’’سامراج کی لغت میں دوستی کا مفہوم‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں مولانا مودودیؒ نے سامراج کی دوستی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ آج کے امریکہ کے رویے پر پورا اترتا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے اس تحریر کا بروقت انتخاب فرمایا۔ البتہ اس مضمون میں بیان کیے گئے مقامات کے نام بدل گئے ہیں۔ سیاسی جغرافیہ تبدیل ہو چکا۔ آج کے قارئین کے لیے وہ معلومات قصہ پارینہ بن چکیں جو گذشتہ صدی میں تاریخ انگلستان اور یورپ کے حوالے سے اسکولوں میں شامل نصاب ہوتی تھیں۔ اس لیے اس مضمون کے عصرِحاضر میں پورے فہم و شعور کے لیے کئی جگہ وضاحتی حاشیوںکی ضرورت محسوس ہوئی۔
’’عالم اسلام کے لیے امریکی منصوبے‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں جن امریکی عزائم کا ذکر کیا گیا ہے بلاشبہہ وہ کسی انکشاف سے کم نہیں۔ امریکی سامراج پوری مسلم دنیا کو محاصرے میں لینے کی تیاریاں کر چکا ہے اور ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کاش! ہمارے مسلم حکمران ہوش مندی سے کام لیں اور سوچیں کہ عراق پر جس آگ و خون کی بارش ہونے والی ہے کیا اس کی چھینٹیں ان پر نہیں پڑیں گی اور چھینٹیں توکیا‘ خود ان کی باری آنے میں کتنی دیر رہ جائے گی۔ آج عالمی اُفق پر جو گھٹائیں چھا رہی ہیں بلاشبہ ملّت کا درد رکھنے والا ہر فرد اس سے مضطرب‘ دل گرفتہ اور پریشان ہے۔ بے سمتی کا سفر ترک کر کے سمت متعین کرنا اور اُمت کی شیرازہ بندی کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی! دیکھیے پردئہ تقدیر سے کیا ظہور ہوتا ہے۔ حبس کے بعد بارش ضرور ہوتی ہے جو نئی زندگی کا جانفزا پیغام ہوتی ہے۔
’’انسانی کلوننگ‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) پر علامہ یوسف القرضاوی کا مضمون دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس پیچیدہ مسئلے کے تقریباً تمام پہلوئوں کا کافی و شافی طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر نئی چیز کو بلاسوچے سمجھے ناجائز قرار دے دینے اور ہر نئی چیز کو اس کے نقصان دہ اور غیراخلاقی پہلوئوں سے بھی صرفِ نظر کرکے جائز قرار دے دینے کی دو انتہائوں کے درمیان کم از کم اس معاملے میں یہی عین راہِ صواب نظرآتی ہے۔ میرا احساس ہے کہ مستقبل میں انسانیت کا اجتماعی ضمیر‘ اگر وہ ہے اور میرا خیال ہے کہ ہے‘ کلوننگ کے مضر اورغیراخلاقی استعمال کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا اور اس کے صرف مفید اور اخلاقی استعمالات باقی رہ جائیں گے۔ ان شاء اللہ!
’’کتاب نما‘‘ (فروری ‘ ۲۰۰۳ء ) میں لکھا ہے کہ ’’مولانا فراہی قرآنی علوم کے معروف محقق‘ مفسراور ترتیب و نظم قرآن میں ایک نئے مکتب فکر کے بانی تھے‘‘(ص ۹۹)--- نظم قرآن کا مکتب فکربہت پرانا ہے اس کی عمر ایک ہزار دو سو بلکہ تین سو سال ہے۔ مولانا فراہیؒ اس آخری دور میں ہندوپاک میں نظمِ قرآن کے علم بردار ضرور رہے ہیں‘ مگر بانی ہرگز نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔
شذرات ’’مفت تعلیم کی طرف قدم‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) میںاچھی توجہ دلائی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں ماہانہ فیس معاف کر دینے سے تعلیم ہرگز سستی نہیں ہو سکتی۔ اصل فیس تو اسکول کے بعد ٹیوشن پڑھانے کی فیس ہے جو نرسری تا میٹرک عملاً لازم ہوگئی ہے۔ کچھ اساتذہ اسکول میں ملازمت ہی صرف اپنی پرائیویٹ اکیڈمی کو بارونق بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے بھی اساتذہ ہیں جو طلبہ کو زبردستی ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حکم عدولی کی صورت میں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے‘ مارا پیٹا جاتا ہے‘ اسکول سے نام خارج کر دیا جاتا ہے اور زیرعتاب رکھا جاتا ہے۔ تعلیم و تعلم ایک مقدس فریضہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اسے ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسکول کی فیس معاف کرنے کے ساتھ ٹیوشن کی لعنت سے چھٹکارا بھی ضروری ہے۔ حکامِ بالا اس کے لیے بھی عملی قدم اٹھائیں۔
یوں تو یاد رفتگان کے کالم میں آپ جو کچھ لکھتے ہیں پڑھنے کے لائق ہوتا ہے مگر جنوری ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ خاص چیز ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے اپنی دوملاقاتوں سے متعلق کچھ باتیں سامنے لانا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میری طرح دوسرے بھی مستفید ہوسکیں۔
پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۷۲ء کے تیسرے ہفتے میں ڈاکٹر صاحب کے پیرس والے فلیٹ میں ہوئی تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ کچھ دیر بعد ایک نومسلم نوجوان آگئے‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ ان کو قرآن کریم (ناظرہ) پڑھاتے ہیں اور موعودہ وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ اتنا بڑا عالم اور محقق ناظرہ پڑھا رہا تھا‘ میری طبیعت بہت متاثر ہوئی۔
جن مسائل پر ڈاکٹر صاحب سے استفادہ رہا ان میں سے ایک کا تعلق قاضی ابویوسفؒ کی کتاب الخراج کے ترجمے اسلام کا نظام محاصل‘ مکتبہ چراغ راہ کراچی ‘ ۱۹۶۶ء اور اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور سے تھا جس کی تفصیل اس وقت سامنے نہیں ہے۔ مگر اہمیت کی بات یہ ہے کہ سیکڑوں صفحات میں سے ڈاکٹرصاحب نے اس ایک مقام پر انگلی رکھ دی جس کا ترجمہ ان کی نظر میں تشفی بخش نہیں تھا اور جس کے بارے میں وہ عرصہ سے تحقیق میں مصروف تھے۔
دوسرا مسئلہ عملی تھا۔ ملاقات سے کچھ عرصہ پہلے امپیکٹ‘ لندن میں ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے نظر سے گزری تھی کہ کرئہ ارضی کے انتہائی شمالی علاقوں میں بعض موسموں میں جب رات کے غیرمعمولی طور پر چھوٹی ہو جانے کی وجہ سے مغرب‘ عشا اور فجر کی نمازوں کے اوقات بہت جلد جلد آتے ہیں‘ یا دن کے بہت لمبے ہونے کی وجہ سے روزہ بہت لمبا ہوجاتا ہے‘ نمازوں اور افطار کے اوقات مکّہ مکرمہ کے اوقات کے مطابق یا پھر قریب ترین نارمل علاقوں کے اوقات کے مطابق کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تو یہی فرمایا تھا کہ بعض لوگ ان کی رائے پر عمل بھی کرتے ہیں مگر آج تک نہ اس کا ثبوت ملا نہ یہ سمجھ میں آیا کہ یہ مشکل کیسے حل ہو۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب سے میری دوسری اور آخری ملاقات اسلام آباد میں فکرِاسلامی پر دوسری بین الاقوامی کانفرنس‘ منعقدہ جنوری ۱۹۸۲ء کے موقع پر ہوئی۔ ایک موضوع پر کسی کے مقالے سے متعلق آیت قرآنی اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُم(مسلمانوں کے معاملات ان کے درمیان باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں۔ الشوریٰ ۴۲:۳۸) زیربحث آگئی۔ میں نے سوال کیا کہ آیت کے دوسرے اجزا وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں‘ ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ الشوریٰ ۴۲:۳۸) میں جس طرح ھم کی ضمیر میں مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا ہے ‘کیا اسی طرح شوریٰ سے متعلق بات بھی ان دونوں سے متعلق نہیں ہے؟ بالفاظِ دیگر شوریٰ میں مردوں کی طرح عورتیں بھی شریک ہیں۔ صاحب ِ مقالہ نے تو سوال پر ہی تعجب کا اظہار کیا اور بہرصورت میرے موقف کی تائید نہیں کی مگر ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میری تائید آیت کے فہم کے سلسلے میں کی بلکہ قرنِ اوّل سے نظائر بھی پیش کیے‘ جن میں سب سے اہم نظیرحضرت عمرؓ کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بعض خواتین کی رائے معلوم کرنا ہے۔