلسل متحرک ہے۔ یہ بڑھتی، گھٹتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ اس کے خول میں بے پناہ لچک ہے۔ اگر اسلام ایک نظامِ زندگی ہے تو کیا اس میں بھی لچک موجود ہے؟ 

جواب: اسلام میں وہ فطری لچک موجود ہے جس کا تقاضا زندگی کرتی ہے۔’اجتہاد‘ اسی لچک کا دوسرا نام ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اسلام زندگی کے ہرگلِ تازہ کی آبیاری کرتا ہے اور ہرنئے اُبھرتے گوشے کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ اسی بناء پر اسلام میں ’اجتہاد‘ کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور ہر زمانے میں اس کی ضرورت رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’اجتہاد‘ کو متضاد مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ 


سوال : وہ متضاد مقاصد کیا ہیں؟ 

جواب :’اجتہاد‘ کا ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو نئے حالات پیش آئیں، ان پر اسلام کے اصول اور احکام منطبق کیے جائیں۔ دوسرا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے جو کچھ مخصوص نظریات اور خواہشات ذہن میں پہلے سے موجود ہوں، ان کے مطابق اسلام کو ڈھالا جائے۔ پہلی قسم کا ’اجتہاد‘ صحیح معنوں میں ’اجتہاد‘ ہے اور ہر دور میں علما اس ’اجتہاد‘ کے قائل رہے ہیں۔ لیکن مؤخرالذکر ’اجتہاد‘ نہ تو اسلامی اصطلاح کے مطابق ’اجتہاد‘ ہے، اور نہ کوئی مسلمان اس ’اجتہاد‘ کا قائل ہے۔ غرض یہ ہے کہ ’اجتہاد‘ کا نازک کام آج کل وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں، جو اس کام کے سرے سے اہل ہی نہیں۔ ’اجتہاد‘ کے لیے خاص قسم کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کی ضرورت ہے۔ 


سوال:  ’اجتہاد‘ کے لیے کس نوعیت کی صلاحیتیں درکار ہیں؟ آخر ہرشخص ’اجتہاد‘ کیوں نہیں کرسکتا؟ 

جواب:  ’اس کام کے لیے بہت سی بنیادی اور ضروری صلاحیتیں درکار ہیں۔ لیکن کچھ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ’اجتہاد‘ کے لیے مغربی قوانین، معاشیات وغیرہ کا علم کافی ہے اور انگریزی ترجموں سے قرآن پڑھ کر اور حدیث و فقہ کو بالائے طاق رکھ کر، بڑی کامیابی سے ’اجتہاد‘ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کا اجتہاد کوئی ایسا شخص نہیں کرسکتا، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کچھ خوف ہو یا، جو اخلاص کے ساتھ مسلمان رہنے کا خواہش مند ہو۔ صحیح معنوں میں اجتہاد کا اہل وہی شخص ہوسکتا ہے، جو عربی میں مہارت رکھتا ہو، زبان کی نزاکتوں کو سمجھ سکتا ہو، قرآن کو اس کی اصل زبان میں نہ صرف سمجھنے کے قابل ہو، بلکہ اپنی عمر کاغالب حصہ اس نے فہم قرآنی کی نزاکتوں کے سمجھنے میں صرف کیا ہو۔ حدیث پر وسیع نگاہ رکھتا ہو، فقہ اسلامی کی تاریخ اور اس کے اصولوں اور مختلف اَدوار کے فقہا کے کام سے واقف ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت کے مسائلِ زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہو۔ 


سوال:  اگر ایک گروہ دوسرے قسم کا ’اجتہاد‘ کرنے لگے اور اسے ملک میں نافذ کرنے پر بھی مُصر ہو تو پھر قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ 

جواب:  پوری قوت سے مزاحمت کرنی چاہیے، کیونکہ ایسے گروہ کا طرزِ عمل لازمی طور پر ملک کو انتشار اور تباہی کے گرداب میں پھینک دے گا۔ یہ مختصر سا مغرب زدہ گروہ جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے ایک نیا دین قوم پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرتا رہے گا اور قوم اس کو دفع کرنے کے لیے زور لگاتی رہے گی۔ اس کشاکش میں ترقی کے راستے پر ہمارا قدم ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے گا۔ 


سوال:  کیا ان حالات میں علما پر بھاری ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ 

جواب:  مجھے آپ کے جذبات کی شدت کا احساس ہے، مگر یہ تو سوچیے کہ علما اس سوسائٹی ہی کے تو فرد ہیں، جس کی اخلاقی حِس قریباً مرچکی ہے۔ ایسے معاشرے میں حق گو، جرأت مند، باضمیر اور ایثارکیش علما کہاں سے آئیں؟ اگرچہ علما کا طبقہ ، دوسرے طبقوں کی نسبت اب بھی کئی اعتبار سے بلندتر ہے، لیکن دین کے لیے جان کی بازی لگانے کا جذبہ بڑی حد تک سرد پڑچکا ہے، کم ہمت معاشرے میں یہ جذبہ زندہ رہ نہیں سکتا۔(سوال و جواب کی مجلس سے(