فرزانہ چیمہ


سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر، مبلّغ اور تعلیماتِ اسلام کے ایک منفرد استاد ہیں، جن کی زندگی گھر کے اندر اور گھر سے باہر یکساں تھی۔ ان کی قائم کردہ تحریکِ اسلامی کے اثرات عالمی سطح پر دنیا کے کونے کونے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے  لیکن یہ مختصر سی تحریر سیّد مودودیؒ کی خوب صورت شخصیت کی یاد تازہ کردے گی۔

یہ سطور رمضان المبارک میں سپردِ قلم کی جارہی ہیں۔ ایک دن خیال آیا کہ معلوم کیا جائے مولانا مودودیؒ رمضان کیسے گزارتے تھے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ ان کی منجھلی صاحب زادی اسماء مودودی صاحبہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے نہایت شفقت سے بتایا: ابا جان روزہ کھجور سے افطار کرتے، پھر کٹورا بھر شربت پیتے اور نمازِ مغرب پڑھنے چلے جاتے۔ پانی ہمیشہ کٹورے میں پیتے جو تانبے کا تھا جس پر قلعی کرکے استعمال میں لایا جاتا۔ ہاں، دعوت وغیرہ کے موقع پر مہمانوں کے ساتھ گلاس میں پانی پی لیتے لیکن گھر کے اندر ہمیشہ کٹورا ہی استعمال کرتے۔ افطاری کے لوازمات نہیں کھاتے تھے۔ نماز کے بعد کھانا کھا کر دوائیاں وغیرہ کھاتے۔ عشاء کی نماز کے فرض خود پڑھاتے، جب کہ تراویح حافظ زاہد صاحب پڑھاتے۔ یہ بہت صاف صاف قرآن پڑھا کرتے۔ تراویح کے بعد وتر اباجان ہی پڑھاتے۔ رمضان المبارک میں عصری مجلس نہیں ہوتی تھی۔ ابا جان نمازِ عصر سے لے کر مغرب تک اپنے کمرے میں تلاوتِ قرآن پاک کیا کرتے___ اتنی خوب صورت تلاوت کیا کرتے کہ میں دروازے کے ساتھ لگ کر کافی دیر تک سنتی رہتی___ اب افسوس ہوتا ہے کہ ان کی تلاوت ریکارڈ کیوں نہ کرلی۔

ابا جان روزے کا وقت ختم ہونے سے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سحری پہلے کھالیا کرتے۔     ہم بہن بھائی جب روزہ رکھنے اُٹھتے تو ابا جان سحری کر کے اپنے کمرے میں جاچکے ہوتے تھے۔ اس جلدی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک گردہ ہونے کے سبب ڈاکٹروں نے کوئی ۱۶،۱۷ گلاس پانی پینے کی ہدایت کررکھی تھی۔ اب اس مقدار کو پورا کرنے کے لیے وہ اختتامِ سحر تک پانی پیتے رہتے۔ آخری برسوں میں جب انھیں جوڑوں کا درد اور دوسرے عوارض بھی لاحق تھے تو ڈاکٹروں نے روزہ رکھنے سے منع کر دیا تھا۔ تب ابا جان دوپہر کا کھانا کمرے میں اس طرح کھاتے کہ کھڑکیوں پر پردے گرا دیتے۔ کہا کرتے کہ مجھے کھاتے ہوئے آسمان بھی نہ دیکھے___ سبحان اللہ! احترامِ رمضان کا ایسا خیال۔

مولانا مودودیؒ کے بارے میں حمیرا مودودی کی کتاب: میرے والدین! شجرہاے سایہ دار بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کتاب میں اپنی شادی کے بارے میں ایک دل چسپ سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے کہا کہ میری شادی ۳۴سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ پھر سوال ہوا: اتنی دیر سے کیوں؟ تو فرمایا: ’’میرے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس لیے میں اسے مسلسل ٹالتا رہا۔ آخر ایک روز خیال آیا کہ ۱۴سال کی عمر تھی جب والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا لیکن آج تک اللہ تعالیٰ دیے جا رہا ہے، آیندہ بھی وہی اسباب پیدا فرمائے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ نسبت تو پہلے سے طے تھی اور مسلسل تقاضے کے باوجود میں ہی ٹالتا چلا آرہا تھا۔ جب میں نے اپنا ارادہ والدہ محترمہ پر ظاہر کیا تو انھوں نے فوراً ہی میری شادی کا انتظام کر دیا۔ میری اہلیہ میری خالہ زاد بہن ہیں اور بڑی صاحب ِ قناعت خاتون ہیں۔ کئی برس تک ہماری یہ حالت رہی کہ دو دن سے زیادہ کے اخراجات ہمارے پاس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے باوجود اہلیہ کے رکھ رکھائو اور سلیقہ شعاری سے کسی کو یہ احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم تنگ دستی کی حالت میں گزربسر  کر رہے ہیں۔ بہرحال خدا کے فضل و کرم سے کسی کے زیربار احسان ہونے کی نوبت نہیں آئی‘‘۔

ملکی حالات سے لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا: ’’میرے پاس تو مایوسی آج تک کبھی نہیں پھٹکی بلکہ یہ لفظ   میری لغت ہی سے خارج ہے۔ دوسرے لوگ جو مایوس ہورہے ہیں میں ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ہمیشہ اللہ سے اچھی اُمیدیں رکھتے ہوئے حق و صداقت کو سربلند کرنے کے لیے جان توڑ جدوجہد کرتے چلے جائو، اور اپنی طرف سے کوشش کا حق پوری طرح ادا کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ ضروری نہیں ہے کہ تمھاری خدمت کے نتائج تمھارے جیتے جی برآمد ہوجائیں۔ تم اگر ایک حق پرست کی طرح اپنا فرض انجام دیتے ہوئے مر بھی جائو تو تمھاری حیثیت اس شخص کی سی ہوگی جو حج کے لیے گھر سے نکلے اور دورانِ سفر ہی اس کی زندگی کا آخری وقت آجائے۔ جس طرح وہ حج کے   ثواب سے محروم نہ رہے گا اسی طرح تم بھی راہِ حق کی جدوجہد کے ثواب سے محروم نہ رہو گے‘‘___ بڑی سے بڑی اُلجھن کو کیسے چند جملوں میں حل کر کے سائل کو مطمئن کر دیا کرتے تھے سیّد مودودیؒ!

آیئے! ان کے چند اقوال سے قلب و ذہن کو شادکام کریں:

  •           ہر وہ حکومت اور ہر وہ عدالت باغیانہ ہے جو خداوندعالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے قانون کے بجاے کسی اور بنیاد پر قائم ہو۔
  •           مسلمان صدیوں تک قلم اور تلوار کے ساتھ فرماں روائی کرتے کرتے تھک گئے۔ ان کی روحِ جہاد سرد پڑ گئی، قوتِ اجتہاد شل ہوگئی۔ جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور   عمل کی قوت بخشی تھی اس کو انھوں نے محض ایک متبرک یادگار بناکر غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا۔
  •       شیطانِ نفس کا ایک دوسرا ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان کے ذریعے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہیں۔ کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہے مگر دل کا چھپا ہُوا چور آواز کی حلاوت، لہجے میں گراوٹ پیدا کیے جا رہا ہے۔ قرآن اس چور کو پکڑلیتا ہے۔
  •     دورِ جدید کے فتنوں میں سے یہ ’ماہرین خصوصی‘ کا فتنہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل پر مجموعی نظر کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ انسان مختلف علوم و فنون کے یک چشمی ماہرین کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔
  •      دین اور اقامتِ دین کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو محض پوجاپاٹ اور چند مذہبی عقائد کا مجموعہ نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ ’دین‘ طریقِ زندگی اور نظامِ زندگی کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔

 

مولانا مودودیؒ بلاشبہہ عصر حاضرکے ان عظیم مفکرین میں سے تھے‘ جنھوں نے اپنی فکر‘ اپنی سوچ‘ اپنی تحریر اور اپنی قیادت سے نوجوان طبقے کو خدمت اسلام کے لیے سب سے زیادہ متأثر و متحرک کیا۔ آج مسلم دنیا میں جہاں کہیں اسلامی تحریک کا احیا ہے یا وہ فعال طور پر سرگرم کار ہے‘ تو وہ کسی نہ کسی صورت میں سید مودودیؒ ہی کے پیغام و تحریک کا پرتو ہے۔ جہاں جہاں کفر و شرک کے  جو رواستبداد کے خلاف جہاد کا علم بلند ہے‘ وہاں وہاں بالواسطہ یا بلا واسطہ سید مودودیؒ ہی کی فکر و تحریک کام کر رہی ہے۔

سید محترمؒ محض کتابی دنیا کے انسان نہیں تھے‘ نہ وہ محض دھیمے لہجے میں تقریر کرنے والے   گفتار کے غازی ہی تھے۔ انھوں نے قلم‘ کتاب اور خطاب سے بھرپور رشتہ جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان افکار و خیالات اور فلسفۂ اسلامی کو عملی طور پر ایک تحریک کی صورت میں برپا کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ اسلامی فکر کے نتیجے میں صدیوں پہلے کی طرح آج بھی ایک اسلامی معاشرہ‘ ایک اسلامی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔

بلاشبہہ سید مودودیؒ کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے ملک وملت کے سیاسی‘ معاشرتی اور علمی و فکری محاذ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور وطن ِ عزیز کے ہر طبقے کو متاثرکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علموں سے لے کر اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ کسان‘ محنت کش‘ تاجر‘ سیاسی رہنما‘ صحافی‘ خواتین‘ طالبات حتیٰ کہ بچوں تک میں جماعت کے ہم خیال حلقے بحسن و خوبی کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے کے رکن‘ متفق یا حامی یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودی مرحوم نے انھیں دین کی لگن‘ سمجھ اور عمل کرنے کا ماحول فراہم کر کے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ یہ سب اپنی حد تک بجا ہے اور بہت خوب ہے لیکن میرے نزدیک ایک مسلمان عورت کو اس کی گم شدہ منزل کی راہ دکھا کر سید صاحب نے   عظیم ترین کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس لیے کہ عورت اپنے گھر ہی کونہیں‘ بلکہ پوری قوم کو بگاڑ سکتی ہے اور خالق دو جہاں نے اس سب کو سنوارنے کی بھی اس میں بدرجۂ اتم صلاحیت رکھی ہے۔ اسی لیے پاک بازبیوی کو سب سے بڑی نعمت کہا گیا ہے۔

مولانا مودودیؒ ، عورت کے کردار کی اس اہمیت کو پوری طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ تحریک اسلامی میں خواتین کے کردار سے متعلق ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا: ’’بہنو! ہمارے اس کام میں عورتوں کی شرکت اور تعاون کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کی شرکت اور تعاون کی ہے۔ انسانی زندگی میں آپ برابر کی حصے دار ہیں اور زندگی کے جو پہلو آپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ ان پہلوئوں سے کسی طرح بھی اہمیت میں کم نہیں جو مردوں سے تعلق رکھتے ہیں --- یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی بنا پر ہر اجتماعی تحریک‘ عورتوں کی شرکت اور تعاون کو اہمیت دینے پر مجبور ہے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ اسلامی تحریک تو اس کو بہت ہی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اسلام ٹھیک ٹھیک خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے مطابق انسانی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے عورتوں کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کا درست ہونا‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام جس خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے وہ عورتوں کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا ہے۔ وہ جس دین کو حق کہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی حق ہے۔ جس نجات کو مقصود قرار دیتا ہے اس کی ضرورت عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کے لیے ہے۔ اور جس جنت کی امید دلاتا ہے وہ عورتوں کو بھی اپنی ہی کوشش سے مل سکتی ہے جس طرح مردوں کو اپنی کوشش سے … اسلام کا تقاضا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو یکساں اپنی اپنی نجات کی فکر ہو‘ ہر ایک دل و جان سے وہ خدمات بجا لائے جو اسے خدا کی سزا سے بچائے اور اس کے انعام کا مستحق بنائے … اس وقت عورتوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو‘ اپنے خاندان اور اپنے ہمسائیوں اور اپنے ملنے جلنے والوں کے گھروں کو شرک و جاہلیت اور فسق سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ گھروں کی معاشرت کو اسلامی بنائیں۔ پرانی اور نئی جاہلیتوں کے اثرات سے خود بچیں ا ور دوسرے گھروں کو بچائیں۔ ان پڑھ اور نیم خواندہ عورتوں میں دین کی روشنی پھیلائیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کے خیالات کی اصلاح کریں۔ خوش حال گھروں میں خدا سے غفلت اور اصول اسلام سے انحراف کی جو بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو روکیں۔ اپنی اولاد کو اسلام پر اٹھائیں۔ اپنے گھروں کے مردوں کو‘ اگر وہ فسق اور بے دینی میں مبتلا ہوں‘ راہ راست پر لانے کی کوشش کریں‘ اور اگر وہ اسلام کی راہ میں کوئی خدمت کر رہے ہیں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کا ہاتھ بٹائیں ‘‘۔ (خطاب اپریل ۱۹۴۷ئ‘ روداد جماعت اسلامی‘ ح ۵‘  ص ۱۰۷)

جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے مولانا مودودیؒ کی ان ہدایات پر اس طرح لبیک کہا کہ ان کی زندگیاں‘ ان کی دوستیاں‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے سماجی تعلقات کی دنیا‘سبھی کچھ بدل کر اسلام کے سانچے میں ڈھل گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین نے مولانا کے لٹریچر سے اور ان کی قیادت سے ایسے ایسے زرّیں اصول اخذ کیے کہ نہ صرف ان کے اپنے اندر کی دنیا جگمگا اُٹھی‘ بلکہ اس روشنی سے انھوں نے اپنے اپنے ماحول اور اپنے اپنے حلقہ اثر کو بھی منور کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی۔ جماعت کے حلقۂ خواتین میں شامل ہو کر نسلی مسلم خواتین نے شعوری طور پر اسلام کو اس  لگن اور جذبے سے قبول کیا‘ کہ نمازوں میں لطف آنے لگا‘ قرآن پاک کی تلاوت کے کچھ اور ہی مفاہیم آشکارا ہونے لگے۔ ایثار اور قربانی کے جذبے کی آبیاری اس طرح کی‘ کہ ’پہلے آپ‘ کا زریں اصول یہیں پر جانا اور برتنا دیکھنے کو ملا۔ اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی خود بخود پیدا ہوتی گئی۔ چنانچہ غیر دین دار رشتہ دار دلی محبت میں دوسرے درجے پر چلے گئے‘ لیکن غیر‘ مگر دین دار لوگ دلی محبت کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح مولانا مودودی ؒنے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور خاندانوں کو ایک دینی معاشرت کی طرف نہ صرف بلایا‘ بلکہ ایک شفیق اور خلیق معاشرت بھی تشکیل دے کر دکھا دی۔

ان پڑھ خواتین نے ایک دینی جذبے سے اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا‘ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ تفہیم القرآن پوری پڑھ ڈالی۔ مولانا محترم کا لٹریچر پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہن نشین بھی کر لیا۔ یہ اللہ کے دین کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک انوکھی لگن تھی‘ کہ جو شروع ہوئی۔

چند بنیادی ارکان خواتین جہاں بھی گئیں‘ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان عظیم دین دار خواتین میں: محترمہ حمیدہ بیگم‘ بیگم سید مودودی‘ بیگم انوار اصلاحی‘ بیگم ملک غلام علی‘ اُمِّ زبیر‘ زبیدہ بلوچ‘ بلقیس صوفی‘ نیر بانو‘ بیگم طفیل محمد‘ بیگم نصراللہ خان عزیز‘ مجتبیٰ مینا‘ بیگم زہرہ وحید وغیرہ‘ یہ سب جماعت ا سلامی کے ابتدائی دور کی تحریکی خواتین تھیں۔ ان میں بعض رکن نہیں تھیں‘ لیکن دعوتِ دین کے کام میں ارکان خواتین کے شانہ بشانہ تھیں۔ اس طرح کارواں بنتا چلا گیا اور      حلقۂ خواتین پھیلتا چلاگیا۔ حق تعالیٰ کی یہ بات کتنی وسیع ہے : وہ اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی ]باریک سی[ سوئی نکالی۔ پھر اس نے اسے قوی کیا۔ پھر وہ کھیتی اور موٹی (سرسبز و شاداب) ہوئی۔ پھر اپنے اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑی ہو گئی‘ تاکہ کسانوں کو بھلی لگے ]ان کے لیے خوش منظر ہو اور کافروں کو جلائے کہ اس کی شادابی ان کی امنگوں کے لیے پیغام موت ہے[۔

حلقۂ خواتین جہاں جہاں بھی کام کر کے اخلاص کے بیج ڈالتا گیا‘ وہاں وہاں اخلاص و وفا کی لہلہاتی فصلیں دنوں میں اُگ آئیں اور بہار بن کر دیکھنے سننے والوں کو مسحور کرتی گئیں۔ لاہور میں  آپا جی محمدی بیگم کا گھر ۱۹۹ شاد باغ‘ ملتان میں آپا جی صغریٰ کا مسکن ۸۵ حسن پروانہ روڈ‘ سیالکوٹ میں آپا جی نیر بانو کا بیت المسلم‘ کراچی میں آپا جی ام زبیر اور آپا جی بلقیس صوفی کے گھر ‘ڈھاکہ میں  محترمہ لمعت النور صاحبہ کی قیام گاہ -- ا ور نہ جانے کون کون سے خوش بخت گھر انوںکی خواتین تھیں۔ یہ سب گویا حلقۂ خواتین کے ہیڈکوارٹر تھے۔ ہر موقع پر ہنگامی صورت حال میں اور پھر معمول کے دنوںمیں‘ غرض ہمیشہ ہی ان گھروں کے دروازے عام خواتین کے لیے کھلے رہتے اور ان کے مکینوں کے چہرے محبت و اخلاص سے کِھلے رہتے ۔ ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا محترم کا گھر تو دین کی راہوں پر چلنے والی خواتین کے لیے گویا دوسرا میکہ تھا‘بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ کیونکہ میکے میں تو کچھ دوسرے خوشگوار اور ناخوشگوار موضوع بھی زیربحث آتے ہیں‘ لیکن یہ میکہ تو آخرت کے گھر تک کامیابی کا راستہ بتانے والا تھا۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے اور ہر تربیتی موقع پر خواتین نہایت اعتماد اوراپنائیت سے بیگم محمودہ مودودیؒ کے توسط سے مولانا محترم سے رہنمائی لیا کرتیں۔

خواتین نے سماجی زندگی میں ایک نئے کلچر کو اختیار کیا۔ کپڑوں اور جوڑوں کے تبادلے یا ان کے رنگوں کے مقابلے اور امارت کی دھونس کے بجاے زندگی گزارنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دینی کتب اور بچوں کے لیے اصلاحی لٹریچر کے تحفے دینے کا کلچر عام ہوا۔ مجھے مردوں کے حوالے سے تو علم نہیں‘ تاہم خواتین کارکنان کے حوالے سے معلوم ہے کہ ان کے وسائل کا ایک بڑا حصہ ذاتی سطح پر کتب خرید خرید کر لوگوں کو تحفے میں دینے میں صرف ہوتا ہے۔ خطبات‘ دینیات‘ ترجمہ قرآن‘ تفہیم القرآن اور محمد یوسف اصلاحی صاحب کی آدابِ زندگی کو پڑھنے اور اسے تقسیم کرنے کا ایک شوق ہے کہ جو کبھی کم نہیں ہوتا۔ کیا کسی اور صوفی یا مذہبی حلقے میں بھی ایسی سرگرمی اور اتنے بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آتی ہے؟ --- یہ سب سید مودودیؒ کی اس فکر کا نتیجہ ہے کہ دین اور اصلاح کی راہوں میں عورت رہنمائی کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے‘ مگر افسوس کہ اس خدمت کا ادراک کم لوگوں کو ہے۔

حلقۂ خواتین کے قیام کے تقریباً ۲۸ برس بعد ]ستمبر ۱۹۶۹ء میں[ اسلامی جمعیت طالبات کا وجود عمل میں آیا‘ جس کی پہلی ناظمہ اعلیٰ محترمہ شکورہ آفتاب اور پہلی ناظمہ صوبہ پنجاب ڈاکٹر اُمِّ کلثوم تھیں۔ یوں خواتین کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی طالبات بھی فکر و فہمِ اسلام کا گراں قدر سرمایہ سمیٹتی رہیں اور دوسروں کو بھی اس صراط مستقیم پر لانے کے لیے دل و جان سے کوشاں رہیں۔

یہ اسلام کے صحیح فکر و فہم اور اس سے محبت ہی کی کرشمہ سازی ہے‘ کہ سیدھی سادی خواتین رزق حرام و حلال کے بارے میں سخت حساس ہو گئیں‘ اور ہر میدان میں ان کی کارکردگی نمایاں ہوتی گئی۔ تحریری محاذ‘ سیاسی محاذ‘ خدمتِ خلق‘ تعلیم و تربیت‘ غرض کہیں بھی تو انھوں نے مایوسی‘ کم ہمتی‘ بے چارگی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ تحریری میدان میں پہلے ماہنامہ عفت پھر ماہنامہ بتول اور بچوں کے لیے ماہنامہ نور کا    اجرا کیا۔ ’ادب براے زندگی اور زندگی براے بندگی رب‘ کی خوب صورت اور مستقل بنیاد پر قلم کار خواتین کو تلاش کیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں اباحیت پسند اور لادینی ادب کے آگے ایک بند باندھنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں بھی گھر گھر جا کر راے عامہ کو ہموار کرنا‘ صحیح اور غلط کی پہچان کروانا اور پولنگ کے دن بیلٹ بکس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنا‘ یہ سب  حلقۂ خواتین کا حیرتوں میں گم کر دینے والا باب ہے۔ جماعت اسلامی نصف صدی سے زائد کا سفر طے کرچکی ہے۔ دین اسلام اور اسوہ رسولؐ میں ایسی ازلی جاذبیت ہے کہ جو کوئی اس راستے پر چل نکلا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ خصوصاً خواتین کے حصے میں یہ نعمت بھی آئی کہ جہاں انھوں نے بعض اوقات اپنے شوہر کو صراطِ مستقیم کی راہ دکھائی‘ وہاں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس دعا اور اس کوشش سے کی کہ‘ وہ بھی حق کے راہی بن گئے‘ اور اگر کہیں ان کی کوششیں بوجوہ رنگ نہ لا سکیں تو بھی ان کا اجر ان شاء اللہ کوشش کرنے کے نتیجے میں محفوظ و مامون ہو گا۔

ہم خواتین پر یہ سید مودودی ؒ کا احسان نہیں تو کیا ہے کہ انھوں نے اس دور میں ہمیں     ہمارا بھولا ہوا سبق یاد کروا دیا۔ ہم گم کردہ راہ کو دوبارہ صراطِ مستقیم کی راہ دکھا دی!