عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مغربی دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے تو ایک عام تاثر یہ بھی تھا کہ مسلمان‘ جن کو دراصل تباہی کا سامنا ہے اپنے ممالک میں خاموش ہیں۔ رابرٹ فسک جیسے نامہ نگار نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ تباہی سامنے دیکھ کر عرب چوہوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۱۸فروری ۲۰۰۳ئ)۔ کریسنٹ انٹرنیشنل میں قاہرہ کے ایک نامہ نگار نے لکھا کہ رابرٹ فسک کو‘ جو عربوں کا ہمدرد شمار ہوتا ہے‘ حالات کا بہتر علم ہونا چاہیے تھا۔ایسا نہیں ہے کہ مظاہرے نہیں ہوئے‘ لیکن اگر وہ اس پیمانے پر نہیں ہوئے جس پر مغربی ممالک میں ہوئے تو اس کی وجوہات صاف اور ظاہر ہیں۔
۱۵ فروری ۲۰۰۳ء کو قاہرہ میں دو مظاہرے ہوئے ۔ بڑا مظاہرہ جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی سیدہ زینب چوک میں دوپہر کے وقت ہوا۔ عراقی اور فلسطینی جھنڈوں کے ساتھ امریکہ مخالف پلے کارڈ بھی تھے اور نعرے بھی لگائے گئے جن میں کوئی کوئی حسنی مبارک کے خلاف بالواسطہ بھی ہوتا تھا۔ مظاہرے کو کئی ہزار نفری پر مشتمل پولیس کے مسلح دستوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ چوک کے قریب کی سڑکوں پر فوجی دستے درجنوں گاڑیوں میں موجود تھے۔ ان سب کے درمیان مظاہرہ مشکل ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ گزرنے والے بجائے شریک ہونے کے یہ حالات دیکھ کر دُور ہی دُور سے گزرنے میں خیریت سمجھتے تھے۔ دوسرا نسبتاً چھوٹا مظاہرہ امریکی سفارت خانے کے سامنے معطل لیبرپارٹی نے کیا جسے معتدل اسلامی آواز کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے سے بھی زیادہ پولیس اور فوج موجود تھی جس نے علاقے کو کئی گھنٹوں تک محاصرے میں لیے رکھا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ویلچ نے کچھ دیر کے لیے باہرآکر مظاہرہ دیکھا۔
کم شرکت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کہ موقع پر اتنی پولیس اور فوج تھی۔ مغربی ممالک کی حکومتیں مخالفانہ مظاہروں کا دبائو برداشت کر سکتی ہیں لیکن مصر جیسے ملک میں ۱۹۸۱ء میں انورالسادات کے قتل کے بعد سے ہنگامی قانون نافذ ہے اور سڑکوں پر کسی بھی طرح کے مظاہروں پر پابندی ہے۔ ہنگامی قانون کے تحت کسی کو بھی کوئی وجہ بتائے بغیرگرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی اسلامی تحریکوں سے وابستہ ۳۰ ہزار افراد جیلوں میں بند ہیں۔ بہت سے کئی برس گزار چکے ہیں۔
گذشتہ دو ماہ میں عراق سے یک جہتی ‘ اور جنگ کے خلاف سرگرمیوں کی بنا پر ۱۵ افراد جن میں کئی صحافی ہیں گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نمایاں افراد جن کی گرفتاری مسئلہ بن سکتی تھی‘ رہا کر دیے گئے ہیں۔ ۱۷ فروری کو پریس سنڈیکیٹ کی فریڈم کمیٹی نے گرفتارشدگان کی حمایت میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں اخبار العالم الیوم کے صحافی ابراہیم السحر نے بھی خطاب کیا جو چند گھنٹے قبل ہی رہا کیے گئے تھے۔
ابراہیم السحرنے پریس کانفرنس میں اپنے اوپر گزری ہوئی پوری تفصیل بتائی۔ صبح سویرے گھرسے گرفتاری‘ گھر کی مکمل تلاشی‘ سیکورٹی ہیڈکوارٹر جانا اور پھر جیل مازارات لے جایا جانا---- بغیر کسی قانونی امداد کے موقع یا اہل و عیال سے ملاقات کے--- انھوں نے خاص طور پر ان غیرانسانی حالات کا ذکر کیا جن سے جیل میں اسلام پسند گزر رہے ہیں۔ ہفت روزہ الاہرام (۲۰-۲۶ فروری ۲۰۰۳ئ) کے مطابق انھوں نے کہا:’’میرے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ توکچھ بھی نہیں ۔ مجھے مارا پیٹا گیا‘ گالیاں دی گئیں‘ تذلیل کی گئی۔ یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا جو اسلام پسندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں گرفتار ہونے والوں کو سلام کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ عراق کے خلاف جنگ اور امریکی سامراج کے خلاف کھڑے ہوگئے‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ۳۰ ہزار اسلام پسندوں کو سلام کرتا ہوں۔ جنھوں نے مجھے گرفتار کیا‘ میرے ساتھ اچھائی کی اس لیے کہ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ اسلام پسند قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ ہولناک تفصیلات پہلے معلوم نہ تھیں‘‘۔
عالمی مظاہروں کی خبریں آنے کے بعد سے قاہرہ اور دوسرے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ قاہرہ میں الازہر یونی ورسٹی‘ اسمعیلیہ میںسویز کنال یونی ورسٹی اور بنی سعد (بالائی مصر) میں قاہرہ یونی ورسٹی کی شاخ میں ہزاروں طلبہ نے ۱۸ فروری کو مظاہرہ کیا لیکن انھیں سڑکوں پر نہیں آنے دیا گیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی کے کیمپس میں ۲۲ فروری کو ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔
اس طرح کے جبرواستبداد کے حالات میں‘ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ مغرب کی حکومتیں مستحکم ہیں‘ جب کہ عرب حکمران اپنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ مغرب اس پر خوش ہے کہ یہ حکومتیں مظاہروں پر پابندیاں رکھیں‘ اس خوف سے کہ کہیں یہ حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۱-۱۵ مارچ ۲۰۰۳ئ)