ستمبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

قومی انتخابات ۲۰۰۲ء

قاضی حسین احمد | ستمبر ۲۰۰۲ | پیغام

Responsive image Responsive image

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف صاحب کوتین سال کی جو مدت دی تھی وہ اب مکمل ہورہی ہے۔ ان کی حکومت نے جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے پیش کیا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ قوم کو مایوسیوں سے نکال کر انھیں اعتماد دینے کا ایجنڈا تھا۔ اس لحاظ سے یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔موجودہ حکومت قوم کو کوئی نشانِ منزل نہیں دے سکی ہے بلکہ ملک بنانے والوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو اسلامی مملکت بنانے کے جس مقصد کے لیے متحد کیا تھا‘ جس کے لیے انھیں قربانیوں پر آمادہ کیا تھا‘ جس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی اور جس کی خاطر ایک کروڑ لوگوں نے اپنے گھربار چھوڑ دیا تھا ‘موجودہ حکومت نے سیکولرازم اور کمال ازم کا تذکرہ کر کے اور نصاب تعلیم اور دینی مدارس میں مداخلت کرکے اس منزل کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت نے امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کرکے تہذیبوں کی جنگ میں عملاً اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیاہے۔ امریکی افواج کو افغانستان میں مداخلت کی خاطر ہوائی اڈے فراہم کیے۔ ان کے ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے لیے اپنی فضا فراہم کی اور انھیں خفیہ معلومات فراہم کیں۔

مغربی اقوام اور امریکہ کے دبائو کے تحت موجودہ حکومت اپنی کشمیر پالیسی سے دست کش اورکشمیری مجاہدین کی امداد سے دست بردار ہو گئی ہے۔ اس نے جہاد کو دہشت گردی‘ اور مجاہدین کی امداد کے لیے آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں جانے کو دراندازی تسلیم کر کے اس کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے امریکہ تو خوش نہ ہو سکا کیونکہ امریکی اور مغربی پالیسی صہیونی اور بھارتی مفادات کے تابع ہے البتہ اس کے نتیجے میں حکومت نے ملک کے اندر امریکہ اور بھارت کے خلاف موجود شدید نفرت کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔

اگر محب وطن اور بیدار مغز دینی قیادت لوگوں کی صحیح رہنمائی کرکے ان کی جدوجہد کو مثبت راستوں پر نہ ڈالتی تو حکومت نے اس صورت حال سے تخریبی قوتوں کوفائدہ اٹھانے کا پورا پورا موقع فراہم کر دیا تھا۔ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں کی مذمت کرکے اورچرچ اور مشنری اسکول اور مشنری ہسپتال پر حملوں کو اسلام دشمن قوتوں کی کارروائی قرار دے کر‘ دینی قیادت نے ملک کو تخریب کاروں کی آماجگاہ بننے سے بچایا ہے۔

حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان میں امن و امان کی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ طویل مدت کے صنعتی منصوبوں میں لگانے سے گریزاں ہیں لہٰذا بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ درآمدی اور برآمدی تجارت کی مقدار کم ہو گئی ہے اور قوم بے یقینی کی شکار ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنی ایٹمی صلاحیت پر ناز تھا لیکن یہ صلاحیت بھی اب پوری طرح امریکی نرغے میں ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی فوجوں کی حکومت ہے جنھیں مزاحمت کا سامنا ہے۔ اب امریکی‘ پاکستان کے قبائلی علاقے میں بھی مداخلت کر رہے ہیں اور بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے مجاہدین کا پیچھا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستانی افواج امریکی دبائو کے تحت قبائلی علاقے میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہو گئی ہیں بلکہ پہلی مرتبہ ہماری افواج کو داخلی طور پر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

تین سالہ ناکام دورکے خاتمے پر جنرل پرویز مشرف صاحب اس خوف سے دوچار ہیں کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں جومنتخب اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں گی وہ اگر ان کے حسب منشا لوگوں پر مشتمل نہ ہوئیں تو ان کو اپنے اقدامات کے لیے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ اس خوف کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت نے انتخابات سے حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے قبل از انتخابات دھاندلی کا ایک منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت انھوں نے آئینی ترامیم کا ایک پیکج کسی دستوری اختیار کے بغیر نافذ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں منتخب اسمبلیاں خودمختار نہیں ہوں گی بلکہ انتخابات کے بعد بھی اصل اختیار غیرمنتخب اداروں اور افراد کے پاس رہے گا۔ قومی سلامتی کونسل کا ادارہ جس میں تینوں افواج کے سربراہ اور ان کے سربراہوں کے ادارے کا چیف‘ وردیوں والے چار جرنیل اورصدر(موجودہ صدر بری فوج کے سربراہ بھی رہنا چاہتے ہیں) اصل قوت ہوں گے۔ یہ ادارے اور صدر اسمبلیوں اور حکومت کو توڑنے اور برخاست کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس طرح فوج کے مستقل طور پر سیاست میں ملوث اور دخیل رہنے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے اور جو ملک ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا مستقل طور پر فوج کی عمل داری میں دے دیا گیا ہے۔ دستوری ترامیم کے مطابق صوبوں میں صدر کے نامزد گورنروں کا راج ہوگا۔ وہ اسمبلیوں کو اور صوبائی حکومتوں کو برخاست کر سکیں گے۔

ایسے حالات میں دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ (MMA) روشنی کی ایک کرن ہے۔ یہ کرن مجلس عمل کی شریک جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص عمل اور قربانی سے روشنی کا مینار بن سکتی ہے۔ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صورت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دینی سیاسی جماعتوں نے آپس میں مل کرانتخابی اتحاد بنایا ہے۔ اس سے قبل مذہبی جماعتوں نے ملک کی دوسری جماعتوں سے مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد بنایا تھاجس کے سربراہ مولانا مفتی محمود مرحوم تھے اور جس کا نعرہ بھی نظام مصطفی تھا۔موجودہ مجلس عمل میں چھ مذہبی سیاسی جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماے اسلام (فضل الرحمن)‘ جمعیت علماے اسلام (سمیع الحق)‘ جمعیت علماے پاکستان ‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اسلامی تحریک پاکستان (سابق تحریک فقہ جعفریہ) نے آپس میں اتحاد کیا ہے اور مشترک منشور‘ مشترک دستور‘ مشترک تنظیم‘ ایک جھنڈے اور ایک انتخابی نشان کے تحت مل کر انتخاب لڑنے اورتمام معاملات میں مشترک موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بلاشبہہ ایک ناقابل یقین پیش رفت (break through) ہے۔ اس طرح کا اتحاد عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب مذہبی جماعتوں پر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا الزام لگانے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ شیعہ‘سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر متفق ہو جانا اور ان سفارشات کے نفاذ کے مطالبے کو اپنے منشور میں شامل کرنا ایک بابرکت اور اہم قدم ہے۔ اگر یہ اتحاد قائم ودائم رہے تو اُمت مسلمہ کے لیے بے شمار برکات اور خوش خبریوں کا حامل بن سکتاہے۔ اُمت مسلمہ پر اس کے دُور رس خوش گوار اثرات کے پیش نظر اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے تمام شامل جماعتوں کے کارکنوں اور ان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں حقیقی محبت اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہیں اور اتحاد و یک جہتی کے جذبے کوعوام الناس کے رگ و ریشے تک پہنچا دیں۔

اتحاد کے جذبے کو عام کرنے کے لیے مشترک انتخابی مہم اہم ترین ذریعہ ہے۔ مشترک انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

قائدین کا ملک گیر دورہ : چھ جماعتوںکے سربراہ مل کر پورے ملک کے طول و عرض کا دورہ کریں۔ تمام شریک جماعتیں مل کر اس کا پروگرام بنائیں۔ اس دورے کے دوران متحدہ مجلس عمل کا اللہ اکبر اور سبز ہلال والا سفید جھنڈا عوام کے دلوں پر نقش ہو جائے۔

مشترک نعرے: انتخابی مہم کے دوران ملک کی گلی کوچوں میں‘ چھوٹے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں ایسے نظریاتی اور پیغام کے حامل نعرے لگائے جائیں جو عوام کے دلوں کی آواز ہیں۔ اگر کہیںحاضرین میں ایسے نعرے لگ جائیں جس سے دوسروں کو اتفاق نہ بھی ہو تو برداشت اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کو دُور کرنے کے لیے وقت‘ حوصلہ اور صبر درکار ہے۔ آپس میں عفوودرگزر کے جذبے کے بغیر مہمات کو سر نہیں کیا جا سکتا۔

مساجد کو مرکز بنانا: ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندے شامل ہیں اس لیے ملک بھر کی تمام مساجد کو اس تحریک کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ دنیاوی سیاست کے علم بردار دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علما وخطبا پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ مساجد کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دوسرے دینی فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کو مٹانے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے انھوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا‘ ان کی تربیت کی‘ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دی‘ انھیں ہجرت اور جہاد پر آمادہ کیا اور طویل جدوجہد کے بعد اسلامی حکومت قائم کر دی جس کے ذریعے قرآن کے احکام نافذ کیے اور عام انسانوں کو عدل و انصاف فراہم کیا۔ اس غرض کے لیے حضور نبی کریمؐ نے مسجد کو مرکز بنایا۔مسجد کو اسلامی سیاست کا مرکز بنانا حضور نبی کریمؐ کی سنت ہے۔ اعتراض کرنے والے دین کے حقیقی تصور سے جس میں دین و دنیا کی تفریق نہیں‘ آگاہ نہیں ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ مسجد میں سیاسی حکمت عملی بیان کرتے وقت قرآن وسنت سے دلائل دیے جائیں۔ دوسروں کی دل شکنی اوردل آزاری سے پرہیز کیا چاہیے۔ دینی جماعت کے کارکن اور عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اخلاق میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو دینی تعلیمات کے دائرے سے باہرہو۔

دفاتر کے علاوہ محلے کی مسجد کوبھی مجلس عمل کی انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بنایئے اور تمام نمازیوں کو ان سرگرمیوں میں شرکت پر آمادہ کیجیے۔ یہ کام حکمت اورمحبت کے ساتھ کرنے کا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے محبت سے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا کا نہیں ‘دین کا کام ہے۔ البتہ مسجد میں شورکرنے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے اور لوگوں کی نمازوںاور عبادت‘ تلاوت قرآن اور درود و وظائف میں ہرگز مخل نہیں ہونا چاہیے۔

دین اور سیاست کی دوئی کے تصور کو ختم کرنا علماے کرام کا فرض ہے۔ دینی جماعتیں اگر انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو اسی وجہ سے چلا رہی ہیں کہ یہ ایک دینی فریضہ ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام حضور نبی کریمؐ کی اہم ترین سنت ہے اور اس کے احیا میں اُمت کی زندگی ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد اور انتخاب میں شرکت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  لغدوۃ او روحۃ فی سبیل اللّٰہ خیر من الدنیا وما فیھا ’’اللہ کے راستے میںایک صبح کا چلنا یا ایک شام کا چلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘۔ انتخابی مہم میںکام کرنے کے لیے وقت نکالنا‘ جلسے جلوس میںشرکت کرنا اور ووٹروں تک مجلس عمل کا پیغام پہنچانا اللہ کے راستے میں چلنا ہے اور بلاشبہہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

کارکنوں کو باہمی ربط بڑھانے کے لیے حضور نبی کریمؐ کے امتی ہونے کا تصور پوری طرح ذہن نشین کرنا چاہیے اور اپنی دوسری حیثیتوں کو ثانوی درجہ دینا چاہیے۔ ’’اللہ کی محبت‘ اللہ کے رسولؐ کی محبت اور اللہ کے راستے میں جہاد کی محبت‘‘ وہ مشترک محبتیں ہیں جو ہمیں جوڑ کر رکھتی ہیں۔ دوسری کسی محبت کو ان محبتوں پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ اگر ہم دوسری محبتوں کو ان بنیادی محبتوں پر ترجیح دیں گے تو اس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو اس آیت میں اچھی طرح سمجھائی ہے:

اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز و اقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کوخوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سامنے لے آئے۔ (التوبہ ۹:۲۴)

عوام الناس کو بتایا جائے کہ ووٹ دینا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہ حق کی گواہی ہے اور جب مسلمان کو حق کی گواہی دینے کے لیے بلایا جائے توگواہی دینا اس کا فرض ہے۔ حق کی گواہی دینے سے احتراز کرنا دینی فریضے کوادا کرنے سے احتراز اور حق کی گواہی چھپانا ہے۔ اللہ کا حکم ہے: وَلاَتَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗط (البقرہ ۲:۲۸۳)’’گواہی مت چھپائو اور جو گواہی چھپاتا ہے تو اس کے دل میں گناہ ہے‘‘۔

ایک ایسے شخص کو ووٹ دینا جو خود نااہل اور فاسق ہے یا وہ ایسی پارٹی کے ساتھ ملاہوا ہے جس کی قیادت خیانت کرنے والے نااہل لوگوں پر مشتمل ہے‘ اپنی امامت نااہل کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۹۸ ) ’’مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

عوام الناس کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ خود ووٹ دیتے وقت عدل اور انصاف نہیں کریں گے اور نااہل کو اختیارات کی امانت سپرد کریں گے تو اس کے نتیجے میں ظلم کا نظام برقرار رہے گا۔ پولیس بھی ظالم ہوگی‘ ڈی سی اور کمشنر بھی ظلم کرتے رہیں گے اور سیاست دان بھی لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں گے اور تمام محکموں میں نااہل لوگ عوام کے ساتھ بے انصافی پر قائم ہوںگے۔ حالات میں تبدیلی اسی وقت ممکن ہے کہ عام ووٹر اپنے ووٹ کی پرچی کو امانت اور انصاف کے اصول کو مدنظر رکھ کر استعمال کرے۔ اگر ووٹ دیتے وقت عام آدمی خود عدل نہیں کرے گا تو اسے انصاف اور عدل کا نظام نہیں ملے گا۔

مختلف دینی جماعتوں کے کارکنوں کو مل جل کر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی مساجد میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ محبت اور اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کرناچاہیے اور آپس میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی عیادت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شرکت کرنی چاہیے۔ باہمی ربط سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور دوری اور فاصلوں کی وجہ سے بدگمانی پیدا کرنے والوں کو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر منبر ومحراب سے ایک ہی آواز اٹھے اور یہ آوازیں آپس میں ہم آہنگ ہوجائیں توکوئی دوسرا میڈیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ ہرگلی کوچے میں واقع مسجد کومسلمانوں کااجتماعی اور سیاسی زندگی کو پاک کرنے کے مقدس فریضے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسجد اگر مسلمانوں کے اجتماعی اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کا مرکز بن جائے تو اللہ کے باغی خیانت کار لوگوں کی سیادت کاخاتمہ ہو جائے گا۔

ووٹ دینے کے لیے فہرست میں اپنا نام ابھی سے معلوم کرنا‘ پولنگ اسکیم میں دل چسپی لینا‘ شناختی کارڈ ساتھ رکھنا اور اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ کرنا ہر ووٹر کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایک ذمہ داری شہری اور ایک اچھے مسلمان کے طور پر اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ خواتین کے پولنگ اسٹیشن مردوں سے الگ محفوظ مقامات پر بنائے جائیں ۔ مجلس عمل کے کارکنوں کو خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کرنے چاہییں۔ ابھی سے خواتین انتخابی کارکنوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کا جو بھی امیدوار ہو اور اس کے نشان کتاب پر انتخاب لڑ رہا ہو اس کے لیے کام کرناتمام جماعتوں کے کارکنوں کا فرض ہے۔ اگر ایک جماعت کو ملک کے ایک حصے میں ٹکٹ ملے ہیں تو دوسرے حصے میں دوسری جماعت کو حصہ ملا ہوگا اور یہ فیصلے قائدین نے مل جل کر کیے ہیں۔ تمام کارکنوں کو قائدین کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم مشترک مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور کسی ایک کی کامیابی سب کی کامیابی ہے۔

اکتوبر کے انتخابی عمل پر ہمارے ملک کے مستقبل کا دارومدارہے۔ ایک جان دار انتخابی مہم کی صورت میں دھاندلی کی سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اگر عوام جوش و خروش سے انتخابی مہم کے دوران گھروں سے نکل آئے توحکومتی مشینری کو قاعدے‘ ضابطے کے مطابق درست رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیاجا سکتا ہے۔ ملک کے روشن مستقبل کا دارومدار پُرامن اور پُرجوش انتخابی مہم پر ہے اور اس بات پر ہے کہ ووٹر بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن آئیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب ووٹر کو امید کی کرن نظرآئے گی۔ انھیں انتخاب کے بہتر نتائج کی اُمید دلانا مجلس عمل کے کارکنوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ مجلس کے کارکن فتح کے یقین سے سرشار ہو کر کام کریں گے ‘ تب ہی دوسروں کو فتح کا یقین دلا سکیں گے اور عام ووٹر کے دل میں امید کی شمع روشن کر سکیں گے۔ پچھلے عام انتخابات میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف ۳۵ فی صد ووٹ پڑے تھے۔ اگر مجلس کے کارکنوں کی کوشش کے نتیجے میں ۶۰‘ ۷۰ فی صد ووٹ پڑ جائیں تو ووٹ کی پرچی سے انقلاب یقینی ہو جائے گا۔ جو لوگ ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کی تکلیف گوارا نہیںکرتے وہ دراصل کسی اچھی اور بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے‘ اگرچہ وہ تبدیلی کے حامی ہوتے ہیں۔ اگر مجلس عمل کے کارکن لوگوں کو فتح اور بہتر تبدیلی کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے سینوںمیں امید کی  شمع روشن کر دیں اور مرد اور خواتین جوق در جوق دینی جذبے سے سرشار ہوکر امت کو پستی سے نکال کر بلندیوں کی طرف گامزن کرنے کا عزم لے کر نکل کھڑے ہوں توووٹ کی ہر پرچی ان شاء اللہ اسلامی انقلاب کی  نوید بن جائے گی۔