معروف انڈین جریدے آوٹ لک نے مجھے فلسطین کے محبوس علاقہ غزہ پر آئی نئی آفت یعنی قحط و بھوک پر رپورٹ لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے نوّے کے عشرے کے اوائل میں شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کی تھی۔ کشمیر، شام، فلسطین، آذربائیجان، آرمینیا جنگ، افریقہ، انڈیا کے اندر نکسل واد کے متاثرہ علاقے اور کسی حد تک شمال مشرقی ریاستوں میں جنگ و شورش کو کور کیا۔
آوٹ لک کی اسٹوری کے لیے جب میں نے غزہ میں ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ وابستہ والینٹر دوست کو فون کیا، جن کے ساتھ خبروں کے حوالے سے پچھلے دوبرسوں سے ایک تعلق بن گیا تھا، تو کئی بار پیغامات بھیجنے اور کال کرنے کے بعد جب انھوں نے فون اٹھایا، تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں دور سے سرگوشیوں میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’برادر، میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جیسے ہی ایک روٹی ملتی ہے، آپ کو فون کروں گا‘‘ (پھر ان کا فون کبھی نہیں آیا، اور میں نے دوبارہ کال کرنے کی ہمت نہیں کی)۔
میں دیر تک فون تھامے بیٹھا رہا کہ وہ آواز سُن کر سُن ہوگیا تھا۔ حیران صرف اس کے الفاظ پر نہیں تھا، بلکہ اس وقار پر بھی تھا جس کے ساتھ اس نے وہ جملہ ادا کیا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ بھوکے انسان سے مجھے خبر مانگنے کا کیا حق بنتا ہے؟ اُس لمحے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی جتنی کبھی کسی فوجی ناکے پر تلاشیاں دیتے ہوئے نہیں ہوئی ہے۔ اس ایک لمحے، میں رپورٹر نہیں رہا، بلکہ ایک اخلاقی انہدام کا گواہ بن گیا۔ غزہ کا منظرنامہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ اب غزہ کی رپورٹنگ، گولیوں کے زاویوں، جارح قوت کی وحشت، جنگ بندی کے ڈرامے یا مذاکرات کے سفاکانہ ناٹک بارے میں نہیں، بلکہ بھوک کے بارے میں ہے اور پوری دنیا سمیت ’اقوام متحدہ‘ اور ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے شرم سے عاری رویوں کے بارے میں ہے۔آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ نام نہاد دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔
پھر اس تحریر کے لیے میں نے ۲۸ سالہ ابو رمضان سے بات کی، جو غزہ کے شہر النصر کے رہائشی ہیں۔ اُن کی گفتگو تلخی اور بے یقینی سے لبریز تھی۔جب میں نے انتہائی ڈھٹائی سے پوچھا کہ ’’آج کیا کھاؤ گے‘‘؟ تو اُنھوں نے جواب دیا:’’افسوس کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کھانا کہاں سے لائیں گے؟ ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔ کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا، کبھی بالکل کچھ نہیں۔ کبھی تلخ زعتر میں ڈوبا ہوا نوالہ، اور —وہ بھی اگر زعتر میسر ہو‘‘۔
میں نے پوچھا کہ ’’بھوک کی اس کیفیت کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟‘‘ وہ لمحہ بھر رُکے، پھر ایسا جواب دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا: ’’یہ ایسے ہی ہے جیسے دل میں خنجر مارا جائے اور ہاتھ بندھے ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے، تڑپتے اور روتے دیکھتے ہیں مگر انھیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کر پاتے۔ تسلی کا کوئی لفظ نہیں —بس خاموشی رہ جاتی ہے۔ جیب میں پیسے ہیں لیکن خریدنے کو کچھ نہیں۔چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں۔ بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب کھانا تیار ہوجائے گا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا:’’امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز’موت کے پھندے‘ ہیں۔ جب وہاں جاتے ہیں، تو بھروسا نہیں ہوتا ہے کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے‘‘۔سب جانتے ہیں کہ امدادی مراکز کے سامنے خطرات ہیں۔ یا تو آٹے کا سفید تھیلا لے کر واپس آؤ گے، یا سفید کفن کی تلاش میں اپنی لاش چھوڑ کر آئو گے، مگر اس کے باوجود وہاں جانا پڑتا ہے کہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا: ’’غزہ میں میں بھوک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اب ایک بند گلی بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی مہارت اور ان کی لگن بھی مثالی ہے۔ لیکن جب مسلسل محاصرہ اور مکمل محرومی ہو، تو ڈاکٹر کیسے کسی مریض کو غذا کھانے کا لکھ سکتا ہے کہ جس نے ہفتوں سے کھانا نہیں دیکھا؟‘‘
ابو رمضان بتا رہے تھے: ’’یہ سست موت ہے۔ اور ہم سب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اُمڈتا اور انسانی جانوں کو اُچکتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں: ’’مگر اس کے باوجود انسانوں میں بھلائی باقی ہے۔اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو،جو کبھی اضافی نہیں ہوتا، وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے، اس یقین پر کہ کل وہی نیکی واپس ملے گی۔ ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں۔ اگر ایک شہید ہو جائے تو دوسرا دونوں گھروں کے لیے لے آتا ہے، تاکہ دونوں خاندان زندہ رہ سکیں۔ لیکن زندہ رہنے میں کیا باقی بچا ہے جب ’زندگی‘کا تصور ہی چھین لیا گیا ہو؟‘‘
ابو رمضان نے مجھے بتایا:’’یہ جینا نہیں، یہ صرف بچنا ہے۔ ہر چیز بدل گئی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی عادتوں سے لے کر ہمارے باطن تک۔ جب سے بھوک نے قبضہ کیا ہے، آئینے میں دیکھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ ہمارے چہرے ہمارے جیسے نہیں لگتے ، بس کھوکھلے ڈھانچے اور تھکے سائے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورت حال کا ادراک نہیں ہے۔ میڈیا کوریج کے باوجود، کوئی نہیں سمجھتا۔ اگر سمجھتے ، واقعی ہمیں دیکھتے ، تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی‘‘۔ میں نے جب پوچھا کہ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ تو ان کی آواز میں تلخی اُمڈی: ’’بس دنیا والوں کو کہیں کہ جا گ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر لعنت بھیجے۔ ایک دن تم خود ہم سے بھی بدتر حالت میں کھانے کے محتاج ہوگے۔ قیامت کے د ن ہم یہی گواہی دیں گے‘‘۔
’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (Medecins Sans Frontieres: MSF) کی ایک تازہ رپورٹ میں ’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘ (GHF)کو، جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے، ’ظلم کی تجربہ گاہ‘قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر۱۸۰۰ ہلاکتیں درج کی گئیں۔ ۱۰۰ کے قریب بچوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ بعض کو سر یا سینے میں۔ زخموں کی نوعیت —سر اور سینے میں زخم —ثابت کرتی ہے۔ امدادی مراکز ہدف اور ذلت کے میدان بن چکے ہیں، جن کی حفاظت امریکی نجی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں کہ پیغام صاف ہے: ’بھوکے مرو، یا کھانے کے لیے کوشش کرتے مرو‘۔ٹی وی پر امدادی ٹرکوں کی تصاویر چلتی ہیں، مگر زمین پر حقیقت مختلف ہے۔
مارچ ۲۰۲۵ء سے، جب اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے دوران امداد کی ناکہ بندی کی، خطے کو ایک منصوبہ بند طریقے سے ’قحط کی موت‘ کے مذبح خانے میں جھونک دیا گیا۔
غزہ کی صحافی راشا ابوجلال لکھتی ہیں: امدادی ٹرک بھی راستے میں لُوٹ لیے جاتے ہیں یا چند گروہوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔غزہ کی ضروریات کے لیے روزانہ۵۰۰/۶۰۰ ٹرک درکار ہیں۔مگر اسرائیل ۱۰۰ سے بھی کم ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ چھ بچوں کے باپ خالد تنیرہ کہتے ہیں:’’یہ امداد سب تماشا ہے۔ ایک فوجی طیارے نے سات فضائی غباروں سے آٹے کے تھیلے ہمارے محلے کے اوپر گرائے۔ ہزاروں لوگ ان پر ٹوٹ پڑے، —حالانکہ وہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے بھی کافی نہ تھا‘‘۔
صحافی ابو جلال اپنی حالت زار بتاتی ہیں: ’’دو دن سے امدادی کھانے کا انتظارکرنے کے بعد میں نے ۲۵ ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا، جو مشکل سے ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ اب شیر خوار بچوں کا دودھ ۸۰ ڈالر فی ڈبہ ہے، جو پہلے ۱۰ ڈالر تھا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کھلا رہی ہیں‘‘۔ غزہ کے کالم نگار طلال اوکل لکھتے ہیں:’’جب تک امدادی رسائی بہتر نہیں ہوتی اور سیکیورٹی بحال نہیں ہوتی، بھوک مزید افراد کو ہلاک کردے گی‘‘۔ بین الاقوامی فضائی ڈراپ تماشے کو ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے ایک ’بے اثر اور خطرناک‘بتایا ہے۔
ایک نرس نے بتایا: ’’امدادی جگہوں پر ایک پانچ سالہ بچہ ہجوم میں کچلا گیا، اس کا چہرہ دم گھٹنے سے نیلا پڑ گیا تھا۔ ایک آٹھ سالہ بچے کے سینے میں امداد لیتے ہوئی گولی لگی۔ ہم صرف چند زخمیوں کا علاج کر پاتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں رہی۔ جنگ کے علاوہ کچھ اور ہے، جنگ سے بھی زیادہ لرزہ خیز ہولناک اور تباہ کن ‘‘۔ ۴۲سالہ خدیجہ خدیر کہتی ہیں:’’میرے چار بچے بھوک سے سکڑ رہے ہیں۔ ہم تین چار روز کے بعد ایک روٹی کھاتے ہیں اور غزہ میں یہی آج کل ایک ’عیاشی‘ ہے‘‘۔
غزہ میں میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسماعیل الثوابتا کا کہنا تھا: ’’قحط براہِ راست اسرائیلی فوجی محاصرے کا نتیجہ ہے۔ برسوں سے کھانے، ایندھن اور دواؤں کی منظم پابندی، اور تقسیم کے راستوں کی بار بار توڑ پھوڑ نے صورت حال بگاڑ دی ہے۔ محفوظ رسائی ناممکن ہوگئی ہے۔ خطے میں بدترین قحط شروع ہو چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ۲۶ جنوری، ۲۸ مارچ، اور ۲۴مئی ۲۰۲۴ءکو واضح حکم دیا کہ اسرائیل ’بلارکاوٹ‘انسانی امداد کی رسائی یقینی بنائے اور شہریوں کی حفاظت کرے۔ مگر اسرائیل اب بھی گذرگاہیں بند رکھتا ہے، امدادی اور رفاہی کام روکتا ہے، اور تقسیم مراکز کو نشانہ بناتا ہے‘‘۔میں نے ان سے پوچھا: ’’مغربی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟‘‘ تو فلسطینی رہنما کا کہنا تھا:’’ زیادہ تر نے اسرائیل کو عسکری و سیاسی سہارا دیا ،یا اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اس سے رکاوٹیں قائم رہیں۔ انھوں نے نہ گزرگاہیں کھولیں اور نہ عدالتی احکام منوائے‘‘۔
میں نے اسماعیل الثوابتا سے پوچھا: ’’آپ کے گھرانے نے آج اور اس ہفتے کیا کھایا؟‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’کئی روز کے بعد آج ہم کو دال کا سوپ نصیب ہوا ہے۔ چند روز قبل تھوڑے سے چاول پانی کے ساتھ حلق سے اتارے تھے۔ یہ میری زندگی کا سب سے کڑا لمحہ ہے ۔گھر میں بیٹی روٹی مانگتی ہے مگر روٹی کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی اکثر سر، گردن اور ٹانگوں میں گولیاں مارتے ہیں۔ لوگ تھوڑی تھوڑی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک کلو پھلیاں دس لیٹر پانی میں اُبال کر کئی گھروں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ یہ یکجہتی ابھی باقی ہے۔ محاصرے اور روزانہ ہلاکتوں کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ فلسطینی لیڈر نے بتایا:’’میں نے پچھلے دوماہ میں ۱۶کلو وزن کھو دیا۔ میرے کزنز مازن نے ۵۱ کلو، اور ماہر نے ۴۶کلووزن کھو دیا ہے‘‘۔
بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔اسرائیل اور امریکا نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اسرائیلی ٹرک ان کی اپنی زمین پر روٹیاں لائیں اور ان کو جاں بہ لب فلسطینی اور بھوک سے لاچار آبادی کے سامنے پھینک کر ان کا تماشا دیکھیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا دل چاہا تو فائرنگ شروع کردی۔ اتنی تذلیل کوئی قوم برداشت کیسے کرسکتی ہے؟
بطور صحافی لکھتے لکھتے میرا قلم رُک جاتا ہے۔ بھوک نے الفاظ چھین لیے ہیں۔ اس باپ کے دُکھ کے مداوے کے لیے کیا لکھوں جو اپنے بچے کو سُوکھتے ہوئے دیکھ کر کڑھتاہے۔ وہ ماں جس نے پانی کا برتن چولہے پر رکھا ہے اور بچے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں، یا اس نوجوان کے خون کا بدلہ جس کی جان کی قیمت بس آٹے کاتھیلا تھا۔ جب آنے والی نسلیں یہ باب پڑھیں گی تو وہ یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینی کیوں غصے میں تھے؟ وہ پوچھیں گی: دُنیا کیسے کھانے کھاتی رہی؟___ یہ قحط صرف خوراک کا نہیں، اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔